حضرت ابراہیم علیہ السلام
. . . . . . بسم اللہ الرحمان الرحیم. . . . . . .
حضرت ابراہیم علیہ السلام
حضرت ابراھیم علیہ السلام کا سلسلہ نسب یہ ہے ابراہیم بن تارخ بن ناحوربن ساغور بن راغو بن فالح بن عابر بن شالح بن ارفخشد بن سام بن نوح علیہ السلام
قرآن مجید میں آپ کے والد کا نام آزر آیا ہے امام ابن جریر فرماتے ہیں کہ اصل اس کا نام آزر تھا البتہ تارخ اس کا عرفی نام ہو سکتا ہے
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ میں نے عیسی ابن مریم اور موسی اور ابراہیم علیہم السلام کو دیکھا عیسی سرخ فام گھنگریالے بالوں والے اور چوڑے سینے والے تھے اور موسی گندمی رنگ اور فربہ بدن تھے صحابہ کرام نے پوچھا اور ابراہیم علیہ السلام ؟ فرمایا۔اپنے ساتھی محمد صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم کو دیکھ لو
اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بچپن سے ہی رشدوہدایت سے نوازا تھا چنانچہ سورت الانبیاء میں فرمایا
ترجمہ= (اور ہم نے ابراہیم کو پہلے سے ہدایت دی تھی اور ہم اسے جانتے تھے )
آپ نے دعوت کا آغاز اپنے گھر سے کیا اس لیئے کہ آپ کا باپ مشرک تھا اور بتوں کی عبادت کرتا تھا چنانچہ ارشاد فرمایا
حضرت ابراہیم علیہ السلام
جو نہ سن سکیں اور نہ دیکھ سکیں نہ آپ کے کچھ آپ کے کام آسکیں ابا جان مجھے ایسا علم ملا ہے جو آپ کو نہیں ملا لہذا میرے ساتھ ہو جائیۓ میں آپ کو۔سیدھی راہ پر چلاوں گا اے ابا جان شیطان کی۔پرستش نہ کیجئیے بے شک وہ رحم کرنے والے کا نا فرمان ہے اے ابا جان مجھے ڈر ہے کہ آپ کو اللہ کا عذاب نہ آن پکڑے تو
آپ شیطان کے ساتھی بن جائیں گے اس نے کہا اے ابراہیم تو میرے معبودوں سے بیزار ہے اگر تو باز نہ آیا تو میں تجھے سنگسار کروں گا تو ہمیشہ کیلئے مجھ سے دور ہو جا ابراہیم نے کہا آپ پر سلامتی ہو میں اپنی رب سے آپ کیلیۓ بخشش مانکوں گا بے شک وہ مجھ بڑا مہربان ہے اور میں آپ لوگوں سے اور أپ جن کی اللہ کے
سوا عبادت کرتے ہو کنارہ کرتا ہوں اور میں اپنے رب کو پکارتا ہوں مجھے یقین ہے کہ میں اپنے رب کو پکارنے پر محروم نہیں ہوں گا)
اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو مظاہر قدرت دکھاکر ان کے ایمان و یقین کو پختہ کیا تا کہ وہ اپنی قوم کو پرزور طریقے سے اور دلائل سے دعوت دے
حضرت ابراہیم علیہ السلام
سکیں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا
ترجمہ =( اور اسی طرح ہم نے ابراہیم کو آسمان و زمین کے عجائب دکھلاۓ تا کہ وہ خوب یقین کرنے والوں میں سے۔ہو جائیں جب رات نے ان کو ڈھانپ لیا تو انہوں نے۔ایک ستارے کو دیکھا وہ کہنے لگے یہ میرا پروردیگار ہے جب وہ غائب ہو گیا تو کہنے لگے مجھے غائب ہونے والے پسند نہیں جب چاند کو دیکھا کہ وہ چمک
