سورۃ الحجرات قرآنی سورتوں کا مختصر خلاصہ | khulasa Quran | Surah Al-Hujurat

۔ سجدے سے انکار:

surah-al-hujurat

سورۃ الحجر (ترتیبی نمبر 15 نزولی نمبر 54)

سورہ حجر مکی ہے اور اس میں 99 آیات اور 6 رکوع ہیں۔

وجہ تسمیہ:

کیونکہ وادی حجر کے رہنے والوں یعنی قوم ثمود کا ذکر ہے اس لیے اس سورت کو سورہ حجر کہتے ہیں۔

وادی حجر:

وادی حجر مدینہ اور شام کے درمیان واقع ہے۔
اس سورت کی صرف پہلی آیت تیرہویں پارہ میں ہے باقی سورت چودھویں پارہ میں ہے۔

اسلام کے بنیادی عقائد کا اثبات:

اس سورت کا آغاز بھی حروف مقطعات سے ہے اور اس کی پہلی آیت میں قرآن کی تعریف اور توصیف ہے۔ اس صورت میں بھی اسلام کے بنیادی عقائد کا اثبات ہے۔

 

اہم مضامین
1۔ قیامت کے دن کفار آرزو کریں گے:

قیامت کے دن کفار جب عزاب کی شدت کا مشاہدہ کریں گے تو وہ آرزو کریں گے کہ کاش ہم مسلمان ہوتے۔ لیکن ظاہر ہے کہ اس دن کا ایمان اور ایمان کی تمنا کسی کام نہیں آئے گی۔

ایمانی دعوت سے انکار استہزاء:

جبکہ آج ان کا حال یہ ہے کہ جب اللہ کا رسول انہیں ایمان لانے کی دعوت دیتا ہے تو وہ اسے مجنون اور دیوانہ کہتے ہیں اور وہ ایمانی دعوت کے مقابلے میں ان کا اور استہزاء کا وہی رویہ اختیار رکھے ہوئے ہیں جو گزشتہ نافرمان قوموں نے اختیار کیا تھا۔

2۔ قرآن کی حفاظت کا ذمہ:

قرآن کریم کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ خود باری تعالی نے اس کی حفاظت کا ذمہ لے رکھا ہے۔

دوسری آسمانی کتابوں کے حفاظت؛

جب کہ دوسری آسمانی کتابوں کے حفاظت کی ذمہ داری ان کے حاملین کو سونپی گئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ دوسری آسمانی کتابیں انسانی دست برد سے محفوظ نہ رہ سکیں۔

قرآن معجزہ ہے:

جبکہ کئی صدیاں گزرنے کے باوجود ہر طرح کی تغیروتبدل اور کمی بیشی سے پاک اور محفوظ ہے۔ قرآن کریم کے معجزہ ہونے کے پہلوؤں میں سے ایک اہم پہلو اس کا محفوظ ہونا بھی ہے ۔

حفظ کرنا آسان:

اسے محفوظ رکھنے کے لیے اللہ تعالی نے اس کو حفظ کرنا آسان فرما دیا ہے۔ دنیا کا کوئی خطہ ایسا نہیں جہاں قرآن کے حافظ نہ پائے جاتے ہوں۔ چھوٹے چھوٹے معصوم بچے جو اپنی مادری زبان میں چند صفحے کا رسالہ یاد نہیں کر سکتے وہ اتنی بڑی کتاب اپنے سینے میں محفوظ کر لیتے ہیں۔

3۔ اللہ کی قدرت،وحدانیت:

اس سورت کی متعدد آیات میں اللہ تعالی کی قدرت اور وحدانیت کے دلائل ذکر کیے گئے ہیں۔ جو چیخ چیخ کر اپنے خالق کے وجود اور اس کی عظمت کی گواہی دے رہے ہیں۔ یہ دلائل آسمانوں، زمینوں، چاند، ستاروں، پہاڑوں اور میدانوں، سمندروں اور نہروں، درختوں اور پرندوں کی صورت میں ہر جگہ پھیلے ہوئے ہیں۔
کہیں فرمایا گیا:
۱۔ ہم ہی نے آسمان میں برج بنائے اور دیکھنے والوں کے لیے اس کو سجا دیا۔
۲۔ اور زمین کو بھی ہم ہی نے پھیلا دیا اور اس پر پہاڑ رکھ دیئے اور اس میں ہر مناسب چیزاگائی۔
کہیں فرمایا گیا:
۳۔ ہم ہی پانی سے بھری ہوئی ہوائیں چلاتے ہیں اور ہم ہی آسمان سے بارش برساتے ہیں اور ہم ہی تم کو اس کا پانی پلاتے ہیں اور تم اس کا خزانہ نہیں رکھتے۔
۴۔ یہ ہوائیں ہزاروں ٹن پانی اپنے کندھوں پر اٹھائے پھرتی ہیں پھر جہاں اللہ تعالی کا حکم ہوتا ہے اسے برسا دیتی ہیں۔
۵۔ یہ ہوائیں ہی ہیں جو درخت کو بارآور کرتی ہیں۔ یہ وہی کام سر انجام دیتی ہیں جو نرحیوان مادہ کے لیے سر انجام دیتا ہے۔ ان ہواؤں میں نر اور مادہ کے اجزاء اور اثرات ہوتے ہیں جو کہ وہ ایک درخت سے دوسرے درخت کی طرف منتقل کرتی چلی جاتی ہیں۔

