فرقہ روافظ
فرقہ روافض (شیعہ) کا پس منظر:
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت کے ابتداء میں تمام امت متحد و متفق تھی پھر آہستہ آہستہ انتشار آنا شروع ہوگیا۔ اس انتشار پھیلانے والوں میں سے ایک یہودی عالم عبد اللہ بن سباء بھی تھا۔ اس نے ابتدا میں یہ کہنا شروع کیا کہ آپ صلی اللہ
علیہ وسلم دوبارہ دنیا میں تشریف لائیں گے لیکن حجاز، شام اور عراق کے لوگوں نے اس کی بات کا بالکل بھی اعتبار نہیں کیا۔ اس کے بعد عبداللہ بن سبا مصر چلا گیا۔ وہاں اس نے یہ باتیں کہنا شروع کیں اور ساتھ ساتھ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی
عنہ کی محبت میں غلو اور مبالغہ کرنا شروع کر دیا۔ اور اس نے یہی بات لوگوں کے ذہن میں ڈالی کہ آپ کے بعد حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ خلافت کے مستحق تھے مگر یہ حق ان زبردستی چھین لیا گیا اور ان کو یہ حق نہیں دیا گیا۔ اور
حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں مختلف شکایات شروع کر دیں یہاں تک کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ظلماً شہید کر دیا گیا اور پھر اس انتشار میں جنگ جمل اور جنگ صفین ہوئی اور ہزاروں مسلمان شہید ہوئے اور پھر آخر میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھی شہید کر دیا گیا۔
عبد اللہ بن سبا کی شروع کردہ تحریک میں ایک طرف حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی محبت میں مبالغہ اور دوسری طرف حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ سے بغض پھیلانا شروع کر دیا اور ساتھ ساتھ یہ نظریہ بھی پھیلایا کہ
حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے بعد ان کی اولاد خلافت کے مستحق ہے۔ نیز یہ کہ حضور کے بعد امامت کا سلسلہ ہے تا کہ امت کی رہنمائی ہوتی رہے اور پھر آہستہ آہستہ یہ تمام نظریات زور پکڑتے چلے گئے۔ پھر اسی گروہ نے حضرت حسین
رضی اللہ تعالٰی عنہ کی شہادت کے بعد ان کے بیٹے حضرت زین العابدین کو چو تھا امام تسلیم کر لیا۔ اور حضرت زین العابدین کے انتقال کے بعد محمد باقر کو پانچواں امام تسلیم کیا اس کے بعد ان کے بیٹے حضرت جعفر صادق کو چھٹا امام
تسلیم کیا گیا اس کے بعد حضرت جعفر صادق کے جانشین میں اختلاف پیدا ہوگیا۔ شروع شروع میں حضرت جعفر صادق نے اپنے بیٹے اسماعیل کو اپنا جانشین بنایا مگر جب وہ حضرت جعفر صادق کی زند گی میں انتقال کر گئے تو انہوں نے اپنے دوسرے بیٹے حضرت موسیٰ کاظم کو اپنا جانشین بنایا۔
اب ایک گروہ نےیہ کہا کہ اصل جانشین حضرت اسماعیل ہی ہیں تو یہ امامت کا سلسلہ ان کی ہی نسل سے چلے گا تو ان کے بیٹے حضرت محمد اسماعیل کو انہوں نے امام تسلیم کر لیا تو اب یہ حضرت اسماعیل کی نسبت سے اسماعیلی کہلائے۔ جبکہ
دوسرے گروہ نے کہا کہ امام حضرت جعفر صادق نے حضرت موسیٰ کاظم کو جانشین بنایا تو وہ اصل جانشین ہوئے تو اب یہ موسویہ کہلاتے ہیں۔ اور پھر یہ موسی کاظم کی اولاد میں امامت کے قائل ہوئے اور ان کے بعد ان کے بیٹے علی رضا
آٹھویں امام اور پھر محمد نقی نویں امام اور حضرت علی نقی دسویں امام اور پھر حسن عسکری یہ گیارہویں امام بنے۔ اور بارہواں امام حضرت مہدی یہ غائب ہیں۔ قیامت کے قریب ظاہر ہوں گے ان بارہ اماموں کی وجہ سے ان کو اثنا عشریہ کہا جاتا ہے۔
فرقہ روافظ
فرقہ روافض (شیعہ) کے بانی (عبداللہ بن سبا) کے حالات زندگی
عبد اللہ بن سبا یہودی تھا جو کہ یمن کے دارالحکومت صنعاء کا رہنے والا تھا۔ والدہ کا نام جشن تھا اور اس کا باپ سازش کرث، منصوبہ بندی اور پروپیگنڈہ میں اپنی مثال آپ تھا۔ یہ ابتداء میں یمن میں تھا مگر پھر بعد میں مدینہ منورہ میں آگیا اور
پھر اس نے سیاسی اور مذہبی دونوں طرح سے اسلام کو کمزور کرنے کی کوشش کی۔
صاحب کشف الحقائق فرماتے ہیں:
اس شخص نے سیاسی محاذ اس طرح قائم کیا کہ مصر کے امیر حسین اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ اور ان کے عالمین کے خلاف جھوٹا اور بے بنیاد پروپیگنڈہ کرکے عوام کے دلوں میں ان کے خلاف نفرت و عداوت کے جذبات کچھ اس
طرح مشتعل کیے کہ انہیں معزول کر دیا گیا۔ نظام حکومت کے اس اضمحلال کے بعد اسلامی سلطنت کمزور پڑتی گئی اور مسلمانوں میں باہمی انتشار و تفرقہ پیدا ہو گیا۔
اور مذہبی محاذ کچھ اس طرح سے قائم کیا کہ سیدھے سیدھے دین کے صاف اور واضح عقیدوں میں تبدیلی کی جائے۔ توحید اور رسالت پر حملہ کیا جائے۔ اسلام کے بنیا دی حقائق کو مسخ کرکے عوام کو گمراہ کیا جائے اس طرح مسلمانوں کی وحدت
پارہ پارہ کی جائے۔ اور ان میں اعتقادی تفرقہ ڈال کر فرقہ بندی کا بیج بویا جائے۔ تا کہ یہ علیحدہ علیحدہ فرقوں اور گروہوں میں تقسیم جائیں۔
اس طرح عبد اللہ بن سبا نے یہ کام پہلے بصرہ میں شروع کیا پھر کوفہ میں اور پھر مصر میں یہ کام کیا۔ پھر آہستہ آہستہ یہ لوگ پھیلتے چلے گئے اور پھر یہ ایک فرقہ بن کر روئے زمین پر ابھرا۔ عبداللہ بن سبا کی سوچ انقلابی تھی جس کی وجہ
سے اس کو کئی بار کوفہ اور دمشق میں جلا وطنی کے دن بھی گزارنے پڑے۔ آخر میں اس نے مصر میں رہائش اختیار کی وہاں سے اس نے اسلام کے خلاف نظریاتی جنگ شروع کر دی۔ اور اس نے اعلان کیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی
طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی واپس دنیا میں تشریف لائیں گے۔ اور حضرت علی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصی تھے جن سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے خلافت چھین لی تھی۔ اب انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا جائے۔
اور پھر مزید یہ کہ عبداللہ ابن سباء نے ہی حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ کو شہید کرنے کیلئے اہل مصر کو آمادہ کیا تھا۔
کتاب الملل والنحل میں امام شہرستانی لکھتے ہیں کہ ابن سباء اور اس کی جماعت نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خدا کہنا
شروع کیا تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کو مدائن میں قید کر دیا۔ اور اس نے حضرت علی کی شہادت کے بعد کہنا شروع کر دیا کہ حضرت علی شہید نہیں ہوئے بلکہ وہ تو نورِ الٰہی کے حصہ تھے اور وہ اب بادلوں میں زندگی گزار رہے ہیں۔
بادلوں کی گرج یہ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی امارات ہے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی چمک ان کا کوڑا ہے۔ وہ جب زمین میں دوبارہ آئیں گے تو دنیا کے مظالم کا خاتمہ کرکے عدل و انصاف کی حکومت قائم کریں گے۔
عبداللہ بن سبا کی موت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے بعد ہوئی۔
فرقہ روافض (شیعہ) کے عقائد ونظریات
اہل سنت والجماعت کا فرقہ روافض سے اختلاف تو بہت سی چیزوں میں ہے۔ مگر چند بنیادی اختلاف یہ ہیں:
01: قرآن مجید کو اصل نہ ماننا
02: اماموں کا درجہ نبیوں سے زیادہ ہے۔
03: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد چار صحابہ کے علاوہ (نعوذباللہ) باقی تمام صحابہ مرتد ہو گئے تھے۔
04: کلمہ طیبہ میں تبدیلی۔
05: متعہ (زنا) جائز ہے بلکہ باعث اجر و ثواب ہے۔
06: عقیدہ رجعت پر ایمان لانا بھی واجب ہے۔
نوٹ: بنیادی نظریات و عقائد یہی ہیں جو اوپر گزرے مگر اس کے علاوہ اور بھی کئی عقائد اور نظریات میں فرقہ روافض کا اہل سنت والجماعت سے اختلاف ہے۔
فرقہ روافظ
فرقہ شیعہ کے نظریات و عقائد اور قرآن و حدیث سے ان کے جوابات
01۔ قرآن مجید کے متعلق:
اس قرآن کے بارے میں شیعہ کی کتابوں میں مختلف باتیں موجود ہیں اور یہ سب باتیں اہل سنت والجماعت کے نزدیک کفر ہیں۔ تقریباً دو ہزار روایات شیعہ کی کتابوں میں ایسی موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ موجود قرآن تحریف شدہ یعنی
بدلا ہوا ہے۔ اور وہ روایات شیعوں کے نزدیک صحیح ہیں اور ان کے پاس انکار کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ذیل میں اس کی چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں:
01۔ جو قرآن حضرت جبرائیل آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم پر لے کر نازل ہوئے تھے اس قرآن میں تیرہ ہزار آیتیں تھیں۔
02۔ اصل قرآن سے محبت سابقہ ساقط کر دیا گیا ہے۔
03۔ قرآن میں ایسی باتیں بھی ہیں جو خدا نے نہیں کہیں۔
04۔ موجودہ قرآن کو اولیاءالدین کے دشمنوں نے جمع کیا ہے۔
05۔ موجودہ قرآن کی ترتیب اللہ کی مرضی کے خلاف ہے۔
06۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا نام قرآن میں کئی جگہوں سے نکال دیا گیا ہے۔
07۔ اسی طرح سید نعمت اللہ الموسوی الجزائری نے لکھتا ہے کہ:
قرآن جس طرح نازل ہوا تھا اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت کے مطابق صرف امیر المؤمنین حضرت علی
علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد چھ مہینے مشغول رہ کر جمع کیا تھا۔ پھر جمع کرنے کے بعد اس قرآن کو لے کر ان لوگوں کے پاس آئے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلیفہ بن گئے تھے۔ آپ نے فرمایا اللہ کی کتاب جس
طرح نازل ہوئی ہے وہ یہ ہے۔ پس ان میں سے عمر بن خطاب نے کہا:
ہم کو تمہاری اور تمہارے اس قرآن کی ضرورت نہیں تو امیر المؤمنین علیہ السلام نے فرمایا کہ آج کے دن کے بعد اس کو نہ
تم دیکھ سکو گے اور نہ کوئی اور دیکھ سکے گا۔ یہاں تک کہ میرے بیٹے مہدی علیہ السلام کا ظہور ہو گا۔ اس قرآن میں بہت ہی زیادات ہیں اور یہ تحریف سے خالی ہے۔ اور جب امام مہدی ظاہر ہوں گے تو موجودہ قرآن آسمان کی طرف اٹھا لیا جائے
گا۔ اور وہ اس قرآن کو نکال کر پیش کریں گے کہ جس کو امیر المؤمنین نے جمع کیا تھا۔
فرقہ روافظ
اہلِ سنت والجماعت کی طرف سے جواب:
اہل سنت والجماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ قرآن مجید ایسی مقدس کتاب ہے کہ جس طرح نازل ہوئی تھی آج تک اس میں ایک حرف کی بھی تبدیلی نہیں ہوئی۔ اور جو اس کے خلاف عقیدہ رکھتا ہے وہ بالاتفاق دائرہِ اسلام سے خارج ہے۔
02۔ امامت کا درجہ نبوت سے بڑا:
شیعوں کا عقیدہ ہے کہ امامت کا درجہ نبوت سے بڑھ کر ہے اس عقیدہ کے بارے میں بھی شیعہ کی کتب میں مختلف باتیں لکھی ہیں اور وہ سب اہل سنت والجماعت کے نزدیک کفر ہیں۔
مثلاً خمینی نے لکھا ہے:
ہمارے مذہب کی ضروریات یعنی بنیادی عقائد میں سے یہ عقیدہ بھی ہے کہ ہمارے اماموں کا وہ مقام ہے کہ اس تک کوئی مقرب فرشتہ اور کوئی نبی مرسل بھی نہیں پہنچ سکتا۔
باقر مجلسی تحریر لکھتا ہے کہ:
ان اماموں کا درجہ نبوت سے بلند ہے۔
امام معصوم ہوتا ہے اور اللہ کی خاص تائید و توفیق اس کے ساتھ ہوتی ہے۔ اللہ ان کو سیدھا رکھتا ہے۔ وہ غلطی، بھول چوک اور لغزش سے محفوظ ہوتا ہے۔ اللہ تعالی معصومیت کی اس نعمت کے ساتھ اس کو مخصوص رکھتا ہے تا کہ وہ اس کے
بندوں پر اس کی حجت ہو اور اس کی مخلوق پر شاہد ہو۔
نبی کریم نے صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ امام تھے ان کے بعد حضرت حسن امام تھے ان کے بعد
حضرت حسین امام تھے ان کے بعد جو اس بات کا انکار کرے وہ ایسا ہے جیسا کہ اس نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت کا انکار کیا ہو۔
غلام حسین نجفی نے لکھتا ہے:
کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کی افضلیت کا منکر کافر ہے۔
امامت کے بارے میں اہل سنت والجماعت کا مؤقف:
شیعوں کا یہ عقیدہ بھی اہل سنت والجماعت کے نزدیک کفر ہے۔
اس مسئلہ میں مفتی اعظم پاکستان مفتی ولی حسن صاحب ٹونکی رحمہ اللہ فتویٰ دیتے ہیں کہ:
دور صحابہ سے لے کر آج تک امت کا اجماع ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے
بعد کوئی نیا نبی نہیں آئے گا۔ لہذا خصوصیاتِ نبوت وحی، شریعت، اور عصمت وغیرہ قیامت تک بند ہیں۔
مگر یہ شیعہ لوگ اگرچه کھلم کھلا عقیدۂ ختم نبوت کے انکار کی جرأت نہیں کرتے مگر در پردہ یہ لوگ اجزاء نبوت کے
قائل ہیں کیونکہ ان کا عقیدۂ امامت ختم نبوت کے انکار کو مستلزم ہے لہذا یہ لوگ در حقیقت تقیہ کی وجہ سے اپنے اماموں کے لئے نبی کے استعمال کرنے سے تو گریز کرتے ہیں مگر در حقیقت یہ لوگ اپنے اماموں کیلئے نبوت کی خصوصیات
ثابت کرتے ہیں یعنی اپنے اماموں کو منصوص اور خدا مفہوم اور ان کے پاس وحی اور شریعت آنے کے قائل ہیں اور مزید ان کو احکام شریعت منسوخ کرنے کا اختیار بھی دیتے ہیں۔ روح اللہ خمینی کی تحریر کے مطابق ان کے ائمہ درجہ الوہیت تک پہنچے ہوئے ہیں اور یہ سراسر کفروشرک ہے۔
روح اللہ ثمینی نے اپنی کتاب “الحكومة الاسلامیہ” میں خامہ فرسائی کی ہے کہ:
فَإِنَّ الْإِمَامَ مَقامٌ مَحْمُودٌ أوْ دَرَجَةٌ سَيَاسِيَةٌ وَخِلَافَةٌ تَكُويْنِيَّةٌ يَخْضَعُ لِوِلَايَتِهَا وَسَیْطَرَتِھَا جَمِيْعُ وَارِثِ هَذَا الْكَوْنِ وَ إِنَّ مِنْ ضَرُوْرِيَّاتِ
مَذهَبِنَا أنَّ لِأَتِمَّتِنَا مَقَامًا لَا يَبْلُغُهُ مَلَكٌ مُقَرَّبٌ وَلَا نَبِيٌّ مُرْسَلٌ إِلىٰ أَنْ قَالَ وَرُوِيَ عَنْهُمْ، إِنَّ لَنَا مَعَ اللّٰهِ حَالَاتٍ لَا يَسَعُهَا مَلَكَ مُقَرَّبٌ وَلَا نَبِيُّ مُرْسَلٌ وَمِثْلُ هَذِهِ الْمَنْزِلَةِ مَوْجُودَةٌ لِفَاطِمَةَ الزَّهْرَاءِ عَلَيْهَا السَّلَام
ترجمہ: بے شک مقام محمود بلند درجہ اور خلافت تکوینی پر اماموں کی ولایت کا خاصہ ہے اور تمام کائنات کے وارث ہیں اور ہمارے مذہب کے ضروریات میں سے یہ ہے کہ ہمارے امام کا وہ مقام ہے جو نہ کسی مقرب فرشتہ کا ہے اور نہ نبی
مرسل کا اور ان سے یہ بھی منقول ہے کہ ہم اللہ کے ساتھ ایسے حالات میں ہیں کہ وہ مقرب فرشتے اور نبی مرسل کو حاصل نہیں اور یہ مقام فاطمتہ الزہراء کو حاصل ہے۔
ان کے کفر کے ثبوت کیلئے یہ ایک حوالہ بھی کافی ہے۔
03۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد چار صحابہ کے علاوہ باقی تمام صحابہ مرتد ہو گئے
روافض کا عقیدہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد چار صحابہ کرام کے علاوہ باقی تمام صحابہ کرام مرتد ہو گئے تھے(نعوذباللہ)۔
روافض کے اس عقیدے کے بارے میں بھی روافض کی مختلف کتب میں ایسی روایات موجود ہیں اور یہ باتیں اہل سنت والجماعت کے نزدیک کفر ہیں۔
مثلاً باقر مجلسی لکھتا ہے کہ:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد سوائے چار افراد
01۔ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ
02۔ حضرت مقداد رضی اللہ عنہ
03۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ
04۔ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ
کے علاوہ باقی تمام صحابہ مرتد ہو گئے۔
غلام حسین نجفی لکھتا ہے کہ:
جو تم نے جان بوجھ کے صحابہ، صحابہ کی رٹ لگائی ہوئی ہے ان میں بقول تمہارے افضل تمہارے تین خلفاء ہیں اور کئی سو سال گزر چکے ہیں آج تک تمہارا بڑے سے بڑا عالم بھی ان بے چاروں کے ایمان تک ثابت نہیں کر سکتا۔
خمینی کہتا ہےکہ:
ابو بکر و عمر اور ان کے رفقاء نے دل سے اسلام قبول نہیں کیا تھا بلکہ انہوں نے خود کو حکمرانی کی لالچ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کے ساتھ ملائے رکھا تھا۔
اسی طرح ان کی کتاب “جامع کافی” میں ہے کہ:
ابوبکر و عمر یہ دونوں قطعی کافر ہیں اور ان دونوں پر اللہ تعالیٰ کی فرشتوں کی اور تمام انسانوں کی لعنت ہے (نعوذباللہ)۔ جہنم میں ایک صندوق ہے جس میں بارہ آدمی بند ہیں چھ آدمی پچھلی امتوں اور چھ اس امتوں میں سے۔ اس امت کے چھ آدمی
دجال، ابوبکر، عمر، ابو عبیدہ بن الجراح، سالم مولیٰ حذیفہ اور سعد بن ابی وقاص۔
