سورت الاحزاب ترتیبی نمبر 33 نزولی نمبر 90
سورۃ احزاب – Tafseer e Quran – تفسیر قرآن
مدنی سورت: سورہ احزاب مدنی ہے۔
آیات: اس میں 73 آیات اور 9 رکوع ہیں۔
وجہ تسمیہ:
جس لشکر نے مدینہ پر چڑھائی کی تھی۔ اس میں مختلف جماعتیں اور قبائل شریک تھے۔ چونکہ اس سورت میں غزوہ احزاب کو خاص اہمیت ہے۔ اس لیے اس سورت کا نام سورۃ احزاب رکھ دیا گیا۔
سورت کے موضوعات:
اس سورت میں تین موضوعات سے بحث کی گئی ہے۔ یعنی : ۱۔ اجتماعی آداب ۲۔ تشریعی احکام ۳۔ اور بعض غزوات کا بیان مثلا غزوہ احزاب غزوۂ بنی قریظہ اور ان دونوں غزوات میں منافقین کا کردار اور ان کی حالت۔
اس سورت کے اہم مضامین میں درج ذیل ہیں:
1۔ نبی کی امت کو چار امور کا حکم :
پہلی دو آیتوں میں اپنے نبی کے واسطہ سے نبی کی امت کو ایسے چار امور کا حکم دیا گیا ہے۔ جو کہ حقیقت میں فلاح اور سعادت کے عناصر ہیں:
۱۔ پہلا یہ کہ اللہ سے ڈرتے رہیں۔
۲۔ دوسرا یہ کہ کافروں اور منافقوں کی آراء کا اتباع نہ کریں۔ ۳۔ تیسرا یہ کہ وحی الہی کی اتباع کرتے رہیں۔
۴۔ چوتھا یہ کہ اللہ پر اعتماد اور بھروسہ کر یں۔
ایک نقطہ قابل توجہ:
یہاں یہ نکتہ ملحوظ رہے کہ اللہ تعالی نے پورے قرآن میں کہیں بھی ہمارے آقا ﷺ کو یا محد‘ کہ کرنہیں پکارا۔ یہاں بھی “یا ایھا النبی“ کہہ کر خطاب کیا گیا ہے۔
جبکہ دوسرے انبیاءکو:
۱۔ یا آدم ۲۔ یا موی ۳۔ یا عیسیٰ ۴۔ اور یا زکریا کہہ کر خطاب کیا گیا ہے۔
2۔ جاہلانہ خیالات اور تصورات کی تردید :
زمانہ جاہلیت کے بعض معتقدات اور عادات کی تردید کی گئی ہے۔ جن میں سے بعض عقلی اعتبار سے باطل تھیں اور بعض شرعی اعتبار سے قبیح تھیں ۔ یہاں آیت نمبر 4 میں تین جاہلانہ خیالات اور تصورات کی تردید کی گئی ہے۔
سینے میں دودل:
ان کا یہ خیال تھا کہ بعض لوگوں کے سینے میں دو دل ہوتے ہیں۔ اس خیال کے رد میں فرمایا گیا کہ:
“اللہ نے کسی آدمی کے پہلو میں دو دل نہیں بناۓ ۔”
دل تو بس ایک ہی ہوتا ہے۔
*یا اس میں ایمان ہوگا یا کفر ہوگا۔
*ایک ہی دل میں کفر اور ایمان دونوں جمع نہیں ہو سکتے۔
*اس سے ان منافقین کی بھی تردید ہوگئی۔ جنہوں نے کفر اور ایمان کے درمیان ایک تیسرا درجہ نفاق کا بھی تجویز کر رکھا تھا۔
جاہلی ظہار :
جاہلی ظہار یہ تھا کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو “نت علی کظهر امی” ( تم میرے اوپر ایسے ہو جیسے میری ماں کی پشت ) کہہ دیتا تو ان الفاظ کے کہنے سے اس کی بیوی ہمیشہ کے لیے اس پر حرام ہو جاتی تھی۔
لیکن قرآن نے بتایا کہ کفارہ دینے سے بیوی حلال ہو جاۓ گی۔
منہ بولے بیٹے کا حکم :
