Muslim Firqa
فرقوں کا بیان
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کے فرقوں کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ:
عَنْ عَبْدِاﷲِ بْنِ عُمْرِوقَالَ: وَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم لَیَا تِیَنَّ عَلَی اُمَّتِی کَمَا اَتَی عَلٰی بَنِی اِسْرَائِیْلَ حَذْوَالنَّعْلِ بِالنَّعْلِ، حَتّٰی اِنْ کَانَ مِنْھُمْ مَنْ اٰتَی اُمَّہ، عَلَانِیَۃً لَکَانَ فِی اُمَّتِی مَنْ یَّصْنَعُ ذٰلِکَ وَاِنَّ بَنِی اِسْرَائِیلَ تَفَرَّقَتْ عَلَی ثِنْتَیْنِ وَسَبْعِیْنَ مِلَّۃً وَتَفْتَرِقُ اُمَّتِی عَلٰی ثَلَاثِ وَّسَبْعِیْنَ مِلَّۃِ کُلُّھُمْ فِی النَّارِ اِلَّا مِلَّۃً وَّاحِدَۃً قَالُوْا مَنْ ھِیَ یَا رَسُوْلَ اﷲِ؟ قَالَ مَا اَنَا عَلَیْہِ وَاَصْحَابِی۔
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمرو سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بیشک میری امت پر ایک ایسا زمانہ آئے گا جیسا کہ بنی اسرائیل پر آیا تھا اور دونوں میں مماثلت ایسی ہوگی جیسا کہ دونوں جوتے ہوتے ہیں بالکل برابر اور ٹھیک ہوتے ہیں یہاں تک کہ بنی اسرائیل میں
سے اگر کسی نے اپنی ماں کے ساتھ اعلانیہ زنا کیا ہوگا تو میری امت میں بھی ایسے لوگ ہوں گے جو ایسا ہی کریں گے اور بنی اسرائیل والے بہتر فرقوں میں تقسیم ہوگئے تھے اور میری امت تہتر فرقوں میں تقسیم ہوگی اور وہ تمام فرقے دوزخی ہوں گے ان میں سے صرف ایک فرقہ جنتی ہوگا۔ صحابہ نے عرض کیا
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنتی فرقہ کون سا ہوگا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو میرے اور میرے صحابہ کرام کے طریقے پر ہوگا۔
اب ذیل میں ان مشہور فرقوں میں سے سب سے پہلے اس فرقہ ناجیہ یعنی کہ اہلِ سنت والجماعت کا ذکر کرتے ہیں:
Muslim Firqa
فرقہ ناجیہ (اہلِ سنت والجماعت)
مذکورہ حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد کے مطابق جنتی فرقہ وہ ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پر اور آپ کے صحابہ کرام کے طریقے پر ہوگا۔ اس فرقے کو اہل سنت والجماعت کہا جاتا ہے۔
“اہل سنت والجماعت” میں تین لفظ ہیں۔ اہل، سنّت اور جماعت۔ اب ذیل میں ان میں لفظ کا معنی اور مفہوم بیان کرتے ہیں۔
اہل سے مراد متبعین اور مقلدین اشخاص ہیں۔
سنت کا لغوی معنی “طریقہ” ہے اور دینی اصطلاح میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا طرزِ زندگی، طریقے اور عمل کو سنت کہتے ہیں۔
جماعت کا لغوی معنی “گروہ” ہے۔ لیکن یہاں جماعت سے مراد صحابہ کرام کی جماعت ہے۔
سید سلمان ندوی اہلِ سنت والجماعت کی تعریف یوں کرتے ہیں کہ “اہلِ سنت والجماعت سے مراد وہ لوگ ہیں کہ جنہوں نے اپنے عقائد اور اصولِ حیات اور عبادات و اخلاق میں اس راہ کو پسند کیا کہ جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم عمر بھرچلتے رہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کے صحابہ اس راہ پر چل کر منزلِ مقصود کو پہنچے۔
“يَوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوْہٌ” کی تفسیر میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ جیسے صحابہ فرماتے ہیں کہ اس سے مراد اہل سنت والجماعت ہیں۔
