Wirasat | Wirasat ki taqseem| Islami Qanoon e Wirasat in Urdu pdf | wirasat ka Qanoon in islam | The Best Division of Inheritance According to Islamic Law | wirasat ka qanoon in pakistan (2023)

Wirasat

Wirasat | Wirasat ki taqseem| Islami Qanoon e Wirasat in Urdu pdf | wirasat ka Qanoon in islam | The Best Division of Inheritance According to Islamic Law | wirasat ka qanoon in pakistan (2023)
Wirasat | Wirasat ki taqseem| Islami Qanoon e Wirasat in Urdu pdf | wirasat ka Qanoon in islam | The Best Division of Inheritance According to Islamic Law | wirasat ka qanoon in pakistan (2023)

علم فرائض کی تعریف:

 

علم الفرائض اسلام میں نہایت قابل قدر علم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں نہایت وضاحت کے ساتھ اس کی تعلیم فرمائی ہے اور ہر وارث کے حصے کو واضح طور پر جدا جدا مقرر اور متعین فرمادیا ہے۔ اور چونکہ عربی زبان میں مقرر کرنے اور

متعین شدہ کو فریضہ کہتے ہیں اور فریضہ کی جمع فرائض ہے اس لیے اس علم کو علم فرائض کہتے ہیں۔
ہر وارث کے حصے کو بیان کر کے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اس طرح تقسیم کی حکمتوں کو اللّٰہ تعالی ہی جانتا ہے تم

لوگ پوری طرح نہیں سمجھ سکتے۔ اس کے بعد مزید اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ جو لوگ ہمارے ان احکام کی پیروی کریں گے ہم ان کو جنت میں جگہ دیں گے اور جو لوگ ہماری بات کو نہیں مانیں گے وہ دوزخ کے مستحق ہوں گے۔ اور احکام کے

خاتمہ پر فرمایا کہ ہم ہی صاف و صریح احکام اپنی طرف سے اس لیے مقرر فرماتے ہیں تا کہ تم لوگ گمراہ نہ ہو جاؤ

کیونکہ مال و میراث کے بارے میں عدل وانصاف سے کام لینا بہت مشکل ہے کیونکہ اس میں ہر شخص یہی چاہتا ہے کہ بس اسی کا فائدہ ہو۔

غرض اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق جب اس علم اور اس کے احکام پر عمل کرنا ہدایت اور جنت میں داخلہ کا سبب ہے اور

اس سے ناواقف رہنے میں گمراہی کا خطرہ ہے اور اس کے خلاف عمل کرنے کا نتیجہ جہنم ہے تو اس علم کے سیکھنے سکھانے اور عمل

کرنے میں جس قدر فضیلت اور جس قدر تاکید ہو اتنا ہی بہت مناسب ہے۔

ایک مرتبہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اپنے ایک خطاب میں ارشاد فرمایا کہ اے لوگو “میں تمہارے درمیان ہمیشہ نہیں رہوں گا۔ فرائض کو سیکھو اور لوگوں کو سکھلاؤ۔ وہ وقت قریب ہے کہ جب وحی کا دروازہ بند ہو جائے گا۔ (یعنی آپ صلی

اللہ علیہ وسلم کی وفات پر وحی کا سلسلہ ختم ہو جائے گا) اور علم کے ختم ہونے کا وہ زمانہ آئے گا کہ دو آدمی ایک ضروری مسئلہ میں جھگڑتے ہوں گے لیکن کوئی (شخص ان کے درمیان شریعت کے مطابق) فیصلہ کرنے والا نہیں ملے گا۔”

ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ نے ارشاد فرمایا کہ اے لوگو فرائض کو ایسی توجہ اور محنت سے سیکھو جس طرح

تم قرآن پاک کو سیکھتے ہو۔ کبھی فرماتے تھے کہ اے مسلمانوں! فرائض کو سیکھو اس لیے کہ وہ تمہارے دین کا ایک ضروری علم ہے۔

Wirasat

علم فرائض کے متعلق ایک تنبیہ:

 

