شوہرکے حقوق کا بیان
شوہر کی اطاعت اور حقوق کے متعلق چنداحادیث:
اللہ تعالیٰ نے شوہر کا بڑا حق بنایا ہے اور بہت بزرگی دی ہے شوہر کاراضی اور خوش کرنا بڑی عبادت ہے اور ناراض کرنا بہت بڑاگناہ ہے۔
۱۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ جو عورت پانچوں وقت کی نماز پڑھتی رہے اور رمضان کے روزے رکھے اور اپنی عزت و آبرو کو بچائے رہے یعنی پاک دامن رہے اور اپنے شوہر کی تابع داری اور فرماں برداری کرتی رہے تو اس کو اختیار ہے جس دروازہ سے چاہے جنت میں چلی جائے۔
۲۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ جس کی موت اس حالت میں آئے کہ اس کا شوہر اس سے راضی ہو تو وہ جنتی ہے۔
۳۔ اور حضور ﷺ نے فرمایا کہ اگر میں خدا کے سوا کسی اور کو سجدہ کرنے کے لیےکہتا تو عورت کو ضرور حکم دتیا کہ اپنے میاں کو سجدہ کیا کرے۔ اور اگر مرد اپنی عورت کو حکم دے کہ اس پہاڑ کے پتھر اٹھا کر اس پہاڑ تک لے جائے اور اس پہاڑکے پتھر اٹھا کرتیسرے پہاڑ تک لے جائے تو اس کو یہی کرنا چاہیے۔
۴۔ اور حضور ﷺ نے فرمایا کہ جب مرد اپنی بیوی کو اپنے کام کے لیے بلائے تو ضرور اس کے پاس آجائے اگرچہ چولہے پربیٹھی ہو تب بھی آجائے۔ مطلب یہ ہے کہ چاہے جتنے ضروری کا م پربیٹھی ہوسب چھوڑچھاڑکر چلی آئے۔
۵۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ جب کسی مردنے اپنے پاس اپنی عورت کو لیٹنے کے لیے بلایا اور وہ نہ آئی پھروہ اسی طرح غصہ میں
Shohar Ke Huqooq Biwi Par
لیٹا رہا توصبح تک سارے فرشتے اس عورت پرلعنت کرتے رہتے ہیں۔
۶۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ دنیامیں جب کوئی عورت اپنے میاں کو ستاتی ہے تو جو حور قیامت میں اس کی بیوی بنے گی۔ یوں کہتی ہے کہ خدا تیرا ناس کرے تو اس کو مت ستا یہ تو تیرے پاس مہمان ہے تھوڑے ہی دنوں میں تجھ کوچھوڑکرہمارے پاس چلا آئے گا۔
۷۔ حضور ﷺ نے فرمایاتین طرح کے آدمی ایسے ہیں جن کی نہ تونمازقبول ہوتی ہے نہ کوئی اور نیکی منظورہوتی ہے ایک تو وہ لونڈی غلام جو اپنے مالک سے بھاگ جائے دوسرے وہ عورت جس کا شوہر اس سے ناخوش ہو۔ تیسرے وہ جو نشہ میں مست ہو۔
۸۔ کسی نے حضور ﷺ سے پوچھا کہ یارسول اللہ سب سے اچھی عورت کو ن ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ عورت جب اس کا میاں اس کی طرف دیکھے توخوش کردے اور جب کچھ کہے تو اس کی بات مانے اور جان و مال میں کچھ اس کے خلاف نہ کرے جو اس کو ناگوار ہو۔1 (1 ماخوذ از بہشتی زیور و حیات المسلمین
Husband wife rights
شوہرکی عظمت اور اس کا رتبہ: اے عورتو! تم مردوں کے سامنے اتنی چھوٹی ہوکہ حدیث میں سیدنا رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ اگر میں خدا کے سوا کسی کے لیے سجدہ کرنے کی اجازت دیتا توعورت کو حکم دتیا کہ اپنے خاوند کو سجدہ کیا کرے کچھ ٹھکا نہ ہے مرد کی عظمت کا؟ کہ اگر خدا کے بعد کسی کے لیے سجدہ جائزہوتا تو عورت کو مرد کے سجدہ کا حکم ہوتا۔ مگراب عورتیں مردوں کی یہ قدرکرتی ہیں کہ ان کے ساتھ زبان درازی اور مقابلہ سے پیش آتی ہیں۔
