سورۃ الاعراف (ترتیبی نمبر 7 اور نزولی نمبر 39)
Surah Al-A’raf
مکی سورۃ:یہ مکی سورت ہے اس میں بھی تین بنیادی عقائد کو خصوصی اہمیت دی گئی ہے۔
وجہ تسمیہ:
کیونکہ اس صورت میں اعراف کا ذکر ہے جو کہ جنت اور جہنم کے درمیان ہے۔ اسی نسبت سے اس سورت کو سورہ اعراف کہا جاتا ہے۔
اللہ کی بڑی نعمتیں:
(1)دائمی معجزہ قرآن :
اس صورت میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دائمی معجزہ یعنی قرآن کا ذکر ہے جو سارے انسانوں کے لئے اللہ کی سب سے بڑی نعمت ہے۔
(2)انسانیت میں بھائی بھائی:
اس سورت میں انسان کو اللہ کی اس نعمت کی طرف متوجہ کیا گیا کہ اس نے سب انسانوں کو ایک ہی پاب سے پیدا کیا ہے تاکہ وہ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں اور اس بات کو یاد رکھیں کہ وہ انسانیت میں بھائی بھائی ہیں۔
اس سورت میں انسان کو جو تکریم بخشی ہے اس کا بھی ذکر ہے وہ یہ کہ:
۱۔ اللہ نے پہلے انسان کو اپنے ہاتھوں سے پیدا کیا۔
۲۔ پھر اس میں اپنی روح پھونکی۔
۳۔ اور فرشتوں کو اس کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیا۔
شیطان کے مکر و فریب سے بچنے کی تلقین:
اس قصہ کے ضمن میں شیطان کے مکر و فریب سے بچنے کی بھی تلقین کی گئی ہے کیوں کہ وہ ایسا مکار دشمن ہے جو انسان کی راہ کھوٹی کرنے کے لئے ہر راستے پر بیٹھا ہوا ہے اور انسان کے ساتھ ٹکراؤ کی جو ابتدا ابلیس کے انکارسجدہ سے ہوئی تھی اس کا سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا اور خیر وشر اور حق و باطل کے درمیان کشمکش کسی نہ کسی اندازمیں باقی رہے گی۔
چار بار”یا بنی آدم” کے صیغہ سے خطاب:
سورہ اعراف کی ایک قابل ذکر خصوصیت یہ ہے کہ اس سورت میں اللہ تعالی نے مسلسل چار انسانوں کو یا بنی آدم کے شیغہ سے خطاب فرمایا۔
پہلی ندا:
دسویں پارے میں ہے۔ جس میں اللہ نے لباس کی نعمت کا ذکر کیا ہے آیت نمبر 36 میں فرمایا گیا ہے:
“اے آدم کی اولاد ہم نے تمہارے لیے لباس اتارا ہے جو تمہارے ستر کو چھپاتا ہے اور زینت کا ذریعہ بھی ہے اور تقوی کا لباس سب سے بہتر ہے۔”
دوسری ندا :
دسویں رکوع کی آیت نمبر 27 میں ہے جس میں اللہ تعالی ابلیس کے فتنے سے بچنے کی تلقین کرتے ہوئے فرماتا ہے:
“اےاولاد آدم کہیں شیطان تم کو بہتا نہ دے جیسے اس نے تمہارے ماں باپ کو جنت سے نکال دیا ان کے لباس اتروا دیے تاکہ انہیں ان کا ستر دکھا دے “
تیسری ندا:
اے آدم کی اولاد ہر نماز کے وقت اپنی زینت لے لو اور کھاؤ اور پیو اور اسراف نہ کرو۔ بے شک اسراف کرنے والوں کو اللہ پسند نہیں کرتا۔
چوتھی ندا:
اے اولاد آدم اگر تمہارے پاس تمیں میں سے رسول آئیں جو تم کو میری آیات سنا ئیں تو جو تقوی اختیار کرلیں گے اور اپنی اصلاح کر لیں گے توایسوں پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔
شیطان چالاک دشمن ہی نہیں مکار لومڑی ہے :