غلام حسین نجفی لکھتا ہے کہ:
جو کردار حضرت نوح اور حضرت لوط کی بیویوں نے ان نبیوں کے خلاف ادا کیا تھا وہی کردار عائشہ بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا اور حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہا نے اپنے شوہر یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ادا کیا۔
اسی طرح غلام حسین نجفی مزید لکھتا ہے کہ:
کسی قائل کیلئے اس بات کی گنجائش نہیں ہے کہ وہ عمر کے کافر ہونے میں شک کرے۔ پس خدا اور رسول کی لعنت ہو عمر
پر اور اس شخص پر بھی جو اس کو مسلمان سمجھے اور اس شخص پر بھی جو عمر پر لعنت کرنے کے معاملہ میں توقف اختیار کرے۔
اس قسم کی اور بھی بہت سی غلیظ باتیں شیعہ کی کتابوں میں موجود ہیں۔
اہلِ سنت والجماعت کی طرف سے جواب:
تمام صحابہ کرام کے بارے میں اہل سنت والجماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ انبیاء کرام کے بعد تمام صحابہ باقی تمام انسانوں سے افضل ہیں اور تمام صحابہ سے اللہ راضی ہوگئے۔ یہ بات قرآن میں متعدد آیات اور احادیث کے ایک بڑے ذخیرہ سے معلوم ہوتی ہے۔
قرآن مجید سے صحابہ کے ایمان کی گواہی:
وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ
ترجمہ: اور وہ لوگ مقدم ہیں پہلے ہجرت کرنے والوں سے اور مدد کرنے والوں سے اور جو ان کے پیچھے چلے اچھائی کے ساتھ اللہ راضی ہوا ان سے اور وہ راضی ہوئے اللہ سے اور تیار کر رکھے ہیں ان کیلئے باغات کہ جن کے نیچے نہریں
بہتی ہیں (وہ) ان میں ہمیشہ رہیں گے یہی بڑی کامیابی ہے۔
اسی طرح قرآن مجید میں ایک دوسری جگہ ارشاد ہے:
لِلْفُقَرَاءِ الْمُهَاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِن دِيَارِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا وَيَنصُرُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ أُولَٰئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ۔ وَالَّذِينَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ وَالْإِيمَانَ مِن قَبْلِهِمْ يُحِبُّونَ مَنْ هَاجَرَ إِلَيْهِمْ وَلَا يَجِدُونَ فِي صُدُورِهِمْ حَاجَةً مِّمَّا أُوتُوا وَيُؤْثِرُونَ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ وَلَوْ
كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ۚ وَمَن يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ۔
ترجمہ: ہجرت کرنے والے فقراء کیلئے جو نکالے گئے ہیں اپنے گھروں سے اور اپنے مالوں سے تلاش کرتے ہیں اللہ کا
فضل اور اس کی رضا مندی اور مدد کرتے ہیں اللہ کی اور اس کے رسول کی، یہی لوگ سچے ہیں۔ اور جو لوگ جنہوں نے ان(مہاجرین) سے پہلے اس شہر کواور ایمان کو ٹھکانہ بنالیا وہ محبت کرتے ہیں اپنی طرف ہجرت کرنے والوں سے اور وہ
اپنے دلوں میں اس کے متعلق کوئی حسد نہیں پاتے جو ان کو دیا گیا اور وہ اپنی جانوں پر ترجیح دیتے ہیں اگرچہ انہیں خود حاجت ہو اور جو اپنے نفس کے لالچ سے بچالیا گیا تو وہی لوگ کامیاب ہیں۔
اسی طرح قرآن مجید میں ایک دوسری جگہ ارشاد ہے:
وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمْ اٰمِنُوْا كَمَاۤ اٰمَنَ النَّاسُ قَالُوْۤا اَنُؤْمِنُ كَمَاۤ اٰمَنَ السُّفَهَآءُؕ-اَلَاۤ اِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَآءُ وَ لٰـكِنْ لَّا یَعْلَمُوْنَ
ترجمہ: اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ تم اس طرح ایمان لاؤ جیسے اور لوگ ایمان لائے تو وہ کہتے ہیں کیا ہم بیوقوفوں کی طرح ایمان لائیں؟ سن لو بیشک یہی لوگ بیوقوف ہیں مگر یہ لوگ جانتے نہیں۔
فرقہ روافظ
احادیث سے صحابہ کرام کے ایمان کی گواہی:
وَعَنْ أَبِي بُرْدَةَ رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُ عَنْ أَبِيهِ قَالَ رَفَعَ يَعْنِی النَّبِیَّ صَلَّی اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأْسَهُ إِلَى السَّمَاءِ وَكَانَ كَثِيرًا مِّمَّا يَرْفَعُ رَأْسَهُ إِلَی السَّمَاءِ فَقَالَ النُّجُومُ أَمَنَةٌ لِلسَّمَاءِ فَإِذَا ذَهَبَتِ النُّجُومُ أَتَی السَّمَآءِ مَا تُوعَدُوْأَنَا اَمَنَةٌ لِأَصْحَابِیْ فَإِذَا ذَهَبْتُ أَنَا اَتٰی أَصْحَابِیْ مَا يُوْعَدُونَ وَأَصْحَابِیْ اَمَنَةٌ لِأُمَّتِي فَإِذَا ذَهَبَتْ أَصْحَابِیْ اَتٰی أُمَّتِي مَايُوْعَدُوْنَ۔
ترجمہ: حضرت ابو بردہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا جیسا کہ آپ کی اکثر عادت (وحی کے انتظار میں) ہوتی تھی۔ پھر ارشاد فرمایا کہ ستارے آسمان کیلئے امن و
سلامتی کا باعث ہیں جس وقت یہ ستارے چلے جائیں گے تو آسمان کیلئے وہ چیز آجائے گی جس کا وعدہ کیا گیا ہے اور میں اپنے صحابہ کیلئے امن و سلامتی ہوں جب میں چلا جاؤں گا تو صحابہ اس چیز میں مبتلا ہو جائیں گے جس کا وعدہ کیا گیا
ہے۔ میرے صحابه امت کے لئے امن وسلامتی کا باعث ہیں جب یہ دنیا سے اٹھ جائیں گے تو میری امت پر وہ چیز آجائے گی جس کا وعدہ کیا گیا ہے۔
اسی طرح ایک دوسری حدیث میں ارشاد ہے:
وَعَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ خَيْرُ النَّاسِ قَرْنِي، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُوْنَهُمْ ثُمَّ الَّذِيْنَ يَلُوْنَهُمْ قَالَ