4۔ ۱۔ انسان کی تخلیق کی ابتدا:

توحید اور قدرت کے تکوینی دلائل ذکر کرنے کے بعد انسان کی تخلیق کی ابتدا کا قصہ بیان کیا گیا ہے جو کہ اس دنیا کے پہلے انسان ابوالبشر حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش کی صورت میں سامنے آیا۔

۲۔ آدم علیہ السلام کی پیدائش ربانی قدرت کا مظہر:

آپ کی پیدائش یقینا ربانی قدرت کے مظاہر میں سے ایک مظہر تھی۔ کیونکہ بے جان مٹی سے ایک شخصیت پیدا کر دینا جسے:
حرکت کرنے،،اٹھنے بیٹھنے،، چلنے پھرنے،، عناصر کو مسخر کرنے،، اور امکانات کی دنیا میں آگے بڑھنے کی قدرت حاصل ہے۔ یقینا اللہ کے قادر اور حکیم ہونے کی بہت بڑی دلیل ہے۔

۳۔ آدم علیہ السلام کا قصہ ایک فرد کا نہیں انسانیت کا قصہ ہے:

حضرت آدم علیہ السلام کا قصہ ایک فرد کا نہیں بلکہ پوری انسانیت کا قصہ ہے۔ جس وقت اللہ نے آدم علیہ السلام کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا تو اس میں اپنی روح پھونکی۔

۴۔ فرشتوں کو سجدے کا حکم:

فرشتوں کو ان کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیا اور اپنی قدرت کے اسرارو حکمت کے عجائب ان پر کھولے تو ان تمام امور میں:
۱۔ جیسے حضرت آدم علیہ السلام کی تکریم تھی اسی طرح ان کی اولاد کی بھی تکریم تھی۔
۲۔ فرشتوں کو جب سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا تو ابلیس کے سوا سب نے سجدہ کر دیا۔

اہل علم کے نزدیک راجح اور صحیح قول یہ ہے کہ ابلیس فرشتہ نہیں بلکہ جن تھا۔ البتہ فرشتوں کے درمیان رہتا تھا۔ سجدہ سے انکار کی وجہ سے آسمانوں سے نکال دیا گیا اور وہ ابدی لعنت کا مستحق ٹھہرا۔

۶۔ انتقام کی آگ: 

اس نے حضرت آدم علیہ السلام سے انتقام لینے کے لیے قیامت کے دن تک زندگی کی مہلت مانگی اور یہ مہلت اسے دی گئی یہ مہلت اس نے اولاد آدم کو گمراہ کرنے کے لیے مانگی تھی اور اپنے اس مقصد کا اظہار اس نے کسی لگی لپٹی کے بغیر کر دیا تھا۔ اس نے کہا تھا:
“پروردگار جیسے تو نے مجھے گمراہ کیاہے۔ میں لوگوں کے لئے گمراہی کو آراستہ کر دوں گا اور سب کو بہکا دوں گا۔

۷۔ جہنم کے سات دروازے:

اسے کہہ دیا گیا تم سے جو کچھ ہو سکتا ہے کرلو۔ جو میرے بندے ہیں ان پر تمہارا کوئی داؤنہیں چلے گا۔ البتہ جوابدی شقی اور فطرت کے خبیث ہیں وہ تمہاری اتباع کریں گے اور ان کے لیے میں نے جہنم تیار کر رکھی ہے۔ جس کے سات دروازے ہیں اور ہر ایک دروازے کے لیے ان میں سے جماعتیں تقسیم کر دی گئی ہیں۔

۸۔ قرآن کا انداز:

کیونکہ قرآن کا انداز یہ ہے کہ وہ:
۱۔ ترہیب کے ساتھ ترغیب۔
۲۔ اور دوزخ کے ساتھ جنت کا تذکرہ بھی کرتا ہے۔
۳۔ اس لئے شیطان کی اتباع کرنے والوں کے تذکرہ کے بعد ان سعادت مندوں کا تذکرہ کیا گیا ہے جو امن اور سلامتی کی جگہ یعنی جنت میں ہوں گے وہاں انہیں نہ تھکاوٹ ہوگئی نہ کوئی تکلیف اور پریشانی۔ ان کے سینے ایک دوسرے کے بارے میں صاف ہوں گے۔

5۔ رحمت غضب پر غالب:

جنت جیسی امن و سلامتی اور راحت و اطمینان کی جگہ کا ذکر کرنے کے بعد سورہ حجر بندوں پر اللہ تعالی کے فضل و احسان اور رحمت کا ذکر کرتی ہے۔ بندہ کتنا ہی گنہگار کیوں نہ ہو اسے اللہ تعالی کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ اللہ تعالی سارے گناہوں کو معاف کر سکتا ہے اور اس کی رحمت اس کے غضب پر غالب ہے۔ ارشاد ہوتا ہے کہ:
“اے پیغمبر میرے بندوں کو بتا دیجیے کہ میں بڑا بخشنے والااور مہربان ہوں اور یہ کہ میرا عذاب دردناک ہے۔