اولاد آدم کو یہ خطاب انہیں شیطان کے وساوس اور مکاریوں سے بچانے کے لئے ہے۔ تاکہ انسان ملمع ساز باتیں سن کر دھوکا نہ کھا جائے کیونکہ وہ ایسا چلاک دشمن ہے جوبظاہر دوست کا لباس پہن کر آتا ہے اور ایسی مکار لومڑی ہے جو اپنے آپ کو خیر خواہ کے روپ میں پیش کرتی ہے۔ اسے حق کو باطل اور باطل کو حق شرکو خیر اور خیر کو شربنا کر پیش کرنے کا فن آتا ہے دنیا میں جو لوگ بھی یہ کام کر رہے ہیں۔ وہ حقیقت میں شیطان کے ایجنٹ ہیں۔
یہاں یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ پہلی تین ندائیں لباس کے بارے میں ہے۔ ان میں سے دوسری میری ندا میں یہ بتایا گیا کہ ابلیس لعین نے حضرت آدم اور حضرت حوا علیہمالسلام کے لباس اتروا دیے تھے اور ان کے ستر کھلوادیے تھے۔ گویا ابلیس کا سب سے بڑا ہدف یہ ہے کہ اولاد آدم کو شرم و حیا کے لباس سے محروم کردے اور انہیں فحاشی اورعریانیت کی راہ پر لگا دے۔ ستر کے تقاضے پورا کرنے والالباس انسان کو حیوان سے ممتاز کرتا ہے۔حیوان ننگا پیدا ہوتا ہے اور زندگی بھر ننگا ہی رہتا ہے جبکہ انسان کو اللہ تعالی نے لباس کے ساتھ عزت اور فضیلت بخشی ہے۔
مغربی میڈیا:
آج جب ہم مغربی میڈیا کے ذریعہ امنڈتے ہوئے سیلاب اور عورت کی آزادی کے نام پر حیا باختگی کی فضا دیکھتے ہیں تو پھر یہ بات سمجھ آجاتی ہے کہ قرآن منے لباس کے بارے میں تاکید اور تکرارکا اسلوب کیوں اختیار کیا ہے۔
(1)مشرکین کا بیت اللہ کا ننگے طواف کرنا:
مشرکین بیت اللہ کا ننگا طواف کرتے تھے اور اپنے اس قبیح عمل اور اس جیسے دوسرے اعمال کے بارے میں حجت یہ پیش کرتے تھے کہ ہمارے آباء و اجداد بھی یوں ہی کیا کرتے تھے اور بعض اوقات یہ بھی کہتے دیتے تھے کہ ہمیں اللہ تعالی نے ایسا کرنے کا حکم دیا ہے۔
مشرکین کے دعویٰ کی تردید:
ان کے اس دعوے کی تردید کرتے ہوئے فرمایا:
“اللہ بے حیائی کے کاموں کا حکم نہیں دیتا” لہذا تمہارا یہ دعوی جھوٹ اور افتراء کے سوا کچھ نہیں۔
جائز مطالبات کرنے والا دین:
اسلام زندگی کے تمام جائز مطالبات کرنے والا دین ہے۔ لہذا یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ لباس پہننے سے اور پاکیزہ چیزوں کے استعمال سے منع کرے۔
رہبانیت کے قا ئل:
اس سے ان لوگوں کی بھی تردید ہو جاتی ہے جو رہبانیت کے قائل ہیں۔ حلال اور پاک چیزوں سے اجتناب کو اللہ کے قرب کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔
کامل مسلمان:
جسم اورروح’دین اور دنیا دونوں کے جائز مطالبات اور تقاضے پورے کرنے والا ہی حقیقت میں کامل مسلمان ہے۔
ابو درداء رضی اللہ تعالی عنہ کا عمل :
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالی عنہ کو جب پتہ چلا کہ حضرت ابو دردہ رضی اللہ تعالی عنہ دن کو مسلسل روزے رکھتے ہیں اور رات کو قیام کرتے ہیں۔ عبادت میںیہ مشغولیت اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ اہلیہ تک کے حقوق ادا نہیں کرتے۔
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالی عنہ کی نصیحت:
تو آپ نے انہیں نصیحت کرتے ہوئے فرمایا تھا:
“تمہارے اوپر تمہارے رب کا بھی حق ہے تمہارے نفس کا بھی حق ہے تمہارے گھر والوں کا بھی حق ہے۔ لہذا ہر حق والے کو اس کا حق دو۔”
حضرت ابو درداء رضی اللہ تعالی عنہ نے ان کی اس نصیحت کا ذکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کیا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“سلمان نے سچ کہا ہے”
(2)دو گروہوں کا ذکر:
آٹھویں پارہ کے گیارہویں اور بارہویں رکوع میں ایسے دو گروہوں کا ذکر ہے جو فکر و نظر اور عقیدہ و عمل کے اعتبار سے ایک دوسرے کی ضد ہیں۔
۱۔ ایک گروہ ضد اور عناد’ کفر اور استکبار کی راہ اپنانے والوں کا ہے جن کا ٹھکانہ جہنم کے سوا کچھ نہیں۔
۲۔ دوسرا گروہ وہ تسلیم وانقیاداور ایمان واطاعت کی راہ پر چلنے والوں کا ہے جو بفضلہٖ تعالی جنت کے حقدار ہوں گے۔
دونوں گروہوں کا مکالمہ:
یہ دونوں گروہ جب اپنے اپنےٹھکانے پر پہنچ جائیں گے تو قرآن بتاتا ہے کہ ان کے درمیان مکالمہ ہوگا:
اہل جنت :
اہل جنت دوزخیوں سے سوال کریں گے کہ:
“کیا تمہیں آج اللہ کے وعدوں کے سچ ہونے کا یقین آیا یا نہیں؟”
اہل دوزخ:
وہ جواب میں اقرار کریں گے کہ :
“ہاں ہم نے وعدوں کو سچا اور برحق پایا”
دست سوال:
دوزخی جب جہنم کی ہولناک گرمی اور بھوک پیاس سے پریشان ہوجائیں گے تو جنتیوں کے سامنے دست سوال دراز کریں گے کہ ہمیں کچھ کھانے اور پینے کو دو لیکن ظاہر ہے کہ ان کا یہ سوال رائیگاں جائے گا یہ مکالمہ اس پارہ کے بار ہویں اور تیرہویں رکوع میں مذکور ہے۔
اصحاب اعراف:
ایک تیسرا گروہ بھی ہے۔ جسے قرآن نے “اصحاب اعراف” کا نام دیا ہے یہ وہ لوگ ہونگے جو مومن تھے لیکن اعمال صالحہ میں دوسرے جنتیوں سے پیچھے رہ گئے ہوں گے۔ انہیں نہ تو جنت میں داخل کیا جائے گا اور نہ ہی دوزخ میں۔ بلکہ ان کا فیصلہ موخر کر دیا جائے گا لیکن بالآخر اللہ تعالی ان کو بھی جنت میں داخل ہونے کی اجازت مرحمت فرما دیں گے۔
توثیق کے تین اہم دلائل:
۱۔ تہ بہ تہ سات آسمان بغیر ستون کے:
تہ بہ تہ سات آسمان جن میں سے ہر ایک دوسرے کے مقابلے میں ایسے ہے جیسا قبہ ہوتا ہے یہ ساتوں آسمان وسعت اور عظمت کے باوجود کسی ستون کے بغیر کھڑے ہیں۔
۲۔ رحمٰن کے عرش کی وسعت:
رحمان کا عرش جس کی وسعت کا یہ حال ہے کہ سارے آسمان اور زمینیں اسی کا احاطہ نہیں کرسکتے اور کسی کا خیال اس کی عظمت کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔
کرسی
کیوں کہ عرش کے مقابلے میں کرسی ایسی ہے جیسے کوئی حلقہ جو کہ وسیع و عریض صحراءمیں پڑا ہوکرسی کی وسعت کا یہ عالم ہے کہ وہ ارض و سما میں نہیں سما سکتی تو ہرعرش کی وسعت کیا ہوگی۔
عرش اور کرسی کی کیفیت:
عرش اور کرسی ان حقیقتوں میں سے ہے جن پر ہم ایمان تو رکھتے ہیں مگر ان کی کیفیت ہم نہیں جانتے۔
(3)سورج’چاند’ستاروں کی تخلیق:
تیسری دلیل جو یہاں بیان کی گئی ہے وہ سورج چاند اور ستاروں کی تخلیق ہے۔ یہ سب چیزیں اللہ کی مشیت اور غلبہ کے تحت ہے۔ یہ ایسی فضا میں تیر رہے ہیں جس کی وسعتوں کا کسی کو بھی اندازہ نہیں نہ تو یہ آپس میں ٹکراتے ہیں اور نہ ہی اپنے مدار سے باہر نکلتے ہیں۔
