سورہ یوسف کی تفسیر | surah yusuf with urdu translation _quran ka tarjuma tafseer

سورہ یوسف(ترتیبی نمبر 12 نزولی نمبر 53)

مکی سورت: سورہ یوسف مکی ہے
آیات : اس میں 111آیات اور 12 رکوع ہیں۔

وجہ تسمیہ

کیونکہ اس صورت میں حضرت یوسف علیہ السلام کا قصہ بیان کیا گیا ہے اس لئے اسے سورہ یوسف کا نام دیا گیا۔

واقعات میں تکرار

قرآن کریم میں دوسرے انبیاء کرام علیہم السلام کے واقعات میں تکرار پایا جاتا ہے۔ لیکن یہ تکرار کھٹکتا نہیں۔ ہر جگہ نئے الفاظ نئی تعبیر کوئی نہ کوئی نیا سبق نئی عبرت اور نئی نصیحت پائی جاتی ہے۔ یہ واقعات چھوٹے چھوٹے خوبصورت ٹکڑوں کی صورت میں پورے قرآن میں بکھرے ہوئے ہیں ان ٹکڑوں کو جوڑنے سے پورا واقعہ سمجھ میں آتا ہے۔

اس واقعہ میں تکرار نہیں

حضرت یوسف علیہ السلام کے واقعہ میں تکرار نہیں یہ واقعہ اول سے آخر تک پورے کا پورا سورہ یوسف میں مذکور ہے۔ دوسری سورتوں میں حضرت یوسف علیہ السلام کا نام تو آیا ہے لیکن ان کے واقعہ کا کوئی چھوٹے سے چھوٹا حصہ بھی کسی دوسری صورت میں مذکور نہیں ہے۔

مخالفین عاجز

اہل علم نے کہا ہے کہ مخالفین نہ تو قرآن کے مقرر قصوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں اور نہ ہی غیر مقرر قصوں کا۔

احسن القصص

حضرت یوسف علیہ السلام کے قصے کو خود قرآن نے احسن القصص قرار دیا ہے کیونکہ اس قصے میں جتنی عبرتیں اور نصیحتیں ہیں وہ شاید کسی دوسرے میں پائی جائیں۔

اس قصہ کی جامعیت:

نمبر1: اس میں دین بھی ہے دنیا بھی۔ توحیدوفقہ بھی۔ اور سیرت و سوانح بھی۔ خوابوں کی تعبیر بھی۔ اور سیاست و حکمت کے رموز بھی۔ انسانی نفسیات بھی ہیں۔ اور معاشی خوشحالی کی تدبیر بھی۔ حسن وعشق کی حشر سامانی بھی ہے۔ اور زہد و تقوی کی دستگیری بھی۔ اس میں انبیاء اور صالحین کا تذکرہ بھی ہے۔ اور ملائکہ اور پرندوں کا بھی۔ جنوں اور انسانوں کا بھی۔ تو چوپاؤں اور شیاطین کا بھی۔ بادشاہوں تاجروں علموں اور جاہلوں کے حالات بھی ہیں۔ تو راہ راست سے ہٹ جانے والی عورتوں کی حیلہ سازی مکاری اور حیاباختی بھی ذکرکی گئی ہے۔

نمبر2: پھر اس قصہ میں مدر بھی جزربھی۔ گمنامی بھی اور شہرت بھی۔ غربت بھی اور ثروت بھی۔ عزت بھی اور ذلت بھی۔ صبر و اثبات بھی اور بندگی شہوت بھی۔

Surah Al-Ma’idah |سورۃ المائدہ اردو ترجمہ_Kholas e Quran_

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور یوسف علیہ السلام کے حالات و واقعات میں مماثلت:

ایک بڑی خوبی جو اس قصہ میں پائی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ اس قصے کے ضمن میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے مخالفین کے حال اور مستقبل کا پورا نقشہ کھینچ دیا گیا ہے۔ یوسف علیہ السلام کی طرح ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھی قریشی بھائیوں نے حسد کیا۔ قتل کے مشورے کیے۔ آپ علیہ السلام کو مکہ چھوڑنا پڑا۔ تین دن تک غارثورمیں رہنا پڑا وہاں سے مدینہ ہجرت فرما گئے۔ وہاں بتدریج عروج حاصل ہوا۔

گھر میں گوشت اور خون کے چھینٹے آنا اور علاج _Ghar Me Khoon Ke Chinte Aana Kaisa Hai-Blood in the house

