Halala In Quran | What is Nikah Halala | The Best Concept of Halala In Islam (20230) | حلالھ سے کیا مراد ھے

Halala In Quran

Halala in Quran | What is Nikah Halala | The Concept of Halala in Islam | حلالھ سے کیا مراد ھے
Halala in Quran | What is Nikah Halala | The Concept of Halala in Islam | حلالھ سے کیا مراد ھے

حلالہ:

اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو تین طلاق دے اور یہ تینوں طلاقیں سنت کے مطابق دے یا خلاف سنت دے، خواہ ایک ہی لفظ سے تین طلاقیں دے یا مدخولھ بیوی کو الگ الگ مجلس میں تین طلاقیں دے تو اس شخص کے نکاح سے اسکی بیوی نکل جائے گی اور میاں بیوی دونوں ایک دوسرے کیلئے حرام ہو جائیں گے۔ اس طرح تین طلاق دینے کے بعد شوہر کو کسی قسم کا

کوئی اختیار نہیں رہتا کہ وہ عدت کے اندر بیوی سے رجوع کرے یا عدت گزرنے کے بعد پھر دوبارہ سے نکاح کرے۔
اب اس عورت کو اختیار ہوگا کہ وہ عدت گزارنے کے بعد کسی دوسرے شخص سے نکاح کرسکتی ہے۔

 

اب اگر عورت کسی دوسرے شخص کے ساتھ ازدواجی زندگی گزارنے کی نیت سے دوسرا نکاح کرے لیکن پھر کسی وجہ سے اس دوسرے شوہر کے ساتھ بھی گزر بسر نہ ہو سکے اور دوسرے شوہر سے وطی کرنے کے بعد طلاق لے لے یا اس دوسرے شوہر کی وفات ہو جائے اور عورت طلاق کی عدت یا وفات کی عدت کے بعد پہلے شوہر سے نکاح کرنا چاہے تو

 

کرسکتی ہے۔ اس عمل کو فقہ کی اصطلاح میں “حلالہ” کہتے ہیں۔ حلالہ کا ثبوت قرآن وحدیث اور اجماع صحابہ سے ثابت ہے۔ نیز چاروں ائمہ کے مذاہب میں بھی اسکا ثبوت ہے۔ لہذا کسی مسلمان کے لیے اس کے انکار کی گنجائش نہیں ہے۔

 

Halala In Quran

حلالہ کا ثبوت قرآن کی روشنی میں:

قرآن مجید کے دوسرے پارے میں سورۃ البقرۃ کی آیت 230 میں اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ:
فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتّٰی تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَنْ يَّتَرَاجَعَا إِنْ ظَنَّا أَنْ يُقِيْمَا حُدُوْدَ اللهِ۔

ترجمہ:
پھر اگر بیوی کو (تیسری) طلاق دے تو اُس کے بعد شوہر کے لیے (بیوی) حلال نہ ہوگی یہاں تک کہ دوسرے شوہر سے نکاح (ہمبستری) کر لے۔ پھر اگر دوسرا شوہر طلاق دے تو دونوں پر کچھ گناہ نہیں کہ دوبارہ نکاح کریں، اگر دونوں کو گمان ہو کہ دونوں اللہ کی حدود کو قائم رکھیں گے۔

نوٹ: مذکورہ آیت کریمہ میں نکاح سے مراد ہمبستری ہے ۔ جیسا کہ احادیث مشہورہ میں اُس کی وضاحت موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مفسرین کرام نے نکاح کی تفسیر وطی سے کی ہے

اور نکاح کا حقیقی معنی بھی وطی ہے۔ چناںچہ تفسیر ابن کثیر میں ہے کہ “دوسرے شوہر سے نکاح صحیح کرے پھر شوہر وطی کرے”۔ اور اگر دوسرے شوہر سے وطی کیے بغیر طلاق لے لے تو پھر پہلے شوہر کے لیے حلال نہیں ہوگی

Halala In Quran

حلالہ کا ثبوت حدیث کی روشنی میں:

حلالہ کا ثبوت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ سے بھی ثابت ہے۔ اور وہ حدیث یہ ہے کہ حضرت رفاعہ قرظی کی بیوی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور کہا کہ اے اللہ کے رسول رفاعہ نے مجھے تین طلاق دے دی ہیں۔ اُس کے بعد میں نے عبدالرحمن بن زبیر قرظی سے نکاح کر لیا۔ پھر اس نے اشاروں میں ایسی بات کہی جس سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ

دوبارہ حضرت رفاعہ سے نکاح کرنا چاہتی ہیں۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: شاید تو دوبارہ رفاعہ کے پاس جانا چاہتی ہے تو اسی وقت رفاعہ سے نکاح کر سکتی ہے جب عبد الرحمن اور تو دونوں ایک دوسرے سے وطی کی لذت حاصل کر لیں۔ (متفق علیہ)

