سورۃ البقرہ (پارہ نمبر 1 )
سورۃ البقرہ کا ترتیب نمبر دو اور نزولی نمبر 87 ہے
سورۃ البقرہ کا اکثر حصہ ہجرت مدینہ کے بعد بالکل ابتدائی دور میں نازل ہوا اس لیے یہ سورت مدنی ہوئی
سورۃ البقرہ قرآن کریم کی سب سے طویل سورت ہے جو کہ 286 آیات پر مشتمل ہے
وجہ تسمیہ :
اس کی دو وجہ تسمیہ ہیں
1 . لغت عربی میں بقرا گائے کو کہتے ہیں جو کہ اس سورت میں بقرہ کا لفظ بھی آیا ہے اور
2 . گائے ذبح کرنے کا واقعہ بھی اس سورت میں مذکور ہے جو کہ آیت نمبر 67 سے لے کر 73 تک میں مذکور ہےاس لیے اس سورت کو بقرہ کہا جاتا ہے
گائے ذبح کرنے کا واقعہ :
بنی اسرائیل کے ایک بہت ہی مالدار شخص کو اس کے بھتیجے نے مال وراثت ہتھیانے کی غرض سے قتل کردیا ۔
اور اندھیری رات میں اس کی لاش کو اٹھا کر کسی دوسرے کے دروازے پر ڈال دی اور اس پر قتل کا دعویٰ بھی کر دیا
اور یہ بات بہت قریب تھی کہ مدعی اور مدعا علیہ کے خاندان ایک دوسرے پر ہتھیار اٹھا لیتے
1: قاتل
کہ اللہ تعالی نے حضرت موسی علیہ السلام کے ذریعے ان لوگوں کو گائے ذبح کرنے اور اس کے گوشت کا کچھ حصہ اس مقتول کے جسم کے ساتھ لگانے کا حکم دیا
ایسا کرنے سے مقتول زندہ ہو کر اٹھ بیٹھا اور اس نے جس نے اس کو قتل کیا تھا اس کی نشاندہی کر دی
2: بعث بعد الموت
:
اور ان دنوں کے اندر بنی اسرائیل کا ایک گروہ مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے کا انکار کر رہا تھا
اور گائے کے ذبح کرنے اور اس کا گوشت مقتول کے جسم کے ساتھ لگانے سے جو فائدہ ہوا
وہ یہ کہ مقتول کے زندہ ہونے سے نہ صرف یہ کہ قاتل کی نشاندہی ہوگئی بلکہ
بعث بعد الموت پر ایک حجّت قائم ہوگئ
3:گائے کی عقیدت کا رد
اسی طرح مصریوں کے ساتھ طویل عرصہ تک رہنے کی وجہ سے بنی اسرائیل کے دل میں گائے کی جو عقیدت اور محبت رچ بس گئی تھی
گائے کو ذبح کرنے کا حکم دے کر اس کی تردید اور توہین بھی کر دی
گائے ذبح کرنے کے حکم کی حکمتیں
اللہ رب العزت کے اس حکم کی تین حکمتیں تھیں
1 : قاتل کی نشاندہی
2 :عقیدہ بعث بعد الموت پر حجت
3: گائے کی محبت اور عقیدت کی تردید
گائے والے واقعے کے علاوہ پہلے پارے کے اندر جو اہم مضامین بیان ہوئے ہیں
وہ درج ذیل ہیں
١: :
دائمی علمی معجزہ :
اس سورت کی ابتداء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دائمی معجزہ قرآن کریم کے ذکر سے ہوئی ہے
ویسے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت زیادہ حسی اور مادی معجزات بھی عطا کئے گئے
لیکن قرآن پاک پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے بڑا معجزہ علمی تھا
حروف مقطعات کی حکمت :
1:اس سورت کی ابتدا حروف مقطعات میان سے “الم”کے ساتھ ہوئی ہے
ابتدا کا یہ انداز عربوں کے لئے غیر مانوس تھا اس انداز نے ان کی توجہ اپنی طرف مبذول کرلی
اور وہ مجبور ہو گئے کہ جو بات بھی ہو اس کو توجہ سے سنا جائے
2: قرآن کریم کی جن سورتوں کا آغاز حروف مقطعات سے ہوا ہے وہاں قرآن کریم کی عظمت صداقت اور اعجاز وحقانیت کا تذکرہ بھی ہوا ہے
3:
جس کی وجہ سے علماء کی ایک بڑی جماعت کی رائے یہ ہے کہ یہ حروف لا کر حقیقت میں قرآن کو انسانی کاوش قرار دینے والوں کو چیلنج کیا گیا ہے