اور پھر مزید یہ کہ اہل سنت والجماعت سب سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا مقتدیٰ اور پیشوا مانتے ہیں اور اس کے بعد آپ کے ارشاد (ما انا عليه واصحابی) کے مطابق صحابہ کو بھی معیار حق مانتے ہیں اور خاص کر خلفاء راشدین صحابہ کہ جن کے بارے میں خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی موجود ہے کہ:
“علیکم بسنّتی و سنّۃ الخلفاء الراشدین المھدیین من بعدی تمسکو ا بھا و عضوا علیھا بالنواجد”
ترجمہ: میری سنت کو لازم پکڑو اور خلفاء راشدین کی سنت کو بھی جو ہدایت یافتہ ہیں اور میرے بعد ان کو دانتوں سے مضبوطی سے پکڑے رکھو۔
اور پھر اس کے بعد “اہل سنت والجماعت” والے چاروں اماموں یعنی امام ابو حنیفہ، امام شافعی، امام مالک اور امام احمد رحمہم اللہ علیہم کو حق پر تسلیم کرتے ہوئے ان میں سے کسی ایک کی مسائل میں اتباع کو ضروری قرار دیتے ہیں۔
اور پھر مزید یہ کہ اہل سنت والجماعت کے نزدیک ادلّہ شرعیہ چار ہیں۔ ان چاروں کو ہی ماننا ضروری ہے۔ وہ ادلّہ شرعیہ یہ ہیں:
1۔ قرآن 2۔ حدیث 3۔ اجماع (یعنی جس پر امت اتفاق ہو چکا ہو) 4۔ قیاس (یعنی کہ جب بعض فقہی مسائل کے حل موجود نہیں ہوتے تو پھر جن
مسائل کا حل موجود ہے اس کی علت دیکھ کر اس پر بھی وہی حکم لگا دیتے ہیں)۔
ان چاروں اماموں کا اتفاق صحابہ کے اتفاق پر مبنی ہیں اور ائمہ اربعہ کا اختلاف بھی صحابہ کے اختلاف پر مبنی ہیں۔ اور جن مسائل میں صحابہ اور ائمہ اربعہ کا
اجماع ہے ان مسائل میں اختلاف کرنا بھی اجماع سے نکلنا ہے اور جن مسائل میں ائمہ اربعہ میں اختلاف ہے ان میں کوئی نیا اختلاف پیدا کرنا بھی اجماع کے خلاف ہے اور جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ لوگ اہل سنت والجماعت میں سے نہیں ہیں۔
اسی کو بعض روایات میں سواد اعظم کہا گیا ہے اور اسی سواد اعظم کی ہی اتباع کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما کی روایت سے معلوم ہوتا ہے:
عَنْ اِبْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمَا قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَجْمَعُ هذه الأمۃُ عَلَى الضَّلَالَةِ أَبَدًا وَیَدُ اللّٰهِ عَلَى الْجَمَاعَةِ فَاتَّبِعُوا السَّوَادَ الْأَعْظَمَ فَإِنَّهُ مَنْ شَذَّ شُذَّ فِي النَّارِ
ترجمہ: حضرت عبدا للہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالٰی اس امت کو کبھی
گمراہی پر جمع نہیں کرے گا اور اللہ کی مدد جماعت پر ہوتی ہے لہذا تم امت کے سواد اعظم (یعنی بڑی جماعت) کی اتباع کرو اور جو اس سے الگ رہے گا وہ الگ کرکے جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔
بالکل اسی طرح کی روایت دو اور صحابہ کرام سے بھی مروی ہے۔
فرقہ ناجیہ کے بارے میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب “حجۃ اللہ البالغہ” کی جلد 01 کے صفحہ نمبر 170 پر لکھتے ہیں کہ:
أَقُولُ اَلْفِرْقَةُ النَّاجِيَةُ هُمُ الْأٰخِذُونَ فِي الْعَقِيْدَةِ وَالْعَمَلِ بِمَا ظهَرَ مِنَ الْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ وَجَريٰ عَلَيْهِ جَمْهُوْرُ الصَّحَابَةِ وَالتَّابِعِيْنَ۔
ترجمہ: میں کہتا ہوں کہ نجات حاصل کرنے والا فرقہ وہ ہے جو عقیدہ اور عمل دونوں میں اس چیز کو لیتا ہے جو کتاب اور سنت سے ظاہر ہو اور جمہور صحابہ کرام اور تابعین کا اس پر عمل ہو۔