اسلام سے قبل منہ بولے بیٹے کا حکم حقیقی بیٹے جیسا ہوتا تھا۔ قرآن نے اس غلط تصور کی تردید کی۔
روحانی باپ روحانی مائیں:
جب حینی ( منہ بولا بیٹا ) کے تصور کی تردید ہوگئی اور بتایا گیا:
۱۔ کہ حضور اکرم (ﷺ ) حضرت زید بن حارثہ رضی الگہ عنہ کے حقیقی والد کا حکم نہیں رکھتے۔
۲۔ تو پھر یہ اعلان کیا گیا کہ آپ ﷺ کی ابوت ساری امت کے لیے عام ہے۔
۳۔ اور آپ ﷺ کی ازواج مطہرات ساری امت کی روحانی مائیں ہیں۔
۴۔ ان کا ادب و احترام واجب ہے اور ان کے ساتھ نکاح کرنا حرام ہے۔
3۔ اس کے بعد 19 آیات میں غزوہ احزاب اور غزوہ بنی قریظہ کی تفصیل ہے:
غزوہ احزاب:
۱۔ غزوہ احزاب شوال ۵ ہجری میں ہوا۔
۲۔ جب مشرکین کے دس یا پندرہ ہزار جنگجوؤں نے مدینہ کا محاصرہ کرلیا۔
۳۔ یہ جنگجومختلف قبائل سے تعلق رکھتے تھے ۔
۱۔ یهود بنی نضیر ۲۔ اور یہود بنی قریظہ
۴۔ جن کے ساتھ مسلمانوں کا صلح کا اور ایک دوسرے کے دشمن کے ساتھ تعاون نہ کرنے کا معاہدہ تھا۔
۵۔ انہوں نے اس معاہدہ کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی اور ابوسفیان کے ساتھ تعاون کیا۔
۶۔ مسلمان صرف تین ہزار تھے۔
۷۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی رائے پر عمل کرتے ہوۓ مدینہ کے شمال مغرب میں جہاں سے دشمن کے حملہ آور ہونے کا خطرہ تھا۔ خندق کھودی گئی ۔ اس لیے اسے غزوہ خندق بھی کہا جاتا ہے۔
اور غزوہ احزاب اس لیے کہتے ہیں کیونکہ جس لشکر نے مدینہ پر چڑھائی کی تھی۔ اس میں مختلف جماعتیں اور قبائل شریک تھے۔
۸۔ ان جنگجوؤں نے تقریبا ایک ماہ تک مدینہ کا محاصرہ کیے رکھا۔
۹۔ پھرنعیم بن مسعود غطفانی کی کوششوں سے یہود اور قریشی اور غطفانی لشکر کے درمیان پھوٹ پڑ گئی۔
۱۰۔ اللہ کی طرف سے انہی دنوں طوفانی آندھی آ گئی۔ جس کی زد میں آ کر ان کے خیمے اکھڑ گئے۔ جانور بلک گئے۔
۱۱۔ ان کے عزائم پست ہو گئے۔ پھر قریش اور غطفان اور دوسرے قبائل اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے بغیر راہ فرار اختیار کر گئے۔
غزوہ بنی قریظہ:
ابوسفیان اور اس کے حمایتیوں کے چلے جانے کے بعد مسلمانوں نے بنی قریظہ کا محاصرہ کر لیا اور انہیں ان کی عہد شکنی کی عبرتناک سزا دی۔
اللہ تعالی نے مذکورہ آیات میں ان دونوں غزوات کا حال اور منظر بیان کیا ہے۔
مزید فتوحات کی بشارت:
اور مسلمانوں کو بشارت سنائی ہے کہ عنقریب انہیں مزید فتوحات حاصل ہوں گی۔
فارس اور روم:
چنانچہ مسلمانوں نے نہ صرف فارس اور روم بلکہ بیسیوں ملک اور سینکڑوں شہر فتح کیے۔
(اور ان شاء اللہ قرآن کے ساتھ تعلق مضبوط اور دل میں ایمان راسخ ہو جانے کے بعد پورے عالم کو فتح کریں گے )۔