خوف اور امید

یہ آیات خوف اور امید دونوں مقامات کی جامع ہیں مومن کے دل میں اللہ تعالی کا خوف بھی ہونا چاہئے اور اس کی رحمت کی امید بھی ہونی چاہیے۔

6۔ ابراہیم علیہ السلام کے مہمان

اللہ کی رحمت اور فضل و احسان کے بعد حضرت ابراہیم خلیل علیہ السلام کے مہمانوں کا تذکرہ ہے۔ جو انسانی شکل میں نورانی فرشتے تھے اور آپ کو بیٹے کی خوشخبری سنانے کے لیے تھے۔

بظاہر ولادت کی عمر

کہا جاتا ہے کہ اس وقت آپ کی عمر کم و بیش ایک سو بیس سال تھی۔ اہلیہ بھی بہت بوڑھی ہو چکی تھیں۔ بظاہر یہ ولادت کی عمر نہیں تھی۔ اس لیے آپ کو بیٹے کی خوشخبری سن کر خوشی بھی ہوئی اور تعجب بھی ہوا۔ آپ نے فرشتوں کے سامنے اس کا اظہار بھی کیا تو انہوں نے کہا ہم آپ کو خوشخبری سنا رہے ہیں۔ بس آپ مایوس نہ ہوں۔

سوال کرنے کا مقصد

میرے سوال کرنے کا مقصد تو یہ معلوم کرنا ہے کہ:
۱۔ یوں ہی بڑھاپے میں بیٹا دیا جائے گا۔
۲۔ یا جوانی لٹا کر۔
۳۔ یا کسی دوسری عورت سے شادی کرنے کے بعد۔

7۔ قوم لوط کو عذاب نے آ پکڑا

فرشتے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خوشخبری سنا کر حضرت لوط علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے درخواست کی کہ آپ اپنے گھر والوں کو ساتھ لے کر رات ہی کو اس بستی سے نکل جائیے۔ کیونکہ آپ کی بستی والے گناہوں کی سرکشی میں اتنے آگے نکل گئے ہیں کہ اللہ تعالی نے ان کے ناپاک وجود سے زمین کو پاک کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ ارشاد باری تعالی ہے:
“سو ان کو سورج نکلتے نکلتے چنگھاڑنے آپکڑا اور ہم نے اس شہر کو الٹ کر نیچے کا اوپرکر دیا اور ان پر کنکرکی پتھریاں برسائیں۔

8۔ وادی حجر بھی عذاب کی لپیٹ میں:

وادی حجر کے رہنے والے ہر یعنی حضرت صالح علیہ السلام کی قوم بھی ظلم اور زیادتی کی راہ پر چل نکلی تھی اور بار بار سمجھانے کے باوجود پرستی کو چھوڑنے کے لیے آمادہ نہیں ہو رہی تھی۔

9۔ مختلف معجزات

انہیں مختلف معجزات بھی دکھائے گئے بالخصوص پہاڑی چٹان سے اونٹنی کی ولادت کا معجزہ جو کہ حقیقت میں کی معجزوں کا مجموعہ تھا۔
۱۔ اونٹنی کا چٹان سے برآمد ہونا۔
۲۔ نکلتے ہی اس کی ولادت کا قریب ہونا۔
۳۔ اس کی جسامت کا غیرمعمولی بڑا ہونا۔
۴۔ اس سے بہت زیادہ دودھ حاصل ہونا۔
لیکن ان بد بختوں نے اس معجزہ کی کوئی قدر نہ کی۔

اونٹنی کی ہلاکت

بجائے اس کے کہ وہ اسے دیکھ کر ایمان قبول کر لیتے انہوں نے اس اونٹنی کو ہلاک کردیا۔ چنانچہ وادی حجر والے بھی عذاب کی لپیٹ میں آ کر رہے۔

نعمت قرآن کا ذکر

سورہ حجر کے آخری رکوع میں نعمت قرآن کا ذکر ہے کہ جس سے یہ نعمت حاصل ہوجائے اسے مال داروں کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھنا چاہئے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا گیا ہے کہ آپ کی طرف جو حق نازل کیا گیا ہے اسے کھول کر بیان فرما دیجئے۔

سورت کی ابتداء اور انتہاء

گزشتہ سورت کی طرح اس سورت کی ابتداء اور اختتام بھی قرآن پر ہوا ہے۔

سورہ حجرات کی تفسیر 2pdf
2>سورۃ حجرات کی روشنی میں آدا ِب رسالت صلى الله عليه وسلم پر مضمون لکھیں

4>سورہ حجرات اردو ترجمہ

سورہ حجرات آیت 11

سورہ الحجرات آیت نمبر 1

سورہ الحجرات آیت 9

Leave a Comment