اگر کسی خاوند اور بیوی میں کسی طرح ازدواجی زندگی میں نباہ نہ ہو سکے اور مرد طلاق بھی نہ دیتا ہوتو عورت کیلئے جائز ہے کہ کچھ مال دے کر یا خاوند نے جو مہر دیا تھا وہ مہر واپس دے کر اپنے شوہر سے کہے کہ اتنا مال لے کر میری جان چھوڑ دو یا پھر یوں کہے جو میرا مہر تمہارے ذمہ ہے اس کے عوض میں میری جان چھوڑ دو۔ اس کے جواب میں اگر شوہر کہے کہ میں نے چھوڑ دیا تو اس عورت پر ایک طلاق بائن واقع ہو جائے گی۔ البتہ اگر شوہر نے اسی مجلس میں جواب نہیں دیا بلکہ اٹھ کھڑا ہوگیا یا پھر شوہر تو کھڑا نہیں ہوا لیکن عورت اٹھ کھڑی ہوئی اب اگر شوہر نے کہا کہ میں نے چھوڑ دیا تو اس سے کچھ واقع نہیں ہوگا۔ بلکہ اس کیلئے ضروری ہے کہ سوال و جواب دونوں ایک ہی جگہ ہونے چاہئیں۔ اس طرح بیوی کا اپنے خاوند سے جان چھڑانے کو شریعت میں خلع کہتے ہیں۔
مسئلہ 01:
اگر کسی مرد نے اپنی بیوی سے کہا کہ میں نے تجھ سے خلع کیا اور اس کے جواب میں عورت نے کہا میں نے قبول کیا تو خلع ہو جائے گا۔ البتہ اگر عورت نے اسی جگہ جواب نہ دیا ہو اور اس جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی یا عورت نے قبول ہی نہیں کیا تو کچھ بھی واقع نہیں ہوا۔ لیکن اگر عورت اپنی جگہ بیٹھی رہی اور مرد یہ کہہ کر اٹھ کھڑا ہوا اور پھر عورت نے اس کے اٹھنے کے بعد قبول کیا تو پھر بھی ضلع ہو جائے گا۔
مسئلہ 02:
اگر خلع کی پیشکش مرد کی جانب سے کی گئی ہو تو وہ اب خلع کے الفاظ واپس نہیں لے سکتا اور اگر خلع کی پیشکش عورت کی جانب سے ہو تو وہ مرد کے قبول کرنے سے پہلے پہلے اپنی پیشکش واپس لے سکتی ہے۔
مسئلہ 03:
اگر کسی مرد نے فقط اتنا کہا کہ میں نے تجھ سے خلع کیا اور عورت نے بھی خلع قبول کر لیا اور مہر یا کسی مال کا ذکر نہ ہی مرد نے کیا اور نہ ہی عورت نے کیا تب بھی نکاح سے متعلق وہ حق جو مرد کا عورت پر ہے اور نکاح سے متعلق وہ حق جو عورت کا مرد پر ہے سب معاف جائے گا۔ اگر مرد کے ذمہ مہر باقی ہے تو وہ بھی معاف ہو جائے گا اور اگر عورت مہر لے چکی ہے تو پھر بھی اس مہر کا لوٹانا واجب نہیں۔ البتہ عدت ختم ہونے تک مرد کا عورت کیلئے روٹی، کپڑا اور رہنے کا گھر دینا پڑے گا۔ لیکن اگر عورت نے کہہ دیا ہو کہ عدت کے دوران روٹی کپڑا اور رہنے کا گھر بھی تم سے نہیں لوں گی تو پھر وہ بھی معاف ہو جائے گا۔
مسئلہ 04:
اور اگر کسی مرد نے خلع کرتے ہوئے اس کے ساتھ کچھ مال کا بھی ذکر کر دیا ہو جیسے یوں کہے کہ میں نے دو ہزار روپے کے عوض تجھ سے خلع کیا پھر عورت نے خلع قبول کر لیا تو خلع ہو جائے گا۔ اب عورت کے ذمہ دو ہزار روپے دینے واجب ہوں گے۔ خواہ اپنا مہر لے چکی ہو تب بھی دو ہزار روپے دینے پڑیں گے اور اگر اور اگر مہر بھی نہیں لیا ابھی تک تو پھر بھی دو ہزار دینے پڑیں گے اور اب مہر بھی نہیں ملے گا کیونکہ وہ خلع کی وجہ سے معاف ہو گیا۔
مسئلہ 05:
اگر مرد نے خلع مہر پر کیا ہو یعنی مرد نے یوں کہا کہ میں نے تجھ سے مہر کے بدلے خلع کیا اور عورت نے بھی قبول کر لیا تو اس صورت میں اگر مہر عورت نے ابھی وصول نہیں کیا تھا تو مہر ساقط ہو جائے گا اور اگر مہر وصول کر چکی تھی تو پھر واپس لوٹانا پڑے گا۔