اگرتم یہ کہوکہ صاحب مردکو غصہ ہم پر آتا ہے توسمجھوکہ غصہ ہمیشہ اپنے چھوٹے یا برابر والے پرآیا کرتا ہے اور جس کو آدمی اپنے سے بڑاسمجھا کرتا ہے اس پر کبھی غصہ نہیں آیا کرتا۔ چناں چہ نوکر کو آقا پرغصہ نہیں آسکتا۔ اسی طرح رعیت کے آدمی کو حاکم پرغصہ نہیں آتا۔ بیٹے کو باپ پرغصہ نہیں آسکتا چاہے وہ اس پر آنا یہ بتلاتا ہے کہ تم اپنے آپ کو مرد سے بڑا یا برابر کے درجہ کا سمجھتی ہو۔ اور یہ خیال ہی سرے سے غلط ہے۔ اگر تم اپنے کو مرد سے چھوٹا اور محکوم (تابع) سمجھو تو چاہے وہ کتنا ہی غصہ کرتا تم کو ہرگز غصہ نہ آسکتا تھا۔ پس تم اس خیال کو اپنے دل سے نکال دو اور جیسے خدا نے
شوہر، بیوی کا باہمی رتبہ اور درجہ: اے عورتو! تمہارا رتبہ لونڈی سے بھی کم ہے اس لیے کہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ اگر خدا کے سوا، کسی غیر کو سجدہ کرنے کی اجازت دتیا تو عورت کو حکم دتیا کہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے، اور یہ نہیں فرمایا کہ اگر سجدہ کی اجازت غیراللہ کے لیے ہوتی تو باندی، لونڈی کو حکم دیتا کہ اپنے مولیٰ کو سجدہ کرے معلوم ہوا کہ تمہا را مرتبہ (شوہر کے مقابلہ میں ) لونڈی سے بھی کم ہے اور شوہر کا رتبہ مالک سے بھی زیادہ ہے۔
Wife’s rights over husband
مگرتمہاری حالت یہ ہے کہ خاوند سے دبنا عار (اور شرم کی بات) سمجھا جاتا ہے تم ان احکام کو دین ہی نہیں سمجھتیں۔ دین کا بڑا شوق ہوگا تو وظائف اور سُبْحَانَ اللّٰہِ، اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ بہت سی تسبیح پڑھ ڈالیں گی۔ میں کہتا ہوں کہ وظائف کامرتبہ توان سب سے پیچھے ہے بڑی فضیلت اس میں ہے جس میں نفس کے خلاف ہو۔ اور خاوندکی عظمت واحترام اور اطاعت نفس کے خلاف ہے اس کی فضلیت زیادہ ہے۔1 (1 اصلاح النساء، حقوق الزوجین: ص ۱۹۰
شوہر بہ منزلہ پیرکے ہے:
پیر مرید کی اصلاح کیا کرتا ہے، لیکن ان عورتوں ) کے لیے بیعت کا پیر کافی نہیں، کیوں کہ وہ ہر وقت کیسے ساتھ رہ سکتا ہے ان کے لیے تو بیت (گھر کا) پیر چاہیے یعنی گھر کا پیر جو گھر میں ہر وقت موجود رہے، اور وہ کون ہے وہی گھر والا یعنی خاوند۔ یہ پیر اور (دوسرے) قسم کے پیروں سے بہتر اور افضل اور ان کے لیے زیادہ نفع بخش ہے اور اسی کا رتبہ بھی سب سے زیادہ ہے۔