کہ اگر واقعی قرآن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا خود ساختہ کلام ہے تو تم بھی ان حروف سے جنہیں تم شب و روز استعمال کرتے ہو ایسا ہی کلام بنا لو
تمہیں اپنی فصاحت و بلاغت اور زبان دانی پر بڑا ناز ہے جس کی وجہ سے تم اپنے مقابلے میں سارے انسانوں کو عجم( گونگے) کہتے ہو
لیکن الحمداللہ تاریخ گواہ ہے کہ نہ کل کے کافروں نے اس چیلنج کو قبول کیا نہ آج کوئ قبول کرنے والا ہے اور نہ ہی قیامت تک کوئی قبول کر سکے گا
2::
انسانوں کی تین اقسام ہیں
1مومن 2 کافر 3 منافق
اب ایمان والوں کی پانچ صفات ہیں
نمبر ایک ایمان بالغائب :
یعنی ان حقائق پر ایمان جن کا ہو اس سے ادراک نہیں کیا جا سکتا
مثلا جنت، دوزخ ،حشرنشر ،حساب اور جزا و سزا وغیرہ
نمبر2 اقامت صلوہ :
یعنی نماز کو شروط اور آداب کا لحاظ رکھتے ہوئے مستقل ادا کرتے رہنا
نمبر 3 اداء زکاة:
قرآن کریم میں عام طور پر جہاں بھی نماز کا ذکر آیا وہاں زکوۃ کا ذکر بھی آیا ہے
نماز اللہ کا حق اور زکوۃ اللہ کے بندوں کا حق ہے
انسان کا ایمان اس وقت تک پورا نہیں ہوسکتا جب تک وہ دونوں قسم کے حقوق (حقوق اللہ اور حقوق العباد ) ادا نہ کرے
نمبر 4 آسمانی کتابوں پر ایمان :
ان تمام آسمانی کتابوں پر ایمان جو مختلف زمانوں میں مختلف انبیاء اور رسل علیہم السلام پر نازل کی گئیں
نمبر5 آخرت کی تصدیق :
آخرت کے ایسی تصدیق جس میں شک کی کوئی ملاوٹ نہ ہو
اہل ایمان کا تذکرہ
یہاں پر قابل توجہ نکتہ ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے ایمان والوں کا تذکرہ چار آیات میں فرمایا ہے
اور کفار کا تذکرہ دو آیات میں
جب کہ منافقین کا تذ کرہ 13 آیات میں فرمایا ہے
منافقوں کے اوصاف
ان تیرہ آیات میں منافقوں کے بارہ اوصاف بیان کیے گئے
مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ ان اوصاف بد سے اپنا دامن بچا کر رکھیں
یہ اوصاف اور علامات درج ذیل ہیں
نمبر1 جھوٹ بولنا
نمبر2 دهوکہ دینا
نمبر 3 عقل کا نہ ہونا
نمبر 4 قلبی بیماریاں یعنی حسد تکبر اور حرص ہونا
نمبر 5 مکروفریب
نمبر 6 بیوقوفی
نمبر7 احکام الہی کا استہزاء اور تمسخر
نمبر 8 زمین میں فتنہ و فساد پھیلانا
نمبر 9 جہالت
نمبر10 ضلالت
نمبر 11 تذبذب
اور نمبر 12 اہل ایمان کا تمسخر اڑانا
3 آدم اور ابلیس کا قصہ :
حضرت آدم اور حضرت حوا علیہما السلام کا قصہ جو ابلیس لعین کے ساتھ پیش آیا حقیقت میں یہ ساری انسانیت اور اس دنیا کی ابتدا سے انتہا تک کا قصہ ہےاور یہ قصہ حق اور باطل خیر اور شر کے درمیان ہمیشہ کی کشمکش کی نشاندہی کرتا ہے
حضرت آدم علیہ السلام کی خلافت :
یہ قصہ حضرت آدم علیہ السلام کی عظمت شان بتاتا ہےانہیں ارضی خلافت عطا کی گئی اورایسے علم سے نوازا گیا جو فرشتوں کے پاس نہیں تھاملائکہ کو ان کے سامنے سجدہ ریز ہونے کا حکم دیا گیا
منصب خلافت پر فائز ہونے کی وجہ سے بنو آدم اس امر کے پابند ہ یں کہ وہ زمین پر اللہ کے حکم کو نافذ کریں اور دنیا کا نظام ویسے چلائیں جیسے اللہ چاہتا ہے
4: یہود کا تذکرہ
ویسے تو قرآن کریم میں متعدد مقامات پر بنی اسرائیل کا تذکرہ ہےلیکن ان کے بارے میں سب سے زیادہ تفصیلی بحث سورہ بقرہ کرتی ہے پہلا پارہ تقریبا پورا ہی ان کے تذکرے پر مشتمل ہے