Halala In Quran

حلالہ پر صحابہ کرام کا اجماع:

 

ابوالحسن یحییٰ یمنی شافعی لکھتے ہیں کہ:
فَثَبَتَ نِکَاحُ الثَّانِیْ بِالْآيَةِ وَثَبَتَتْ اِصَابَتْهُ بِالسُّنَّةِ وَهُوَ إِجْمَاعُ الصَّحَابَةِ لِأَنَّهُ رُوِيَ عَنْ عُمَرَ وَعَلِيٍّ وَابْنِ عُمَرَ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَجَابِرٍ وَعَائِشَةَ وَلَا يُعْرَفُ لَهُمُ مُخَالِفٌ۔

ترجمہ: (تین طلاق والی عورت جو شوہر اول سے نکاح کرنا چاہے اُس کے لیے) دوسرے نکاح کا ثبوت آیت سے ہے اور اُس سے وطی کرنے کا ثبوت سنت سے ہے اور اس پر صحابہ کا

اجماع ہے۔ کیوں کہ یہ روایت ہے حضرت عمر، حضرت علی ، حضرت ابن عمر ، حضرت ابن عباس، حضرت جابر ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہم سے اور اس کے خلاف قول کرنے والا کوئی (صحابی) نہیں ۔ (البیان فی مذهب الامام الشافعی جلد 10 صفحہ 250)

 

 

حلالہ کے متعلق ائمہ اربعہ کے اقوال:

 

چاروں امام بھی اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ عورت تین طلاق کے بعد حلالہ کیے بغیر پہلے شوہر کیلئے حلال نہ ہوگی۔ اگرچہ ان ائمہ کے درمیان حلالہ کے متعلق کچھ جزوی اختلاف ہیں لیکن عورت بغیر حلالہ کے پہلے شوہر کیلئے حلال نہیں ہوگی، اس بات پر سب کا اتفاق ہے۔

 

حضرت امام احمد بن حنبل:

 

ابن قدامہ حنبلی لکھتے ہیں کہ:
وَجُمْهُورُ أَهْلِ الْعِلْمِ عَلَى أَنَّهَا لَا تَحِلُّ لِلْأَوَّلِ حَتَّى يَطَأَهَا الزَّوْجُ الثَّانِي وَطَيًا يُوجَدُ فَيْهِ الْتِقَاءُ الْخِتَانَينِ

ترجمہ: جمہور اہل علم کا اس پر اتفاق ہے کہ (تین طلاق والی) عورت پہلے شوہر کیلئے حلال نہیں ہوگی یہاں تک کہ دوسراشوہر اس سے ایسی وطی کرلے کہ دونوں کا مقام ختنہ ایک دوسرے سے مل جائے۔ (المغنی جلد 7 صفحہ 566)

حضرت امام شافعی:

امام شافعی اپنی کتاب الام میں لکھتے ہیں کہ:
فَإِذَا تَزَوَّجَتِ الْمُطَلَّقَةُ ثَلَاثًا زَوْحًا صَحِيحَ النِّكَاحَ فَأَصَابَهَا ثُمَّ طَلَّقَهَا فَانقَضَتْ عِدَّتُهَا حَلَّ لِزَوْجِهَا الْأَوَّلِ اِبْتِدَاءُ نِكَاحِهَا۔

ترجمہ: پھر جب تین طلاق والی عورت دوسرے شوہر سے نکاح صحیح کرے اور شوہر اُس سے وطی کرے، پھر طلاق دے تو عدت گزرنے کے بعد عورت کا شوہر اول سے (دوبارہ) نیا نکاح حلال ہوگا۔ (الام: نکاح المطلقة ثلاثا جلد 5 صفحہ 264)

حضرت امام مالک:

امام مالک حلالہ کے ثبوت پر حضرت رفاعہ رضی اللہ عنہ کی مطلقہ بیوی سے متعلق حدیث کو بطور دلیل ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ:
فَمِنْ أَجْلِ ذٰلِكَ لَا يَحِلُّ لِمَنْ بَتَّ طَلَاقَ اِمْرَأَتِهٖ أَنْ يَّتَزَوَّجَهَا حَتَّى تَتَزَوَّجَ زَوْجًا غَيْرَهُ وَيَدْخُلَ بِهَا وَيَمُسَّهَا-

ترجمہ: حدیث مذکور سے ثابت ہوا کہ جس نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں تو اُس سے دوبارہ نکاح حلال نہیں ہوگا یہاں تک کہ وہ دوسرے شوہر سے نکاح کرے اور وہ (دوسرا شوہر) اُس سے وطی کرے ۔ (المدونۃ جلد 2 صفحہ 209)

