سورۀ توبہ(ترتیبی نمبر 9 اور نزولی نمبر 113)
مدنی سورت: سورۃ توبہ مدنی ہے۔
آیات: اس میں 129 آیات اور 16 رکوع ہیں۔
وجہ تسمیہ: اس سورت کا دوسرا نام سورۀ برأت ہے اور برأت کا معنی بیزاری کے ہیں کیونکہ اس سورت میں عہد و پیمان سے بیزاری اور توڑنے کا حکم دیا گیا ہے اس لیے اس سورت کو سورۀ برأۃ اور سورہ توبہ کہا جاتا ہے۔
شان نزول:
یہ سورت نو ہجری میں اس وقت نازل ہوئی جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم رومیوں کی سرکوبی کے لیے نکلے تھے۔
غزوۀ تبوک:
اس غزوہ کو غزوۀ تبوک کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
۱۔ یہ غزوہ سخت گرمی کے زمانے میں پیش آیا تھا۔
۲۔ سفر بھی طویل تھا۔
۳۔ پھل بھی پکے ہوئے تھے جو کہ ان کا اہم ذریعہ معاش تھا۔
۴۔ اور مقابلہ ایک ایسی سلطنت سے تھا جسے اپنے وقت کی سپر پاور ہونے کا دعویٰ تھا۔
۵۔ مختصر یہ کہ یہ غزوہ اہل ایمان کے لیے بڑی ابتلاء اور ان کے صدق و اخلاص کا امتحان تھا۔
۶۔ اس کے ذریعہ مومنوں اور منافقوں کے درمیان امتیاز بھی ہوگیا۔
سورۃ توبہ کا بنیادی ہدف:
حقیقت میں سورہ توبہ کے بنیادی ہدف دو ہی ہیں:
۱۔ مشرکین اور اہل کتاب کے ساتھ جہاد کے احکام بیان کرنا۔
۲۔ غزوۀ تبوک کے پس منظر میں اہل ایمان اور اہل نفاق کے درمیان واضح فرق کر دینا۔
مشرکین کے ساتھ معاہدات سے برأت:
جہاں تک احکام جہاد کا تعلق ہے تو تمہید کے طور پر ان معاہدات سے برات کا اعلان کیا گیا جو مسلمانوں نے مشرکین کے ساتھ کیے تھے۔ ان کے لیے انتہائی مدت چار ماہ مقرر کردی گئی۔
مشرکین کو بیت اللہ سے روکنا:
یوں ہی مشرکوں کو بیت اللہ کا حج کرنے سے بھی منع کر دیا گیا کیونکہ یہ لوگ کئی بار عہد شکنی کے مرتکب ہو چکے تھے اور اسلام کے بڑھتے ہوئے سیلاب کو روکنے کے لئے یہود کے ساتھ گٹھ جوڑ کرتے چلے آرہے تھے۔
اہل کتاب سے بھی قتال کی اجازت:
مشرکوں سے برأت کا اعلان کرنے کے بعد اہل کتاب کے ساتھ بھی قتال کی اجازت دی گئی ہے کہ:
۱۔ مکروفریب۔ ۲۔ عہدشکنی۔ ۳۔ منافقت ۴۔ اور جھوٹ ان کی فطرت میں رچ بس چکا تھا۔ ۵۔ یہود کا قبیلہ بنو قریظہ ہو یا بنو نضیر اور بنو قینقاع انہوں نے اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا تھا۔
اہل کتاب سے متعلق مسلمانوں کو حکم
اور مسلمانوں سے کہا گیا ہے کہ:
۱۔ اہل کتاب میں سے جو لوگ اللہ پر ایمان نہیں لاتے۔
۲۔ اور نہ ہی روز آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔
۳۔ اور نہ ان چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام کی ہیں۔
۴۔ اور نہ دین حق کو قبول کرتے ہیں۔
ان سے جنگ کرو یہاں تک کہ وہ ذلیل ہو کر جزیہ دیں۔
سورۃ الفاضحہ:
جہاں تک اس سورت کے ہدف کا تعلق ہے تو منافقوں کی علامات اور بد باطنیو کو اس انداز میں بیان کیا گیا کہ وہ سب کے سامنے ذلیل اور رسوا ہو کر رہ گئے۔ اسی لیے اس سورت کا ایک نام سورۃ فاضحہ بھی ہے یعنی رسوا کرنے والی سورت۔
اس سورت کے نزول سے قبل:
اس سورت کے نزول سے قبل انہوں نے اپنے آپ کو اسلام کے زبانی دعوے کے پردے میں چھپا رکھا تھا لیکن اس صورت نے ان کےباطن کو یوں ظاہر کیا کہ ہر کسی نے جان لیا کہ کون منافق ہے اور کون مخلص مومن ہے۔