وراثت کا معاملہ کوئی اختیاری معاملہ نہیں بلکہ ایسا حق ہے کہ مرنے والا اور وارث نہ بھی چاہیں تب بھی ثابت ہو جاتا ہے۔
اگر وارث کسی آپس کی لڑائی جھگڑے کی وجہ سے یا دوسرے وارثوں کو فائدہ پہنچانے کی غرض سے چاہتا ہے کہ میں

فلاں میت کے مال میں سے حصہ نہ لوں تو اس کے چاہنے سے کچھ نہیں ہوسکتا۔ اگر میت نے مال چھوڑا ہے اور یہ شخص اس کے شرعی وارثوں میں سے ہے تو یہ شخص خود بخود شرعاً اس کا مالک اور وارث ہو جائے گا خواہ وہ شخص قبول

کرے یا نہ کرے۔ البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ اپنا حصہ لینے کے بعد کسی دوسرے کو دے دے اور اپنے پاس نہ رکھے۔
اسی طرح اگر مرنے والا شخص یہ چاہتا تھا کہ فلاں وارث میرے مال میں حصہ دار نہ بنے تو اس کی خواہش سے کچھ نہیں

ہوسکتا۔ اس کے مرنے کے بعد وہ شخص جو شرعا وارث ہے خود بخود اپنے حصے کا مالک بن جائے گا اور اس کا حصہ اس کو ضرور دیا جائے گا۔

اگر بالفرض اس مرنے والے نے عاق نامہ بھی تحریر کر دیا کہ میں اپنے فلاں وارث سے (بیٹا ہو یا بیٹی یا کوئی اور وارث

ہو) سے ناراض ہوں اور وہ میرے مال اور وراثت سے محروم رکھا جائے تو وہ وارث عاق نامہ کی وجہ سے شرعا محروم نہ ہوگا اور مقررہ حصہ اس کو ملے گا۔

ایسے ہی اگر اپنے ترکہ کے بارے میں شرعی قاعدے کے خلاف زبانی یا تحریری فیصلہ کر دیا کہ میری وفات کے بعد اس طرح سے تقسیم ہو یعنی شریعت کے مقرر کردہ حصوں سے کم و بیش حصہ مقرر کیا تو اس کا یہ فیصلہ باطل ہوگا اور

میراث شرعی اصولوں کے مطابق ہی تقسیم ہوگی۔ البتہ اگر ضرورت اور مجبوری ہو مثلاً کوئی وارث بد معاش ہو کہ اگر اس کو حصہ ملے گا تو وہ اس کو صرف اپنی او باشی اور بدمعاشی میں خرچ کرے گا تو اس وقت اس وارث کو محروم کرنے کی

صورت یہ ہے کہ موجودہ سامان و جائداد جن وارثوں کو دینا ہے وہ اپنی زندگی ہی میں ان کو دے کر ان کا قبضہ کرادے۔ اس

کے مرنے کے بعد جب کچھ مال ہی باقی نہیں بچے گا تو نہ میراث بھی جاری نہیں ہوگی۔ لیکن مجبوری اور شرعی عذر کے بغیر کسی وارث کو محروم کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔

رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا “جو شخص اپنے وارث کو میراث سے محروم کرے گا اللہ تعالٰی اس کو جنت سے محروم فرما دیں گے۔”

جو لوگ اپنی بیٹیوں اور بہنوں کو میراث سے محروم کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ شادی و غمی کی تقریبات میں کچھ نقد و جنس دے کر معاوضہ ادا کر دیا تھا وہ بھی اللہ کی نافرمانی کے مرتکب ہوتے ہیں اور عورتوں کا حق ظلم سے دباتے ہیں۔

 

Wirasat

کون سا مال میراث بنتا ہے اور کون سا مال میراث نہیں بنتا۔۔۔

 

وہ تمام مال اور جائیداد کہ جن پر شریعت نے کسی آدمی کی ملکیت ہونے کا حکم لگا یا ہے اور کسی دوسرے کا حق اس کے ساتھ شریک نہیں اور وہ اس مال یا جائداد کو چھوڑ کر مر گیا تو وہ سب مال میراث ہے خواہ وہ اس کو ماں باپ دادا وغیرہ