حضرت امام ابوحنیفہ:

احناف کی معتبر کتاب “مبسوط السرخسی” میں لکھا ہے کہ:
وَلَا تَحِلُّ لَهُ بَعْدَ مَا وَقَعَ عَلَيْهَا ثَلاَثُ تطلِيقَاتٍ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ يَدْخُلُ بِهَا۔

ترجمہ: اور (تین طلاقوں کے بعد) عورت شوہر کے لیے حلال نہ ہوگی یہاں تک کے دوسرے شوہر سے نکاح کرے اور وہ اُس سے وطی کرے۔( مبسوط السرخسی جلد 6 صفحہ 8)

پس چاروں اماموں سے یہ بات ثابت ہو گئی کہ تین طلاقوں کے بعد عورت اُسی وقت شوہر کے لیے حلال ہوگی جب کہ وہ دوسرے شوہر سے نکاح کرے اور شوہر اُس سے وطی کرنے کے بعد طلاق دے یا اُس کی وفات ہو جائے اور عورت عدت گزار کر پھر پہلے شوہر سے نکاح کر سکتی ہے۔

حلالہ کے لیے نکاح کرنا:

حلالہ کی شرط لگا کر نکاح کرنا یعنی اس شرط کے ساتھ نکاح کرنا کہ دوسرا شوہر ہمبستری کرنے کے بعد طلاق دے دے گا تاکہ پھر یہ عورت پہلے شوہر سے نکاح کے لیے حلال ہو جائے تو

یہ عمل مکروہ تحریمی ہے اور اس کے بارے میں بڑی سخت وعید آئی ہے۔ چنانچہ اس کے بارے میں حدیث شریف میں ہے کہ حلالہ کرنے والا اور حلالہ کروانے والا دونوں پر اللہ کی لعنت ہے۔

اسی طرح پیسے لے کر نکاح حلالہ کرنا بھی گھٹیا عمل ہے اور سخت گناہ ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ ایسے شخص کو جاہلیت کے زمانہ میں تیس مستعار (کرائے کا سانڈ) کہا جاتا تھا۔ یہ ایک شرعی و معاشرتی جرم ہے لہذا ایسا عمل کرنے والا آدمی شریعت اور معاشرے دونوں کی نگاہ میں بڑا مجرم ہے۔

امام ابو حنیفہ کا مذہب:

 

اپنے نفس کی خواہش کے لیے یا کچھ مال لے کر حلالہ کرنا یا طلاق دینے کی شرط پر دوسرے شوہر سے نکاح کروانا گناہ ہے لیکن اگر دوسرا شوہر اس شرط پر نکاح کرلے تو شرط باطل ہو جائے گی اور نکاح صحیح ہو جائے گا۔ اب دوسرے شوہر کو طلاق دینے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا لیکن اس طریقے سے اس شرط پر نکاح کرنے والا گنہگار ہے اور لعنت کا مستحق ہے۔ پھر اگر

دوسرے شوہر نے ہمبستری کرنے کے عورت کو طلاق دے دے تو اب یہ عورت عدت پوری کرنے کے بعد پہلے شوہر کے لیے حلال ہو جائے گی۔ یہ امام ابوحنیفہ کا مذہب ہے۔
امام ابو حنیفہ کی دلیل یہ ہے کہ دوسرے نکاح میں وہ تمام شرائط و ارکان موجود ہیں جو شرائط و ارکان نکاح کے صحیح ہونے کے لیے لازم ہیں۔ اور عقدِ نکاح کرنے والے زوجین نکاح

کے لیے اہل بھی ہیں۔ نکاح کے صحیح ہونے کے لیے حلال محل بھی موجود ہے اور دو گواہ بھی موجود ہیں اور ان گواہوں کی موجودگی میں دونوں نے ایجاب و قبول کیا ہے، لہذا نکاح صحیح ہے۔ اور جو طلاق والی شرط لگائی گئی ہے وہ شرط باطل ہے۔ لیکن نکاح کے ساتھ اگر باطل شرط ہو تو شرط کا اعتبار نہیں ہوگا اور نکاح صحیح ہوجائے گا۔ اگر دوسرے شوہر سے نکاح

اس شرط پر ہوا کہ وہ ہمبستری کرنے کے بعد طلاق دے گا تو نکاح کرنے کے بعد اسے طلاق دینے پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔ اب جب دوسرے شوہر سے نکاح صحیح ہوا اگرچہ شرط پر نکاح کرنے کی وجہ سے گناہ گار تو ہوگا لیکن ہمبستری کرنے کے بعد طلاق ہونے کی صورت میں عورت پہلے شوہر کے لیے حلال ہو جائے گی اور پہلے شوہر سے نکاح کرنا درست ہو گا۔

