سورۃ الفرقان کا اردو میں مختصر ، مکمل خلاصہ Surat Al-Furqan | Quran ka khulasa in urdu

Table of Contents

پارہ نمبر 19

سورۃ الفرقان کا مختصر تعارف

سورۃ الفرقان ترتیبی نمبر 25 نزولی نمبر 42۔

سورۃ الفرقان مکی سورت ہے اور اس میں 70 آیات اور 6 رکوع ہیں۔

وجه تسمیه:

اس سورت کی ابتداء قرآن عظیم کے ذکر سے ہوئی ہے۔ اس لیے اس سورت کا نام سورۂ فرقان ہے۔

مشرکین کے اعتراضات:

جس کے بارے میں مشرکین مختلف قسم کے اعتراضات اٹھاتے اور اس کی آیات کو جھٹلاتے تھے۔
۱۔ ایک گروہ اسے گزشتہ قوموں کے قصے اور کہانیاں قرار دیتا تھا۔
۲۔ دوسرا گروہ اسے حضرت محمد ﷺ کا افتراء اور ایسی تخلیق کہتا تھا۔ جس میں اہل کتاب نے آپ کے ساتھ تعاون کیا تھا۔
۳۔ تیسرے گروہ کے خیال میں یہ واضح جادو تھا۔

صاحب قرآن کا تذکرہ:

قرآن کے بعد صاحب قرآن یعنی حضور پاک ﷺ کا تذکرہ ہے۔ ضدی اور معاند لوگ آپ کی تکذیب کرتے تھے۔
۱۔ ان کا خیال تھا کہ رسول بشرنہیں بلکہ فرشتہ ہوتا ہے۔
۲۔ اور اگر بالفرض انسانوں میں سے کسی کو نبوت و رسالت ملے بھی تو وہ دنیاوی اعتبار سے خوشحال اور سر بر آوردہ لوگوں کو ملتی ہے۔ کسی غریب اور یتیم کو ہرگز نہیں مل سکتی۔

 

باطل دعاوی کی تردید:

اللہ تعالی نے ان کی خام خیالیوں اور باطل دعاوی کی تردید واضح دلائل سے کی ہے۔

لا یعنی مطالبات:

انیسویں پارہ کا آغاز بھی مشرکین کے دعاوی اعتراضات اور لایعنی قسم کے مطالبات سے ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر وہ بعض اوقات کہتے تھے کہ:
۱۔ ہم پر فرشتے کیوں نہیں نازل کیے جاتے۔
۲۔ (ایسا کیوں نہیں ہوتا کہ) ہم اپنے پروردگار کو دیکھ لیں۔

ان مطالبات کا جواب:

اس کے جواب میں فرمایا گیا:
فرشتوں کو یہ اس وقت دیکھ پائیں گے جب وہ ان کی روحیں قبض کرنے کے لیے آئیں گے اور جب یہ فرشتوں کو دیکھ لیں گے تو ان کے لیے کوئی خوشخبری نہیں ہوگی ۔

ندامت کی وجہ سے:

چونکہ قبولیت اعمال کی بنیادی شرط یعنی ایمان سے یہ خالی ہیں۔ اس لیے قیامت کے دن ان کے اعمال بھی کسی کام نہیں آئیں گے اور وہ خاک بن کر اڑ جائیں گے۔ وہ دن ان کے لیے بڑا سخت ثابت ہوگا۔ یہ ندامت کی وجہ سے اپنے ہاتھوں کو کاٹیں گے اور کہیں گے کہ
“اے کاش! ہم نے پیغمبر کا راستہ اختیار کیا ہوتا۔

اللہ کے رسول کی اللہ کے حضور شکایت:

اس دن اللہ کا رسول ﷺ للہ کے حضور شکایت کرے گا کہ
اے میرے رب ! میری قوم نے قرآن چھوڑ دیا تھا۔

قرآن چھوڑنے کی صورتیں :

امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ قرآن کو چھوڑ نے کی کئی صورتیں ہیں:
۱۔ پہلی یہ کہ نہ قرآن کو سنئے نہ اس پر ایمان لائے۔
۲۔ دوسری یہ کہ پڑھتا بھی ہو اور ایمان بھی رکھتا ہولیکن اس پر عمل نہ کرتا ہو۔
۳۔ تیسری یہ کہ زندگی کے معاملات اور تنازعات میں اسے حکم نہ بناۓ۔
۴۔ چوتھی یہ کہ اس کے معانی میں غوروند بر نہ کرے۔
۵۔ پانچویں یہ کہ قلبی امراض میں اس سے شفا حاصل نہ کرے۔

