ترمذی اور ابو داؤد نے ام منذر سے روایت کی ہے انہوں نے بیان کیارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے آپ کے ساتھ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ بھی تھے اور ہمارے یہاں لٹکتے ہوئے کجھور کے خوشے تھے امی منذر بیان کرتی ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھ حضرت علی ان خوشوں سے کھجور کھانے لگےپھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ بس کرو اس لیے کہ تم ابھی کمزور ہو کہ بیماری سے اٹھے ہو ام منذر کا بیان ہے کہ میں نے ان کے لئے چقندر اور جو کی ڈش (کھانا) تیار کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ علی اس کو کھاؤ اس لئے کہ یہ تیرے لیے مفید ترین ہےیہ حدیث امام ترمذی کے نزدیک حسن غریب ہے
چقندر کا مزاج پہلے درجے میں گرم خشک ہے بعضوں نے اسے رطب بتایا ہے یعنی تربتایا ہے
اور کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ خشک اور تر سے مرکب ہے
اس میں ہلکی سی ٹھنڈک ہوتی ہے ،یہ مواد کو تحلیل کرتا ہے اور سدے کھولتا ہے کالے چقندر میں قبض ہے بالخورہ مہاسے سر کی بھوسی اور بدن کے مسے کے لئے اس کا طلاء مفید ہےجوں کو ختم کرتا ہے شہد کے ساتھ اس کا پانی ملا کر بالخورہ پر طلا کرنے سے فائدہ ہوتا ہےجگر اور طحال کے سدوں کو کھولتا ہے
اور بہت زیادہ سیاہ چقندر پاخانہ بستہ کرتا ہے بالخصوص جب اس کو مسور کی دال کے ساتھ استعمال کریں حالانکہ یہ دونوں ردی چیزیں ہیںاور سفید چقندر مسور کے ہمراہ پاخانہ نرم کرتا ہے اسہال کے لیے اس کےپانی کا حقنہ دیا جاتا ہےاور درد قولنج میں مسالے اور تلخ چیزوں کے ساتھ اس کا استعمال مفید ہے البتہ اس میں غذائیت کم پائی جاتی ہےکیموس ردی پیدا کرتا ہے خون کو جلاتا ہےلیکن سرکہ اور رائی کے دانے سے اس کی اصلاح ہوتی ہےاور اس کا بہت زیادہ استعمال قبض اور اپھارہ کرت