عِمْرَانُ فَلَا أَدْرِیْ أَذَكَرَ بَعْدَ قَرْنِهِ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلٰثَ؟ ثُمَّ إِنَّ بَعْدَهُمْ قَوْمًا يَشْهَدُوْنَ وَلَا يُسْتَشْهَدُوْنَ وَيَخُوْنُوْنَ وَلَا يُؤْتَمَنُوْنَ وَيَنْذُرُوْنَ وَلَا يُوْفُوْنَ وَيَظْهَرُ فِيْهِمُ السَّمَنُ۔
ترجمہ: حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا سب سے بہترین لوگ میرے زمانے کے ہیں۔ پھر وہ ہیں جو ان سے متصل ہوں گے پھر وہ جو ان سے متصل ہوں گے حضرت عمران
کہتے ہیں کہ مجھے یہ معلوم نہیں کہ آپ نے اپنے دور کے بعد دو ادوار کا ذکر فرمایا یا تین کا پھر اس کے بعد ایسے لوگ ہوں گے کہ وہ قسمیں کھائیں گے حالانکہ ان سے قسم طلب نہیں کی جائی گی وہ خیانت کریں گے امانت دار نہیں ہوں گے نذر
مانیں گے مگر پوری نہیں کریں گے اور ان پر موٹاپا چڑھا ہوا ہوگا۔
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ:
عَنْ عَلَىٍّ قَالَ قُلْتُ يَارَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنْ يَنْزِلْ بِنَا أَمْرٌ لَیْسَ فِيْهِ بَيَانُ أَمْرٍ وَلَا نَھْیٍ فَمَا تَأْمُرُنِیْ قَالَ شَاوِرُوْا فِيْهِ الْفُقَهَاءَ وَالْعَابِدِيْنَ وَلَا تَمَضُوْ فِيْهِ رَأْیاً خَاصَّةً۔
ترجمہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر ہمیں کوئی ایسا مسئلہ پیش آجائے کہ اس میں امر اور نہی کا کوئی فرمان موجود نہ ہو تو آپ کا ہمارے لیے اس میں کیا حکم
ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اس وقت فقہاء عابدین سے مشورہ کرو اور کسی ایک خاص کی رائے پر عمل کرو
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کا اجماع حجت ہے اسی وجہ سے ہمارے محدثین اس حدیث کو باب الاجماع کے ذیل میں بیان کرتے ہیں۔
اس قسم کی اور بھی بہت سی احادیث موجود ہیں۔ مگر اختصار کی وجہ سے صرف تین احادیث بیان کی جاتی ہیں۔
عقائد والی کتابوں سے صحابہ کے ایمان کی گواہی:
اہل سنت والجماعت کے عقائد یہ ہیں جس کو امام اعظم ابو حنیفہ نے اس طرح ذکر فرمایا ہے:
أَفْضَلُ النَّاسِ بَعْدَ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبُوْبَكْرِنِ الصِّدِّيْقُ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ ثُمَّ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُ ثُمَّ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُ ثُمَّ عَلِيُّ بْنُ أَبِیْ طَالِبٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ غَابِرِيْنَ عَلَى الْحَقِّ وَمَعَ الْحَقِّ وَلَا تُذْكَرُ الصَّحَابَةُ إِلَّا بِخَيْرِ۔
ترجمہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تمام انسانوں سے افضل ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں پھر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ پھر حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ پھر حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ یہ سب حضرات ہمیشہ
حق پر رہے اور حق کے ساتھ رہے اور صحابہ کرام کا ذکر خیر کے علاوہ نہیں کرتے تھے۔
عقیدۃ الطحاویہ میں ہے علامہ طحاوی لکھتے ہیں کہ:
وَنُحِبُّ أَصْحَابَ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا نُفْرِطُ فِیْ حُبِّ أَحَدِهِمْ وَلَا نَتَبَرَّأُ مِنْ أَحَدٍ مِّنْهُمْ وَيُبْغِضُ مَنْ يُبْغُضُهُمْ بِغَيْرِ حَقٍّ وَيَذْكُرُهُمْ بِسُوءٍ وَلَا نَذْكُرُهُمْ إِلَّا بِخَيْرٍ وَحُبُّهُمْ دِينٌ وَ إِيمَانٌ وَ إِحْسَانٌ وَبُغْضُهُمْ كُفَرٌ وَنِفَاقٌ وَطُغْيَانٌ۔
ترجمہ: اور ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ سے محبت کرتے ہیں اور ان میں سے کسی کی محبت میں افراط و تفریط نہیں کرتے اور کسی صحابی سے برأت نہیں کرتے اور ہم ایسے شخص سے بغض رکھتے ہیں جو صحابہ کرام سے بغض
رکھتا ہے اور جو ان کو برائی سے یاد کرے اور ہم بھی خیر کے سوا انکا ذکر نہیں کرتے اور ان سے محبت رکھنا دین و ایمان و احسان ہے اور ان سے بغض رکھنا کفر اور نفاق اور سرکشی ہے۔
عقیدہ طحاویہ میں ایک دوسری جگہ ارشاد فرماتے ہیں:
وَإِنَّ الْعَشَرَةَ الَّذِينَ سَمَّاهُمْ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَشْهَدُ لَهُمْ بِالْجَنَّةِ عَلَى مَاشَهِدَ لَهُمْ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَوْلُهُ الْحَقُّ
وَهُمْ أَبُوبَكْرٍ، وَعُمَرُ، وَعُثْمَانُ، وَعَلِيٌّ، وَطَلْحَةُ، وَالزُّبَيْرُ، وَسَعْدٌ، وَسَعِيدٌ، وَعَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ عَوْفٍ، وَاَبُوْعُبَیْدَ بْنُ اَبِی الْجَرَّاحِ وَهُوَ اَمِينُ هٰذِهِ الْأُمَّةِ رِضْوَانُ اللّٰهِ تَعَالیٰ عَنْهُمْ أَجْمَعِينَ وَمَنْ أَحْسَنَ الْقَوْلَ فِي رَسُولِ اللّٰهِ وَأَزْوَاجِهٖ وَذُرِّيَاتِهِ فَقَدْ بَرَأَيْ مِنَ النِّفَاقِ۔
ترجمہ: اور دس (صحابہ) کہ جن کا نام لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو جنت کی خوشخبری دی ہم ان کیلئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گواہی پر جنت کی گواہی دیتے ہیں، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد برحق ہے اور وہ ابوبکر، اور