اور اسی جلد کے اسی صفحہ پر فرقہ غیر ناجیہ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ:
وَغَيْرُ النَّاجِيَةِ كُلُّ فِرْقَةٍ إِنْحَلَّتْ عَقِيدَةً خِلَافَ عَقيدَة السَّلَفِ أَوْ عَمَلاً دُوْنَ أَعْمَالِهِمْ۔
ترجمہ: اور بغیر نجات والا فرقہ وہ ہے جس نے سلف یعنی صحابہ اور تابعین کے عقیدہ اور عمل کے خلاف کوئی دوسرا عقید ہ اور عمل اپنا لیا ہو۔
بہر حال سارے کلام کا خلاصہ یہ ہے کہ نجات حاصل کرنے والا فرقہ وہ ہے جو عقائد اور احکام میں صحابہ کرام کے طریقے پر ہوں اور قرآن کے ساتھ احادیث نبویہ کو بھی صحیح مانتے ہوں اور اس پر عمل بھی کرتے ہوں۔
Muslim Firqa
اہل سنت والجماعت کے عقائد و نظریات
اہل سنت والجماعت کے عقائد میں بنیادی طور پر دو باتیں ہیں:
01۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو عقائد واعمال امت کو دیے ہیں ان پر ہی عمل کیا جائے۔
02۔ خدا کی ذات اور صفات کے بارے میں قرآن نے جو کچھ بیان کیا یا آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اس سلسلہ میں جو کچھ فرمایا ہے اور دوسرا جس مسئلہ کی قرآن مجید نے جو تشریح کی ہے صرف اسی پر ایمان لانا واجب ہے اپنی عقل و قیاس سے نصوص کی روشنی کے بغیر اس کی تشریح و تفسیر کرنا صحیح نہیں ہے اور
نہ اس پر ایمان لانا ضروری ہے بلکہ عین ممکن ہے کہ وہ گمراہی اور ضلالت کا سبب بنے۔
اہل سنت والجماعت کے عقائد کا سب سے مختصر مضمون تو یہ ہے:
اَشْهَدُ أَنْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَاَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ الله
ترجمہ: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔
اس کلمہ کے پہلے جملے کو شہادتِ توحید اور دوسرے جملے کو شہادتِ رسالت کہتے ہیں۔
اور ظاہر ہے کہ بندہ جب اللہ کے سوا اور کوئی معبود بھی نہیں مانتا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا رسول تسلیم کرتا ہے تو پھر اس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالی کی طرف سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر جتنے احکام نازل ہوئے ہیں ن سب کو وہ مانتا ہے۔
اہل سنت والجماعت کے عقائد میں پھر کچھ تفصیل ہے:
اٰمَنْتُ بِاﷲِ وَمَلٰئِکَتِهِ وَکُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَالْقَدْرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ مِنَ اﷲِ تَعَالٰی وَالْبَعْثِ بَعْدَ الْمَوْتِ
ترجمہ: میں ایمان لایا اللہ پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے پیغمبروں پر اور آخرت کے دن پر اور اس (بات) پر کہ اچھی بُری تقدیر اللہ
کی طرف سے ہے اور موت کے بعد اُٹھائے جانے پر۔
اب ذیل میں ان میں سے ہر ایک کی مختصر تفصیل بیان کی جاتی ہے:
Muslim Firqa
اللہ پر ایمان
سب سے پہلا اور سب سے بنیادی عقیدہ یہ ہے کہ ہم اللہ تعالی پر ایمان لائیں۔ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اللہ تعالی کو ان تمام صفات کے ساتھ مانیں جن کو اللہ اور اسکے رسول نے بتایا ہے۔ یعنی ہم یہ دل سے مانیں اور زبان سے اقرار کریں کہ اللہ ایک ہے۔ وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ ہی رہے گا۔