ان کے عیوب کو ظاہر کرنے کا سبب :
منافقوں کی کمزوریوں اور عیوب کو نمایاں کرنے کا ظاہری سبب غزوہ تبوک بنا۔ جہاد تو ویسے بھی جان کو جوکھوں میں ڈالنے والی عبادت ہے۔ جبکہ غزوہ تبوک میں مادی اعتبار سے اپنے وقت کی سب سے بڑی فوج کے ساتھ مقابلہ تھا اور وہ بھی شدید گرمی اور فقر و فاقہ کے دنوں میں۔
منافقوں کی حرکتوں کی چند جھلکیاں:
اس غزوہ کے پس منظر میں منافقوں سے جو حرکتیں سرزد ہوئیں ان کا اندازہ ذیل کی چند جھلکیوں سے لگایا جا سکتا ہے:
۱۔ اللہ نے پیشین گوئی فرمادی تھی کہ:
“منافق قسمیں کھا کر کہیں گے کہ اگر ہم طاقت رکھتے تو (آپ صلی اللہ علیہ وسلم)کے ساتھ ضرور (تبوک کی طرف) نکل پڑتے۔ “
چنانچہ ایسا ہی ہوا اور جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تبوک سے واپس آ یت تو منافقوں نے جھوٹے اعزار پیش کیے۔
۲۔ سوائے چند کے باقی تمام مخلص مسلمان فوراًغزوہ تبوک میں شرکت کے لیے تیار ہوگئے جبکہ منافقوں نے مختلف حیلوں بہانوں سے مدینہ میں رہنے کی اجازت حاصل کرلی۔
۳۔ اللہ تعالی نے فرمایا کہ :
“ان منافقوں کا جہاد میں نہ نکلنا ہی بہتر تھا اگر بالفرض وہ شرکت کرتے تو مسلمانوں کے درمیان فتنہ فساد پھیلانے کے سوا کچھ بھی نہ کرتے۔”
۴۔ ان میں سے بعض ایسے بھی تھے جنہوں نے مضحکہ خیز عزر پیش کرکے اپنے لیے استثناء حاصل کرنے کی کوشش کی۔ مثال کے طور پر جد بن قیس نام کے ایک صاحب کہنے لگے:
“یارسول اللہ!میں دل کا بڑا کمزور ہو جب کہ رومیوں کی عورتیں گورے رنگ کی ہوتی ہیں مجھے ڈر ہے کہ اگر میں جہاد میں گیا تو انہیں دیکھ کر فتنہ میں مبتلا ہو جاؤں گا۔ “
۵۔ “ان کے دلوں میں مسلمانوں کے لئے بغض اور حسد کے سوا کچھ نہیں ہے۔” اگر مسلمانوں کو فتح حاصل ہو یا مال غنیمت ہاتھ آۓ تو پریشان ہو جاتے ہیں اور اگر اس کے برعکس کسی حادثے یا مصیبت کا سامنا کرنا پڑجائے تو انہیں بے پناہ خوشی ہوتی ہے۔
۶۔ وہ قسمیں کھا کر یقین دلاتے ہیں کہ:
“اے مسلمانو ہم تم میں سے ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہے۔”
۷۔ ان کی نظریں صرف مال پر ہوتی ہیں۔ اگر مل جائے تو خوش ہوتے ہیں اگر محروم رہیں تو اللہ کے نبی پر بھی طعنہ زنی سے باز نہیں آتے۔
۸۔ چونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہر کسی کی بات سن لیا کرتے تھے۔ اس لئے وہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے بارے میں کہتے تھے کہ آپ تو:
“نرے کان ہیں”
۹۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں انہیں مستقل یہ اندیشہ لگا رہتا تھا کہ کہیں ایسی سورت نازل نہ ہو جائے جو ان کا پول کھول دے اور ان کے قلبی راز فاش کر دے
۱۰۔ ایک دوسرے کو برائی کا حکم دینا، نیکی سے روکنا اور بخل کرنا ان کی نمایاں صفات میں سے ہیں۔
۱۱۔ ان منافقین کی صفات اور اعمال ماضی کے کفار جیسے ہیں ۔
۱۲۔ ان کے دل اللہ کی محبت اس کے ذکر و شکر اور اس کی عظمت سے یکسر خالی ہیں۔ ظاہر ہے جس کے دل میں اللہ کی عظمت نہیں ہوگی اس کے لیے معصیت اور نافرمانی بہت آسان ہو جائے گی۔
