سورت الروم
ترتیبی نمبر 30 نزولی نمبر 84۔
سورۃ الروم مکی سورت ہے اس میں 60 آیات اور 6 رکوع ہیں۔
وجہ تسمیہ :
آیت نمبر ۳ میں رومیوں کے غالب ہونے کی پیشین گوئی کی گئی ہے۔ اس وجہ سے اس سورت کا نام سورہ روم رکھ دیا گیا۔
قرآن کی ایک پیشین گوئی:
قرآن کریم کے وجوہ اعجاز میں سے ایک اہم وجہ اس کی پیشین گوئیاں بھی ہیں اور اس سورت کے شروع میں ایک پیشین گوئی ہی مذکور ہے۔ جو بعد میں حرف بحرف سچی ثابت ہوئی۔ یہ پیشین گوئی رومیوں کے غالب آنے کے بارے میں تھی۔
پیشین گوئی کا پورا ہو جانا :
اس پیشین گوئی کا پورا ہو جانا انتہائی غیر معمولی اور غیر عادی واقعہ تھا۔ کیونکہ جس وقت قرآن نے یہ خبر دی تھی۔ اس وقت ایرانی رومیوں پر پوری طرح چھاۓ ہوۓ تھے۔ رومی مقبوضات اور نوآبادیاں یکے بعد دیگرے ایرانیوں کے ہاتھ آتے جار ہے تھے اور اس وقت رومی سلطنت زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا تھی ۔ سرحدی حالات کے علاوہ اندرونی حالات بھی انتہائی ابتر تھے۔ پورے یورپ میں غدر مچا ہوا تھا۔ رومیوں کا بادشاہ ہرقل زوال کی تیز آندھیوں کے سامنے بے بس ہوکر ہر ذلت اور پسپائی سے سمجھوتہ کر چکا تھا۔
نو سال کے اندر روی ایرانیوں پر غالب:
۱۔ چونکہ ایرانی مشرک اور آتش پرست جبکہ رومی خدا پرست تھے۔ اس لیےمشرکین مکہ اپنے ہم مذہبوں کے غلبہ کی خبریں سن کر خوشی سے بغلیں بجاتے تھے۔
۲۔ ان مخدوش حالات میں قرآن نے پیش گوئی کی کہ نو سال کے اندر رومی ایرانیوں پر غالب آ جائیں گے۔ یقینا مشرکین نے قرآن کے اس اعلان اوراطلاع کا خوب مذاق اڑایا ہوگا۔
۳۔ لیکن ٹھیک نو سال کے اندر قرآن مجید کی یہ عظیم الشان پیش گوئی پوری ہوکر رہی۔ رومیوں نے ایرانیوں کے جاہ و جلال کو اپنے پیروں تلے روند ڈالا اور سلطنت ایران کے قلب میں رومی جھنڈا نصب کر دیا۔
سورۃ النمل کا اردو میں مختصر ، مکمل خلاصہ Surat Al Naml ka … | quran ki tafseer in urdu
مذکورہ پیش گوئی کے علاوہ جو اہم مضامین سورہ روم میں بیان ہوۓ ہیں۔ وہ درج ذیل ہیں:
سورہ روم اس معرکہ کی حقیقت بتاتی ہے جو حزب الرحمن ( رحمن کی جماعت ) اورحزب الشیطان ( شیطان کی جماعت ) کے درمیان قدیم زمانہ سے جاری ہے۔
کفروایمان اور حق و باطل کے درمیان یہ معرکہ اس وقت تک جاری رہے گا۔ جب تک کہ فیصلہ کا دن نہیں آ جا تا۔ اس دن نہ صرف یہ کہ معرکہ ختم ہو جاۓ گا۔ بلکہ دونوں جماعتوں کو بھی الگ الگ ٹھکانوں پر پہنچا دیا جاۓ گا۔ ارشاد باری تعالی ہے:
“جس دن قیامت بر پا ہوگی ۔ وہ الگ الگ فرقے ہو جائیں گے۔”
۱۔ اہل ایمان کو جنت میں جگہ دی جائے گی۔
۲۔ اور کافر کو عذاب میں ڈال دیا جاۓ گا۔
2۔ اللہ کے وجود اور عظمت و جلال کے دلائل:
اللہ تعالی نے اس سورہ میں اپنے وجود اور عظمت و جلال کے سات دلائل ذکر فرماۓ ہیں:
۱۔ اللہ تعالی ایک چیز کو اس کی ضد سے پیدا کرتا ہے۔
زندہ اور مردہ ایک دوسرے کی ضد ہیں لیکن وہ اپنی قدرت کاملہ سے نطفہ سے زندہ انسان انڈے سے بچہ بیج سے درخت اور اس کے برعکس بھی پیدا کرتا ہے۔
۲۔ اس نے انسان کو بے جان مٹی سے پیدا کیا۔
انسان سے مراد یا تو حضرت آدم عﷺ ہیں۔ جومٹی سے پیدا کیے گئےتھے۔
یا ہر انسان کیونکہ اس کی غذائی اور جسمانی ضروریات مٹی ہی سے پیدا ہوتی ہیں۔
۳۔ میاں بیوی کے درمیان ایسی محبت پیدا کر دیتا ہے کہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے جسم کا حصہ ہیں۔ حالانکہ بعض اوقات شادی سے پہلے ان کا آپس میں کوئی تعارف ہی نہیں ہوتا۔
۴۔ اس نے ارض و سما کو اور جو کچھ ان کے اندر ہے پیدا کیا۔ اور انسانوں کی زبانیں اور رنگ مختلف بنائے ۔ کسی کی زبان عربی ہے۔ کسی کی فارسی اور انگریزی کوئی فرانسیسی بولتا ہے اور کوئی اردو اور جاپانی، کسی کا رنگ کالا ہے اور کسی کا سرخ ہے۔
۵۔ وہ رات اور دن میں نیند کے ذریعے انسان کو سکون عطا کرتا ہے۔
انسان کا جسم ایک ایسی مشین ہے۔ جسے اگر مشاغل کے ہجوم میں وقفہ اور سکون نہ ملے تو یہ مشین خراب ہو جاتی ہے۔
۶۔ آسمان پر بجلی چمکتی ہے۔
جس سے دل میں خوف بھی پیدا ہوتا ہے اور امید بھی۔
پھر بارش برستی ہے تو مردہ زمین زندہ ہو جاتی ہے۔
۷۔ ارض و سماء کا مستحکم نظام وجود باری تعالی کی زندہ دلیل ہے:
آسمان کی چھت کسی ستون کے بغیر کھڑی ہے اور اس کے مدار میں ستارے دوڑ رہے ہیں۔ مگر نہ اضطراب ہے نہ شور۔ یونہی زمین مسلسل حرکت کر رہی ہے۔ مگر اس کے سینے پر بسنے والوں کو اس کا احساس تک نہیں ہوتا۔
3۔ اہل حق غالب یا مغلوب:
یہ سورت بتاتی ہے کہ ہر زمانے میں اللہ کا یہ دستور رہا ہے کہ وہ حق کو باطل پر غلبہ عطا کرتا ہے۔
اگر کہیں اہل حق مغلوب ہوں تو انہیں اپنا محاسبہ کرنا چاہیے۔ *کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ انہوں نے باطل کے طور طریقے اپنا لیے ہوں۔
*یا باطل پرستوں نے حق کے بعض اصول اختیار کر لیے ہوں۔
4۔ اس سورت میں متعدد ایسے تکوینی دلائل اور مشاہد مذکور ہیں ۔ جو اللہ کی عظمت و قدرت کی گواہی دیتے ہیں۔
کفار مکہ مردوں کی مانند :
سورت کے اختتام پر ان کفار مکہ کا ذکر ہے۔ جو مر دوں کی طرح تھے۔ نہ تو آیات الہیہ کو سنتے تھے نہ دیکھتے تھے نہ ان میں غوروفکر کرتے اور نہ ہی اثر قبول کرتے تھے۔
ارشاد ہوتا ہے:
اور ہم نے لوگوں کو سمجھانے کے لیے اس قرآن میں ہر طرح کی مثال بیان کر دی ہے اور اگر تم ان کے سامنے کوئی نشانی پیش کرو تو یہ کافر کہہ دیں گے
کہ تم تو جھوٹے ہو۔