سوره فصلت ( حم سجده ) ترتیبی نمبر 41 نزولی نمبر 61
مکی سورت : سورۃ فصلت مکی ہے۔
آیات اس میں ۵۴ آیات اور ۶ رکوع ہیں۔
سورۃ السجدۃ کا مکمل خلاصہ
وجه تسمیه :
۱۔ آیت نمبر ۳ میں ہے: كِتب فُصِّلَتْ آیٰتُہُ۔ یہ ایسی کتاب ہے جس کے معانی مضامین مقاصد مواعظ احکام امثال وعدے وعید میں اور نقص سب بالکل واضح ہیں۔ ان میں کوئی ابہام اور کوئی اخفا نہیں۔ قرآن کی اسی صفت کی وجہ سے سورۃ کا نام سورہ فصلت ہے۔
۲۔ اس سورت میں چونکہ سجدہ تلاوت آیا ہے۔ اس لیے اسے حٰمٓ سجدہ بھی کہا جاتا ہے۔
۳۔ اس سورت کا آغاز بھی حروف مقطعات میں سے “حم” کے ساتھ ہوا ہے۔
حوامیم سبعہ :
ایسی سورتوں کی تعداد سات ہے۔ جو حٰمٓ سے شروع ہوتی ہیں۔ انہیں اصطلاح میں ” حوامیم سبعہ ” اور ” آل حم” بھی کہا جاتا ہے۔ یہ سورتیں جس ترتیب سے مصحف میں موجود ہیں۔ اسی ترتیب سے نازل ہوئی تھیں۔
قرآن کا حسن:
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے ان سورتوں کو قرآن کا حسن قرار دیا ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ ہر چیز کا مغز ہوتا ہے اور قرآن کا مغز “آل حٰمٓ” ہیں۔
حوامیم سبعہ درج ذیل ہیں:
۱۔ مؤمن ۲۔ حم سجدہ ۳۔ زخرف ۴۔ شوریٰ ۵۔ دخان ۶۔ جاثیہ اور ۷۔ احقاف۔
کوئی ابہام اور کوئی اختفاء نہیں:
یہ سورت اپنا آغاز قرآن عظیم کے ذکر سے کرتی ہے اور بتاتی ہے کہ یہ کتاب اس ہستی کی طرف سے نازل ہوئی ہے۔ جو بے حد مہربان اور انتہائی رحم کرنے والا ۔ اس سورت کے احکام اور معانی مضامین اور مقاصد قصص اور مواعظ احکام اور امثال وعدے اور وعیدیں سب بالکل واضح ہیں۔ ان میں کوئی ایہام اور کوئی اختفاء نہیں۔
وہ بد بخت
لیکن اس وضاحت اور بیان کے باوجود بہت سارے لوگ اس سے اعراض کرتے ہیں اور وہ بد بخت اپنے آپ کو خود ہی اندھوں اور بہروں کے ساتھ تشبیہ دیتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ہمارے دلوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں۔ کانوں میں ڈاٹ ہیں اور اے نبی ! ہمارے اور تمہارے درمیان پردہ حائل ہے۔ لہذا نہ تو ہم تمہاری دعوت سمجھتے ہیں نہ سنتے ہیں اور نہ ہی تجھے دیکھ پاتے ہیں۔
مشرکین کے ہزیان اور یاوہ گوئی کے جواب میں اللہ نے اپنے نبی کو حکم دیا کہ آپ اپنی شخصیت کا تعارف اور اپنی بعثت کا مقصد بتادیجیے۔
آپ فرمادیجیے ! مجھے فرشتہ یا کوئی دوسری مخلوق ہونے کا دعوئی نہیں۔ میں بشری تقاضے اور ضروریات رکھنے والا تمہارے جیسا انسان ہوں۔ لیکن اللہ تعالی نے مجھے وحی اور رسالت کے ساتھ امتیاز بخشا ہے۔
عاد و ثمود کی تکذیب و انکار اور انجام :
اس کے بعد یہ سورت مشرکین کے کفر وشرک پر تعجب کا اظہار کرتی ہے۔ جو اللہ کی عظمت و جلال کے آثار کا مشاہدہ کرنے کے باوجود ان کا انکار کرتے ہیں۔ ان آثار و براہین کی نشاندہی کرنے کے ساتھ ساتھ عاد و ثمود کی تکذیب و انکار اور ان کا انجام ذکر کیا گیا ہے۔
قوم عاد کی حیرت انگیز جسمانی قوت:
قوم عاد کو حیرت انگیز جسمانی قوت عطا کی گئی تھی۔ ان کی طاقت کا یہ حال تھا کہ ان کا ایک شخص پہاڑ سے چٹان توڑ کر الگ کر دیتا تھا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ وہ اس قوت و طاقت کی عطا پر اللہ کا شکر ادا کرتے لیکن وہ شکر کے بجائے گھمنڈ میں مبتلا ہو گئے اور فخریہ طور پر چیلنج کرنے لگے کہ:
” ہے کوئی جو ہم سے زیادہ طاقتور ہو ؟”
ان کی حماقت اور نادانی پر تعجب کا اظہار کرتے ہوئے انہیں جواب دیا گیا:
۱۔ کہ کیا تم اس ذات کی قوت و طاقت سے غافل ہو گئے جس نے تمہیں پیدا کیا ۔
۲۔ کیا تم اس حقیقت کو بھول گئے ہو کہ تمہاری طاقت باری تعالیٰ کی عظمت و کبریائی اور قوت و جلال کے سامنے کچھ بھی حقیقت نہیں رکھتی؟
تیز اور ٹھنڈی ہوا کا عذاب:
پھر یوں ہوا کہ ان پر تیز اور ٹھنڈی ہوا کا عذاب مسلط کر دیا گیا۔ مسلسل سات دن تک ہوا چلی اور ہوا نے انہیں اٹھا کر یوں پٹخا۔ گویا وہ بے حیثیت کیڑے مکوڑے اور خس و خاشاک ہوں۔
قوم ثمود بھی عذاب کی لپیٹ میں:
قوم ثمود نے بھی ایمان پر کفر کو ہدایت پر ضلالت کو اور بصارت پر اندھے پن کو ترجیح دی تھی ۔ ایک دن جب کہ وہ اپنی عیاشیوں میں مست تھے۔
۱۔ ایک چنگھاڑ آئی جس سے کانوں کے پردے پھٹ گئے۔
۲۔ اور زلزلہ آیا جس سے سب کچھ زیروزبر ہو کر رہ گیا۔
اخروی عذاب
عاد و ثمود جیسی سرکش قوموں پر دنیاوی عذاب کا تذکرہ کرنے کے بعد اخروی عذاب کا تذکرہ ہے۔
جسم کے اعضاء کھال تک خلاف گواہی:
جب اللہ کے دشمنوں کو اللہ کے حضور جمع کیا جائے گا اور وہاں ان کے اعضاء یہاں تک کہ ان کے جسم کی کھال ان کے خلاف گواہی دے گی۔
مؤمنین کا تعارف:
یہ سورت متکبرین اور منکرین کے مقابلہ میں مخلص مؤمنین کا تعارف کراتی ہے۔ جن کا نمایاں ترین وصف ایمان پر استقامت ہے۔ جب انہوں نے ایک بار اللہ کو اپنا رب کہہ دیا تو اب وہ زندگی بھر اپنے اس قول و قرار پر جم گئے۔ یہی استقامت ہی ولایت ہے اور استقامت سب کرامتوں سے بڑی کرامت ہے۔
من چاہی زندگی:
اصحاب استقامت کو جنت میں ٹھکانہ دے کر کہا جائے گا کہ اب تم یہاں من چاہی زندگی گزارو۔ یہ بدلہ ہے اس کا کہ تم دنیا میں خدا چاہی زندگی گزار چکے ہو۔
اللہ کی طرف دعوت دینے والے:
اصحاب استقامت میں سے بھی اللہ کے نزدیک سب سے معزز اور قابل تحسین وہ لوگ ہیں جو اخلاص اور حکمت کے ساتھ اللہ کی طرف دعوت دیتے ہیں اور اس راہ کی مشکلات کو رضاء الہی کے حصول کے لیے برداشت کرتے ہیں۔
پارہ کا اختتام:
اس پارہ کا اختتام رب تعالی کے عدل کے بیان پر ہوتا ہے۔ فرمایا گیا:
“جو نیک عمل کرتا ہے۔ سو وہ اپنے لیے کرتا ہے اور جو برے کام کرتا ہے۔ سو اس کا وبال اسی پر پڑے گا اور تیرا رب بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے۔”
پاره نمبر 25
چوبیسویں پارہ کے آخر میں اللہ کے عدل کامل کا بیان تھا۔ جس کی وجہ سے قیامت کے دن کسی پر بھی ظلم نہیں ہو گا۔
قیامت کا وقوع:
اب پچیسویں پارہ کے شروع میں ہے کہ قیامت کے وقوع کی تاریخ کا علم صرف اللہ ہی کو ہے۔