دیگر اقوام:
منافقوں کو کفار کے ساتھ تشبیہ دینے کے بعد:
قوم نوح، قوم عاد، قوم ثمود، قوم ابراہیم، قوم لوط اور اصحاب مدین کا ذکر ہے۔
منافقوں کے متعلق رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم:
دسویں پارہ کے آخر تک منافقوں ہی کا تذکرہ ہوا ہے ان کے بارے میں اللہ تعالی نے یہاں تک فرما دیا ہے کہ:
۱۔ “اے میرے پیغمبر! اگر آپ ان کےلیے ستر بار بھی استغفار کریں تو بھی اللہ ان کی ہرگز مغفرت نہیں کرے گا۔” اور یہ بھی فرما دیا ہے کہ :
“اگر ان میں سے کسی کا انتقال ہو جائے تو آپ اس کی نماز جنازہ ادا نہ فرمائیں۔”
مخلصین کی جماعت:
منافقوں کے ساتھ ساتھ اللہ تعالی نے ان مخلص مسلمانوں کا بھی تذکرہ فرمایا ہے۔ جن میں سے کوئی بڑھاپے کوئی شدید بیماری اور کوئی سامان جہاد نہ ہونے کی وجہ سے جہاد میں شرکت نہ کر سکا۔ ان لوگوں کے جذبات کا یہ عالم تھا کہ جہاد میں شرکت نہ کر سکنے کی وجہ سے ان کی آنکھوں سے آنسو امڈ امڈ آتے تھے۔ اس لئے فرمایا گیا کہ مخلصین کی اس جماعت پر کوئی گناہ نہیں ہے۔
🎇۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🎇۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🎇
پارہ نمبر 11
منافقوں کے جھوٹے اعزار:
دسویں پارہ کے آخر میں مخلص اہل ایمان کے علاوہ ان منافقوں کا تذکرہ تھا جنہوں نے مالی وسائل اور سواری کی استطاعت رکھنے کے باوجود غزوہ تبوک میں شرکت نہیں کی تھی۔
گیارہویں پارہ کی ابتدا میں بھی اہل نفاق کا تذکرہ ہے۔ اللہ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تبوک سے واپسی پر راستہ ہی میں اطلاع دے دی تھی کہ جب (آپ صلی اللہ علیہ وسلم) مدینہ پہنچے گے تو منافق (آپ صلی اللہ علیہ وسلم) کے سامنے مختلف قسم کے اعزار پیش کریں گے کہ ہم انتہائی سخت مجبوریوں کی بنا پر (آپ صلی اللہ علیہ وسلم)کے ساتھ غزوہ میں شریک نہ ہو سکے ورنہ ہم نے جانے کا تو پختہ ارادہ کر رکھا تھا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ اور منافقوں نے قسمیں کھا کھا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی سچائی کا یقین دلانے کی کوشش کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مروت اور شرافت کی بنا پر حقیقت کو جانتے ہوئے بھی خاموشی اختیار فرمائی اور انہیں جھوٹا قرار نہیں دیا۔
مخلص مسلمانوں کی تعریف:
منافقوں کے مقابلے میں اللہ تعالی نے مخلص مسلمانوں کی یہ صفات بیان فرمائی ہیں اور ان لوگوں کی تعریف کی ہے جو اپنی غلطی کا اعتراف کر لیتے ہیں اور جھوٹ بول کر غلط کو صحیح قرار دینے کی کوشش نہیں کرتے۔
مسجد ضرار:
درمیان میں پھر منافقوں کا ذکر آگیا ہے جنہوں نے اسلام کو ضررپہنچانے، کفر کے فروغ اور مسلمانوں کے درمیان تفرقہ ڈالنے کے لیے “مسجد ضرار” تعمیر کی تھی اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے افتتاح کی درخواست کی تھی مگر اللہ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس مسجد میں کھڑا ہونے سے منع فرما دیا چنانچہ اس مسجد کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے جلا کر راکھ کر دیا گیا۔
