سو رۃ القمر : ترتیبی نمبر 54 نزولی نمبر 37
Read Surah Al-Qamar Online with URDU Translation
مکی سورت: سور قمر مکی ہے۔
آیات : اس میں 55آیات اور 3رکوع ہیں۔
وجہ تسمیه :
آیت نبرا میں ہے: اقتربت الساعة وانشق القمر
قیامت قریب آ پہنچی اور چاند شق ہو گیا ( اس سے مراد چاند دو ٹکڑے ہو گیا) اسی معجزہ کی نسبت سے اس سورت کا نام سورۂ قمر رکھا گیا۔
اس سورت میں :
۱۔ وعدے بھی ہیں ،
۲۔ وعیدیں بھی ہیں ،
۳۔ مومنوں کے لیے بشارتیں بھی ہیں،
۴۔ اور کفار کے لیے ڈراوے بھی ہیں،
۵۔ مواعظ اور عبرتیں بھی ہیں،
۶۔ نبوت ورسالت،
۷، بعث و نشور
۸۔ اور قضا و قدر جیسے بنیادی عقائد بھی ہیں۔
((اس سورت کے اہم مضامین کی چند جھلکیاں یوں پیش کی جاسکتی ہیں: ))
1۔ اس سورت کی پہلی آیت میں قرب قیامت اور شق قمر کا ذکر ہے۔
۱۔ قرب قیامت
قیامت کے قریب آجانے کا مطلب یہ ہے کہ نبوت محمدیہ کا زمانہ اس زمانے کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ جو آپ (ﷺ) سے پہلے گزر چکا ہے۔
مجھے اور قیامت کو یوں بھیجا گیا ہے:
بخاری و مسلم کی روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے انگشت شہادت اور درمیان والی انگلی اٹھاتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ:
” مجھے اور قیامت کو یوں بھیجا گیا ہے۔”
۲۔ شق قمر :
ہمارے آقا ﷺ کا مشہور معجزہ ہے جب اہل مکہ نے آپ (ﷺ) سے معجزہ کا مطالبہ کیا تو آپ (ﷺ) نے چاند کی طرف اشارہ فرمایا تو اس کے دو ٹکڑے ہو گئے۔
لیکن جن کے مقدر میں ہدایت نہ تھی وہ کہاں ماننے والے تھے۔ اسی لیے فرمایا گیا:
اگر یہ کوئی بھی معجزہ دیکھ لیں تو منہ پھیر لیں گے اور کہہ دیں گے کہ یہ پہلے سے چلا آتا ہوا جادو ہے۔
اس دن کا انتظار :
اللہ نے اپنے نبی ﷺ کو حکم دیا ہے کہ آپ (ﷺ) ان سے اعراض فرمائیں اور اس دن کا انتظار کریں:
۱۔ جب یہ قبروں سے اس حال میں کھڑے ہون گے کہ ان کی آنکھیں جھکی ہوں گی۔
۲۔ چہروں پر ذلت کی سیاہی چھائی ہوگی۔
۳۔ پکارنے والے کی طرف دوڑتے ہوئے جائیں گے۔
۴۔ اور دو خود کہیں گے کہ یہ دن تو ہمارے لیے بڑا سخت ثابت ہوا ہے۔
2جن جرائم کا ارتکاب :
اس کے بعد یہ سورت کفار مکہ کو ڈراتی ہے کہ کہیں تم پر بھی ویسا ہی عذاب نہ آجائے جیسا عذاب تم سے پہلی اقوام پر آیا کیونکہ تم بھی انہی جرائم کا ارتکاب کر رہے ہو جن جرائم کا ارتکاب وہ کرتی تھیں۔
تباہی کے بعد سوال:
یہاں جن تباہ شدہ اقوام کا اللہ نے ذکر فرمایا ہے۔ ان کی تباہی کا قصہ بیان کرنے کے بعد عام طور پر یہ سوال بار بار کیا ہے کہ:
بتاؤ! میرا عذاب اور میری ڈرانے والی باتیں کیسی رہیں؟
سوال کے بعد اطلاع:
اور اس سوال کے متصل بعد یہ اطلاع دی ہے کہ:
” اور بے شک ہم نے قرآن کو سمجھنے کے لیے آسان کر دیا ہے۔ پس کیا کوئی نصیحت حاصل کرنے والا ہے؟”
قرآن آسان ہونے کا مطلب:
قرآن کے آسان ہونے کا مطلب یہ ہے:
۱۔ کہ اسے پڑھنا
۲۔ حفظ کرنا
۳۔ اس سے نصیحت حاصل کرنا
۴۔ اور اس پر عمل کرنا بہت آسان ہے
۵۔ اس کے آسان ہونے ہی کا نتیجہ ہے کہ ایسے دیہاتی بھی قرآن کریم کی تلاوت بسہولت کر لیتے ہیں جو اپنی مادری زبان میں چھوٹا سا کتا بچہ بھی نہیں پڑھ سکتے۔
۶۔ چھوٹے چھوٹے معصوم بچے اپنے سینوں میں ساری نزاکتوں اور قواعد کو ملحوظ رکھتے ہوئے محفوظ کر لیتے ہیں۔
۷۔ جب صاف دل والے اسے پڑھتے اور سنتے ہیں تو ان کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑتے ہیں اور دلوں میں عمل کا جذ بہ بیدار ہو جاتا ہے۔
۸۔ اس کے آسان ہونے کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ کس و ناکس اس کا مطالعہ کرنے کے بعد اس کی آیات سے مسائل استنباط کرنے لگے اور مجتہد بن کر بیٹھ جائے۔
3۔ سورت کا اختتام :
سورت کے اختتام پر اللہ تعالی فرماتے ہیں:
تقدیر:
ہم نے ہر چیز کو ایک خاص اندازے کے ساتھ پیدا کیا ہے۔
لوح محفوظ :
اس کا ئنات میں جو کچھ بھی ہے خواہ وہ خیر ہو یا شر۔ سب اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے۔ مرتب اور حکمت کے تقاضوں کے مطابق ہے۔ جو کچھ ہونے والا ہے۔ سب لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے اور موجود ہونے سے پہلے ہی اللہ کو معلوم ہے۔
عقیده تقدیر
اس آیت کریمہ سے اہل سنت و الجماعت نے عقیدہ تقدیر کے اثبات پر استدلال کیا ہے۔ ان آیات میں یہ وضاحت بھی کر دی گئی ہے کہ انسانوں کے بارے میں چھوٹی بڑی باتیں سب لوح محفوظ میں درج ہیں اور کراماً کا تبین بھی لکھ رہے ہیں۔
چھوٹا گناه:
لہذا کسی بھی گناہ کو چھوٹا سمجھ کر اس کا ارتکاب نہیں کرنا چاہیے۔
چھوٹی نیکی
اور کسی بھی نیکی کو حقیر سمجھ کر چھوڑ نا نہیں چاہیے۔
رضا اور عزت کا مسکن:
آخر میں متقین کو اچھے انجام اللہ کی رضا اور عزت کے مسکن کی بشارت سنائی گئی ہے