احناث کی مستند کتاب ہدایہ میں ہے: وَإِذَا تَزَوَّجَهَا بِشَرْطِ التَّحْلِيْلِ فَالنِّكَاحُ مَكْرُوهٌ لِقَوْلِهِ عَلَيْهِ السَّلَامُ لَعَنَ اللهُ الْمُحِلَّلَ وَالْمُحَلَّلَ لَهُ وَهَذَا هُوَ مَحْمَلُهُ فَإِن طَلَّقَهَا بَعْدَ مَا وَطِئَهَا حَلَّتْ لِلْاَ وَّلِ لِوُجُودِ الدُّخُولِ فِي نَكَاحٍ صَحِيْحٍ إِذِ النِّكَاحُ لَا يَبْطُلُ بِالشَّرْطِ-

ترجمہ: جب حلالہ کرنے (ہمبستری کے بعد طلاق دینے) کی شرط پر نکاح کیا تو نکاح مکروہ ہے۔ کیوں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ حلالہ کرنے اور کروانے والے پر

اللہ کی لعنت ہے۔ اس حدیث کا وہی مطلب ہے (یعنی ہمبستری کے بعد طلاق دینے کی شرط پر نکاح کرنا) پھر اگر عورت سے ہمبستری کرنے کے بعد طلاق دے دی تو (عورت) پہلے شوہر کے لیے حلال ہو جائے گی کیوں کہ نکاح صحیح کے ذریعے ہمبستری پائی گئی اور شرط سے نکاح باطل نہیں ہوگا۔ (ہدایه جلد 2 صفحہ 258۔ فصل: فيما تحل به المطلقة)

امام مالک کا مذہب:

 

امام مالک فرماتے ہیں کہ حلالہ کیلئے اس شرط پر دوسرے شوہر کا نکاح کرنا کہ ہمبستری کرنے کے بعد بعد طلاق دے گا تاکہ یہ عورت پہلے شوہر کے لیے حلال ہو جائے۔ تو چونکہ یہ شرط باطل ہے اور شرط کے باطل ہونے کے ساتھ نکاح بھی باطل ہو جائے گا۔ یہ بات المدونہ وغیرہ میں موجود ہے۔ حاشیۃ الصاوی علی شرح الصغیر میں ہے کہ:

اِعْلَمْ أَنَّهُ إِنْ تَزَوَّجَهَا بِشَرْطِ التَّحْلِيلِ اَوْ بِغَيْرِ شَرَطٍ لَكِنَّهُ أَقَرَّ بِهِ قَبْلَ الْعَقْدِ فَالْفَسُخُ بِغَيْرِ طَلَاقٍ وَإِنْ أَقَرَّ بِهِ بَعْدَهُ فَالْفَسُخُ بِطَلَاقٍ كَمَا فِي التَّوْضِيح-
ترجمہ: اگر دوسرے شوہر نے ہمبستری کے بعد طلاق دینے کی شرط پر نکاح کیا یا بغیر شرط کے نکاح کیا لیکن عقد سے پہلے اس (شرط) کا اقرار کیا تو بغیر طلاق کے نکاح فسخ ہوگا اور اگر

عقد کے بعد شرط کا اقرار کیا تو نکاح طلاق کے ذریعہ فسخ ہو گا ایسا ہی توضیح میں ہے۔ (حاشیۃ الصاوی جلد 2 صفحہ 413)
اس سے معلوم ہوا کہ امام مالک کے نزدیک حلالہ کی شرط پر نکاح کرنے سے نکاح فاسد ہو جائے گا لہٰذا یہ عورت طلاق دینے سے پہلے شوہر کے لیے عورت حلال نہیں ہوگی۔

 

لیکن اشہب اور نافع کی روایت سے امام مالک کا ایک یہ قول بھی منقول ہے کہ امام مالک سے پوچھا گیا کہ اگر عورت کسی مرد سے حلالہ کی نیت سے نکاح کرے لیکن مرد کو اس کا علم نہ ہو پھر بعد میں عورت ہمبستری کرنے کے بعد مرد سے طلاق لے لے تو یہ نکاح صحیح ہے اور اُس سے عورت پہلے شوہر کے لیے حلال ہو جائے گی۔ (البیان واتحصیل جلد 4 صفحہ 358)

امام شافعی کا مذہب:

 

