(10 ھجری)
(حجةالوداع)
ذیقعدہ دس ہجری کو حضور ﷺ حج کی نیت سے مکہ روانہ ہوۓ آپ کے ساتھ صحابہ کی ایک بہت بڑی جماعت تھی ذوالحلیفہ سے احرام باندھا چار ذوالحج کو مکہ میں داخل ہوئے
(خطبہ عرفات)
نویں تاریخ کو آپ عرفات تشریف لے گئے وہاں ایک مفصل اور بلیغ خطبہ دیا چنانچہ فرمایا اے لوگو میرے کلام کو سنو تاکہ میں تمہارے لیے ضروری احکام بیان کردوں نہ معلوم آئندہ سال میں تم سے مل سکوں یا نہیں مسلمانوں کی جان مال تم پر ایسے حرام ہے جیسے اس دن اس مہینے اور اس شہر کی حرمت ہے جس کے پاس کسی امانت ہو وہ اس کو واپس کردے اس کے بعد فرمایا لوگوں تمہاری عورتوں کے تم پر حقوق ہیں اور ان پر تمہارے حقوق ہیں مسلمان بھائی بھائی ہیں کسی شخص کا اپنے بھائی کا مال اس کی خوشی کے بغیر حلال نہیں ہے میرے بعد تم کافر نہ ہوجانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو اس لیے کہ میں تمہارے درمیان اللہ کی کتاب چھوڑ کر جا رہا ہوں جو اس کے احکام کو مضبوطی سے پکڑے گا وہ کبھی گمراہ نہیں ہو گا اے لوگو تمہارا پروردگار ایک ہے تمہارے باپ ایک ہیں تم سب آدم علیہ السلام کی اولاد ہو اور آدم علیہ السلام مٹی سے پیدا ہوئے تھے تم میں سب سے عزت والا وہ ہے جو متقی ہو کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی فضیلت نہیں ہے سواۓ تقوی کے یاد رکھو میں تبلیغ کرچکا یا اللہ تو گواہ ہے میں تبلیغ کرچکا اس کے سورۃ المائدہ کی یہ آیت نازل ہوئی جس کا ترجمہ یہ ہے آج میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو مکمل کر دیا اور تمہارے اوپر اپنی نعمت پوری کی اور تمہارے لیے دین اسلام کو پسند کیا
حج سے فارغ ہوکر حضور ﷺ مدینہ واپس تشریف لے آۓ
(سریہ اسامہ کی تیاری)
مکہ واپس آنے کے بعد۔ض صفر میں حضور ﷺ نے ایک سریہ جہاد روم کیلئے تیار کیا جس میں صدیق اکبر فاروق اعظم ابو عبیدہ جیسے اکابر شامل تھے ۔۔لیکن اس سریہ کے امیر حضرت اسامہ بن زید مقرر ہوۓ یہ لشکر ابھی روانہ بھی نہ ہوا تھا کہ حضور ﷺ کو بخار شروع ہوگیا
,(مرض وفات)
اٹھائیس صفر کو حضور ﷺ قبرستان بقیع غرقد میں تشریف لے گئے وہاں سے تشریف لائے تو سر میں درد تھا آپ دستور کے مطابق اپنی ازواج مطہرات کے پاس تشریف لے جاتے رہے لیکن زیادہ مرض کی شدت کے بعد حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کے ہاں تشریف لے گئے رفتہ رفتہ مرض بڑھتا گیا یہاں تک کہ حضور ﷺ مسجد آنے سے بھی رک گئے تو صدیق اکبر نے نمازیں پڑھائیں ایک صدیق اکبر اور حضرت عباس کہیں سے گزر رہے تھے تو ایک مجلس کو دیکھا کہ بیٹھی رو رہی ہے سبب پوچھا تو انہوں نے کہا کہ حضور کی مجلس کو یاد کر کے رو رہے ہیں حضرت عباس نے جا کر حضور ﷺ کو یہ بات کہ دی تو حضور ﷺ حضرت علی اور حضرت فضل کے کندھے پر ٹیک لگاۓ باہر تشریف لائے اور منبر پر چڑھ کر ایک خطبہ دیا جوکہ حضور ﷺ کا آخری خطبہ تھا جس کے بعض کلمات یہ ہیں ای لوگو مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم اپنے نبی کی موت کے ڈر سے رو رہے ہو کیا مجھ سے پہلے کوئی نبی ہمیشہ رہا جو میں رہتا ہاں میں اپنے پروردگار سے ملنے والاہوں اور تم مجھ سے ملنے والے ہو اور تمہارے ملنے کی جگہ حوض کوثر ہے جو شخص چاہتا ہے کہ وہ قیامت کے دن اس حوض سے سیراب ہو اس کو چاہیئے کہ اپنے ہاتھ اور زبان کو لایعنی اور بے ضرورت باتوں سے روکے میں تمہیں مہاجرین کے ساتھ حسن سلوک اور اتحاد کی وصیت کرتا ہوں ارشاد فرمایا کہ جو لوگ اللہ کی اطاعت کرتے ہیں تو ان کے حکام ان کے ساتھ انصاف کرتے ہیں اور جو اپنے پروردگار کی نافرمانی کرتے ہیں تو وہ ان کے ساتھ بے رحمی کرتے ہیں
اس کے بعد حضور مکان میں تشریف لے گئے اور وفات سے تین یا پانچ روز پہلے تشریف لاۓ حضرت صدیق اکبر ظہر کی نماز پڑھا رہے وہ پیچھے ہٹ گئے تو حضور ﷺ نے خود امامت فرمائی نماز کے ایک خطبہ دیا جس میں فرمایا ابوبکرسب سے زیادہ میرے محسن ہیں اگر میں خدا کے سوا کسی خلیل بناتا تو ابوبکر کو بناتا لیکن خلیل خدا کے سوا کوئی نہیں ہے اس لیے اس لیے ابوبکر میرے دوست اور بھائی ہیں اور فرمایا کہ مسجد میں جتنے لوگوں کے دروازے ہیں سب بند کر دئیے جائیں سواۓ ابوبکر کے دروازے کے اس کے بعد بارہ ربیع الاول پیر کے روز لوگ صبح کی نماز ابوبکر کے پیچھے پڑھ رہے تھے کہ یکایک آپ نے حضرت عائشہ کے حجرے کا پردہ ہٹایا اور لوگوں کی طرف دیکھا اور تبسم فرمایا صدیق اکبر پیچھے ہٹنے لگے اور خوشی کی وجہ سے صحابہ کے قلوب منتشر ہوگئے آپ نے ان کو ہاتھ سے اشارہ کیا کہ نماز پوری کرو اور خود اندر تشریف لے گئے اور پردہ چھوڑ دیا اور اسی حالت میں انتقال فرما کر رفیق اعلی سے جا ملے
(انا للہ وانا الیہ راجعون)