اپنے بارے میں پوری امت کے بارے میں بے لاگ فیصلہ:

میرے محترم قارئین

اگلی سطر میں پڑھنے سے پہلے کچھ دیر کے لیے رک جائیے اور چندلمحوں کے لیے پہلے اپنے بارے میں اور پھر پوری امت کے بارے میں بے لاگ فیصلہ کیجیے کہ آج ہم کس کس انداز میں قرآن کو چھوڑ چکے ہیں اور یہ بھی سوچیے کہ جب ہم مہلک روحانی اور اخلاقی بیماریوں میں مبتلا ہونے کے باوجود نہ پر ہیز کرتے ہیں اور نہ وہ آسانی دوا استعمال کرتے ہیں۔ جس میں یقینی شفا ہے تو اس کا نتیجہ مزید بیماریوں میں مبتلا ہونے اور ہلاکت کے سوا کوئی نکل سکتا ہے۔
یقینا نہیں اور ہرگز نہیں۔

قرآن یکبارگی کیوں نہیں نازل ہو جا تا :

مشرکین یہ اعتراض بھی اٹھاتے تھے کہ جیسے تورات اور انجیل یکبارگی نازل ہو گئیں۔ یونہی قرآن بھی یکبار کیوں نہیں نازل ہو جاتا۔

تدریجا نازل ہونے میں کئی حکمتیں:

ظاہر ہے کہ تدریجا قرآن نازل ہونے میں کئی حکمتیں پوشیدہ تھیں مثلا اس کا حفظ کرنا ، اس کے معانی کا سمجھنا ،احکام کا ضبط کرنا ، اور عمل کرنا آسان تھا۔

ایک مخفی حکمت :

لیکن یہاں اللہ تعالی نے صرف ایک حکمت بیان کی ہے ۔ وہ یہ کہ:
تھوڑا تھوڑا نازل کرنے کا مقصد یہ تھا کہ آپ علیہ السلام کا قلب مبارک نور قرآن سے منور ہوتا رہے۔ اس کے حقائق اور علوم سے آپ کی روح کو غذا اور دل کوتقویت حاصل ہو ۔

تیز بارش کی مثال:

جاننے والے جانتے ہیں کہ یکا یک بر سنے والی تیز بارش کھیتی کو تباہ کر دیتی ہے۔ لیکن مناسب وقت تک بتدریج برس کر زمین کے سوتوں میں جذب ہونے والی بارش سے بہت فائدہ ہوتا ہے۔

رسول اکرم می کوتسلی :

ان اعتراضات کے بعد رسول اکرم ﷺ کو تسلی دینے کے لیے حضرت موی حضرت ہارون حضرت نوح حضرت ہود اور حضرت صالح علیہم السلام کی قوموں کا ذکر کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں اللہ کی قدرت و وحدانیت کے دلائل بیان کیے گئے ہیں۔

عباد الرحمن کی صفات :

اس سورت کے آخر میں “عباد الرحمن ( رحمن کے مخصوص بندوں ) کی تیرہ صفات ذکر کی گئی ہیں:

۱۔ تواضع ۲۔ جاہلوں سے اعراض ۳۔ راتوں کو نمازو عبادت ۴۔ جہنم کے عذاب سے خوف ۵۔ خرچ کرنے میں اعتدال ۶۔ نہ فضول خرچی اور نہ ہی بخل ۷۔ شرک سے مکمل اجتناب ۸۔ قتل ناحق سے بچ کر رہنا
۹۔ زنا اور بدکاری سے اپنے آپ کو بچا کر رکھنا
۱۰۔ جھوٹی گواہی سے احتراز ۱۱۔ گانے بجانے اور برائی کی مجالس سے پہلوتہی ۱۲۔ اللہ کی کتاب سن کر متاثر ہونا اور اس سے فائدہ اٹھانا ۱۳۔ اللہ تعالی سے نیک بیوی بچوں کی دعا اور یہ دعا کہ ہمیں ہادی اور مہدی بنا دیا جاۓ۔

عباد الرحمن میں شامل:

آیئے قارئین! اگلی سورت کے مطالعہ سے قبل ہم اللہ تعالی سے دعا کر لیں کہ:
اے رحیم و کریم ! تو محض اپنے فضل و کرم سے یہ تیرہ صفات ہمارے اندر پیدا فرما کر ہمیں بھی عباد الرحمن” میں شامل فرمالے۔ آمین۔

Leave a Comment