مسئلہ 06:
خلع میں اگر قصور مرد کی طرف سے ہو تو مرد کا روپیہ اور مال لینا یا جو مہر مرد کے ذمہ ہے اس کے عوض میں خلع کرنا گناہِ کبیرہ ہے۔ اگر خلع کے عوض کچھ مال لے لیا تو مرد کا اس مال کو اپنے خرچ میں لانا بھی حرام ہے۔ اور اگر عورت ہی کا قصور ہو تو پھر جتنا مہر دیا ہے اس سے زیادہ مال نہث لینا چاہیے بس صرف مہر ہی کے عوض میں خلع کرے۔ اگر مہر سے زیادہ مال لے لیا تو بھی خیر یہ اچھا تو نہیں لیکن کچھ گناہ بھی نہیں۔
مسئلہ 07:
اگر کوئی عورت خلع کرنے پر راضی نہیں تھی لیکن مرد نے اس کے ساتھ زبردستی کی اور عورت کو خلع کرنے پر مجبور کیا یعنی مار پیٹ کر یا دھمکا کر خلع کیا تو طلاق تو واقع ہو جائے گی لیکن عورت پر کچھ بھی مال واجب نہیں ہوگا۔ اور اگر مرد کے ذمہ ابھی تک مہر باقی ہو تو وہ بھی معاف نہیں ہوگا۔
خلع اور مال کے عوض طلاق کے درمیان فرق:
خلع وہ ہے جب خلع کا لفظ کہا ہو یا یوں کہا ہو کہ ایک ہزار روپے یا پانچ ہزار روپے کے عوض میں میری جان چھوڑ دے یا یوں کہا میرے مہر کے عوض میں مجھ کو چھوڑ دے۔ لیکن اگر اس طرح نہیں کہا گیا بلکہ طلاق کا لفظ کہا گیا جیسے یوں کہا ہو کہ دو ہزار روپے کے عوض مجھے طلاق دے دو تو اب اس کو خلع نہیں کہیں گے۔ اگر مرد نے اس مال کے عوض میں طلاق دے دی تو ایک طلاق بائن واقع ہو جائے گی اور اس میں کوئی حق بھی معاف نہیں ہوگا نہ ہی وہ حق جو مرد کے اوپر ہیں اور نہ ہی وہ حق جو عورت پر ہیں۔ مرد نے اگر ابھی تک مہر نہیں دیا تو وہ بھی معاف نہیں ہوگا۔ اور عورت بھی اس مہر کا دعویٰ کر سکتی ہے اور مرد اس طلاق کے عوض یہ دو ہزار روپے عورت سے لے گا۔
مسئلہ 01:
اگر کسی مرد نے کہا میں نے تین ہزار روپے کے عوض میں طلاق دی تو اب یہ طلاق عورت کے قبول کرنے پر موقوف ہے۔ اگر عورت طلاق قبول نہ کرے تو طلاق واقع نہیں ہو گی اور اگر قبول کر لے تو ایک طلاق بائن واقع ہو جائے گی۔ لیکن اگر جگہ تبدیل ہو جانے کے بعد عورت نے قبول کیا تو اب طلاق واقع نہیں ہوگی۔
مسئلہ 02:
اگر کسی عورت نے اپنے شوہر کو کہا کہ تین ہزار روپے کے بدلے میں مجھے تین طلاق دے دو۔ تو اس پر شوہر نے ایک ہی طلاق دی تو صرف ایک ہزار روپیہ مرد کو ملے گا اور اگر دو طلاقیں دی ہوں تو دو ہزار ملے گا۔ اور اگر تین طلاقیں دے دے تو پھر پورے تین ہزار روپے عورت کے ذمہ واجب ہوں گے اور ان تینوں صورتوں میں طلاق بائن واقع ہوگی کیونکہ یہ طلاق مال کے بدلہ میں ہے۔
پاکستان کے عائلی قوانین کے تحت جب کوئی عورت اپنی کسی پریشانی یا مجبوری میں عدالت سے رجوع کرتی ہے اور خلع کی بنیاد پر جدائی حاصل کرنا چاہتی ہے اور عدالت اس کے حق میں فیصلہ کرنا چاہتی ہے تو یہ حکم جاری کرتی ہے کہ خلع کی بنیاد پر نکاح فسخ کیا جاتا ہے۔ اور شوہر سے خلع پر رضامندی بھی حاصل نہیں کی جاتی ۔ جبکہ خلع میاں بیوی کے درمیان ایک باہمی معاہدہ ہوتا ہے اور عدالت یکطرفہ طور پر جبراً خلع نہیں کروا سکتی۔ اس سے نکاح ختم نہیں ہوتا اور عورت کا آگے کسی اور شخص سے بھی نکاح کرنا صحیح نہیں ہوتا۔ اس لیے مزید تسلی کیلئے عدالت کے ذریعے خلع حاصل کرنے سے پہلے ہی کسی معتبر دارالافتاء سے مشورہ کر لیں۔