وہ کسی کا محتاج نہیں اور ساری مخلوقات اس کی محتاج ہیں۔ وہ ہر چیز پر قادر ہے اور وہ ہر پوشیدہ اور ظاہر شے کا علم رکھتا ہے۔ اس کو موت نہیں آتی اور نہ ہی اس کو نیند آتی ہے۔ دنیا اور دنیا کی ساری چیزیں پہلے نہیں تھیں ان تمام چیزوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنے ارادے اور مشیت سے پیدا کیا اور وہ جب چاہے ان کو ختم کر
سکتا ہے۔ اس کے ساتھ کوئی شریک نہیں اور اس جیسا کوئی نہیں۔ نہ اس کے ماں اور باپ ہیں اور نہ اس کی کوئی اولاد ہے اور وہ ان سارے جسمانی رشتوں سے پاک ہے۔ وہ ساری دنیا کا بادشاہ ہے اس کے حکم سے کوئی چیز باہر نہیں۔ اور وی موت دیتا ہے اور وہی اپنے بندوں کو تمام آفتوں سے بچاتا ہے اور وہی
عزت و ذلت دینے والا ہے۔ وہ عظمت اور کبریائی والا ہے، گناہوں کو بخشنے والا ہے، روزی پہنچانے والا ہے، جس کی روزی چاہے تنگ کرے جس کی چاہے کشادہ کرے، جس کو چاہے پست کرے، جس کو چاہے بلند کرے۔
ایمان بالقدر
اس پورے جہان میں جو کچھ اچھا یا برا ہوتا ہے ان سب کاموں کا اللہ تعالٰی کو اس کام کے ہونے سے پہلے ہمیشہ سے پتا ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے علم کے مطابق اس کو کرتا ہے۔ اس فعل کا نام تقدیر ہے۔ اپنے بندوں کو اللہ تعالی نے سمجھ بوجھ اور ارادہ دیا ہے جس سے وہ گناہ اور ثواب کا کام اپنے اختیار سے کرتے ہیں۔
مگر اللّٰہ تعالیٰ نے بندوں کو کسی کام کے پیدا کرنے کی قدرت نہیں دی ہے۔ گناہ کے کام کرنے سے اللہ تعالی ناراض اور ثواب کے کام کرنے سے اللہ تعالیٰ خوش ہوتے ہیں۔
اللہ تعالی نے بندوں کو کسی ایسے کام کے کرنے کا حکم نہیں کیا جو بندوں سے نہ ہو سکے۔ اور کوئی چیز اللہ تعالیٰ کے ذمہ ضروری بھی نہیں ہے وہ جو کچھ مہربانی کرتا ہے وہ سب اللہ تعالیٰ کا فضل ہے۔
ایمان بالرسالت
اللہ تعالی نے بندوں کی اصلاح اور سیدھی راہ بتانے کیلئے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء بھیجے، ان انبیاء کو اللہ تعالیٰ نے اپنے ارادہ اور اپنی پسند سے منتخب کیا۔ سب انبیاء کرام گناہوں سے پاک ہیں۔
معجزات
انبیاء کرام کی سچائی بتلانے کیلئے اللہ تعالی نے ان کے ہاتھوں سے ایسی مشکل باتیں یا کام کروائے کہ جو اور عام لوگ نہیں کر سکتے ایسی باتوں یا کاموں کو معجزہ کہتے ہیں۔
اللہ تعالی نے فرشتوں کے ذریعے ہدایت، تعلیم اور احکام انبیاء کرام پر نازل فرمائے پھران انبیاء نے ان کو اپنے زمانہ کے لوگوں تک پہنچایا۔ اللہ تعالیٰ کے اس پیغام کو وحی کہتے ہیں۔
ان انبیاء کرام میں سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام تھے اور سب سے آخر میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی دوسرا شخص نبوت پر سرفراز نہیں ہو سکتا۔ اور جو ایسا دعوی کرے وہ جھوٹا
اور کذاب ہے۔ نبوت و رسالت کا منصب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر ختم ہو گیا۔ اب قیامت تک جتنے آدمی اور جن آئیں گے ان سب کےلیے آپ ہی پیغمبر ہیں۔ مگر پیغمبروں میں سے بعضوں کا مرتبہ بعضوں سے بڑا ہے اور سب سے زیادہ مرتبہ ہمارے پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے۔
ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالی نے بیداری کی حالت میں جسم کے ساتھ مکہ سے بیت المقدس تک اور پھر بیت المقدس سے ساتوں آسمانوں پر اور وہاں سے جہاں تک اللہ نے چاہا وہاں تک سیر کروائی اور پھر واپس مکہ میں پہنچا دیا۔ اس سارے سفر کو معراج کہتے ہیں۔