رب تعالی کی پیشین گوئی :
یوں رب تعالی کی یہ پیشینگوئی پوری ہو کر رہے گی کہ میں نے اپنے آخری رسول ﷺ کو اس لیے بھیجا ہے کہ دین اسلام کو تمام ادیان پر غالب کر دوں۔
یہ غلبہ یقینی ہے اور کسی صاحب ایمان کو اس میں شک نہیں ہونا چاہیے۔
بظاہر حالات مخالف:
بظاہر حالات مخالف ہیں۔ لیکن جب اس پیشینگوئی کے پورا ہونے کا وقت آۓ گا تو حالات بھی موافق ہو جائیں گے اور وہ افراد بھی مہیا ہو جائیں گے ۔ جو اپنے اخلاق واعمال کے اعتبار سے پہلی صدی کے مسلمانوں کی یاد تازہ کردیں گے۔
فاتح عالم :
اس میں شک نہیں کہ موجودہ دور کے مسلمان ایمان ،اعمال ، اخلاق ،معاملات اور کردار کے اعتبار سے فاتح عالم بننے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ لیکن کیا اسلام اور قرآن بھی یہ صلاحیت نہیں رکھتے۔ رب کعبہ کی قسم! ان کے اندر عالم کو اور فاتحین عالم کو فتح کرنے کی پوری پوری صلاحیت ہے اور کون و مکان کے مالک کی قسم ! دنیا یہ نظارہ بہت جلد دیکھے گی۔
پارہ نمبر 22
اکیسویں پارہ کی آخری چند آیات میں ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن سے خطاب تھا۔ چونکہ اس خطاب کا کچھ حصہ بائیسویں پارہ کے شروع میں بھی آیا ہے۔
ازواج مطہرات کی درخواست :
ان آیات کا پس منظر احادیث میں یہ بیان ہوا ہے:
کہ جب فتوحات کا دور شروع ہوا تو ازواج مطہرات نے حضور اکرم ﷺ سے درخواست کی کہ ہمارے وظیفہ اور نفقہ میں کچھ اضافہ کر دیا جاۓ۔
اللہ کی طرف سے جواب:
اس موقع پر یہ آیات نازل ہوئیں۔ جن میں انہیں دو باتوں میں سے ایک کا اختیار دیا گیا ہے:
۱۔ یا تو وہ خوشحالی کی زندگی گزارنے کے لیے جدائی اختیار کر لیں۔
۲۔ اور یا پھر تنگی ترشی کے ساتھ گزر بسر کر میں اور اپنی نظر آخرت کی خوش عیشی پررکھیں۔
آخرت کو ترجیح:
جب آپ ﷺ نے انہیں اختیار دیا تو ان سب نے آخرت ہی کو ترجیح دی۔
از واج مطہرات کی فضیلت اور احکام :
اس موقع پر ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کی فضیلت بیان کرتے ہوۓ انہیں سات احکام دیے گئے :
۱۔ پہلا یہ کہ مردوں کے ساتھ بات کرتے ہوۓ لوچ دار لہجہ اختیار نہ کر یں۔
۲۔ دوسرا یہ کہ بلا ضرورت گھر سے باہر نہ نکلیں کیونکہ مسلمان عورت کا اصل اور محفوظ ٹھکانہ گھر ہے۔
۳۔ تیسرا یہ کہ زمانہ جاہلیت کی خواتین کی طرح اپنی زینت اور ستر کا اظہار کرتے ہوۓ باہر نہ نکلیں۔
۴۔ چوتھا یہ کہ نماز کی پابندی کریں۔
۵۔ پانچواں یہ کہ زکوۃ دیا کریں۔
۶۔ چھٹا یہ کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کریں۔
۷۔ ساتواں یہ کہ قرآنی آیات کی تلاوت اور احادیث کا مذاکرہ کیا کر یں۔