عمر، اور عثمان، اور علی، اور طلحہ، اور زبیر، اور سعد، اور سعید، اور عبد الرحمن بن عوف اور ابو عبیدہ بن الجراح جو اس امت کے امین ہیں رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین اور جو شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ اور ازواج مطہرات
اور آپ کی اولاد سے حسن عقیدت رکھے وہ نفاق سے دور ہے۔
اور ارتداد صحابہ پر بھی ہمارے علماء اہل سنت نے کئی کتابیں لکھی ہیں۔ اس سلسلہ میں ان کتابوں کا مطالعہ مفید ہوگا:
اصحاب ثلاثہ (مولانا اکرام الدین دبیر)
دفاع صحابہ (مولانا قاضی مظہر حسین چکوال)
عدالت حضرات صحابہ کرام (مولانا حافظ مہر محمد میاں والی)
معیار صحابیت (علامہ خالد محمود)
اسلام میں صحابہ کرام کی آئینی حیثیت (علامہ ضیاء الرحمن فاروقی)
گستاخ صحابہ کی شرعی سزا (علامہ ضیاء الرحمن فاروقی)
فضائل اصحاب ثلاثه (مفتی بشیر احمد پسروری)
صحابہ کرام پر شیعہ کے اعتراضات اور ان کے جوابات (سید مشتاق علی شاہ)
عظمت صحابہ (مولانا دوست محمد قریشی)
04۔ کلمہ طیبہ میں تبدیلی:
شیعوں کا کلمہ بھی اہلِ سنت والجماعت کے کلمہ طیبہ سے مختلف ہے۔ ان کا کلمہ “لا اله الا الله محمد رسول اللہ” کی بجائے “لا اله الا الله علي ولي الله وصي رسول الله وخليفته بلا فصل” ہے۔
فرقہ روافظ
05۔ متعہ کرنا جائز:
شیعوں کے نزدیک متعہ(زنا) کرنا جائز ہی نہیں بلکہ باعث اجر و ثواب ہے جس نے ایک مرتبہ بھی متعہ کرلیا وہ جنت میں داخل ہو گا۔ نیز متعہ کا اجروثواب اتنا زیادہ ہے کہ اتنا ثواب نماز، روزہ، زکوۃ، حج و خیرات جیسی کسی عبادت کا بھی نہیں ہے۔
نیز متعہ کرنے والوں کے لئے فرشتوں کی دعا اور متعہ نہ کرنے والوں کیلئے قیامت تک فرشتوں کی لعنت ہوتی رہتی ہے۔ مزید یہ کہ کسی کا ایمان کامل نہیں جب تک کہ وہ متعہ نہ کرے۔
جو چار مرتبہ متعہ (زنا) کرے وہ(معاذ اللہ ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے درجہ کو پہنچ جاتا ہے۔
اہل سنت والجماعت کے نزدیک متعہ:
متعہ کہتے ہیں کہ عورت سے مخصوص مدت کیلئے نکاح کرنا۔ اہل سنت و الجماعت کے نزدیک بالاتفاق متعہ ناجائز اور حرام ہے۔ جب کہ شیعہ کے نزدیک متعہ صرف جائز ہی نہیں بلکہ باعث اجروثواب ہے۔ اہل سنت والجماعت کے نزدیک متعہ قرآن، حدیث، اجماع اور قیاس سب سے ناجائز اور حرام ہے
۔
متعہ کی حرمت کی دلیل قرآن مجید میں:
قرآن مجید میں ارشاد ہے:
وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حٰفِظُوْنَ۔ إِلَّا عَلىٰ أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُوْمِيْنَ۔
ترجمہ: اور جو لوگ اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں مگر اپنی بیوی یا جو ہاتھ کی ملکیت (لونڈیاں) ہے تو ان پر کوئی ملامت نہیں۔
قرآن مجید میں شہوت کو پورا کرنے کیلئے دو جگہ متعین ہیں: بیویاں اور لونڈیاں۔
متعہ کی حرمت کی دلیل احادیث میں:
متعہ کی حرمت کے سلسلے میں احادیث متواترہ موجود ہیں۔ جس کی وجہ سے ان کا انکار کرنا جائز نہیں ہے۔ جیسے:
01۔ عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِیْ طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَھیٰ عَنْ مُتَعَةِ النِّسَاءِ وَعَنْ لُحُومِ حُمُرِ الْأَهْلِيَّةِ زَمَنَ خَیْبَرَ۔
ترجمہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں سے متعہ کرنے سے اور پالتو گدھے کا گوشت کھانے سے خیبر کے موقع پر منع فرمایا۔
02۔ وَعَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْاَكْوَعِ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ قَالَ رَخَّصَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ أَوْ طَاسٍ فِیْ مُتْعَةٍ ثَلَاثًا ثُمَّ نَھیٰ عَنْھَا
ترجمہ: حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ اوطاس میں تین دن متعہ کی
اجازت فرمائی اور پھر اسے حرام کر دیا گیا۔
03۔ عَنْ رَبِيْعِ بْنِ سَبُرَةَ عَنْ أَبِيْهِ رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُ أَنَّهُ كَانَ مَعَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي قَدْ كُنتُ أٰذَنْتُ حُكْم فِیْ الْاِسْتِمْتَاعِ مِنَ النِّسَاءِ وَأَنَّ اللّٰهَ قَدْ حَرَّمَ إِلٰى يَوْمِ الْقِيَامَةِ۔
ترجمہ: حضرت ربیع سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اے لوگوں میں نے تم کو عورتوں سے متعہ کرنے کی اجازت دی تھی لیکن اب اللہ نے اس کو قیامت تک کیلئے حرام کردیا ہے۔
اجماع سے متعہ کی حرمت:
اجماع سے بھی متعہ کی حرمت ثابت ہے۔ صحابہ کرام سے لے کر آج تک سوائے روافض حضرات کے سب نے ہی اس کو حرام کہا ہے۔
قیاس سے متعہ کی حرمت:
قیاس کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ متعہ حرام ہو کیونکہ اس سے نسب میں خلط ملط ہوگا۔ اور نسب کو محفوظ کرنے کے بارے میں شریعت میں بہت اہتمام کیا گیا ہے۔
اب یہاں سوال ہوتا ہے کہ متعہ کب حرام ہوا؟ اس کے بارے میں مختلف روایات ہیں۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ خیبر کے موقع پر متعہ حرام ہوا اور بعض سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اعلان فتح مکہ کے موقعہ پر ہوا ہے اور بعض روایات