انعامات خداوندی :
اس ذکر میں سب سے پہلے تو یہ بتایا گیا کہ اللہ تعالی نے بنی اسرائیل کو بےشمار ظاہری اور باطنی دینی اور دنیاوی نعمتیں عطا فرمائےکہ ان کے اندر کثرت سے انبیاء علیہم السلام پیدا فرمائےاسی طرح دوسری نعمت دنیاوی خوشحالی عطا فرمائے
تیسرے نمبر پر عقیدہ توحید اور ایمان کی نعمت سے سرفراز فرمایا
چوتھی نعمت فرعون کے مظالم سے نجات دی
پانچواں انعام اللہ رب العزت کی طرف سے یہ ہوا کہ ان کو حضرت موسی علیہ السلام کی قیادت میں مصر سے ہجرت کا حکم دیااور فرعون نے ان کا تعاقب کیا تو سمندر میں ان کے لیے راستہ بنا دیا
اور نمبر 6 بنی اسرائیل پر ظلم و ستم ڈھانے والے کو ان کی نظروں کے سامنے اس کے لشکر سمیت غرقاب کر دیا
نمبر 7 صحرائے سینا میں وہ بے سروسامانی کے عالم میں تھے ان کے کھانے کے لئے من و سلویٰ آسمان سے اتارا
نمبر 8 سایہ کے لیے ٹھنڈے بادلوں کا انتظام فرمایا
نمبر ٩ اور پینے کے لئے پانی کی تلاش ہوئی تو پتھر سے بارہ چشمے جاری فرما دیا
کفران نعمت :
اس کے بعد یہ بتایا گیا ہے کہ انھوں نے ان نعمتوں کا شکر ادا نہ کیااور آہستہ آہستہ نعمت کی ناشکری کی بیماری میں مبتلا ہوگئے
چناچہ
انہوں نے حق کو چھپایااور نبی صلی اللہ علیہ وسلم جو کہ خاتم النبیین ہیں آپ کی نبوت کا انکار کیا
اسی طرح انہوں نے بچھڑے کو معبود بنا لیااور دشت سینا میں بے صبری اور حرص و طمع کا مظاہرہ کیااریحاءشہر میں متکبرانہ انداز میں داخل ہوئے جب کہ انہیں عاجزی کے ساتھ داخل ہونے کا حکم دیا گیا تھا
انبیاء علیہم السلام کو ناحق قتل کیا
بار بار وعدہ کیا اور اس کو توڑا
ان کے دل سخت ہو گئے تھے
انہوں نے اللہ رب العزت کے کلام میں لفظی اور معنوی تحریف کی
شریعت کے بعض احکام پر وہ ایمان لائے اور بعض کا انکار کرتے رہے
وہ بغض اور حسد کی بیماری میں مبتلا ہوگئے
انہیں مادی زندگی سے مبالغے کی حد تک محبت تھی
مقرب فرشتوں سے بیزاری کا اظہار کرتے تھے
جادو اور کہانت میں بے حد دلچسپی رکھتے تھے
ان کے ہاں ایسے عملیات کو قبول عام حاصل تھا جن کے ذریعے میاں بیوی کے درمیان جدائی پیدا کرکے عشق پُر از فسق کی راہ ہموار کی جائے
بد عملی کے باوجود جنت کے واحد ٹھیکیدار ہونے کا دعوی کرتے تھے اور وہ بڑے وثوق سے کہتے تھے کہ جنت میں صرف وہی جا سکتا ہے جو یہودی ہیں
اور یہی دعوی نصاریٰ بھی کرتے تھے
اس کے ساتھ دونوں یہ دعویٰ بھی کرتے تھے کہ صرف ہم ہی حق پر ہیں اور ہمارے مخالف فرقہ کے پاس کوئی دلیل نہیں
عبرت :
(اب سوچنے کی بات یہ ہے عبرت اور نصیحت کی بات یہ ہے کہ کہیں ان خرابیوں میں سے کوئی خرابی ہم مسلمانوں میں تو نہیں پائی جاتی )
5: ابراہیم علیہ السلام
یہودیوں پر انعامات اور ان کے کفران نعمت اور جرائم کی تفصیل کے بعد تذکرہ ہےحضرت ابراہیم علیہ السلام کا جن کی عظمت ،شان کو یہودی اور نصاریٰ دونوں تسلیم کرتے تھے اور بطور فخر ان کی طرف اپنی نسبت کرتے تھے
اگر یہودی اور نصاری اپنے دعوے میں سچے ہوتے تو ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع ضرورکرتےکیونکہ پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا وہی کا ثمر تھے
آزمائشوں پر ثابت قدمی :