یہ گھر کا پیر کیسا اچھا پیر ہے کہ دین کی درستگی کرتا ہے اور کھانے پہننے کو بھی دتیا ہے۔ دین کا بھی ذمہ دار ہے اور دنیا کا بھی ہے۔ بیعت کے پیر میں یہ بات کہاں ! دنیا کا تو نفع ان سے کچھ ہے ہی نہیں بلکہ ان کو اور گھر سے نذرانے دینے پڑتے ہیں اور دین کا نفع بھی اتنا نہیں ہوسکتا جتنا خاوند سے ہوسکتا ہے، کیوں کہ پیر صاحب سے اتنا ہی ہوسکتا ہے کہ جب کبھی ان سے پوچھاجائے توبتادیں گے یا کبھی ان کے پاس جا نا ہو توکچھ اصلاح ہوجائے۔ سو اس کی نوبت برسوں میں کبھی آتی ہے خصوصاًعورتوں کے لیے اور خاوند توہر وقت پاس میں موجود ہے وہ بات بات کی نگرانی کرسکتا ہے۔ اس لیے میں نے کہا کہ ان کے لیے بجائے بیعت کے پیرکے بیت کاپیر سب سے افضل ہے۔
اور بعض عورتوں کے لیے بجائے بیت کے بید (چھڑی) کاپیر بہت نافع ہے۔ یعنی جو عورتیں مہذب اور شائستہ سمجھ دار ہیں ان کے لیے توبیت (گھر) کا پیر کا فی ہے۔ اور جو عورتیں غیرمہذب اور کم سمجھ بد تمیزہیں ان کے واسطے بید (لکٹری) کا پیرہونا چاہیے، جو آلۂ ضرب ہے جس سے پٹائی ہوتی ہے۔ (۱)
بیوی شوہرسے افضل ہوسکتی ہے یانہیں
بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مردوں کو عورتوں پرعلی الا طلاق فضیلت ہے اور عورت مرد کے مقابلہ میں کوئی چیزنہیں۔ یہ غلط ہے بلکہ بعض باتوں میں مرد کے برابرہے اور بعض باتوں میں مرد سے بڑھ سکتی ہے۔ یعنی اعمال میں نماز روزہ کرے گی تومرد سے زیادہ درجہ حاصل کرسکتی ہے۔ اور شریعت اللہ ورسول کے حکم کو کہتے ہیں تویوں کہو کہ اللہ ورسول کے سامنے خاوند کا حکم نہ مانا جائے گا اور اس حکم میں سب عورتیں برابرہیں جس عورت کا پیر نہ ہوتب بھی وہی کرنا چاہیے جو اللہ ورسول کاحکم ہوکے مقابلہ میں کسی کے حکم کوبھی ترجیح نہ ہوگی خاوند کا حق سب سے زیادہ ہے۔ (۱)
اس کایہ مطلب نہیں کہ جو عورت خاوند سے زیادہ دنی دار ہو اس کو خاوند کی اطاعت اور تعظیم لازم نہ رہے گی۔ بلکہ خاوند کی اطاعت اور تعظیم ہرحال میں کرناپڑے گی۔
کیوں کہ فضیلت کی دوحدیثیں ہیں ایک باعتبارزوجیت کے اس اعتبار سے عورت کو خاوند پرکسی طرح بھی فضیلت حاصل نہ ہوگی بلکہ اس حیثیت سے ہمیشہ خاوند ہی کو بیوی پرفضلیت ہے گوبیوی کے حقوق بھی شوہرپرہیں، لیکن خاوند کو بہرحال فضیلت ہے۔ اور ایک فضیلت دین اور اعمال کے اعتبارسے ہے سو اس میں بیوی شوہر سے بڑھ سکتی ہے۔ اور ممکن ہے کہ حق تعالیٰ کے یہاں اس کے حسنات اور درجات زیادہ ہوں، کیوں کہ اس کا مدار اعمال پرہے مگر اس فضیلت کی وجہ سے بیوی خاوند کی مخدومہ نہیں بن سکتی بلکہ خادمہ ہی رہے گی۔ (۲)
خد اور سول کے بعد سب سے زیادہ حق شوہر کا ہے:
بیبیو! خوب سمجھ لوکہ دین کے کاموں اور شرعی احکام کے سواباقی سب کاموں میں خاوند کاحق پیرسے زیادہ ہے اگر خاوند کا حکم دین کے خلاف نہ ہو تو اب اس کے مقابلہ میں کسی کے حکم کوبھی ترجیح نہ ہوگی توخاوند کا حق اللہ ورسول کے بعد سب سے زیادہ ہے۔
خاوند اگر ایک کام کاحکم کرے اور پیر اس کو اس لیے منع کرے کہ وہ شریعت کے خلاف ہے تو اس صورت میں توخاوند کا حکم نہ مانا جائے گا بلکہ پیر کاحکم مانا جائے گا بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ شریعت کے حکم کو مانا جائے گا۔
شوہرکے اطاعت کے حدود اور اس کا ضابطہ ہے