سے معلوم ہوتا ہے کہ غزوہ اوطاس کے موقعہ پر حرام ہوا ہے۔ بعض روایات میں غزوہ تبوک کا ذکر بھی آیا ہے۔
ان تمام روایات کے مختلف جواب دیے گئے ہیں:
متعہ کی حرمت کا اعلان بار بار آیا ہے۔ جس نے جس غزوہ پر اعلان سنا اس نے اس غزوہ کی طرف اس کی حرمت کو منسوب کر دیا۔
دوسرا جواب یہ ہے کہ ابتدائے خیبر کے موقعہ پر متعہ حرام کیا گیا تھا۔ پھر فتح مکہ کے موقع پر محدود وقت کیلئے متعہ کی اجازت دیدی گئی اور پھر ہمیشہ اور قیامت تک کے لئے متعہ حرام کر دیا گیا۔
06۔ رجعت کا عقیدہ:
روافض کی کتابوں میں اس عقیدہ کا مطلب یہ ہے کہ “ایمان لانا رجعت پر بھی واجب ہے۔ حتی کہ جب امام ظہوروخروج فرمائیں گے تو اس وقت مؤمن خاص اور کافر اور منافقِ مخصوص زندہ ہوں گے۔ اور ان میں سے ہر ایک اپنی داد اور
انصاف کو پہنچے گا اور ظالم سزا وتعزیر پائے گا۔
رجعت پر ایمان لانا واجب ہے:
“فيجب الايمان باصل الرجعة اجمالا” اخبار متواترہ اور بہت سے شیعہ علماء متقدمین و متاخرین کے کلام سے معلوم ہوچکا کہ اصل رجعت برحق ہے اور اس کا انکار کرنے والا دائرہ ایمان سے خارج ہے۔
حتی کہ جب امام ظہور اور خروج فرمائیں گے اس وقت مؤمن خاص اور کافر اور منافق مخصوص زندہ ہوں گے اور ہر ایک اپنی داد اور انصاف کو پہنچے گا اور ظالم سزا اور تعزیر پائے گا۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ امام مہدی جو کہ غائب ابھی غائب ہیں وہ جب غار سے برآمد ہوں گے تو اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ام المؤمنین سیدہ فاطمتہ الزہراء اور حسن و حسین رضی اللہ عنہم اور تمام ائمہ اور ان کے علاوہ تمام خواص
مؤمنین زندہ ہوں گے سب امام مہدی کے ہاتھ پر بیعت کریں گے پھر امام ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کو زندہ کرے گا اور ابتداء جہاں سے لے کر اس وقت تک جتنے گناہ ہوئے ہوں گے اس کی سزا انہیں دے گا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو بھی زندہ کرے گا اور ان پر حد جاری کرے گا۔
قرآن مجید میں آتا ہے:
وَيَوْمَ نَحْشُرُ مِنْ كُلِّ أُمَّۃٍ فَوْجاً مِمَّنْ يُّكَذِّبُ بِاٰيَتِنَا۔
یہ آیت یہ واقعہ رجعت کے متعلق ہے۔
ظہور امام کے عہد میں قیامت سے پہلے زندہ ہونے کو رجعت کہتے ہیں یہ عقیدہ ضروریات مذہب امامیہ میں سے ہے۔
امام جعفر صادق سے روایت ہے کہ وہ شخص ہم میں سے نہیں جو ہماری رجعت پر ایمان نہ لائے۔
اہلِ سنت والجماعت کی طرف سے جواب:
اہل سنت والجماعت کا عقیدہ یہ ہے جو قرآن اور احادیث نبوی سے معلوم ہوتا ہے کہ مرنے کے بعد خواہ وہ مومن ہو یا کافر ہو دنیا میں کوئی زندہ نہیں کیا جائے گا۔ بلکہ قیامت کے دن ہی اللہ تعالیٰ اسے زندہ فرما کر سزا و جزا دیں گے۔
عقید ورجعت کے کفر ہونے پر حوالہ جات:
يجب اكفار الروافض۔۔۔۔ فی قولهم يرجع الاموات الی الدنيا ويقولهم فی خروج امام باطن هولاء
اہلِ روافض کے بارے میں اہلِ فتاویٰ کی رائے:
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا فتویٰ:
اگر میں شیعوں کو جانچوں تو یہ صرف زبانی دعوی کرنے والے اور باتیں بنانے والے نکلیں گے اور اگر ان کا امتحان لوں تو یہ سب مرتد نکلیں گے۔
امام مالک رحمہ اللہ کا فتویٰ:
“لِیَغِيْظَ بِھِمُ الْكُفَّار” کے تحت فرماتے ہیں کہ رافضیوں کے کفر کی قرآنی دلیل یہ ہے کہ یہ صحابہ کو دیکھ کر جلتے ہیں اس لئے کافر ہیں۔
قاضی عیاض رحمہ اللہ کا فتوی:
کتاب الشفاء میں قاضی عیاض فرماتے ہیں کہ جو شخص ایسی بات کرے کہ جس سے امت گمراہ قرار پائے اور صحابہ کرام کی تکفیر ہو ہم اسے قطعیت کے ساتھ کافر کہتے ہیں۔ اسی طرح جو قرآن میں تبدیلی یا زیادتی کا اقرار کرے وہ بھی کافر ہے۔
شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ کا فتویٰ:
“غنیۃ الطالبین” میں شیخ عبد القادر فرماتے ہیں کہ شیعوں کے تمام گروہ اس بات پر اتفاق رکھتے ہیں کہ امام کا تعین اللہ تعالیٰ کے واضح حکم سے ہوتا ہے۔ وہ معصوم ہوتا ہے۔ حضرت علی تمام صحابہ سے افضل ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات
کے بعد حضرت علی کو امام ماننے کی وجہ سے چند ایک کے علاوہ تمام صحابہ مرتد ہو گئے۔
امام فخر الدین رازی کا فتویٰ:
تفسیر کبیر میں لکھتے ہیں کہ رافضیوں کی طرف سے قرآن مجید کی تحریف کا دعویٰ اسلام کو باطل کر دیتا ہے۔
علامہ کمال الدین ابن عصام کا فتویٰ:
فتح القدیر میں علامہ کمال الدین لکھتے ہیں کہ اگر رافضی ابوبکر صدیق و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی خلافت کا انکار کرتے ہیں تو وہ کافر ہیں۔
علامه ابن تیمیہ کا فتویٰ:
الصارم المسلول میں لکھتے ہیں کہ اگر کوئی صحابہ کرام کی شان میں گستاخی کو جائز سمجھے تو وہ کافر ہے۔ اور صحابہ کرام کی شان میں گستا خی کرنے والا سزائے موت کا مستحق ہے۔ جو صدیق اکبر کی شان میں گالی دے تو وہ کافر ہے۔ اور
رافضی کا ذبیحہ حرام ہے حالانکہ اہل کتاب کا ذبیحہ حلال ہے۔ روافض کا ذبیحہ کھانا اس لئے جائز نہیں کہ شرعی حکم کی لحاظ سے یہ مرتد ہیں۔
صاحب فتاوی بزازیہ کا فتویٰ:
حضرت ابوبکر صدیق و حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہما کی خلافت کا منکر کافر ہے۔ اور حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت طلحہ، حضرت زبیر اور حضرت عائشہ کو کافر کہنے والے کو کافر کہنا واجب ہے۔
ملا علی قاری کا فتویٰ:
ملا علی قاری شرح فقہ اکبر میں لکھتے ہیں کہ جو شخص ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کی خلافت کا انکار کرے تو وہ کافر ہے۔ کیونکہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر ان دونوں کی خلافت پر تو صحابہ کا اجماع ہے۔
مجددالف ثانی کا فتویٰ:
مجدد الف ثانی اپنی مختلف مکتوبات میں روافض کو کافر لکھتے ہیں۔ اور ایک رسالہ مستقل روافض پر لکھا ہے۔ جس کا نام “رد روافض ہے”۔ اس رسالے میں لکھتے ہیں: “اس میں شک نہیں کہ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما صحابہ میں سب سے
افضل ہیں۔ پس یہ اس سے یہ بات ظاہر ہے کہ ان کو کافر کہنا اور ان کی کمی بیان کرنا کفر اور زندیقیت اور گمراہی کا باعث ہے۔
فتاوی عالمگیری کا فتویٰ:
اگر روافض حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کی شان میں گستاخی کریں اور ان پر لعنت کریں تو کافر ہیں۔ اور روافض دائرہ اسلام سے خارج ہیں اور کافر ہیں اور ان کے وہی احکام ہیں جو شریعت میں مرتدین کے ہیں۔
شاہ ولی اللہ محدث دھلوی کا فتویٰ:
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اپنی کتاب “مسوی شرح موطا امام محمد” میں لکھتے ہیں کہ اگر کوئی خود کو مسلمان کہتا ہے لیکن بعض ایسی دینی حقیقتوں کی کہ جن کا ثبوت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قطعی طور پر ثابت ہے اور ایسی تشریح و
تاویل کرتا ہے جو صحابہ تابعین اور اجماع امت کے خلاف ہے تو اس کو زندیق کہا جائے گا۔ اور وہ لوگ بھی زندیق ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ ابوبکر و عمر اہل جنت میں سے نہیں ہیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کو
نبی نہیں کہا جائے گا۔ لیکن نبوت کی جو حقیقت ہے یعنی کسی انسان کا اللہ کی طرف سے مبعوث ہونا اور اس کی اطاعت کا فرض ہونا اور اس کا معصوم ہونا اور یہ سب خصوصیات ہمارے اماموں کو حاصل ہیں تو یہ عقیدہ رکھنے والے زندیق ہیں۔ اور جمہور متاخرین حنفیہ، شافعیہ کا اتفاق ہے کہ یہ واجب القتل ہیں۔
صاحب در مختار کا فتویٰ:
حضرت ابو بکر و حضرت عمر رضی اللہ عنہما میں سے کسی ایک کو برا بھلا کہنے والا یا ان میں سے کسی ایک پر بھی طعن کرنے والا کافر ہے اور اس کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی۔
علامہ شامی کا فتویٰ:
جو لوگ حضرت عائشہ پر تہمت لگائے یا حضرت ابوبکر کی صحابیت کا انکار کرے تو اس کے کفر میں کسی شک کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
مولانا رشید احمد گنگوہی کا فتویٰ:
مولانا رشید احمد گنگوہی “ہدایت الشیعہ” میں لکھتے ہیں کہ شیعہ بے ادب ہیں جو چند کلمۂ توحید زبان سے کہتے ہیں اور صرف کلمات کی وجہ سے وہ مسلمان نہیں ہو سکتے۔
حضرت انور شاہ کشمیری کا فتویٰ:
اس بات میں کوئی اختلاف نہیں کہ ابوبکر و عمر و عثمان رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے کسی ایک کی خلافت کا منکر بھی کافر ہے۔
مولانا احمد رضا خان بریلوی کا فتویٰ:
مولانا احمد رضا خان بریلوی اپنی کتاب “رد الرافضۃ” میں بڑی تفصیل سے ذکر کرتے ہیں جس کا اختصار یہ ہے کہ جو حضرات حضرت ابو بکر صدیق و حضرت عمر فاروق یا ان میں سے کسی ایک کی شان میں گستاخی کرے اگرچہ صرف
اسی قدر ہو کہ انہیں امام و خلیفہ برحق نہ مانے تو وہ فقہ حنفی کی معتبر کتابوں کی تصریحات اور عام ائمه ترجیح و فتوی کی تصحیحات سے یہ مطلقاً کافر ہیں۔
فرقہ روافض کے بارے میں مزید معلومات کے لیے درج ذیل کتب کا مطالعہ کریں:
فرقہ روافض کے رد پر بے شمار کتابیں لکھی گئیں ہیں جن میں سے چند کے نام یہاں ذکر کیے جا رہے ہیں:
01۔ تاریخی دستاویز (ابوریحان ضیاء الرحمن فاروقی)
02۔ الشيعه والقرآن (علامہ احسان الہی ظہیر)
03۔ الشیعه والتشیع (علامہ احسان الہی ظہیر)
04۔ شیعہ سنی اختلافات اور صراط مستقیم (مولانا محمد یوسف لدھیانوی)
05۔ الشیعۃ واہل سنۃ (علامہ احسان الہی ظہیر)
06۔ ھدية الشيعة (مولانا محمد قاسم نانوتوی)
07۔ ارشاد الشیعہ (مولانا محمد سرفراز خان صفدر)
08۔ حقیقت شیعہ (مولانا مہر علی)
09۔ تاریخ مذہب شیعہ (مولانا عبدالشکور مرزا پوری)
10۔ ایرانی انقلاب، امام خمینی اور شیعیت (مولانا محمد منظور نعمانی)
11۔ تحفہ امامیہ (مولانا حافظ مہر محمد میانوالی)
12۔ عقائد شیعہ (مولانا حافظ مہر محمد میانوالی)
13۔ شیعہ کیوں مسلمان نہیں (مولانا قاضی مظہر حسین چکوال)
14۔ فقہ جعفریہ اور مسلمان (مولانا حافظ مہر محمد میانوالی)
15۔ شیعہ کی اسلام سے بغاوت (قاری اظہر ندیم)
16۔ شیعه اکابرین امت کی نظر میں (نامعلوم مرتب)
17۔ مذہب شیعہ (مولانا اللہ یار چکڑیالوی)
18۔ قاتلان حسین کی خانہ تلاشی (مولانا عبدالشکور فاروقی لکھنوی)
19۔ ارتداد شیعہ (مولانا عبد الشکور فاروقی لکھنوی)
20۔ عظیم فتنہ (مولانا قاضی مظہر حسین چکوال)