نمازوں کے اوقات:
نمازوں کے اوقات کی تین قسمیں ہیں:
1۔ اوقات الصحۃ الاداء:
یہ ان وقتوں کو کہتے ہیں جن میں اگر نماز پڑھی جائے تو نماز صحیح بھی ہو جائے اور ادا میں شمار ہو لیکن قضاء میں شمارنہ ہو یعنی وقت کا کچھ حصہ ایسا بھی ہو جس میں نماز پڑھنا مکروہ ہو اور اس میں ایسا حصہ بھی ہوسکتا ہے جس میں نماز پڑھنا اولی اور افضل اور مستحب ہو۔
نمازوں کے اوقات_2۔ اوقات استج
یہ نماز ادا کرنے کے وقت کا وہ حصہ ہے جس میں نماز پڑھنا مستحب ہے یعنی اس وقت سے آگے پیچھے نماز ادا کرنا بھی جائز ہے۔
3۔ اوقات کراہت:
وہ اوقات کہ جن میں نماز پڑھنا مکروہ ہے۔
اب ذیل میں ہر نماز کے تینوں اوقات کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے۔
نمازوں کے اوقات_ظہر:
نمازوں کے اوقات_ظہر:
نمازِظہر کے وقت کی ابتداء بالاتفاق زوال شمس سے شروع ہوتی ہے شروع شروع میں صحابہ کا کچھ اختلاف ہوا تھا۔ بعض زوال سے پہلے بھی ظہر کو جائز سمجھتے تھے لیکن پھر بعد میں اتفاق ہو گیا کہ وقت ظہر زوال سے شروع ہوتا ہے۔ البتہ جمعہ کے بارے میں امام احمد بن حنبل اور اسحاق کا قول ملتا ہے کہ زوال سے پہلے بھی جائز ہے۔
وقت ظہر کی انتہا میں اور وقت عصر کے ابتداء میں ائمہ کا اختلاف ہوا ہے۔ امام مالک، امام شافعی، امام احمد، صاحبین (امام ابو یوسف اور امام محمد) اور جمہور کا مسلک یہ ہے کہ جب سایہ اصلی کے علاوہ ہر چیز کا سایہ اس کی ایک مثل ہو جائے تو ظہر کا وقت ختم ہو جاتا ہے اور عصر کا وقت شروع ہو جاتا ہے اور امام ابو حنیفہ کی اس مسئلہ میں کئی روایتیں ہیں:
1۔ پہلی روایت یہ ہے کہ ظہر کا وقت مثلین تک ہے یعنی جب سایہ دو مثل ہو جائے تو ظہر کا وقت ختم اور عصر کا وقت شروع ہو جاتا ہے۔ امام صاحب کا قول مشہور قول یہی ہے۔
2۔ امام صاحب کی دوسری روایت اس مسئلہ میں جمہور کے موافق ہے یعنی سایہ اصلی کے علاوہ ہر چیز کا سایہ اس کی ایک مثل ہو جائے ظہر کا وقت ختم ہو جاتا ہے اور عصر کاوقت شروع ہو جاتا ہے۔
3۔ تیسری روایت امام صاحب سے یہ ہے کہ جب سایہ ایک مثل ہو جائے (سایہ اصلی کے علاوہ) تو ظہر کا وقت ختم ہو جاتا ہے اور عصر کا وقت ابھی شروع نہیں ہو گا بلکہ نمازِعصر کا وقت مثل ثانی کے بعد شروع ہوگا۔ دونوں مثل کے درمیان میں وقت مہمل ہے یہ نہ ظہر کا وقت ہے اور نہ عصر کا۔
4۔ امام صاحب سے ایک روایت یہ بھی ہے کہ عصر کا وقت تو مثل ثانی ہونے پر شروع ہوگا اور ظہر کا وقت مثل ثانی سے ذرا پہلے ختم ہو جاتا ہے۔
نماز ظہر کا مستحب وقت یہ ہے کہ موسم گرما میں اسے ٹھنڈا کرکے یعنی تھوڑا دیر سے پڑھنا مستحب ہے جب کہ موسم سرما میں کچھ جلدی کرکے پڑھنا مستحب ہے، اس کی دلیل آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہے کہ “ابردوا بالظهر فإن شدة الحر من فيح جهنم” اور دوسری دلیل حضرت انس کی یہ حدیث ہے کہ “کان رسول الله صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا كان في الشتاء بكر بالظهر وإذا كان في الصيف ابرد بها” یعنی سردیوں میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ظہر کو جلدی پڑھتے تھے اور گرمی میں اسے ٹھنڈا یعنی دیر کرکے پڑھتے تھے، اس مسئلے میں یہ حدیث نہایت واضح ہے اور سردی گرمی دونوں موسم سے متعلق حنفیہ کے نظریے اور ان کے مسلک کی تائید ہے۔
نمازوں کے اوقات_ عصر:
عصر کی نماز کا وقت جمہور کے نزدیک غروب آفتاب سے ختم ہوتا ہے بعض کے نزدیک عصر کا وقت صرف مثلین تک ہے۔ اور بعض کے نزدیک عصر کا وقت اصفرارِشمش تک ہے۔
