سورہ طٰہٰ ترتیبی نمبر 20 نزولی نمبر 45
Surah Taha Tafseer
سورۃ طٰہٰ مکی سورت ہے اور اس میں 135 آیات اور 18 رکوع ہیں۔
وجہ تسمیہ:
آیت نمبر ایک میں ہے: طہٰ یہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا صفاتی نام بھی ہے۔ اس سورت میں اسی نام سے آپ کو اللہ نے مخاطب کیا ہے اسی نام کی مناسبت سے اس سورت کا نام سورۃ طٰہٰ رکھا گیا ہے۔
سورۃ طٰہٰ اور سورہ مریم میں مناسبت
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ سورہ طٰہٰ سورہ مریم کے بعد نازل ہوئی دونوں سورتوں کے درمیان مضمون کے اعتبار سے بھی واضح مناسبت پائی جاتی ہے۔
حضرت موسی علیہ السلام
حضرت موسی علیہ السلام کا قصہ جو کہ سورہ مریم میں اجمالی طور پر مذکور تھا وہ سورۃ طٰہٰ میں تفصیل کے ساتھ آیا ہے۔
حضرت آدم علیہ سلام
اسی طرح سورہ مریم میں حضرت آدم علیہ السلام کا صرف نام آیا تھا جبکہ یہاں ان کا واقعہ قدرےضاحت کے ساتھ بیان ہوا ہے۔
اصول دین
اس صورت میں بھی اصول دین سے بحث کی گئی ہے۔
من الاسماء النبی:
طٰہٰ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ناموں میں سے ایک نام ہے اور یہاں اس کے ذریعے آپ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ:
“ہم نے آپ علیہ سلام پر قرآن اس لیے نازل نہیں کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مشقت میں پڑ جائیں۔
تلاوت اور دعوت میں مشقت
اصل بات یہ تھی کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کی تلاوت اور دعوت دونوں میں بے پناہ مشقت اٹھاتے تھے۔ راتوں کو نماز میں اتنی طویل قرات فرماتے ہیں کہ پاؤں مبارک پر ورم آجاتا اور پھر انسانوں تک قرآن کے ابلاغ اور دعوت میں بھی اپنی جان جوکھوں میں ڈال دیتے تھے۔
رب کریم کی آپ کو تسلی
اور جب اس دعوت پرکوئی کان نہ دھرتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بے پناہ غم ہوتا اسی لیے رب کریم نے کئی مقامات پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی ہے۔ یہاں بھی یہی سمجھایا گیا کہ آپ اپنے آپ کو زیادہ مشقت میں نہ ڈالیں۔ اس قرآن سےہر کسی کا دل متاثر نہیں ہو سکتا یہ تو صرف:
“اس شخص کے لیے ہے جو (دل میں اللہ کا) خوف رکھتا ہو۔
مخصوص بندوں کی حفاظت کا انتظام :
یہ سمجھانے کے بعد اللہ نے اپنی بعض صفات ذکر فرمائی ہیں تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قلبی اطمینان ہو کہ اللہ میرے ساتھ ہے۔ وہ میری حفاظت کرے گا۔ اور مجھے کسی حال میں بھی تنہا نہیں چھوڑے گا۔ اس وضاحت کے بعد گویا نمونہ کے طور پر حضرت موسی علیہ السلام کا قصہ ذکر کرکے بتایا گیا ہے کہ اللہ اپنے مخصوص بندوں کے حفاظت کے لئے خصوصی انتظام کرتا ہے۔
سیدنا موسی علیہ السلام کا قصہ
عجیب و غریب واقعات اور اشارات
حضرت موسی علیہ السلام کا قصہ قرآن کریم میں دوسرے انبیاء علیہم السلام کے مقابلے میں زیادہ تفصیل اور تکرار کے ساتھ آیا ہے کیونکہ اس میں عجیب و غریب واقعات اور اشارات ہیں جو انسان کو اللہ کی نعمتوں اور قدرت کے بارے میں غور و فکر کی دعوت دیتے ہیں۔
تکرار میں حکمت
شاید اس تکرار میں ایک حکمت یہ بھی ہو کہ ہر زمانے میں کوئی نہ کوئی فرعون ہوتا ہے جس کے مقابلے کے لیے اہل ایمان کو مستعد رکھنا ضروری ہے۔
یہاں سورہ طٰہٰ میں آیت 9 سے 98 تک تقریبا مسلسل حضرت موسی علیہ السلام کا قصہ بیان ہوا ہے اور اس میں آپ کی زندگی کے بیشتر واقعات آگئے ہیں۔ لیکن ان میں تقدیم و تاخیر ہے۔ مثال کے طور پر آپ کے تذکرہ کی ابتدا:
۱۔ مدین سے واپسی ۔ ۲۔ آگ دیکھنے ۳۔ باری تعالی سے شرف ہمکلامی ۴۔ اور نبوت ملنے کا واقعہ سے ہو رہی ہے اور ۵۔ ولادت کے بعد صندوق میں بند کرکے دریا میں ڈالنے کا واقعہ بعد میں ذکر کیا گیا ہے۔
ایسا کرنے میں ایک وجہ تفنن ہے
یعنی ایک ہی واقعہ کو قرآن انداز بدل بدل کر بار بار بیان کرتا ہے تاکہ پڑھنے والے اکتا بھی نہ جائیں اور ان کی نظریں واقعہ کے جزئیات تلاش کرنے کے بجائے عبرت اور نصیحت کے حصول پر مرکوز رہیں۔
چند عنوانات
سورۃ طٰہٰ میں آپ کے جو حالات بیان کئے گئے ہیں ان حالات کو ذہن نشین کرنے کے لیے چند عنوانات قائم کیے جاتے ہیں یعنی:
۱۔ باری تعالی کے ساتھ شرف ہم کلامی۔
۲۔ دریا میں ڈالا جانا۔
۳۔ اللہ کی طرف سے آپ کو اور آپ کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کو فرعون کے پاس جانے کا حکم۔
۴۔ فرعون کے ساتھ موعظہ حسنہ کے اصول کے تحت مباحثہ ۵۔ اس کا مقابلہ کے لیے جادوگروں کا جمع کرنا
۶۔ حضرت موسی علیہ السلام کی فتح
۷۔ ساحروں کا قبول ایمان۔
۸۔ راتوں رات بنی اسرائیل کا اللہ کے نبی کی قیادت میں مصر سے خروج۔
۹۔ فرعون کا بمع لاؤ لشکر تعاقب اور ہلاکت۔
۱۰۔ کریم و رحیم مولا کی نعمتوں کے مقابلے میں بنی اسرائیل کا کفران اور ناشکرا پن۔
۱۱۔ سامری کا بچھڑا بنانا اور اسرائیلیوں کی ضلالت۔
۱۲۔ تورات لے کر حضرت موسی علیہ السلام کی طور سے واپسی اور اپنے بھائی پر غصہ کا اظہار۔
سات خصوصی انعامات انعامات سامنے آئے ہیں:
۱۔ فرعون کے ظلم اور پکڑ سے حفاظت جبکہ وہ اوراس کے کارندے نومولود اسرائیلی بچوں کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے تھے۔
۲۔ لوگوں کے دلوں میں آپ کی محبت کا ڈالا جانا یہاں تک کہ جو بھی آپ کو دیکھتا تھا وہ آپ سے محبت کرنے لگتا تھا۔
۳۔ آپ کی تربیت اور پرورش کا خصوصی اہتمام اور نگرانی ۴۔ پوری عزت اور احترام کے ساتھ رضاعت کے لئے حقیقی والدہ کی طرف آپ کو لوٹا دینا
۵۔ آپ سے ایک قبطی قتل ہو گیا لیکن آپ کو قصاص میں قتل ہونے سے بچا لیا گیا
۶۔ مدین سے واپسی پر آپ کو نبوت عطا کر دی گئی۔
۷۔ اللہ نے آپ کو شرف ہم کلامی بخشا اور محبت کے لیے آپ کو منتخب فرمایا۔
قرآنی قصص کے نزول کی حکمت عملی
اس قصے کے آخر میں قرآنی قصص کے نزول کی حکمت اور قرآن سے اعراض کرنے والوں کو قیامت کے دن جس طرح کا سامنا کرنا پڑے گا اس کا ذکر ہے۔ پھر اسی کی مناسبت سے آیت 102سے 112 تک اور قیامت کے ہولناک احوال کا بیان ہے۔
بھول چوک انسان کی فطرت
یہ بتانے کے لئے کہ بھول چوک انسان کی فطرت میں داخل ہے پہلے حضرت آدم علیہ السلام کے نسیان کا ذکر کیا گیا ہے۔ پھر ابلیس کے ساتھ ان کا جو معاملہ ہوا تھا اسے بیان کیا گیا ہے۔
قرآن سے اعراض کرنے والے
جو لوگ قرآن سے اعراض کرتے ہیں ان کے لئے وعید ہے کہ ان کی زندگی تنگ ہوجائے گی۔ اور انہیں قیامت کے دن اندھا کر کے اٹھائے گا۔ ایسے معاندین کے حال پر اظہار تعجب کیا گیا ہے جو قرآن کریم جیسا عظیم معجزہ دیکھ لینے کے باوجود عصا اور ناقہ جیسے معجزات کا مطالبہ کرتے ہیں۔
تم بھی منتظر رہو
آخری آیت میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا گیا ہے کہ آپ ان معاندین سے:
کہہ دیجئے کہ سب (اعمال کے نتائج کے ) منتظر ہیں۔ بس تم بھی منتظر رہو۔ عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ سیدھی راہ پر چلنے والے کون ہیں اور (جنت کی طرف) راہ پانے والے کون ہیں۔