پاره نمبر 28
سورة المجادله ترتیبی نمبر 58 نزولی نمبر 105
مدنی سورت : سورہ مجادلہ مدنی ہے۔
آیات اس میں ۲۲ آیات اور ۳ رکوع ہیں۔
وجه تسمیه:
آیت نمبرا میں ہے: قَدْ سَمِعَ اللَّهُ قَوْلَ الَّتِي تُجَادِلُكَ فِي زَوْجِهَا ؕ
(اے پیغمبر ) ! جو عورت تم سے اپنے شوہر کے بارے میں بحث و جدال کرتی ہے)۔ مجادلہ( جھگڑنے والی) کہا گیا اور سورت کا نام بھی اس واقعہ کے پس منظر میں مجادلہ قرار پایا۔
اس سورت میں :
۱۔ عام مدنی سورتوں کی طرح شرعی احکام کا بیان۔
۲۔ اور منافقین کا تذکرہ ہے۔
خولہ بنت ثعلبه رضی اللہ عنہا :
اس سورت کی ابتداء میں حضرت خولہ بنت ثعلبہ رضی اللہ عنہا کے واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔
جو اپنے شوہر حضرت اوس بن صامت رضی اللہ عنہ کی شکایت لے کر آئی تھیں۔ جنہوں نے ان سے ظہار کر لیا تھا اور شکایت کا انداز ایسا تھا کہ گویا وہ جھگڑ رہی ہیں۔ اس لیے انہیں “مجادلہ” ( جھگڑنے والی) کہا گیا۔
زمانہ جاہلیت میں ظہار :
اپنی بیوی کو ماں کی طرح حرام قرار دینا طلاق کے حکم میں تھا۔ اس کی وجہ سے بیوی شوہر پر ہمیشہ کے لیے حرام ہو جاتی تھی۔ قرآن نے اس حرمت کی ایک حد مقرر کردی۔ جو کفارہ دینے سے ختم ہو جاتی ہے۔
سورہ مجادلہ کے اہم مضامین درج ذیل ہیں:
1۔ سرگوشی کا حکم :
یہ سورت سرگوشی کا حکم بیان کرتی ہے۔ یعنی اگر دو یا زیادہ شخص دوسرے لوگوں کے سامنے ایک دوسرے کے کان میں بات چیت شروع کر دیں تو اس کا کیا حکم ہے۔
حدیث:
جہاں تک حدیث کا تعلق ہے تو تین افراد کی صورت میں دو کی سرگوشی کو آداب مجلس کے خلاف قرار دیا گیا ہے۔ کیونکہ ایسا کرنے سے تیسرے کے دل میں یہ بدگمانی آسکتی ہے کہ شاید یہ دونوں میرے بارے میں کوئی خفیہ بات کر رہے ہیں۔
یہود کی عادت :
۱۔ لیکن یہاں جس سرگوشی سے منع کیا جارہا ہے وہ یہود کی عادت تھی۔ وہ محض مسلمانوں کو پریشان کرنے کے لیے آپس میں کانا پھونسی کیا کرتے تھے۔
۲۔ یونہی حضور اکرم ﷺ کو سلام کرتے تھے تو منہ بگاڑ کر ”السام علیک یا ابا القاسم کہا کرتے تھے۔
ان آیات میں ان قبیح حرکات پر ان کی مذمت کی گئی ہے۔
البتہ ایسی سرگوشیوں اور خفیہ مشوروں کی اجازت دی گئی ہے۔ جو نیکی اور تقویٰ کے بارے میں ہوں۔
2۔ مجلس کا ادب :
اجتماعی آداب میں سے مجلس کا ادب یہ بیان کیا گیا ہے:
۱۔ کہ جب تمہیں مجلس میں وسعت پیدا کرنے کے لیے کہا جائے تو وسعت پیدا کر دیا کرو۔
۲۔ اور اگر تمہیں مجلس سے اٹھ جانے کے لیے کہا جائے تو اٹھ جایا کرو۔
با وقار مجلس:
یہ حکم صرف نبی کریم ﷺ کی مجلس کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ بلکہ ہر باوقار مجلس کے لیے ہے۔ جو دین کے کسی بھی شعبہ کے سلسلہ میں منعقد ہوئی ہو۔
لیکن یہ کوئی فرض اور واجب نہیں ہے۔ بلکہ صرف مستحب ہے۔ جو شخص پہلے سے مسجد میں یا کسی اور مجلس میں بیٹھا ہو۔ وہ اس جگہ بیٹھنے کا زیادہ حق دار ہوتا ہے۔ البتہ اسے چاہیے کہ اگر ممکن ہو تو بعد میں آنے والے مسلمان بھائی کے لیے وسعت پیدا کردے۔
حزب الشيطن :
یہ سورت ان منافقوں کا بھی تذکرہ کرتی ہے:
۱۔ جو یہود سے دوستی بھی رکھتے تھے۔
۲۔ اور اپنے مومن ہونے پر قسمیں بھی کھاتے تھے۔
۳۔ ان کے بڑے بڑے دعاوی کے باوجود اللہ تعالیٰ نے انہیں
” حزب الشیطان” (شیطان کی جماعت) قرار دیا ہے۔
سعادت مند :
جو کسی صورت بھی اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے دشمنوں کے ساتھ دوستی نہیں رکھتے۔ خواہ وہ ان کے ماں باپ بیٹے بھائی اور قبیلے والے ہی کیوں نہ ہوں۔ ان سعادت مندوں کے لیے اللہ نے چار نعمتوں کا اعلان فرمایا ہے۔
۱۔ پہلی نعمت :
یہ کہ اللہ نے ان کے دلوں میں ایمان کو جما دیا ہے۔
۲۔ دوسری نعمت :
یہ کہ ان کی غیبی مدد کی جائے گی۔
۳۔ تیسری نعمت :
یہ کہ انہیں جنت میں داخل کیا جائے گا۔
۴۔ چوتھی نعمت :
یہ کہ اللہ ان سے راضی ہو گیا ہے اور وہ بھی اللہ کی نعمتوں اور عطاء پر راضی ہو گئے۔