امام شافعی کا مذہب یہ ہے کہ اگر عقدِ نکاح کے وقت یہ شرط نہیں لگائی گئی کہ شوہر ہمبستری کے بعد طلاق دے گا، لیکن عقد سے پہلے یہ معاہدہ ہو چکا ہو تو اگرچہ یہ معاہدہ مکروہ ہے لیکن اب نکاح کا عقد صحیح ہوگا اور دوسرے شوہر کی طلاق کے بعد عورت پہلے شوہر کے لیے حلال ہوگی۔ لیکن اگر عقدِ نکاح کے وقت شرط ذکر کی گئی تو شرط کے فاسد ہونے کے

ساتھ ساتھ ساتھ نکاح بھی فاسد ہو جائے گا کیونکہ اب یہ نکاح نکاحِ متعہ کی طرح ہوگا۔
چناںچہ امام شافعی کی کتاب الام میں ہے:

وَلَوْ كَانَتْ بَيْنَهُمَا مُرَاوَضَةٌ فَوَعَدَهَا إِنْ نَكَحَهَا أَنْ لَّا يُمْسِكَهَا إِلَّا أَيَّامًا أَوْ إِلَّا مُقَامَهُ بِالْبَلَدِ أَوْ الَّا قَدْرَ مَا يُصِيبُهَا كَانَ ذٰلِكَ بِيَمِينٍ أَوْ غَيْرِ يَمِينٍ فَسَوَاءٌ وَاَكْرَهُ لَهُ الْمَرَاوَضَةَ عَلٰى هَذَا وَ نَظَرْتُ إِلَى الْعَقْدِ فَإِن كَانَ الْعَقْدُ مُطْلَقًا لَا شَرْطَ فِيهِ فَهُوَ ثَابِتٌ لِأَنَّهُ إِنْعَقَدَ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا عَلى صَاحِبِهِ مَا لِلزَّوْجَيْنِ وَإِنْ اِنْعَقَدَ عَلى ذٰلِكَ الشَّرْطِ فَسَدَ وَكَانَ كَنِكَاحِ الْمُتْعَةِ- (الام جلد 5 صفحہ 85)

ترجمہ: اگر دوسرے شوہر اور مطلقہ عورت کے مابین معاہدہ ہو جائے کہ مرد شادی کرکے اس کو اپنے پاس نہیں روکے گا مگر چند دن یا فلاں شہر (جگہ) میں مقیم رہنے تک یا ہمبستری کرنے تک، خواہ یہ قسم کے ساتھ ہو یا بغیر قسم کے تو اس قسم کا معاہدہ مکروہ ہے اور (امام شافعی نے کہا) عقد نکاح کے تعلق سے میری رائے یہ ہے کہ اگر عقدِ نکاح میں شرط مذکور نہ

ہو تو نکاح ثابت ہوگا کیوں کہ نکاح زوجین کی باہمی رضامندی اور حقوق کے ساتھ منعقد ہوا ہے، اور اگر شرط پر نکاح منعقد ہو تو نکاح فاسد ہوگا جیسا کہ نکاح متعہ ہے۔
بالآخر حاصل کلام یہ ہے کہ تین طلاق دینے کے بعد عورت دوسرے نکاح کے بغیر پہلے شوہر کے لئے حلال نہیں ہوگی۔ اس پر سب کا اتفاق ہے۔

حلالہ کے متعلق کچھ غلط فہمیاں:

 

غیروں کی طرف سے یہ غلط فہمی عام کی جاتی ہے کہ حلالہ کا حکم عورت پر ایک قسم کا ظلم ہے۔ کیونکہ اس کے ذریعہ عورت کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ دوسرے مرد سے جسمانی تعلق قائم کرے۔ یہ ایک قسم کا جنسی تشدد (Sexualviolence) بھی ہے۔

غیروں کی طرف سے یہ غلط فہمی بھی پھیلائی جاتی ہے کہ تین طلاق والی عورت کے پہلے شوہر سے دوبارہ نکاح کرنے کے لئے یہ جو شرط لگائی گئی ہے کہ عورت کسی دوسرے مرد سے نکاح کر کے اُس سے ہمبستری بھی کرے، پھر دوسرا شوہر اسے طلاق دے یا اُس کا انتقال ہو جائے تو عورت عدت مکمل کرنے کے بعد پہلے شوہر سے نکاح کر سکتی ہے۔ اس قسم کی یہ

شرط غیر معقول ہے اور ایسا عمل غیر اخلاقی ہے۔ لہذا اسے ختم کردینا چاہئے۔
یه غلط فہمیاں دراصل اس حلالے والی شرط کی حکمت اور اس کے پس منظر سے ناواقفیت کی بنا پر پیدا ہوئیں ہیں۔ اسلام کا مقصد طلاق کی تعداد کو کم سے کم کرنا ہے۔ کیوں کہ طلاق

