حضرت شمویل علیہ السلام
. . . . . . بسم اللہ الرحمان الرحیم. . . . . . .
(حضرت شمویل علیہ السلام )
آپ کا نسب نامہ یہ ہے شمویل بن بالی بن علقمہ بن یرخام بن الیہوا بن تہو بن صوف بنبن علقمہ بن ماحث بن عموصا بن عزریا
حضرت مقاتل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ آپ حضرت ہارون علیہ السلام کےورثاء میں سے تھے حضرت سدی فرماتے ہیں کہ بنی اسرائیل پر غزہ اور عسقلان
کے عمالقہ غالب آگئے توانہوں نے بہت سارے اسرائیلیوں کو مارا اور غلام بنا لیا لاوی خاندان سے نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا اور ان میں صرف ایک حاملہ خاتون
باقی رہی اور اس نے دعا کی کہ یا اللہ مجھے بیٹا عطا فرما اللہ نے بیٹا عطا فرمایا
حضرت شمویل علیہ السلام
بیٹا جب بڑا ہوا تو والدہ نے ایک بزرگ کے پاس بٹھا دیا تاکہ دین سیکھے اور توحید پر قائم رہے وقت گزرتا گیا اور یہ بچہ اس بزرگ کی صحبت میں رہا ایک دن مسجد میں سوتے ہوۓ کسی کے بلانے کی آواز سنی تو استاد سمجھ کر جلدی سے اٹھے اور استاد سے پوچھا آپ نے بلایا ہے ؟ انہوں نے کہا کہ نہیں اور یہ واپس آکر سو گئے
دوسری بار بھی ایسا ہوا اور تیسری بار دیکھا تو وہ جبریل علیہ السلام تھے انہوں نےفرمایا کہ اللہ نےآپ کو اپنی قوم کی طرف مبعوث فرمایا ہے لہذا یہ وہاں سے اٹھے اور اپنی قوم کی طرف چل دئیے اور اس کے بعد وہ واقعہ پیش آیا جو اللہ تعالی نے سورۃ بقرہ میں بیان فرمایا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ بنی اسرائیل طویل عرصہ تک
جنگ و قتال میں رہے اور دشمن ان پر غالب آگئے تو انہوں نے اپنے وقت کے نبی سے کہا کہ ہمارے اوپر کوئی بادشاہ مقرر کر دیں تاکہ ہم دشمنوں سے لڑیں اور ان سے اپنا بدلہ لیں اکثر مفسرین کی راۓ کے مطابق یہ نبی حضرت شمویل علیہ السلام تھے
حضرت شمویل علیہ السلام
الغرض انہوں نے یہ فرمائش کی تو آپ نے فرمایا کہ اس صورت میں تم پر جہاد فرض ہو جاۓ گا اور تم پھر نہیں کرو گے حضرت شمویل علیہ السلام کیونکہ بنی اسرائیل کی عادت سے واقف تھے اس لیے انہوں نےایسا کہا انہوں نے جواب میں کہا کہ ہم جہاد کیوں نہیں کریں جبکہ ہمارے بچوں کو اور ہمیں ان لوگوں نے
تکلیف پہنچائی ہے تو شمویل علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے ان کو کہا کہ اللہ نے طالوت کو تم پر بادشاہ بنایا ہے اور تم ان کے ساتھ مل کر جہاد کرو تو انہوں نے کہا کہ ان کو کیوں بادشاہ بنایا ہے ان سے زیادہ حقدار تو ہم ہیں توآپ نے فرمایا کہ وہ تم سے علم اور جسم میں زیادہ ہیں اور اللہ جس کو چاہتا ہے بادشاہ بنا دیتا ہے اور ان کی
بادشاہت کی نشانی یہ ہے کہ وہ تابوت جس میں موسیٰ اور ہارون کی باقیات وہ تمہیں مل جائے گا اور اس کو فرشتے لائیں گے اور فرشتوں کا لانا اس بات کی دلیل ہوگا کہ بادشاہ کی تقرری اللہ کی طرف سے ہے
حضرت شمویل علیہ السلام
جب طالوت اس لشکر کو۔لیکر روانہ ہوۓ تو اللہ کی طرف سے آزمائش آئی کہ راستے میں دریا آئے گا لیکن تم اس میں سے پانی نہیں پیو گے ایک دو گھونٹ پینے کی اجازت ہے اور جو پیے گا وہ ہم میں سے نہیں ہوگا اور جو نہیں پیے گا وہ ہم میں سے ہوگا جب یہ دریا پر پہنچے تو ان میں سے اکثر نے اس دریا سے پانی پی لیا اور تھوڑے
سے لوگوں نے نہیں پیا اور پینے والوں کو پیچھے چھوڑ دیا گیا
بقیہ لشکر روانہ ہو گیا لیکن جب دشمن سے سامنا ہوا تو ان میں سے بھی کچھ لوگوں نے کہا کہ دشمن کا لشکر زیادہ ہے اور ہم تھوڑے ہیں اس لیۓ ہم نہیں لڑیں گے
اور الگ ہوگئے طالوط علےہ السلام نے سمجھایا بھی کہ لشکر کی بنا پر جنگ نہیں جیتی جاتی بلکہ اللہ کی مدد سے جیتی جاتی ہے اور کتنے ہی کم لشکر اللہ کے حکم سے زیادہ لشکروں پر غالب آے ہیں اللہ ثابت قدم رہنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے لیکن وہ لوگ پھر بھی نہ مانے تو طالوت بقیہ لشکر کے ساتھ دشمن کے مقابلے میں چلے
گئے اور لڑائی شروع ہو گئی اور مؤمنین نے اللہ سے ثابت قدم رہنے کی دعا اور اللہ تعالیٰ نے اس دعا کو قبول فرماتے ہوۓ مسلمانوں کے اس تھوڑے لشکر کو فتح عطا فرمائی اور جالوت جو دشمنوں کے لشکر کا جرنیل تھا وہ حضرت داؤد علیہ السلام کے ہاتھوں مارا گیا
اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام کو علم و حکمت اور بادشاہت سے نوازا تھا
حضرت داؤد کے ہاتھوں جالوت قتل ہو گیا اور کفر کو شکست ہوئی اور ایمان والوں کو فتح ہوئی
nooh in which para
rasool
seerat un nabi
sirat un nabi
hadis nabi
total nabi in islam
seerat un nabi in english
seerat un nabi in urdu
seerat e nabi
allah & muhammad
allah humma sallay ala sayyidina muhammad
asma e nabi
asma un nabi
yusha
yushe
nooh in which para
asma e nabi
asma un nabi