یہاں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اللہ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو مختلف ابتلا اور آزمائش میں ڈالا لیکن وہ ہر آزمائش سے سرخرو ہوکر نکلے :والد کی بت پرستی سے بیزاری کا معاملہ ہویا قوم سے ٹکراؤ کا معاملہ ہو
جب مرحلہ تھا نمرود سے بحث و مباحثہ کا تب بھی سرخرو ہوئےہاتھ میں ڈالے جانے لگا تب سرخرو ہوئےاپنے وطن کو چھوڑنا پڑا تب بھی کامیاب ہوئےبیوی اور بچے کو بے آب و گیاہ وادی میں چھوڑ نے کا حکم ہوا تب بھی کامیابی سمیٹی
اور اپنے لخت جگر کو اپنے ہاتھوں سے ذبح کرنے کا معاملہ آیا تب بھی کامیاب ہوئےاللہ کے خلیل علیہ السلام ہر مقام پر ثابت قدم رہے اور ان کے قدموں میں ذرہ برابر بھی لغزش نہ آئی
دعاؤں کا نتیجہ :
اس ثابت قدمی کی برکت تھی کہ ان کی دعائیں قبول ہوئیں ؛
کہ مکہ پر امن شہر بنا
وہاں کے رہنے والوں کو پھلوں کا رزق میسر آیااور سب سے بڑی دعا جو اللہ رب العزت نے ان کی قبول فرمائی وہ یہ کہ اللہ نے قریش کی نسل سے خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کو پیدا فرمایا
ملت ابراہیمی سے اعراض:
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے معاصر اور مفاخر بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
کہ ملت ابراہیمی سے وہی شخص سےاعراض کرسکتا ہےجو شقی احمق اور خواہشات کا غلام ہو یہودونصاریٰ واقعی ایسے ہی تھے
کہ وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف اپنی نسبت تو کرتے تھے مگر ان کا خیال باطل یہ تھا کہ نجات حنفیت کے اتباع میں نہیں ہے بلکہ یہودیت اور نصرانیت کے اتباع میں ہے
حنفیت کی دعوت :
اللہ تعالی نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ آپ انہیں حنفیت یعنی دین اسلام کی طرف دعوت دیں اور یہ کام تمام انبیاء علیہم السلام کا ہے اور یہی انبیاء علیہم السلام کا دین تہے
اگر وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو قبول کر لیں تو ہدایت پا جائیں گے
اور اگر قبول نہ کریں تو ان کا انکار اور گمراہی کسی دلیل کی بنا پر نہیں ہوگی
بلکہ ضد اور عناد کی بنا پر ہوگی
ضد اور مخالفت ان کی عادت :
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں عینات کی گندگی میں پڑا رہنے دیں اللہ رب العزت تو خود ان سے نمٹ لے گا
ارشاد ہوتا ہے :
اگر یہود و نصاری اس طرح ایمان لے آئے جس طرح تم ایمان لائے ہو تو یہ ہدایت پاجائیں گے اور اگر وہ منہ موڑے رہے تو اس پر تعجب نہ کریں کیونکہ ضداور مخالفت ان کی عادت ہے
اگر انہوں نے شرارت کرنے کی کوشش کی تو اللہ تعالیٰ ان سے عنقریب نمٹ لے گا وہ بڑا سننے والا اور بڑا جاننے والا ہے
سورۃ الفاتحہ کی فضیلت کا بیان | سورہ فاتحہ کی مختصر تفسیر |urdu main Surat Al-Fatiha ka khulasa
دودھ کے حیران کن فوائد |Benefits of Drinking Milk Urdu Hindi | Doodh Peene Ke Fayde
1>مضامین قرآن: سورۃ البقرۃ
2>سورہ بقرہ کے اہم مضامین
3>سورہ بقرہ کے موضوعات
4>سورۃ البقرۃ ،تعارف ،فضائل ، مضامین
5>Surah Baqarah short questions in Urdu
6>surah baqarah questions and answer
7>Surah Baqarah ka taaruf in Urdu
8>Surah Baqarah ka taaruf in Urdu