کسی رشتہ دار سے میراث میں ملا ہو یا بیوی یا شوہر کی جانب سے ملا ہو یا وہ مال خود کمایا ہو۔ خواہ وہ چیزیں زمین، باغ، مکان ، نقدی، زیور، کپڑا، جانور ہوں یا گھر کا سامان یا آرائش کا سامان، چھوٹی چھوٹی چیز بھی ترکہ میں داخل ہے یہاں

تک کہ میت کے بدن پر جو کپڑے موجود ہیں وہ بھی اس ترکہ میں داخل ہیں۔
اور جو مال میت کے پاس موجود ہو لیکن شریعت نے اس پر ملکیت کا حکم نہیں لگایا یا غیر کا حق اس کے ساتھ متعلق ہے تو

وہ مال ترکہ میں داخل نہیں ہوگا۔ جیسے اس کی مثالیں ذیل میں بیان کی جاتی ہیں:
01:

جو چیزیں میت نے کسی سے ادھار لی تھیں یا کسی نے اس کے پاس امانت رکھ دی تھیں ان میں وراثت جاری نہ ہوگی کیونکہ وہ میت کی ملکیت نہیں۔

02:
اگر میت نے کسی کا مال غصب، چوری یا خیانت کرکے اپنے پاس رکھ لیا تو اس میں بھی میراث جاری نہیں ہوگی۔ اسی طرح

سود اور رشوت اور بیمہ پالیسی میں جمع کرائی ہوئی رقم سے زائد مال میں بھی میراث جاری نہ ہوگی کیونکہ شریعت نے ان پر مالک ہونے کا حکم نہیں لگایا۔

03:
وہ چیز جس کو میت نے قرض کے عوض میں گروی رکھ دیا تھا اور میت نے اس قرض کو ادا کرنے کے لیے کوئی مال نہیں

چھوڑا تو وہ چیز میت کے ترکہ میں داخل نہیں ہوگی۔ اس چیز کو فروخت کرکے قرض خواہ اپنا قرض وصول کرے گا اور پورے قرض کی وصولی کے بعد اگر قیمت میں سے کچھ رقم بچے تو وہ وارثوں میں تقسیم ہوگی

۔

04:پنشن یا کوئی اور فنڈ جو حکومت یا کسی ادارے کی جانب سے ہمدردی کی بنیادوں پر ملے ہوں تو وہ مال بھی ترکہ میں شامل

نہیں بلکہ صرف ان افراد کا حق ہیں جو میت کے زیر کفالت تھے۔ البتہ اگر تصریح کی گئی ہو کہ یہ فنڈ صرف فلاں شخص کے لیے ہے تو پھر اس کا حق ہے۔

05:
اگر کسی چیز کے ساتھ شرعاً کسی شخص کا حق متعلق نہیں لیکن میت نے اپنی طرف سے اس چیز کو کسی شخص کے

نامزد کر دیا ہے اور اپنی ملکیت سے نکال کر اس شخص کی ملکیت اور قبضے میں نہیں دیا تو میت کے انتقال کے بعد اس چیز میں وراثت جاری ہوگی اور سب وارثوں کا حق سمجھی جائے گی۔ جس کے نامزد کی تھی اس کی کوئی خصوصیت نہ

رہے گی۔ مثلاً زید نے اپنے بیٹے کی شادی کے لیے نقد و جنس بہت کچھ جمع کیا تھا اور ارادہ تھا کہ اس کو خاص فلاں بیٹے کی شادی میں صرف کروں گا یا بیٹی کے لیے زیور اور کپڑا تیار کیا تھا کہ جہیز میں دوں گا ۔ اتفاق سے زید کا انتقال ہو گیا

تو اس سب مال و اسباب وزیور میں تمام وارثوں کا حق ہوگا اس بیٹے اور بیٹی کا علیحدہ سے کوئی خاص حق نہیں ہوگا۔ البتہ اگر وصیت کر گیا ہو تو وصیت کے قوانین کے مطابق اس پر عمل کیا جائے گا۔

06:
کسی جائیداد کی رجسٹری و کاغذات میں محض کسی شخص کا نام لکھنے سے وہ شخص اس کا مالک نہیں بن جائے گا جب