: اہل ایمان کی صفات:
مسجد ضرار کے مقابلے میں مسجد قبا کا اور اہل نفاق کے مقابلے میں اہل ایمان کا تذکرہ ہے جو اپنے مال اور اپنی جانیں حصول جنت کے لئے اللہ کی راہ میں وقف کر چکے ہیں ان کی تو ایسی صفات ذکر کی گئی ہیں جو ہر مومن کو اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔
۱۔ توبہ کرنے ۔
۲۔ عبادت کرنے والے
۳۔ حمد کرنے والے
۴۔ روزہ رکھنے والے
۵۔ رکوع کرنے والے
۶۔ سجدہ کرنے والے
۷۔ نیک کاموں کا حکم دینے والے
۸۔ بری باتوں سے منع کرنے والے
۹۔ اور اللہ کی حدوں کی حفاظت کرنے والے
پچاس دن تک بائیکاٹ:
غزوہ تبوک میں شرکت سے جو لوگ محروم رہ گئے تھے ان میں تین ایسے مخلص مسلمان بھی تھے جن کے اخلاص اور ایمان میں کسی کو شک نہیں تھا۔ یعنی:
۱۔ حضرت کعب بن مالک ۲۔ ہلال بن امیہ ۳۔ اور مرارہ بن ربیعہ رضی اللہ عنہم۔
ان تینوں نے کوئی عزر نہیں ترا شاہ بلکہ صاف صاف اعتراف کرلیا کہ پیچھے رہ جانے میں سراسر ہماری اپنی غلطی، سستی اور کاہلی کو دخل تھا ان کے معاملہ کو الگ رکھا گیا تھا یہاں تک کہ پچاس دن تک ان کا بائیکاٹ بھی کیا گیا۔
توبہ کا اعلان بعذریعہ وحی:
لیکن پھر انہیں سچ بولنے کی وجہ سے ایسا نوازا گیا کہ ان کی توبہ کی قبولیت کا اعلان وحی کے ذریعہ سے کیا گیا۔
جہاد سے استثناء:
جہاد کی فضیلت اور اہمیت کے باوجود حکم دیا گیا ہے کہ سارے ہی مسلمانوں کو جہاد میں نہیں چلے جانا چاہیے بلکہ کچھ لوگوں کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں موجود رہنا چاہیے تاکہ آپ سے دین کی سمجھ حاصل کریں۔
اسلامی مملکت کی ضروریات:
اسلام کو اپنی دعوت کی ابتدا میں جیسے دشمنوں کی طاقت توڑنے کے لئے جہاد کی ضرورت تھی۔ یوںہی ان بنیادوں کی بھی ضرورت تھی جن پر اسلامی مملکت کی عمارت کھڑی کی جا سکے۔ اس مقصد کے لیے شرعی احکام کے نزول کا سلسلہ جاری تھا اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایسے افراد کی تیاری میں ہمہ تن مصروف تھے جو مستقبل کے: ۱۔ مدرس ۲۔ مربی ۔ ۳۔ معلم ۴۔ قاضی ۵۔ حاکم ۶۔ عامل ۷۔ اور منتظم بن سکیں اس لئے حکم دیا گیا کہ مسلمانوں کی معتد بہٖ تعداد کو مدینہ میں ہی رہنا چاہیے تاکہ وہ دین کی سمجھ حاصل کر سکیں۔
دین کی سمجھ
اسلامی مملکت کی ضروریات سے قطع نظر فی ذاتہٖ بھی علم دین حاصل کرنا بہت بڑا عمل ہے۔ اسی لئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “جس کے ساتھ اللہ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے اسے دین کی سمجھ عطا فرما دیتا ہے”
فقیہ اور شیطان:
یہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا ارشاد گرامی ہے کہ: “ایک فقیہ شیطان پر ہزار عابد سے زیادہ بھاری ثابت ہوتا ہے”
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کا قول:
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ:
“اللہ تعالی نے اپنے ناموں میں سے یہ دو نام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی کے لیے بھی جمع نہیں فرمائے۔”