فتح مکہ کے بعد

مکہ فتح ہوا تو قریشی بھائی نادم و شرمندہ ہوئے۔ انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سر افگندہ ہونا پڑا۔ اسے حسن اتفاق کہیے یا عہد اور قصد کہ اس موقع پر آپ علیہ السلام نے فرمایا:
“میں تم سے وہی بات کہتا ہوں جو میرے بھائی یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں سے کہی تھی:
“جاؤتم آزاد ہو تم پر کوئی الزام نہیں۔”

دیباچہ قصہ یوسف:

سیدنا یوسف علیہ سلام کا قصہ اس قدر مشہور ہے کہ حقیقی مسلمان گھرانوں کے بچوں تک کو ازبر ہے۔

قصہ یوسف علیہ سلام پر اجمالی نظر:

۱۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کے بارہ بیٹے تھے۔
۲۔ حضرت یوسف علیہ السلام ان میں سے غیر معمولی طور پر حسین تھے۔
۳۔ ان کی سیرت اور صورت دونوں کے حسن کی وجہ سے والد گرامی قدر ان سے بے پناہ محبت کرتے تھے۔

محبت کی ایک وجہ:

محبت کی ایک وجہ آپ اور آپ کے بھائی بنیامین کا سب سے چھوٹا ہونا بھی تھا۔ جب کہ دونوں کی والدہ بھی انتقال کر چکی تھی۔

حضرت حسن رضی اللہ تعالی عنہ کی بیٹی سے سوال:

سوال کیا گیا کہ آپ کو اپنے بچوں میں سے سب سے زیادہ کس سے محبت ہے۔ تو جواب دیا:
چھوٹے سے جب تک کہ وہ بڑا نہ ہو جائے۔ غائب سے جب تک کہ وہ واپس نہ آ جائے۔ اور بیمار سے جب تک کہ وہ تندرست نہ ہو جائے۔

پھر یوں ہوا کہ:

۱۔ اس محبت کی وجہ سے بھی حسد میں مبتلا ہوگئے۔
۲۔ وہ اپنے والد کو تفریح کا کہہ کر حضرت یوسف علیہ السلام کو جنگل میں لے گئے۔
۳۔ اور آپ کو کنویں میں گرا دیا۔
۴۔ وہاں سے ایک قافلہ گزرا۔
۵۔ انہوں نے پانی نکالنے کے لیے کنویں میں ڈول ڈالا تو ڈول میں سے آپ نکل آئے۔
۶۔ قافلہ والوں نے مصر جا کر بیچ دیا۔
۷۔ عزیزِ مصر نے خرید کر گھر میں رکھ لیا۔
۸۔ جوان ہوئے تو اس کی بیوی آپ پر فریفتہ ہو گئ۔
۹۔ اس نے برائی کی دعوت دی۔
۱۰۔ آپ نے اس کی دعوت ٹھکرادی۔
۱۱۔ عزیزِ مصر نے بدنامی سے بچنے کے لیے آپ کو جیل میں ڈلوادیا۔
۱۲۔ قید خانہ میں بھی آپ نے دعوت توحید کا سلسلہ جاری رکھا۔ جس کی وجہ سے قیدی آپ کی عزت کرتے تھے۔
۱۳۔ بادشاہ وقت کے خواب کی صحیح تدبیر بتانے کی وجہ سے آپ اس کی نظروں میں چج گئے۔
۱۶۔ اس نے آپ کو خزانے تجارت اور مملکت کا خودمختار وزیر بنادیا۔
۱۵۔ مصر اور گردوپیش میں قحط کی وجہ سے آپ کے بھائی غلہ حاصل کرنے کے لیے مصرآۓ۔
۱۶۔ ایک دو ملاقاتوں کے بعد آپ نے انہیں بتا دیا کہ میں تمہارا بھائی یوسف ہوں۔
۱۷۔ پھر آپ کے والدین بھی میصر آگۓ اور یہیں آباد ہو گئے۔

پارہ نمبر 13

نصا ئح:

سیدنا یوسف علیہ سلام کا قصہ اجمالی طور پر عرض کیا جا چکا ہے۔ اب اس سے جو نصیحتیں حاصل ہوتی ہیں وہ درج ذیل ہیں:
۱۔ مصیبت ذریعہ نعمت اور راحت:

بعض اوقات مصیبت نعمت اور راحت تک پہنچنے کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے قصہ کی ابتدا تو المناک پریشانیوں سے ہوئی۔ انہیں کنوئیں میں بے یارومددگار ڈال دیا گیا۔ مصر میں غلاموں کی منڈی میں ان کی خرید و فروخت ہوئی۔ عورتوں کے فتنہ کا سامنا کرنا پڑا۔ کئی سال تک جیل کی کال کوٹھری میں بند رہے لیکن انجام یہ ہوا کہ وہ مصر کے حکمران بنے اور انہیں دین اور دنیا میں عزت نصیب ہوئی۔