اسلام میں حلال کاموں میں سب سے برا کام ہے۔ اس مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے طلاق کا اختیار مردوں کو دیا گیا ہے نہ کہ عورتوں کو۔ کیوں کہ فطری طور پر زیادہ تر مردوں کی قوت

برداشت عورتوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے اور صحیح فیصلہ لینے کی صلاحیت بھی زیادہ ہوتی ہے۔ اور پھر مزید یہ کہ عورتوں کو ہر ماہ ناپاکی (حیض) کے کچھ ایام گزانے پڑتے ہیں جن میں نفسیاتی طور پر اُن کی طبیعت میں چڑ چڑا پن آ جاتا ہے۔ اور عورتیں عموماً گھر کے کام کاج میں مصروف رہنے، اپنے بچوں کی دیکھ بھال کرنے کی وجہ سے گھر کے اندر زیادہ تر تناؤ

 

 

 

میں مبتلا رہتی ہیں۔ جب کہ مرد گھر سے باہر رہ کر معاشی ضرورتوں کو مکمل کرنے کے لئے محنت و مشقت کر کے گھر کے اندر داخل ہوتا ہے تو بیوی بچوں سے مل کر اس کی ساری تھکان اور ذہنی تناؤ دور ہو جاتا ہے۔ مرد اور عورت کے انہی طبیعی و فطری اوصاف کے تفاوت کو مد نظر رکھتے ہوئے اسلام نے طلاق کا اختیار مردوں کو دیا ہے نہ کہ عورتوں کو۔ اور اسی

وجہ سے سماج میں طلاق کی شرح کم سے کم ہوگی۔ یہی اسلام کا مطمح نظر ہے۔ جب مردوں کو طلاق کا اختیار دینے سے تین طلاق کے واقعات صرف %0.3 ہیں تو اگر یہ اختیار عورتوں کو دیا جاتا تو یقینا تین طلاق کی شرح اس سے کہیں زیادہ ہو جاتی۔

ہم اس بات کو بھی تسلیم کرتے ہیں کہ بعض عورتیں عقل و فہم اور قوت برداشت میں بعض مردوں سے بہت آگے ہوتی ہیں۔ لیکن چونکہ فطری طور پر زیادہ تر ان اوصاف میں مرد ہی آگے ہوتے ہیں۔ لہذا مردوں کے فطری اوصاف کا لحاظ کرتے ہوئے طلاق کا اختیار مردوں کو دینا ہی معقول بات ہے۔

بعض مرد جو کم عقل، جذباتی، جلد باز ہوتے ہیں اور بیوی کے حقوق ادا کرنے میں لاپرواہ، سست اور ظالم و جابر ہوتے ہیں۔ اور گھر کی معمولی باتوں پر بیوی کو مارنا پیٹنا اور اُس پر ظلم

کرتے ہیں تو ایسی حالت میں اسلام عورت کو مجبور نہیں کرتا کہ ہر حال میں ایسے ظالم شوہر کے بندھن میں بندھی رہے اور ظلم سہتی رہے۔ بلکہ اسلام کی خوبی ہے کہ وہ اسے اجازت دیتا ہے کہ قاضی کے پاس اپنا مقدمہ پیش کرے اور خلع کروالے یا طلاق حاصل کرے۔

اسلام میں تین طلاق کے بعد پہلے شوہر کے لئے بیوی کے حلال ہونے حلالے کی جو شرط رکھی گئی ہے وہ بھی اسی حکمت پر مبنی ہے کہ تین طلاق کی شرح کم سے کم ہو۔ اور اس بات کو سمجھنے کے لئے اسلام میں تین طلاق کی حد بندی کا جو پس منتظر ہے اسے سامنے رکھنا ہوگا۔
رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی آمد سے پہلے زمانہ جاہلیت میں عرب کا یہ دستور تھا کہ بعض لوگ اپنی بیویوں کو تکلیف دینے اور تنگ کرنے کے لئے بار بار طلاق دیتے تھے اور پھر

رجوع کر لیتے تھے۔ اس طرح ایک شخص اپنی بیوی کو کئی کئی بار طلاق دیتا تھا اور پھر رجوع کر کے عورت کو اپنے بندھن میں باندھ کر رکھتا تھا۔ پھر جب اسلام آیا تو اسلام نے اس ظلم کا خاتمہ کردیا۔

چناںچہ قرآن مجید میں سورۃ البقرہ کی آیت 230 کے ذریعہ یہ قانون سنادیا گیا کہ صرف دو طلاق کے بعد عورت کو نکاح میں لوٹانے کا حق ہے لیکن تیسری طلاق کے بعد مرد کا یہ حق ختم ہو جاتا ہے اور عورت مرد کے نکاح سے آزاد ہو جاتی ہے۔ اس قانون کے آجانے کے بعد یقینی طور پر طلاق کے واقعات میں کمی ہوئی۔ کیوںکہ اب عام طور سے لوگ اپنی بیویوں