عصر کی نماز کا مستحب وقت یہ ہے کہ عصر کی نماز گرمی اور سردی دونوں موسم میں تاخیر سے پڑھنا افضل اور مستحب ہے۔ اس استحباب کی وجہ یہ ہے کہ عصر کی نماز کے بعد نفل نماز پڑھنا مکروہ ہے، لہذا جتنی تاخیر سے نماز ہوگی اتنا ہی نماز سے پہلے نوافل پڑھنے کا زیادہ سے زیادہ موقع ملے گا، لیکن اس تاخیر میں یہ خیال رہے کہ اتنی تاخیر بھی نہ ہو جس سے مکروہ وقت میں نماز ادا کرنی پڑے، صاحب ہدایہ فرماتے ہیں کہ سورج کی ٹکیہ میں تغیر و تبدل آنے سے پہلے پہلے عصر کی نماز پڑھ لینا مستحب ہے، اور بالکل اس وقت میں عصر پڑھنا کہ نگا میں سورج کی ٹکیہ پر جمنے لگیں مکروہ ہے۔
نمازوں کے اوقات _مغرب:
مغرب کا وقت سب اماموں کے نزدیک غروب آفتاب سے شروع ہوتا ہے۔ مغرب کے آخر وقت میں اختلاف ہے۔ بعض حضرات کے نزدیک مغرب کا وقت مضیق (تنگ) ہے یعنی صرف اتنا وقت ہے کہ سورج ڈوبنے کے بعد طہارت کرکے تین رکعت پڑھ سکے۔ جمہور کہتے ہیں کہ مغرب کا وقت مضیق نہیں بلکہ موسع (کھلا) ہے پھر جو حضرات توسع کے قائل ہیں ان کا بھی اختلاف ہے۔ صاحبین اور ائمہ ثلاثہ کے نزدیک شفق احمر (سورج غروب ہونے کے بعد سرخ رنگ کی سرخی) کے غروب تک وقت ہے اور امام صاحب کا مشہور قول یہ ہے کہ غروب شفق ابیض تک وقت ہے۔
مغرب کی نماز کا مستحب وقت یہ ہے کہ مغرب کی نماز کو جلدی پڑھنا یعنی اذان کے بعد تاخیر کیے بغیر پڑھنا مستحب ہے اور اس کو مؤخر کرنا مکروہ ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ یہود اس نماز کو تاخیر سے پڑھتے تھے، لہذا اگر ہم بھی تاخیر سے پڑھنے لگیں تو ظاہر ہے کہ یہود کے ساتھ مشابہت لازم آئے گی اور ہمیں ان کی مشابہت سے ہر حال میں بچنا ہے اور بچنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ مغرب کی نماز کو جلدی پڑھا جائے۔ دوسری دلیل یہ ہے کہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا کہ جب تک میری امت کے لوگ مغرب کو جلدی اور عشاء کو تاخیر سے پڑھتے رہیں گے اس وقت تک وہ خیر پر قائم رہیں گے۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے بھی مغرب کو جلدی پڑھنا ثابت ہوتا ہے۔
نمازوں کے اوقات_عشاء:
ایک قول کے مطابق مغرب کا وقت ختم ہونے کے بعد عشاء کا وقت شروع ہوگا۔ دوسرے قول کے مطابق غروب شفق احمر کے بعد وقت شروع ہوتا ہے۔
عشاء کے آخری وقت میں اختلاف ہے۔ بعض کے نزدیک عشاء کا وقت رات کے تہائی حصہ تک ہے۔ امام مالک اور امام شافعی کا ایک ایک قول بھی ایسا ہی ہے۔ بعض کے نزدیک نصف اللیل تک ہے۔ امام شافی اور امام مالک کا ایک ایک قول اس طرح بھی ہے۔ اور احناف کا مذہب یہ ہے کہ عشاء کا وقت طلوع الفجر تک ہے۔
عشاء کی نماز کا مستحب وقت یہ ہے کہ عشاء کی نماز کو تہائی رات تک مؤخر کرنا (دونوں موسم میں) مستحب ہے۔ اس کی دلیل آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی یہ حدیث ہے ہے کہ “لولا أن أشق على أمتي لأخرت العشاء إلى ثلث اللیل” یعنی اگر مجھے اپنی امت پر مشقت کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں عشاء کی نماز کو تہائی رات تک مؤخر کر کے پڑھتا۔ اور دوسری دلیل یہ ہے کہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے عشاء کے بعد فضول باتوں اور قصہ گوئیوں سے منع فرمایا ہے، اب ظاہر ہے جب عشاء کی نماز تاخیر سے پڑھی جائے گی تو لوگوں کو اس کے بعد گھر جانے اور گھر جا کر آرام کرنے اور سونے کی فکر ہوگی، نہ کہ گپ شپ مارنے کی، اس لیے اس حوالے سے بھی عشاء کو تہائ رات تک مؤخر کرکے پڑھنا مستحب ہے۔ جبکہ بعض حضرات کی رائے یہ ہے کہ عشاء کی نماز کو گرمیوں میں جلدی پڑھنا مستحب ہے، اس لیے کہ گرمیوں میں چونکہ رات چھوٹی ہوتی ہے اور لوگ جلدی سونے کی کوشش کرتے ہیں، اب اگر عشاء کو مؤخر کرکے پڑھا جائے گا تو بہت سے لوگ جماعت میں شریک نہیں ہوسکیں گے اور جماعت میں لوگوں کی تعداد کم ہو جائے گی، اس لیے گرمیوں میں عشاء کی نماز کو جلدی پڑھنا مستحب ہے۔