Muslim Firqa
ایمان بالملائکہ
اللہ تعالی نے انسانوں کے علاوہ کچھ اور مخلوقات کو نور سے بغ پیدا کرکے ان کو ہماری نگاہوں سے پوشیدہ کیا ہے۔ ان کو فرشتہ کہتے ہیں۔ اللہ تعالی نے تدبیر عالم کے بہت سے کام اپنے ارادہ اور چاہت سے کسی مصلحت سے ان فرشتوں کے سپرد کیے ہیں وہ اللہ تعالی کے احکام بجالاتے ہیں اور اپنے ذمہ شدہ کاموں
کے کرنے میں ذرہ برابر بھی کوتاہی یا نافرمانی نہیں کرتے۔
وہ نہ تو انسانوں کی طرح کھاتے اور پیتے ہیں اور نہ ہی انسانوں کی طرح مرد اور عورت ہیں۔
اور اللہ تعالی نے کچھ مخلوقات کو آگ سے بھی پیدا کیا ہے اور ان کو بھی ہماری نظروں سے پوشیدہ کیا ہے ایسی مخلوق کو جن کہتے ہیں۔ ان میں نیک اور برے
دونوں طرح کے ہوتے ہیں اور ان کی اولاد بھی ہوتی ہے۔ اور پھر ان سب میں سب سے زیادہ مشہور شیطان ہے۔ جو لوگوں کو گناہ کرنے پرآمادہ کرتا ہے اور ان کے دلوں میں وسوسے ڈالتا ہے اور اللہ تعالیٰ کا نافرمان ہے۔
مسلمان جب خوب عبادت کرتا ہے اور اللہ تعالی کے حکموں پر پوری طرح چلتا ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بتلائے ہوئے طریقہ پر عمل کرتا ہے تو اللہ تعالی بھی اس کو محبوب بنا لیتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کے اس محبوب شخص کو ولی کہتے ہیں۔
اور اللہ تعالیٰ ایسے شخص کے ذریعہ سے بعض ایسی باتیں ظاہر کرتا ہے جو اور لوگوں سے نہیں ہو سکتیں اور ایسی باتوں کو کرامت کہتے ہیں۔ ولی خواہ کتنا ہی بڑا ہو جائے مگر نبی کے برابر نہیں ہو سکتا۔ وہ خدا کا کتنا ہی محبوب ہو جائے مگر جب تک اس کے ہوش و حواس درست ہیں تو اس کا شریعت کا پابند رہنا فرض ہے۔
نماز، روزہ اور کوئی فرض عبادت اس سے معاف نہیں ہوتی۔ اور کوئی گناہ اس کے لئے جائز نہیں ہو جاتا۔
ان ولیوں کو بعض راز کی باتیں سوتے یا جاگتے میں معلوم ہو جاتی ہیں۔ ان باتوں میں جو شریعت کے موافق ہو وہ قبول ہے اور اگر شریعت کے خلاف ہے تو رد ہے۔
اللہ اور رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے دین کی سب ضروری باتیں قرآن وحدیث کے ذریعے اپنے بندوں کو بتادی ہیں۔ اب دین میں کوئی نئی بات نکالنا جو پہلے دین میں نہیں ہے ایسا کرنا درست نہیں، ایسی نئی بات کو بدعت کہتے ہیں۔ اور بدعت بہت بڑا گناہ ہے۔
دین کی بعض ایسی باتیں بھی ہیں جو قرآن و حدیث میں واضح مذکور نہیں ہیں۔ پھر دین کے بڑے بڑے عالموں نے جن کو قرآن وحدیث کے علم میں کمال حاصل تھا انہوں نے اپنے علم و فہم کے ذریعے قرآن وحدیث سے وہ باتیں نکال کر بیان کی ہیں اور وہ بدعت نہیں ہیں۔ ایسے بڑے عالموں کو مجتہد کہتے ہیں۔
جن میں سے چار مشہور مجتہدین یہ ہیں:
امام ابو حنیفہ
امام مالک
امام شافعی
امام احمد بن حنبل
ایمان بالکتاب
اللہ تعالی نے اپنے پیغمبروں پر لوگوں کی ہدایت کیلئے مختلف زبانوں میں چھوٹی بڑی بہت سی کتابیں نازل کیں۔ جن میں اللہ تعالی نے ان پیغمبروں کے ذریعے ان کی امتوں کو اپنے احکام اور ہدایات سے آگاہ فرمایا۔ پھر ان میں چار کتابیں بہت مشہور ہیں:
01۔ تورات: جو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی
02۔ زبور: جو حضرت داؤد علیہ السلام پر نازل ہوئی