کو ایک یا دو طلاق ہی دیتے تھے اور ضرورت سمجھتے تو عدت کے اندر رجوع کر لیتے تھے جس کے سبب میاں بیوی کے درمیان طلاق کی نوبت کم ہی آتی تھی۔ لیکن کچھ ایسے لوگ بھی تھے جو بیوی کو تینوں طلاقیں بھی دیتے تھے جس کی وجہ سے نکاح ختم ہو جاتا تھا اور بعض لوگ ایک ساتھ تین طلاقیں دے کر نکاح کو ختم کر دیتے تھے اور پھر اس کے بعد عورت کی

طرف رجوع بھی چاہتے تھے یا نکاح جدید کرنا چاہتے تھے۔ اس طرح سے تین طلاق کے واقعات میں اضافہ کا خطرہ بھی بڑھنے لگا تو اسلام نے تین طلاق کے قانون میں ایک شق کا اضافہ کر دیا کہ ہے ضرورت تین طلاق دینا منشائے نکاح کے خلاف ہے کیوں کہ اُس سے بیوی ہمیشہ کے لئے حرام ہو جاتی ہے اور نکاح باقی رکھنے کی چیز ہے نہ کہ ختم کرنے کی۔ لہذا

تین طلاق دینے کے بعد اگر کوئی اپنی مطلقہ عورت سے دوبارہ نکاح کرنا چاہے تو یہ صرف اسی صورت میں ہوسکتا ہے کہ جب عورت عدت گزارنے کے بعد اپنی مرضی سے کسی دوسرے مرد سے نکاح کرے اور دوسرا شوہر اس سے ہمبستری کرے پھر طلاق دے یا اُس کا انتقال ہو جائے تو عدت مکمل کرنے کے بعد اگر عورت راضی ہو تو پھر پہلے شوہر سے نکاح

کر سکتی ہے۔
قانون کی اس شق میں بھی اسلام نے مرد و عورت کی فطرت کو ملحوظ رکھا ہے۔ اور وہ فطری لحاظ یہ ہے کہ مرد کی غیرت یہ گوارا نہیں کرتی کہ وہ ایسی عورت کو دوبارہ اپنے نکاح میں

لائے جس سے کسی دوسرے مرد نے ہمبستری کی ہو خواہ نکاح صحیح سے ہی کیوں نہ ہو ۔ لہذا مرد اللّٰہ کے قانون کی اس حد بندی سے متاثر ہو کر مرد اپنی بیوی کو تین طلاق دینے سے پر ہیز کرے گا جس کے نتیجے میں لازمی طور پر تین طلاق کے واقعات میں یقیناً کمی آئے گی۔

اور دوسری جانب فطرتی طور پر عورت کی غیرت بھی یہ گوارا نہیں کرتی کہ وہ اپنی چادر عصمت کو ایک سے زیادہ مردوں کے سامنے اتارے اور وہ چاہے نکاح ہی سے کیوں نہ ہو۔ ایسی کتنی مطلقہ اور بیوہ عورتیں ہیں جو اسی غیرت کے سبب دوسرا نکاح کئے بغیر با عفت ہو کر زندگی گزار لیتی ہیں۔ جب ایک شادی شدہ عورت کے دماغ میں یہ تصور موجود رہے گا کہ اگر

اُس کے شوہر نے غصے میں آکر اسے تین طلاقیں دے دیں تو نکاح ہمیشہ کے لئے ٹوٹ جائے گا اور دوبارہ نکاح کرنے کے لئے اُسے نکاح ثانی کے مشکل مرحلے سے گزرنا پڑے گا تو یقینی طور پر عورت اپنے شوہر کے حق میں خوش اخلاق، وفادار اور محبت سے رہنے کی کوشش کرے گی۔ اس سے مرد کی طرف سے تین طلاقیں واقع ہونے کا اندیشہ بھی نہ ہونے کے

برابر ہو گا۔ لہذا تین طلاق کے بعد مطلقہ بیوی کے لئے حلالہ (دوسرے نکاح) کی شرط نہایت معقول اور انسانی فطرت کے عین مطابق ہے۔ اگر انصاف سے غور کیا جائے تو سمجھ میں آجائے گا کہ پہلے شوہر سے نکاح کے حلال ہونے کے لئے حلالہ (دوسرا نکاح) کی شرط تین طلاق کے واقعات کو کم کرنے میں بہت بڑا معاون ہے۔

 

کیا حلالہ عورت پر ظلم ہے؟

 