چھ انبیائے کرام:
یہ دلائل اور آخر میں چھ اںبیاء کرام علیہم السلام یعنی حضرت نوح’حضرت ھود، حضرت صالح، حضرت لوط، حضرت شعیب اور حضرت موسی علیہم السلام کے قصےاختصار کے ساتھ بیان کئے گئے ہیں۔
ان قصص میں حکمتیں اور عبرتیں:
ان کی قصوں میں جو مختلف حکمتیں اور عبرتیں پوشییدہ ہیں۔ چند درج ذیل ہیں :
۱۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخالفین کی ایزاؤں پر تسلی دینا۔
۲۔ متکبروں کا انجام بد اور نیکوکاروں کا اچھا انجام بتانا۔
۳۔ اس بات پر تنبیہ کرنا کہ اللہ کے ہاں دیر تو ہے اندھیر نہیں۔ بالآخر ظالموں کو ان کے ظلم کی سزا مل کر رہتی ہیں۔
۴۔ ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی سچائی کی دلیل پیش کرنا کہ امی ہونے کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم تاریخ کے گمشدہ اوراق حقائق کے مطابق پیش فرماتے تھے۔
۵۔ انسانی کے لیے عبرت و نصیحت کا سامان پیش کرنا۔
پارہ نمبر 9
حضرت شعیب علیہ السلام کا قصہ
آٹھویں پارہ کے آخر میں حضرت شعیب علیہ السلام کا قصہ شروع ہوا تھا اس قصہ کا بقیہ حصہ نہویں پارہ آغاز میں بیان کیا جا رہا ہے۔
جب حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم کی برائیوں اور فتنہ و فساد پر روک ٹوک کی۔
متکبر سرداروں کی دھمکی :
۱۔ اے شعیب! ہم تمہیں اور جو لوگ تمہارے ساتھ ایمان لائے ہیں ان کو اپنی بستی سے نکال دیں گے۔
۲۔ یا پھر دوسری صورت یہ ہے کہ تم بھی ہمارے دین میں آ جاؤ۔
حضرت شعیب علیہ سلام کا جواب:
آپ نے جواب دیا کہ ایسا نہیں ہو سکتا باقی تمہیں جو کچھ کرنا ہے کر لو ہم اللہ پر توکل اور بھروسہ رکھتے ہیں۔
اللہ کی سنت اور دستور:
ان مختلف انبیائے کرام علیہم السلام کے قصے بیان کرنے کے بعد اللہ تعالی فڑناتے ہیں کہ جھٹلانے والی قوموں کے بارے میں ہماری سنت اور دستوریہ رہا ہے کہ:
۱۔ ہم انہیں ہر طرح سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔
۲۔ تنگی اور تکلیف میں مبتلا کرتے ہیں کہ شاید وہ ہماری طرف رجوع کریں۔
۳۔ لیکن جب وہ نرمی یا سختی کسی بھی طریقہ سے نہیں سمجھتے تو ہم انہیں اچانک اپنےعذاب کی گرفت میں لے لیتے ہیں اور انہیں خبر بھی نہیں ہوتی۔
حضور صلی اللہ علیہ وسم کو تسلی:
پھر ان قصوں کے آخر میں گویا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو قوم کے انکار اور استکبار پر حزین وملول نہ ہونے کی تسلی دیتے ہوئے فرمایا گیا کہ:
“یہ بستیاں ہیں جن کے کچھ احوال ہم آپ(صلی اللہ علیہ وسلم ) کو سناتے ہیں ان کے پاس ان کے رسول واضح نشانیاں لے کر آئے۔ پھر ایسا نہ ہوا کہ اس بات پر ایمان لے آتے ہیں جسے وہ پہلے جھٹلا چکے تھے اسی طرح اللہ تعالی کافروں کے دلوں پر مہر لگا دیتا ہے۔”
حضرت موسی علیہ السلام کا قصہ :
وہ چھ انبیاء جن کے قصے سورۃ اعراف میں بیان کیے گئے ہیں ان میں سے تفصیل کے ساتھ سیدنا موسی علیہ السلام کا قصہ بیان ہوا ہے۔ اس لیے کہ ان کی قوم کی جہالت اقوام عالم کی جہالت سے بڑھ کر تھی اور آپ کی مخاطب قوم میں ایسا فرد بھی تھا جو خدائی کا دعویدار تھا۔