تک مالک اس شخص کو وہ جائیداد ہبہ کر کے اس پر اس شخص کا قبضہ نہ کروا دے۔

 

Wirasat

وراثت کی تقسیم سے پہلے والے حقوق:

 

تین حقوق ایسے ہیں جن وراثت کی تقسیم سے پہلے ادا کرنا ضروری ہے۔ ان حقوق کو ادا کرنے کے بعد وراثت تقسیم کی جائے گی۔ وہ تین حقوق یہ ہیں:

1۔ تجہیز و تکفین 2۔ قرض 3۔ وصیت
01۔ تجہیز و تکفین:

میت نے جو ترکہ چھوڑا ہے اس ترکہ میں سے سب سے پہلے اس کی تجہیز و تکفین کا خرچ لیا جائے گا۔ اور یہ کام شرعی طریقے سے سنت کے مطابق اور میت کی حیثیت کے مطابق کیا جائے یعنی کفن کے کپڑوں کی تعداد سنت کے مطابق ہو اور

کپڑا بھی ایسی قیمت کا ہو جس کو وہ شخص اپنی زندگی میں پہن کر عام طور پر گھر سے باہر نکلتا تھا۔ یعنی کہ نہ ہی کم قیمت والا کفن دیں جس سے اس کی تحقیر و تذلیل ہو نہ اتنا قیمتی کفن دیں کہ جس میں اسراف ہو اور وارثوں کے حق میں

کمی آئے۔ اور قبر کچی اور سادہ بنائی جائے خواہ میت مالدار ہو یا غریب ہو ۔ غسل دینے والے کی اجرت اور قبر کی کھدائی اور سامان وغیرہ کا خرچ بھی اسی طرح حسبِ حیثیت درمیانے درجہ کا کیا جائے۔

عورت کا اگر شوہر موجود ہو تو عورت کا کفن اس شوہر کے ذمے واجب ہے عورت کے ترکہ میں سے اس کا خرچ نہ لیا جائے۔ اگر شوہر نہیں ہے تو پھر عورت کے ترکہ اور مال میں سے خرچ کیا جائے۔

اگر کسی میت نے کچھ بھی مال اور ترکہ نہیں چھوڑا جس سے اس کی تجہیز و تکفین کی جائے تو اس کے وارثوں سے میراث کے حصہ کے بقدر چندہ جمع کیا جائے یعنی اگر مال ہوتا تو جس شخص کو مثلاً نصف ترکہ ملتا اس سے نصف

خرچہ لیا جائے گا اور جس شخص کو تہائی حصہ ملتا اس سے تہائی خرچہ وصول کیا جائے گا۔
اور اگر میت کے کوئی رشتہ دار بھی نہ ہو یا رشتے دار تو ہوں مگر مفلس اور محتاج ہوں یا پردیس میں ہوں تو تمام خرچ اسلامی حکومت یا پھر بیت المال سے لیا جائے گا۔

اور اگر اسلامی حکومت یا بیت المال بھی موجود نہ ہو تو محلہ والے یا شہر والوں میں سے ان لوگوں پر واجب ہوگا جن کو اس میت کے حالات کی اطلاع ہو کہ اور وہ سب چندہ کرکے اس کی تجہیز و تکفین کا سامان کریں۔

02۔ قرض:

جب تجھیز و تکفین مکمل کرنے کے بعد اگر کچھ مال باقی رہے اور میت پر قرض ہو تو اب پہلے قرض ادا کیا جائے گا۔

قرض کی دو قسمیں ہیں:

1۔ وہ قرض جو صحت میں یعنی مرض الموت سے پہلے میت کے اقرار سے ثابت ہوا ہو یا پھر گواہوں کی گواہی سے ثابت ہوا ہو۔

2۔ وہ قرض کہ جسکا مرض الموت میں میت نے اقرار کیا ہو۔ مثلاً یوں کہا ہو کہ فلاں شخص کا اتنا قرضہ میرے ذمہ واجب

ہے یا میں نے اس کی فلاں چیز ضائع کر دی تھی اب اس چیز کی قیمت میرے ذمے واجب ہے۔ اور یہ صرف میت کا اقرار ہو گواہوں سے یہ قرض ثابت نہ ہو۔