۲۔ حسد بیماری ہے:

حسد انتہائی خوفناک بیماری ہے۔ سگے بھائیوں میں بھی یہ بیماری پیدا ہو جائے تو افسوس ناک واقعات جنم لیتے ہیں۔

۳۔ اخلاق،اوصاف اور ترتربیت:

اچھے اخلاق،عالیہ اوصاف اور بہتر تربیت بہرحال اپنا رنگ دکھا جاتی ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام کی تربیت ایک عظیم باپ کے ہاتھوں خاندان نبوت میں ہوئی تھی اور آباء و اجداد کی اخلاقی میراث میں سے بھی آپ نے وافر حصہ پایا تھا۔ مثالی تربیت اور اخلاقی کمال ہی کی وجہ سے آپ مصائب و شدائد کے سامنے بڑی پامردی سے کھڑے رہے جس کی وجہ سے کلفت کے بعد راحت کا اور ظاہری ذلت کے بعد حقیقی عزت کا دور آ کر رہا۔

۴۔ دین پر جمے رہنا:

عفت و امانت اور استقامت ساری بھلائیوں کا سرچشمہ ہے مردوں کے لیے بھی اور عورتوں کے لئے بھی۔ دین پر جمے رہنے والوں کو ایک نہ ایک دن عزت مل کر رہتی ہے۔ حقیقت کو جتنا چھپایا جائے آخر کار وہ ظاہر ہوکر رہتی ہے۔

۵۔ مردوعورت کا اختلاط:

مرد وعورت کا خلوت میں میل جول فتنے کا باعث ہوتا ہے۔ زلیخا کو نہ خلوت میسر آتی اور نہ ہی وہ برائی کی منصوبہ بندی کرتی۔ اس لئے اسلام نے اس کو حرام قرار دیا ہے۔ حدیث میں ہے کہ:
جب مرد اور عورت تنہائی میں ملتے ہیں تو ان کے ساتھ تیسرا فرد شیطان ہوتا ہے۔

۶۔ اخلاقی نجاستوں سے پرہیز

اللہ تعالی پر ایمان اور عقیدہ کی پختگی سے مصائب کا برداشت کرنا اور اخلاقی نجاستوں سے دامن کا بچانا آسان ہو جاتا ہے۔

۷۔ معصیت سے مصیبت بہتر

مومن کو چاہیے کہ وہ تنگی اور پریشانی کے وقت صرف اللہ کی طرف رجوع کرے۔ جب آپ کو جیل کی دھمکی دی گئی تو آپ نے معصیت پر مصیبت کو ترجیح دیتے ہوئے اپنے رب کو پکارا تھا:
“اے میرے رب جیل مجھے اس برائی سے زیادہ محبوب ہے جس کی دعوت زنان مصر مجھے دیتی ہیں۔”

۸۔ سچے داعی کی صفات:

سچاداعی انتہائی مشکل اور پریشان کن حالات میں بھی دعوت کے فریضہ سے بھی غافل نہیں ہوتا۔ سیدنا یوسف علیہ السلام جیل میں بھی دعوت و تبلیغ اور اصلاح و ارشاد کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے۔ جو لوگ آپ سے خواب کی تعبیر پوچھنے کے لئے ان کو توحید کی دعوت دی۔ اس کے بعد خواب کی تعبیر بتائی۔ اور کہا جاتا ہے کہ جیل کے قیدیوں نے آپ کی دعوت سے متاثر ہو کر ایمان قبول کر لیا تھا خود مصر کا بادشاہ بھی اسلام لے آیا تھا۔

۹۔ داعی اور پیشوا کی پاکدامنی:

ہر مسلمان کو عموما اور داعی اور پیشوا کو خصوصاً اپنے دامن کے صفائی کا بہت زیادہ اہتمام کرنا چاہیے۔ حضرت یوسف علیہ السلام کو کئی سال بعد جب رہائی نصیب ہوئی تو آپ نے اس وقت تک جیل سے باہر قدم رکھنے سے انکار کر دیا جب تک کہ آپ کی برات اور طہارت کا اعلان نہ کر لیا جائے تاکہ کل کو آپ کو یہ طعنہ نہ دیا جائے:
“معاذاللہ تھے تو مجرم مگر رحم کھاتے ہوئے رہا کردیا گیا۔”

 1>سورہ یوسف کی فضیلت
2>سورہ یوسف مکمل
سورہ یوسف pdf download
3>سورہ یوسف اردو ترجمہ
سورہ یوسف کے 101 فوائد  4>pdf
سورہ حجرات کی تفسیر pdf
5>سورہ یوسف سے کیا سبق ملتا ہ

Leave a Comment