03۔ انجیل: جو حضرت عیسی علیہ السلام پر نازل ہوئی
04۔ قرآن مجید: جو ہمارے پیغمبر حضرت محمد پر نازل ہوا۔
یہ قرآن مجید آخری کتاب ہے۔ اب اس کے بعد کوئی آسمانی کتاب نہیں آئے گی۔ اس کتاب کی کسی چھوٹی سی بات کا بھی انکار کرنے سے آدمی کافر ہو جاتا ہے۔ اس قرآن مجید کی حفاظت کا زمہ اللہ نے خود لیا ہے۔ دوسری آسمانی کتابوں میں گمراہ لوگوں نے بہت کچھ بدل ڈالا مگر قرآن مجید کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالی نے لیا ہے اب اس کو قیامت تک کوئی بدل نہیں سکتا۔
صحابی
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جس مسلمان نے صحبت پائی اور موت تک اسلام پر قائم رہا اس کو صحابی کہتے ہیں۔ تمام صحابہ سے محبت اور اچھا گمان رکھنا چاہنے۔ اگر کوئی لڑائی جھگڑا ان کا سننے میں آئے تو اس کو ان کی بھول چوک سمجھنی چاہیے اور انکی برائی نہ کرے۔ تمام صحابہ کے درجات مختلف ہیں پھر ان میں بڑے
چار صحابی ہیں:
01۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد حضرت ابوبکر صدیق آپ کی جگہ پر بیٹھے اور خلافت کا نظام سنبھالا۔ اس لئے یہ خلیفہ اول کہلاتے ہیں۔ تمام امت میں یہ سب سے بہترین ہیں۔
02۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ۔ یہ دوسرے خلیفہ ہیں۔
03۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ ہیں یہ تیسرے خلیفہ ہیں۔
04۔ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ ہیں یہ چوتھے خلیفہ ہیں۔
اہلِ بیت
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد اور بیویاں سب تعظیم کے لائق ہیں۔ اولاد میں سب سے بڑا رتبہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کا ہے اور بیویوں میں حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں تمام مسلمانوں کی مائیں ہیں۔ اسی لئے ان کا احترام کریں اور اہل بیت سے محبت کریں۔
کفر کی بعض باتیں
اللہ اور رسول کی تمام باتوں کو سچا سمجھے اور اپنےعمل سے بھی ظاہر کرے۔ اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بات میں شک کرنا یا اس کو جھٹلانا یا اس میں عیب نکالنا یا اس کے ساتھ مذاق اڑانا ان تمام باتوں سے ایمان ختم ہو جاتا ہے۔
گناہ کو حلال سمجھنے سے بھی ایمان جاتا رہتا ہے۔ گناہ خواہ کتنا ہی بڑا ہو جب تک اس کو برا سمجھے گا اس سے ایمان ختم نہیں ہوتا البتہ کمزور ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالی کی رحمت سے مایوس ہو جانا بھی کفر ہے۔ اسی طرح کسی سے غیب کی باتیں پوچھنا اور اس کا یقین کرنا بھی کفر ہے البتہ نبیوں کو وحی سے، اور ولیوں کو کشف
والہام سے، اور عام لوگوں کو استدراج اور ارہاص نشانیوں سے کسی کو کوئی بات معلوم ہو سکتی ہے۔ اور کسی شخص کا نام لے کر کافر کہنا یا لعنت کرنا بڑا گناہ ہے ہاں البتہ یوں کہہ سکتے ہیں کہ ظالموں پہ لعنت، جھوٹوں پر لعنت وغیرہ۔ جن کا نام لے کر اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت کی ہے یا ان کے کفر
کی خبر دی ہے تو ان کو کافر و ملعون کہنا گناہ نہیں ہے۔ گناہ کرنے سے آدمی کافر نہیں ہو جاتا صرف گنہگار ہوتا ہے۔ ایسا شخص اگر توبہ کرے اور اللہ تعالی سے سچے دل سے معافی مانگے تو اللہ تعالی معاف فرما سکتے ہیں اور اگر اللہ تعالی چاہیں تو بغیر توبہ کے بھی وہ گناہ معاف کر سکتے ہیں۔