معجزات:
آپ کو جو معجزات عطا کئے گئے ہیں۔ وہ بھی سابقہ انبیاء کے معجزات کے مقابلے میں زیادہ واضح تھے۔ خاص طور پر عصا اور ید بیضا یہ دو ایسے معجزے تھے کہ جن کا انکار کرنے کے لیے دل کے اندھوں کو بھی خاصے تعصب اور ضد وعناد سے کام لینا پڑا ہوگا۔
بنی اسرائیل کی مصر آمد
فرعون اور اس کی قوم یعنی قبطیوں نے بنی اسرائیل کو غلام بنا رکھا تھا اور وہ ان پر جو وجفا کے نئے نئے طریقے آزماتے رہتے تھے۔ بنی اسرائیل اس زمانے میں مصر آئے تھے۔ جب ان کے شہر اورگاؤں شدید قحط کی لپیٹ میں آگئے تھے۔ پھر وہ حضرت یوسف علیہ السّلام کے زیر سایہ یہیں آباد ہو گۓ اور ان کی نسل میں روز بروز اضافہ ہوتا گیا۔ یہاں تک کہ ان کا شمار مصر کی دوسری بڑی اقوام میں ہونے لگا۔
فرعون سے مطالبہ:
پھر مختلف فرعونوں نے اپنے اپنے دور میں انہیں ظلم و ستم کا نشانہ بنانا شروع کیا۔ حضرت موسی علیہ السلام بنی اسرائیل کو بدترین غلامی سے رہائی دلا کر ان کے اپنے وطن یعنی ارض مقدس میں لے جانا چاہتے تھے۔ اسی لئے آپ نے فرعون سے مطالبہ کیا کہ:
“بنی اسرائیل کو میرے ساتھ بھیج دو”
کوئی معجزات دکھاؤ:
جب حضرت موسی علیہ السلام نے فرعون کے سامنے یہ دعوی کیا کہ میں رب العالمین کی طرف سے رسول بن کر آیا ہوں تو فرعون نے مذاق کے طور پر کہا:
“اچھا! اگر واقعی تم اپنے دعوے میں سچے ہو تو کوئی معجزہ دکھاؤ”
۱۔ آپ نے اپنی لاٹھی زمین پر ڈال دیں جو دیکھتے ہی دیکھتے ایک خوفناک اژدھے کی شکل اختیار کر گئی۔
۲۔ پھر آپ نے اپنا ہاتھ باہر نکالا۔ اس سے ایسا نور نکلا جس ارض و سما کے درمیان چکاچوند ہوگی۔
تخت سے چھلانگ لگا دی:
جب فرعون نے لاٹھی کو سانپ بنتے ہوئے دیکھا تو ڈر کے مارے تخت سے چھلانگ لگادی اور بھاگ کھڑا ہوا۔
فرعون کا مشورہ:
پھر اسے یہ ڈر لاحق ہوگیا کہ کہیں لوگ حضرت موسی علیہ السلام پر ایمان نہ لے آئیں۔ اس لیے اس نے اپنے مشیران خاص سے کہا یہ ایک جادوگر ہے جو تمہارے اس ملک پر قبضہ جمانا چاہتا ہے لہذا تم مجھے مشورہ دو کہ کیا کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا:
“ہمارے ملک میں بڑے بڑے ماہر جادوگر ہیں ان سب کو جمع کرلیا جائے تاکہ وہ ایک مجمع عام کے سامنے موسی علیہ سلام کو شکست فاش دیں۔ “
ساحران مصر کا پہلے مقابلہ پھر ایمان لانا:
چنانچہ یہی کیا گیا ایک مخصوص میدان اور معین دن میں مصر کے ہزاروں لوگ جمع ہو گئے۔ ساحروں ے جادو کے جواب میں حضرت موسی علیہ السلام نے اپنا معجزہ دکھایا تو ساحران مصر بےاختیار سجدے میں گر گئے اور انہوں نے ایمان قبول کر لیا۔
فرعون کی دھمکیاں
ان کے قبول ایمان نے فرعون کو سیخ پا کر دیا اور وہ گالم گلوچ اور دھمکیوں پر اتر آیا لیکن ان نو مسلموں کے دل کی گہرائی میں ایمان کی جڑ چند ہی لمحوں میں اس قدر پیوست ہو گئی تھی کہ فرعون کی دھمکیاں ان کے پاۓ استقامت میں لغزش پیدا نہ کر سکیں۔