اس کے علاوہ جو اہم مضامین سورۃ احزاب کے اس حصہ میں بیان ہوۓ ہیں جو بائیسویں پارہ میں آیا ہے۔ درج ذیل ہیں:
1۔ شخص اور پہچان پیدا کر نے والی صفات :
مسلمان کی شخصیت کو معاشرہ میں نمایاں اور امتیازی حیثیت دینے اور اس کا تشخص اور پہچان پیدا کرنے والی دس صفات ہیں۔ یہ صفات مرد میں ہوں یا عورت میں ۔ اسے مغفرت اور اجر عظیم کا مستحق بنا دیتی ہیں۔
۱۔ اسلام ۲۔ ایمان ۳۔ قنوت (دائی اطاعت ) ۴۔ صدق ۵۔ صبر ۶۔ خشوع ۷۔ صدقہ . ۸۔ روزے ۹۔ شرمگاہ کی حفاظت ۱۰۔ کثرت سے اللہ کا ذکر کرنا۔
2۔۔۔۱۔ منہ بولے بیٹے کی بیوی (مطلقہ ) سے شادی :
سورۃ احزاب اس مشہور واقعہ کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے۔ جس کی وجہ سے حضور اکرم ﷺ کو مخالفین نے سخت تنقید اور طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا تھا۔ ہوا یوں کہ جب آپ ( ﷺ ) کے متبنّٰی حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ اور آپ (ﷺ ) کی پھوپھی زاد بہن حضرت زینب رضی اللہ عنھا کے درمیان نباہ نہ ہو سکا اور ان کے درمیان جدائی واقع ہوگئی۔
۱۔ تو اللہ کے علم سے خود آپ (ﷺ) نے حضرت زینب سے نکاح کر لیا۔
۲۔ اس پر بڑا شور اٹھا کہ محمد (ﷺ) نے اپنے منہ بولے بیٹے کی بیوی سے شادی کر لی جبکہ جاہلی تصور میں یہ نکاح حرام تھا۔
۳۔ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ نکاح خود ہم نے کروایا تا کہ آیندہ متنی کی مطلقہ بیوی کے ساتھ نکاح کرنے میں مسلمانوں کے لیے کوئی حرج باقی نہ رہے۔
۲۔ حضور کی کثرت ازدواج:
یہاں ضمنی طور پر یہ بات بھی جان لی جاۓ کہ اسلام اور پیغمبر اسلام کے مخالفین نے ہمارے آقا ﷺ کی کثرت ازدواج میں معاذ اللہ شہوت پرستی کے عنصر کو بنیادی وجہ قرار دینے کی ناکام اور ناپاک کوشش کی ہے۔ یہاں اگر دو بنیادی نکتوں کو ملحوظ رکھا جاۓ تو اعتراضات کی لغویت ظاہر ہو جاتی ہے۔
۱۔ پہلا نکتہ یہ کہ آپ ﷺ نے اپنی بھر پور جوانی ایک ایسی خاتون کے ساتھ گزار دی۔ جو عمر میں آپ ﷺ سے تقریبا دوگنی تھیں ۔ جب تک وہ زندہ رہیں۔ آپ ﷺ نے کسی دوسری خاتون کو اپنے عقد میں قبول نہیں کیا۔
حضرت خد یجہ رضی اللہ عنھا کے علاوہ جتنی خواتین سے بھی آپ ا نے شادیاں کی ہیں ۔ وہ بڑھاپے کی حدود میں قدم رکھنے مینی پچاس سال کی عمر کے بعد کی ہیں۔
۲۔ دوسرا نکتہ یہ کہ سواۓ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے آپ ﷺ کی کوئی بیوی بھی کنواری نہیں تھی۔
اگر معاذ اللہ کثرت ازدواج سے آپ ﷺ کا مقصد شہوت پرستی ہوتا تو آپ ﷺ یہ شادیاں جوانی میں اور با کرہ لڑکیوں سے کرتے۔