یہاں مرض الموت سے مراد وہ مرض کہ جس بیماری میں اس شخص کا انتقال ہوا ہو۔
اب اگر تجہیز و تکفین کے بعد اس قدر مال باقی ہو کہ جس سے دونوں قسموں کے قرض ادا ہو جائیں تو بلا تکلف دونوں

قسموں کے قرض ادا کئے جائیں گے۔ اور اگر دونوں قرض ادا کرنے کے لیے مال کافی نہیں ہے اور دونوں قسم کا قرض میت پر ہو تو اب پھر پہلے پہلی قسم والا قرض ادا کیا جائے پھر اگر کچھ مال بچے تو دوسری قسم کا قرض ادا کیا جائے۔

اور اگر پہلی قسم کا قرض ادا کرنے کے بعد کچھ نہ بچے تو پھر دوسری قسم کے قرض والے محروم رہیں گے۔

اور اگر سب قرضے تندرستی کے زمانے کے ہوں لیکن میت کا ترکہ اتنا نہیں کہ وہ سب قرض پورے کے پورے ادا کیے جاسکیں۔ اب پھر ان قرض خواہوں میں باہمی تناسب سے قرض کی ادائیگی کی جائے گی۔ جیسے مثلاً ابوبکر کا قرض پانچ

ہزار ہے، عمر کا قرض تین ہزار اور عثمان کا قرض دو ہزار ہے جبکہ میت کا کل ترکہ دو ہزار ہے تو 5:3:2 کے تناسب

سے دو ہزار کے حصے کریں گے۔ جن میں سے پانچ حصے ابوبکر کو تین حصے عمر کو اور دو حصے عثمان کو دیں گے۔

اگر میت نے کچھ بھی مال نہیں چھوڑا اور اس پر قرض ہو یا اتنا کم مال چھوڑا کہ قرض کی پوری ادائیگی اس میں سے نہیں ہو سکتی ہے تو قرض خواہ میت کے وراثاء پر زبردستی نہیں کر سکتے کہ تم اپنے پاس سے ہمارے قرضادا کرو۔

البتہ اگر میت کے وارثوں کے پاس وسعت ہو تو مناسب ہے کہ قرض ادا کر کے اپنے عزیز میت کو قرض سے نجات کروا دیں اور اجرِ عظیم حاصل کریں۔ اور اگر بیوی کا مہر زندگی میں ادا نہ کیا ہو اور نہ ہی بیوی نے معاف کیا ہو تو وہ بھی میت

کے ذمے ایسے ہی قرض ہے جیسا کہ دوسرے لوگوں کا قرض ہے۔ البتہ وصیت اور میراث کی تقسیم پر مہر کی ادائیگی پہلے ہوگی۔

Wirasat
وصیت:

 

شروع اسلام میں وصیت کرنا فرض تھا یعنی اپنے اختیار سے والدین اور رشتہ داروں کے لیے اپنے مال میں سے حصے مقرر کرکے جانا ہر صاحبِ مال شخص پر واجب تھا۔ لیکن اب یہ حکم پھر منسوخ ہوگیا اور اللہ تعالی نے خود ہی ہر وارث

کے حصے مقرر فرما کر مال کی تقسیم کا طریقہ کار بتادیا ہے۔ لیکن پھر بھی اب ایک تہائی میں بھی بندے کا اختیار باقی

رکھا تا کہ اس وقت نیکی کی راہ میں تہائی خرچ کرکے کچھ ثواب کما سکے یا پھر اپنے کسی دوست یا کسی غیر وارث رشتہ دار کو کچھ مال دینا چاہے تو اس تہائی میں سے دے دے۔

وصیت صرف اس شخص کیلئے ہو سکتی ہے جو میت کا وارث نہ ہو۔ اگر وارث کے لیے وصیت ہوگی تو وہ وصیت غیر

معتبر ہوگی لیکن البتہ اگر باقی وارث عاقل بالغ ہوں اور پھر اس وصیت کو مکمل کرنے کی اجازت دے دیں اور اس وصیت کو منظور کر لیں تو اب یہ معتبر ہو جائے گی۔