پچھلے دن پر ایمان
پچھلے دن پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ موت کے بعد سے لے کر قیامت تک اور قیامت کے بعد جنت اور جہنم کے جو حالات اور واقعات قرآن و حدیث سے ثابت ہیں تو ہر مسلمان پر لازم ہے کہ سچے دل سے ان پر یقین کرے اور زبان سے بھی ان کا اقرار کرے۔ ان میں کسی ایسے واقعہ کا انکار جو قرآن اور حدیث سے ثابت ہے کفر ہے۔
جس وقت انسان پر موت کے آثار طاری ہوتے ہیں اور اس پر برزخ کے حالات کھلنے لگتے ہیں تو ایسے وقت میں اب کسی بھی شخص کی توبہ قبول نہیں ہوتی۔
موت کیلئے مقرر فرشتے مردہ کے جسم سے روح نکالتے ہیں تو نیک لوگوں کی روح آسانی سے نکلتی ہے اور برے لوگوں کی روح بڑی سختی اور تکلیف سے نکلتی ہے۔ اور پھر اسی وقت سے جزا اور سزا کا معاملہ شروع ہو جاتا ہے۔
جب آدمی مرجاتا ہے تو اگر دفن کیا جائے تو دفنانے کے بعد اور اگر دفن نہ کیا جائے تو جس حال میں بھی ہو اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں۔ اور سوال کرتے ہیں کہ تیرا رب کون ہے؟ تیرا دین کیا ہے؟ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق سوال کیا جاتا ہے کہ یہ کون ہیں؟ اگر مرنے والا شخص ایمان والا ہوا
تو وہ ٹھیک جواب دیتا ہے۔ اس کے بعد پھر اس کے لئے ہر طرح کا چین ہے اور فرشتہ اس سے کہتا ہے کہ آرام کی نیند سو جا۔ اور اگر وہ مردہ ایمان سے محروم ہو تو وہ ہر سوال کے جواب میں یہی کہتا ہے کہ مجھے نہیں پتا۔ تو پھر اس کے بعد اس کے ساتھ سختی اور سزا کا معاملہ شروع ہو جاتا ہے۔
اور بعض لوگوں کو اللہ تعالی اس امتحان سے معاف فرما دیتا ہے اور یہ باتیں مردے کو تو معلوم ہوتی ہیں مگر ہم لوگ نہیں دیکھ سکتے۔ جیسا کہ سوتا ہوا آدمی خواب میں سب کچھ دیکھتا ہے اور آرام یا تکلیف اٹھاتا ہے اور اس کے پاس بیٹھا ہوا دوسرا بیدار آدمی اس سے بالکل بے خبر رہتا ہے۔ مردے کے لئے دعا
کرنے سے یا کچھ صدقہ دے کر بخشنے سے اس کو ثواب پہنچتا ہے اور اس سے اس کو فائدہ پہنچتا ہے۔
اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت کی جتنی نشانیاں بتائی ہیں وہ سب ضرور ہونے والی ہیں۔
امام مہدی علیہ السلام ظاہر ہوں گے اور خوب انصاف سے بادشاہت کریں گے۔ کانا دجال نکلے گا اور دنیا میں بہت فساد برپا کرے گا اور اس کے قتل کرنے کیلئے حضرت عیسی علیہ السلام آسمان سے نازل ہوں گے اور اس کو قتل کریں گے۔ پھر یاجوج ماجوج تمام روئے زمین پر پھیل جائیں گے اور فساد برپا کریں
گے پھر خدا کے قہر سے ہلاک ہوں گے۔ اور ایک عجیب وغریب جانور زمین سے نکلے گا اور وہ آدمیوں سے باتیں کرے گا۔ اور سورج مغرب کی طرف سے طلوع ہوگا۔ اور قرآن اٹھ جائے گا اور چند روز میں تمام مسلمان ہلاک ہو جائیں گے اورساری دنیا کافروں سے بھر جائے گی۔ کوئی اللہ کا نام لینے والا باقی نہیں
رہے گا اور بہت سی باتیں (نشانیاں) ہوں گی۔ جب ساری نشانیاں پوری ہو جائیں گی تب قیامت واقع ہوگی ۔
Muslim Firqa
قیامت
ایک فرشتہ کہ جس کا نام اسرافیل ہے وہ اللہ کے حکم سے صور پھونکے گا۔ جس سے تمام زمین، آسمان، سورج، چاند، تارے اور پہاڑ سب ٹوٹ پھوٹ کر ٹکڑے ٹکرے ہو جائیں گے۔ تمام مخلوقات مرجائیں گی۔ اور جو پہلے مر چکے ہیں ان کی بھی روحیں ہیہوش ہو جائیں گی۔ لیکن اللہ تعالی ۔ے جن کو بچانا ہو