لوگ خرید وفروخت اور ذاتی دلچسپیوں میں منہمک ہوں گے کہ اچانک قیامت قائم ہو جائے گی۔
اس دن اللہ مشرکوں سے سوال کرے گا کہ کہاں گئے میرے وہ شریک جن کی تم عبادت کیا کرتے تھے؟
وہ انتہائی ندامت کے ساتھ جواب دیں گے کہ آج ہمارے درمیان کوئی بھی ایسا فرد نہیں جو تیرے لیے کسی شریک کا اقرار کرتا ہو۔
کائنات اور خود انسان کی ذات کے راز :
سورہ حٰمٓ کے اختتام پر اللہ تعالٰی نے اپنے بندوں کے ساتھ وعدہ فرمایا ہے کہ وہ اس کائنات اور خود انسان کی ذات کے اندر جو راز ہیں۔ ان کے بارے میں انہیں مطلع فرمائے گا اور یہ راز جب کھلیں گے تو ہر کوئی جان لے گا کہ یہ کتاب برحق ہے۔
انکشافات ایجادات اور تحقیقات کا زمانہ:
اللہ کا یہ وعدہ سچا تھا اور گزشتہ چودہ سو سال سے اس وعدہ کا ایفاء ہورہا ہے۔ کائنات اور انسان کے بارے میں ایسے ایسے انکشافات ہورہے ہیں۔ جن کا قدیم زمانے کے انسان نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔ بالخصوص ہمارا زمانہ انکشافات ایجادات اور تحقیقات کا زمانہ ہے۔ کوئی دن نہیں جاتا۔ جب انسان اور کائنات کے بارے میں کوئی نئی تخلیق اور کوئی نیا انکشاف سامنے نہ آتا ہو۔
۱۔ بتائیے کس نے سوچا تھا کہ انسان چاند تک پہنچ جائے گا؟ ۲۔ اور پورے کرہ ارض کے ارد گرد گھوم جائے گا؟
۳۔ کسی کے حاشیہ خیال میں بھی یہ بات نہ آئی ہوگی کہ مشرق میں رہنے والوں کی آوازیں اہل مغرب اور اہل مغرب کی آواز میں اہل مشرق سن سکیں گے۔
۴۔ بلکہ آج تو آوازمیں ہی نہیں ان کی صورتیں اور حرکات وسکنات بھی دکھائی دے رہی ہیں۔
۵۔ ایک وقت تھا کہ انسان سورج کو کائنات کی عظیم ترین چیز سمجھ کر اس کے سامنے جھکتا تھا آج اس نے معلوم کر لیا کہ نظر آنے والا سورج تو کائنات کا ایک چھوٹا ساکرہ ہے اور اس جیسے کئی سو ملین سورج پس پردہ موجود ہیں۔
۶۔ انسان سمندروں اور دریاؤں کے پیٹ میں گھس گیا اور ان کے پیٹ میں جو کچھ چھپا تھا۔ اس نے اسے دیکھ لیا۔
۷۔ انسان نے اپنے جسم اس کی بناوٹ اس کی خصوصیات اور اس کے اسرار و رموز کے بارے میں بہت کچھ معلوم کر لیا۔
۸۔ انسانی نفسیات کے بارے میں بھی اس پر کئی راز منکشف ہوئے ہیں۔
یہی بات قرآن کو دائمی معجزہ ثابت کرتی ہے:
لیکن اس کے باوجود کس کے اندر جرات ہے کہ وہ دعوی کر سکے کہ وہ کائنات اور انسان کے سارے رازوں سے واقف ہو گیا ہے اور علمی تحقیق اور سائنسی ترقی کمال کی آخری حد کو پہنچ گئی ہے۔ علم و تحقیق کی اس تیز رفتاری کا کوئی بھی مذہبی کتاب قرآن کے سو ساتھ نہیں دے سکتی۔ یہی بات قرآن کو دائی معجزہ ثابت کرتی ہے۔
۱۔ یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی لاٹھی ۔
۲/ اور حضرت سلیمان علیہ السلام کے ہوائی تخت کی طرح مادی معجزہ نہیں ہے۔
یہ ایک علمی معجزہ ہے اور علمی دور کے لیے نازل ہوا ہے۔ انسان کا علم جتنی ترقی کرتا جائے گا۔ اس پر قرآن کی صداقت اتنی ہی کھلتی جائے گی۔ وہ وقت آکر رہے گا۔ جب ہر غیر متعصب صاحب علم کی گردن قرآن کے سامنے جھک جائے گی۔ (انشاء اللہ )