اگر کسی شخص کے بیٹے ہوں اور یتیم ہوتے بھی موجود ہوں اور وہ امداد کے مستحق بھی ہوں تو چونکہ بیٹے کے ہوتے

ہوئے پوتے میت کے وارث نہیں ہوتے اس لیے یہ شخص اپنے یتیم پوتے پوتیوں کے لیے ایک تہائی مال کی وصیت کر سکتا ہے۔

Wirasat
میراث سے محروم کرنے والی چیزیں:

 

وہ چیزیں جن کی وجہ سے وارث وراثت سے محروم ہو جائے وہ تین ہیں:
1۔ قتلِ مورث۔ 2۔ اختلافِ دین۔ 3۔ سلطنت یعنی ملکوں کا مختلف ہونا

1۔ قتلِ مورث:

اگر بالغ وارث نے اپنے مورِث کو ظلماً قتل کردیا تو اب یہ وارث میراث سے بالکل محروم رہے گا خواہ اس نے قتل کاٹنے والی چیز (مثلاً تلوار، چھری اور بندوق کی گولی) سے قتل کیا ہو یا کسی بڑی موٹی بھاری زور دار چیز (مثلاً موٹا ڈنڈا یا

بھاری پتھر) سے مارا ہو کہ جس کے مارنے سے عموماً آدمی مرجاتے ہوں یا کسی چھوٹی چیز (مثلاً پتلی چھڑی اور چھوٹے پتھر ) سے مارا ہو کہ جس سے عموماً لوگ مرتے نہیں لیکن اتفاق سے مورث کی موت اس کے مارنے سے واقع ہوگئی اور

پھر مارنے کے ارادے سے مارا ہو یا غلطی اور خطا سے مورث کو مارا گیا ہو (مثلاً بندوق درست کر رہا تھا کہ بغیر ارادے کے بندوں چل گئی اور مورث کو گولی لگ گئی) تو ان صورتوں میں وارث میراث سے محروم ہو جائے گا۔

البتہ اگر وارث نے ظلما نہیں مارا بلکہ مورث اس پر ناحق حملہ کیا اور اس وارث نے اپنے آپ کو بچانے کے لیے مورث پر

حملہ کیا کہ جس سے مورث مر گیا تو یہ وارث میراث سے محروم نہ ہوگا۔ اسی طرح نابالغ وارث یا مجنون وارث نے اپنے مورث کو قتل کر دیا تو وہ بھی میراث سے محروم نہیں ہوگا۔

2۔ اختلافِ دین:

اگر وارث مسلمان ہے اور مورث کافر ہے (خواہ وہ ہندو ہو یا عیسائی یا یہودی یا آتش پرست ہو یا دہریہ ہو) تو اس کی میراث

مسلمان کو نہیں ملے گی بلکہ اگر اس کافر کے کافر وارث موجود ہوں تو صرف ان کافر وارثوں میں تقسیم کی جائے گی اور اگر کوئی بھی نہ ہو تو پھر اس کی وراثت بیت المال میں جمع کی جائے گی۔

اور اگر مورث مسلمان ہو اور وارث کافر ہو تو اس کو بھی پھر مسلمان کی میراث نہیں ملے گی بلکہ جو وارث مسلمان ہوں صرف ان ہی میں تقسیم کی جائے گی۔ مثلاً کسی ہندو کا بیٹا مسلمان ہو گیا پھر اسلام کی حالت میں اس شخص کی موت واقع

ہوئی تو اب اس کے باپ کو وراثت میں سے کچھ بھی نہیں ملے گا۔ ہاں البتہ اگر اس بیٹے کی کوئی زوجہ یا اولا د مسلمان ہو

تو پھر ان مسلمان وارثوں میں وراثت کو تقسیم کردیا جائے گا۔ اور اگر کوئی مسلمان وارث بھی موجود نہ ہو تو پھر وراثت بیت المال میں جمع کر دی جائے گی۔

اگر کسی مسلمان نے عیسائی عورت سے نکاح کر لیا تو مسلمان شوہر کی وفات پر زوجہ کو وراثت میں سے کچھ بھی نہیں