حلالہ کا انکار کرنے والے لوگ ایک نفسیاتی حربہ استعمال کرتے ہوئے اعتراض کرتے ہیں کہ حلالہ عورت پر ظلم ہے لیکن یہ اعتراض ان کی جہالت پر مبنی ہے کیونکہ ہر اہل علم جانتا ہے کہ جب عورت کو تین طلاقیں دی جائیں یا ایک یا دو طلاقوں دیے جانے کی صورت میں جب عدت گزر جائے تو اب عورت کی اجازت اور اس کی مرضی کے بغیر نکاح نہیں ہوسکتا

اسی طرح جب عورت نے دوسرے خاوند سے نکاح کر لیا اور اب اس نے طلاق دے دی تو پہلے خاوند سے نکاح کے سلسلے میں بھی عورت کی مرضی اور اجازت ضروری ہےکیونکہ اگر

عورت رضامند نہیں ہے تو زبردستی نکاح نہیں ہو سکتا۔ لہذا جب تک عورت اجازت نہیں دے گی اس کا نکاح نہیں ہوسکتا۔ تو اب آپ خود سوچیں کہ کس طرح اس عمل کو عورت پر ظلم قرار دیا جائے گا۔ عورت کو کون مجبور کرتا ہے کہ حلالہ کرائے اور پہلے خاوند سے دوبارہ نکاح کرے۔

 

ذیل میں حلالہ کے متعلق چند مسائل بیان کیے جاتے ہیں۔

 

1۔ جب عورت کو تین طلاقیں دی جائیں خواہ تینوں طلاقیں اکٹھی دی جائیں یا الگ الگ دی گئی ہوں، ان دونوں صورتوں میں عورت کی طرف رجوع نہیں ہوسکتا اور نہ ہی یہ شخص اب (حلالہ کے بغیر) اس عورت سے دوبارہ نکاح کرسکتا ہے۔

2۔ اب اگر اس عورت نے کسی دوسرے شخص سے نکاح کر لیا اور پھر اس دوسرے خاوند نے حقوق زوجیت ادا کرنے کے بعد اپنی مرضی سے طلاق دے دی تو اب عدت گزارنے کے بعد اس عورت کا پہلے خاوند سے نکاح جائز ہوگا۔ یہ عمل حلالہ کہلاتا ہے اور یہ سب کے نزدیک جائز ہے۔

3۔ اگر دوسرے خاوند نے اس نیت سے نکاح کیا کہ وہ بعد میں اس عورت کو طلاق دے دے گا تا کہ وہ عورت پہلے خاوند کے لئے حلال ہو جائے اور ان کا گھر دوبارہ آباد ہو جائے لیکن نکاح میں حلالہ کی شرط نہیں رکھی گئی تھی تو یہ صورت بھی جائز ہے بلکہ باعث اجر و ثواب ہے۔

4۔ اگر دوسرے خاوند سے نکاح ہی اس شرط پر کیا جائے کہ وہ اسے بعد میں طلاق دے دے گا تا کہ یہ عورت پہلے خاوند سے نکاح کرلے تو حلالہ کے لئے نکاح کرنے والے اور جس

کے لئے حلالہ کیا گیا دونوں پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے۔ اور یہ عمل حرام ہے۔ لہذا مسلمانوں کو اس سے بچنا چاہیے۔ تاہم اگر ایسا کر بھی لیا گیا تو شرط باطل ہو جائے گی اور یہ نکاح صحیح ہو جائے گا اور دوسرا خاوند اسے طلاق دینے کا پابند نہیں ہو گا البتہ اپنی مرضی سے طلاق دے دے تو عورت پہلے خاوند کے لئے حلال ہو جائیگی۔

 

 

 

 

 

 

5۔ ایک ہی وقت میں تین طلاقیں دینا بدعت اور نا جائز عمل ہے لہذا اس سے بچنا چاہیے اور صرف ایک طلاق دی جائے یا ضروری ہو تو تین طہروں میں ایک ایک کر کے تین طلاقیں

مکمل کی جائیں۔ لیکن اگر تین طلاقیں اکٹھی کوئی دے دے تو پھر بھی تینوں طلاقیں واقع ہو جائیں گی۔ اگر چہ اس کا یہ عمل حرام ہے اور وہ گناہ گار ہو گا۔ تین طلاقوں کو ایک طلاق قرار دینا نہ صرف یہ کہ صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین کے طریقے سے روگردانی ہے بلکہ عورت پر ظلم ہے اور حرام کاری کا دروازہ کھولنا ہے۔

 

is halala allowed in islam
halala in quran
logic of halala in islam
halala in muslim
halala services
halala in sunni islam
halala kya hota hai

Leave a Comment