حقیقت تعدد ازدواج:
حقیقت یہ ہے کہ تعدد ازدواج میں تعلیمی تشریعی اجتماعی اور سیاسی حکمتیں پوشیدہ تھیں۔ مگر یہ خلاصہ ہمیں ان کی تفصیل میں جانے کی اجازت نہیں دیتا۔
3۔ نبی کریم سلام کے امتیازی اوصاف:
نبی کریم ﷺ کی صورت میں مومنوں کو اللہ تعالی نے جو نعمت عظمی عطا فرمائی ہے۔ اللہ جل شانہ نے اس کی یاد دہانی بھی کرائی ہے اور آپ ﷺ کے پانچ امتیازی اوصاف ذکر فرماۓ ہیں۔
۱۔ آپ ﷺ اپنی امت پر اور دوسری امتوں پر بھی قیامت کے دن گواہی دیں گے۔ کیونکہ پوری دنیا کے انسان آپ ﷺ کی امت میں شامل ہیں:
*جنہوں نے ایمان قبول کرلیا۔ وہ ‘امت اجابت’ میں شامل ہیں۔ *اور جنہوں نے ایمان قبول نہ کیا۔ وہ”امت دعوت” میں داخل ہیں۔
۲۔ اہل ایمان کو آپ ﷺ سعادت اور جنت کی بشارت دینے والے ہیں۔
۳۔ کفار اور فجار کو اللہ کے عذاب اور ہلاکت سے ڈرانا آپ ﷺ کی ذمہ داری ہے۔
۴۔ آپ ﷺ نیکی اصلاح اخلاق حسنہ اور استقامت کی دعوت دینے والے ہیں۔
۱۔ آپ ﷺ کی دعوت نہ دنیا کی دعوت تھی ۔ . ۲۔ نہ اقتدار کی ۳۔ نہ مال غنیمت جمع کرنے کی ۴۔ نہ ہی قومیت اور عصبیت کی۔ ۵۔ بلکہ آپ ﷺ کی دعوت خالص اللہ تعالی کی رضا کے لیے تھی جس کا مقصد صلاح اور اصلاح کے
سوا کچھ نہ تھا۔
اس میں کیا شک ہے کہ انبیاء علیہم السلام کے اعمال میں سب سے افضل عمل دعوت ہی ہے۔ خود رب تعالی فرماتے ہیں:
“اور اس سے زیادہ اچھی بات والا کون ہے۔ جو اللہ تعالی کی طرف بلاۓ اور نیک کام کرے اور کہے کہ میں یقیناً مسلمانوں میں سے ہوں”۔
۵۔ آپ ﷺ سراج منیر ہیں۔ آپ ﷺ کے پر نور وجود سے ظلمتیں دور ہوئیں اور شبہات کا ازالہ ہوا۔
اللہ تعالی نے ہمارے آقا م کو چمکتے ہوۓ سورج کے ساتھ تشبیہ دی ہے۔ کیونکہ اللہ جل شانہ نے آپ ﷺ کے ذریعہ شرک و ملال کی گمراہیوں کو دور کیا اور گمراہوں کو ہدایت دی۔ جیسے جب سورج روشن ہو جاتا ہے تو رات کی تاریکی کافور ہو جاتی ہے اور منزل تک پہنچنا آسان ہو جا تا ہے۔
4۔ تین آداب:
سورۃ احزاب وہ آداب بھی بیان کرتی ہے جن آداب سے زمانہ جاہلیت میں لوگ نا آشنا تھے۔ یہاں ان میں سے تین آداب مذکور ہیں۔
۱۔ پہلا یہ کہ کسی کے گھر میں اجازت کے بغیر داخل نہ ہوا کرو۔
۲۔ دوسرا یہ کہ اگر کھانے کی دعوت میں تمہیں بلایا گیا ہو تو کھانے سے فارغ ہوکر اٹھ جایا کرو۔ باتوں میں مشغول ہوکر صاحب خانہ کا وقت مت ضائع کیا کرو۔
۳۔ تیسرا یہ کہ غیر محرم خواتین سے کوئی چیز مانگنے کی ضرورت پیش آۓ تو پس پردہ مانگا کرو بلا حجاب ان کے سامنے نہ آیا کرو۔ البتہ اپنے محارم کے سامنے عورت کو بے پردہ آنے کی بھی اجازت ہے۔
5۔ درود وسلام بھیجنے کا حکم :