ملے گا۔ البتہ اگر شوہر نے مہر ادا نہ کیا ہو تو وہ مہر ادا کیا جائے گا اور اگر عیسائی زوجہ کی شوہر کی زندگی میں وفات ہوگئی تو اس کے ترکہ میں سے بھی شوہر کو کچھ بھی نہیں ملے گا۔

اور جو شخص مرتد ہو جائے مثلاً قادیانی ہو جائے یا حدیث کا منکر ہو جائے یا دہریہ ہو جائے تو وہ بھی کافروں کی طرح اہل اسلام کی میراث سے محروم رہے گا ۔ البتہ اس کے مرتد کی حد میں مارے جانے کے بعد یا کافروں کے ملک میں منتقل

ہونے کے بعد اگر اس کا مال اہل اسلام کے قبضے میں ہو تو اسلام کی حالت میں کمایا ہوا مال اس کے مسلمان وارثوں پر تقسیم کیا جائے گا اور مرتد ہونے کے بعد حاصل کیا ہوا مال بیت المال میں جمع کیا جائے گا۔

اور اسلامی ملک میں رہنے والے غیر مسلم اگر میراث سے متعلق اپنا مقدمہ مسلمانوں کی عدالت میں لائیں تو ان کے درمیان میراث جاری کرائی جائے گی اگر چہ ان کے دین مختلف ہی کیوں نہ ہوں مثلاً شوہر ہندو ہو اور عورت عیسائی ہو۔

 

3۔ سلطنت یعنی ملکوں کا مختلف ہونا:

 

مسلمان کا وارث خواہ کسی بھی ملک میں رہتا ہو اور خواہ ان میں سے ایک اسلامی ملک میں رہتا ہو اور دوسرا کافروں کے ملک میں رہتا ہو وہ اپنے مورث کے مال سے محروم نہیں ہوتا۔ البتہ جو لوگ مسلمان نہیں ہیں ان میں اگر میت اور وارث دو

 

 

 

 

مختلف ملکوں میں رہتے ہوں اور ان ملکوں میں باہم صلح نہ ہو تو ان میں پھر میراث جاری نہیں ہوگی مثلاً مورث پاکستان میں اور وارث بھارت میں ہو اب وارث کو مورث کی میراث میں سے کچھ نہیں ملے گا۔

وہ کام جو میراث سے محروم نہیں کرتے:
1۔ کم عمر ہونا۔ 2۔ دوسرا نکاح۔ 3۔ نافرمان یا بدکار ہونا

1۔ کم عمر ہونا:

کم عمر ہونے سے میراث کے حصہ میں کچھ کمی بھی نہیں آتی۔ مثلاً میت کا ایک بیٹا جوان، عالم فاضل اور عاقل ہے اور جبکہ دوسرا بیٹا ایک روز کا شیر خوار بچہ ہے تو دونوں بیٹوں کو میراث میں برابر حصہ ملے گا۔

2۔ دوسرا نکاح:

دوسرا نکاح کر لینے سے عورت اپنے پہلے شوہر کی میراث سے محروم نہیں ہوتی کیونکہ نکاح ثانی کوئی جرم نہیں ہے۔

جو لوگ نکاح ثانی کو عار سمجھ کر اس کی وجہ سے عورت کو شوہر کی میراث سے محروم کر دیتے ہیں وہ گناہِ کبیرہ کے مرتکب ہوتے ہیں۔

 

3۔ نافرمان یا بدکار ہونا:

نافرمان یا بدکار ہونے سے کوئی وارث میراث سے محروم نہیں ہوسکتا۔ جیسے مثلاً ایک بیٹے نے باپ کی تمام عمر خدمت کی جبکہ دوسرا بیٹا کبھی بھی اپنے باپ کے پاس نہیں آیا بلکہ الٹا تکلیف پہنچاتا رہا تب بھی دونوں بیٹے برابر کے مستحق

ہوں گے اگرچہ میت نے زبانی یا تحریری کارروائی سے اس کو عاق اور محروم بھی کر دیا ہو۔

islami qanoon e wirasat in urdu pdf
qanoon e wirasat book pdf
wirasat ka qanoon in islam
wirasat ka qanoon in pakistan
wirasat ka qanoon in quran
wirasat in islam in urdu
wirasat ki taqseem

 

 

 

Leave a Comment