گا ان کو بچالیں گے۔ پھر ایک مدت اسی کیفیت میں گزر جائے گی۔ پھر جب اللہ تعالی چاہیں گے کہ تمام عالم دوباره پید اہو تو پھر دوسری مرتبہ صور پھونکا جائے گا جس کی وجہ سے مردے زندہ ہو جائیں گے اور قیامت کے میدان میں سب اکٹھے ہو جائیں گے اور اس دن کی تکلیفوں سے گھبرا کر سب پیغمبروں
کے پاس سفارش کیلئے جائیں گے۔ پھر اس کے بعد سب اچھے برے اعمال کا حساب ہو گا۔ جن کا نیکیوں والا پلڑا بھاری ہو گا وہ جنت میں جائیں گے اور جن کی نیکیاں اور برائیاں برابر ہوں گی وہ اعراف (جنت اور جہنم کے درمیان) میں ہوں گےاور اللہ تعالی جو چاہے گا ان کے ساتھ معاملہ کرے گا۔ اور جن کا
برائیوں والا پلڑا بھاری ہوگا وہ جہنم میں جائیں گے۔ مسلمانوں کی شفاعت ہوگی اور کافر ہمیشہ کیلئے جہنم میں رہیں گے۔ نیک لوگوں کا نامہ اعمال دائیں ہاتھ میں اور برے لوگوں کا نامہ اعمال بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کو حوض کوثر کا پانی پلائیں گے جو دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھا ہو گا۔ لوگوں کو پل صراط سے گزرنا ہو گا جو نیک لوگ ہوں گے وہ اس پل سے پار ہو کر جنت میں پہنچ جائیں گے اور جو برے ہوں گے وہ اس پل سے جہنم میں گر پڑیں گے۔
اللہ تعالیٰ کو اختیار ہے کہ چھوٹے گناہ پر سزا دیدے یا بڑے گناہ کو بھی محض اپنی مہربانی سے معاف کردے اور بالکل بھی اس پر سزا نہ دے۔
شفاعت
انبیاء کرام اور بزرگ لوگ اللہ تعالی کی مرضی سے ان گنہگار مسلمانوں کے حق میں (کہ جن کے بارے میں اللہ چاہیں گے) شفاعت کریں گے اور اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل و کرم سے شفاعت قبول فرمائیں گے۔
جنت
جنت پیدا ہو چکی ہے اور اس کے آٹھ طبقات ہیں۔ اور جنت میں باغ، نہریں، میوے، عالی شان محل، سایہ دار درخت اور اس کے علاوہ بھی مختلف قسم کی نعمتیں ہوں گی کہ جن کا تصور بھی دنیا میں نہیں ہو سکتا اور یہ سب نعمتیں ناختم ہونے والی ہوں گی یعنی نہ اللہ تعالیٰ ان نعمتوں کو چھینیں گے اور نہ وہ ختم ہوں
گی۔ جنتیوں کو ہمیشہ کی زندگی حاصل ہوگی اور وہاں ان کو نہ کوئی غم ہو گا اور نہ خوف اور نہ ہی موت آئے گی۔
جن لوگوں کا نام لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکا جنتی ہونا بتادیا تو ان کے علاوہ کسی اور کے جنتی ہونے کا یقینی حکم ہم نہیں لگا سکتے البتہ اچھی نشانیاں دیکھ کر اچھا گمان رکھنا اور اللہ تعالی کی رحمت سے امید رکھنا ضروری ہے۔ جنت میں سب سے بڑی نعمت اللہ تعالی کا دیدار ہے جو جنتیوں کو جنت میں نصیب
ہوگا۔ جس کے سامنے تمام نعمتیں کمتر معلوم ہوں گی۔ دنیا میں رہتے ہوئے ان آنکھوں سے اللہ تعالی کو کوئی نہیں دیکھ سکتا۔
ساری زندگی کوئی شخص اچھا رہا ہو یا برا مگر جس حالت میں موت آئی اور جس حالت پر اس کا خاتمہ ہوا اس کے مطابق جزا اور سزا ہوگی۔
جہنم
جہنم پیدا ہو چکی ہے اور اس کے سات طبقات ہیں۔ جہنم میں سانپ، بچھو، آگ اور اس کے علاوہ بھی مختلف قسم کا عذاب ہے۔ جہنمیوں میں سے جن میں ذرہ بھر بھی ایمان ہو گا وہ اپنے گناہوں کی سزا کاٹ کر پیغمبروں اور بزرگوں کی سفارش کے بعد جنت میں داخل ہوں گے خواہ وہ کتنے ہی بڑے گناہ گار ہوں اور
جو کافر اور مشرک ہیں وہ جہنم میں ہمیشہ رہیں گے اور ان کو موت بھی نہیں آئے گی۔