ازواج مطہرات کی حرمت بیان کرنے کے بعد اللہ عز وجل نے حضور ﷺ کی عظمت و تکریم بیان فرمائی ہے اور اہل ایمان کو آپ ﷺ پر درود وسلام بھیجنے کا حکم دیا ہے۔
آپ ﷺ پر درود و سلام حقیقت میں خود ہمارے لیے عزت و تکریم ذریعہ رفع درجات اور کفارہ سیئات ہے۔
چہرہ انور پر خوشی کے آثار:
حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
کہ ایک دن حضور اقدس ﷺ تشریف لاۓ تو آپ ﷺ کے چہرہ مبارک پر خوشی کے آثار تھے۔ صحابہ اللہ نے عرض کیا یارسول اللہ (ﷺ)! آج ہم چہرہ انور پر خوشی کے(غیر معمولی ) آثار دیکھ رہے ہیں۔
کیا آپ اس بات سے خوش نہیں :
آپ نے فرمایا آج میرے پاس فرشتہ آیا تھا۔
اس نے کہا:
اے محمد (ﷺ)! کیا آپ اس بات سے خوش نہیں ہیں کہ اللہ عز وجل کہتا ہے:
۱۔ آپ ﷺ کی امت میں سے جوکوئی آپ ﷺ پر ایک بار درود بھیجے گا۔ میں اس پر دس رحمتیں نازل کروں گا۔
۲۔ اور جو کوئی ایک بار سلام بھیجے گا۔ میں اس پر دس بارسلامتی نازل کروں گا۔
ہاں میں خوش ہوں!
میں نے فرشتے کو جواب دیا کہ: “ہاں! میں خوش ہوں۔”
6۔ ہرمسلمان خاتون کو پردہ کا حکم :
پہلے امہات المومنین پر حجاب کی فرضیت کا حکم نازل ہوا۔ پھر عمومی طور پر ہر مسلمان خاتون کو پردہ کا حکم دیا گیا۔ خواہ وہ بیوی ہو یا بیٹی بہن ہو یا ماں حجاب عورت کی عزت وعصمت کا محافظ اور باعث تکریم وتشریف ہے۔
حجاب شرعی میں چند شرائط :
حجاب شرعی میں چند شرائط کا ملحوظ رکھنا ضروری ہے:
۱۔ حجاب ایسا ہو کہ پورے بدن کو چھپالے۔
۲۔ وہ حجاب فی نفسہ پرکشش اور نگاہوں کو متوجہ کرنے والا نہ ہو۔
۳۔ حجاب ایسا بار یک نہ ہو ۔ جس سے جسم کی رنگت جھلکے اور نظرآۓ۔
۴۔ کشادہ ہو۔ایسا تنگ نہ ہو۔ جو فتنہ کا باعث بننے والے اعضاء کو ظاہر کرے۔
۵۔ ایسا معطر نہ ہو جس کی خوشبو دوسروں تک پہنچے۔
۶۔ بناوٹ میں مردوں کے لباس سے مشابہت نہ رکھتا ہو۔
۷۔ ایسا لباس نہ ہو۔ جو کافر اور مشرک عورتوں کی پہچان بن چکا ہے۔
۸۔ شہرت کا لباس نہ ہو کہ جسے محض شہرت کے لیے پہنا جائے۔ حدیث میں اس پرسخت وعید آئی ہے۔
7۔ امانت کا بوجھ اٹھانے سے انکار:
سورت کے اختتام پر فرائض و واجبات اور شرعی احکام کی اہمیت بیان کی گئی ہے کہ یہ احکام اس امانت کا حصہ ہیں۔ جو اللہ نے بندوں کو سونپی ہے۔ آسمانوں زمین اور پہاڑوں نے اس امانت کا بوجھ اٹھانے سے انکار کر دیا تھا کیونکہ ان کے اندر یہ بوجھ اٹھانے کی صلاحیت نہ تھی۔
بوجھ اٹھا تو لیا مگر حق ادا نہ کر سکا:
لیکن چونکہ انسان کو اللہ نے عقل و فکر اور خیر وشر کے درمیان تمیز کرنے کی صلاحیت عطا کی ہے تو اس نے بوجھ کو اٹھا تو لیا مگر اس کا حق ادا نہ کر سکا۔