رہا ہے تو کہنے لگے یہ میرا خدا ہے جب وہ چھپ گیا تو کہنے لگے اگر میرا رب مجھے سیدھی راہ نہ دکھاتا تو میں ان لوگوں میں سے ہو جاتا جو بھٹکے ہوۓ ہیں جب سورج کو دیکھا کہ وہ جگمگا رہا تو کہا یہ میرا رب ہے یہ سب سے بڑا ہے جب وہ غروب ہو گیا تو کہا اے میری قوم جن کو تم اللہ کے ساتھ شریک بناتے
ہو میں ان سے بیزار ہوں ){سورت الانعام }
اس مقام پر اللہ تعالی نے ابراہیم علیہ السلام کے اپنی قوم کے۔ساتھ مناظرے کو بیان فرمایا ہے کہ جن ستاروں چاند اور سورج کی تم عبادت کرتے ہو وہ خود مخلوق ہیں اور انہیں دیکھ بھال۔کی ضرورت ہے یہ سب اللہ کے حکم کے تابع ہیں جب الہ حکم دیتے ہیں تو یہ طلوع ہو جاتے ہیں اور جب حکم کرتے ہیں یہ غروب ہو
حضرت ابراہیم علیہ السلام
ان کے بت خانہ میں جا پہنچے اور سب کو توڑ دیا اور ان میں سے جو۔بڑا تھا اس کو چھوڑ کر کلہاڑا اس کے کندھے پر رکھ دیا جب وہ لوگ واپس آۓ تو انہوں نے یہ دیکھ کر آپ سے۔پوچھا کہ یہ کس نے کیا ہے تو آپ نے فرمایا اس بڑے سے پوچھو اب وہ تو بو نہیں سکتا تھا اس لیۓ سب شرمندہ ہوۓ اور کہا کہ اس سے بدلہ لو
اور اس کو آگ میں ڈال دو اور آگ میں ڈال دیا گیا لیکن اللہ کے حکم سے وہ آگ ڈھنڈی ہو گئی اور آپ محفوظ رہے اس کے علاوہ اور بھی بہت سارے دلائل ہیں جن سے آپ نے ان کو لا جواب کیا جن کو اللہ نے قرآن میں مختلف مقامات پر بیان فرمایا ہے لیکن قوم نے آپ کی دعوت کو قبول نہیں کیا قوم کی۔اس ہٹ
دھرمی کی وجہ سے آپ. نے ہجرت کا ارادہ کیا اور اپنی زوجہ حضرت سارہ اور اپنے بھتیجے حضرت لوط علیھما السلام کو ساتھ لے کر ملک شام ہجرت کر گئے
اس سفر میں ایک جگہ سے گزرتے ہوۓ وہاں کے بادشاہ کے ساتھ واقعہ اور اس بادشاہ کا حضرت ھاجرہ علیھا السلام کو باندی کے طور پر بیش کرنے کا واقعہ پیش
آیا کچھ عرصہ شام میں قیام کے بعد آپ مصر واپس تشریف لے آۓ اس واپسی کے سفر میں حضرت ہاجرہ بھی آپ کے ساتھ تھیں اور اس وقت آپ کے پاس کچھ مال و متاع بھی تھا
حضرت ابراہیم علیہ السلام
پیدا ہوۓ اس وقت آپ کی عمر چھیاسی سال تھی ان کی ولادت کے تیرہ برس بعد اللہ نے آپ کو حضرت سارہ سے اسحاق علیہ السلام کی خنشخبری سنائی اس کے بعد حضرت ابراہیم اپنے بڑے بیٹے اسماعیل اور ان کی والدہ کو لے کر مکہ المکرمہ تشریف لائے اور ان کو ایک درخت کے نیچے چھوڑ کر جانے لگے تو حضرت ھاجرہ
نے بار بار پوچھا کہ ہمیں کس کے سہارے چھوڑ کر جا رہے ہیں لیکن۔آپ کچھ نہ بولے آخر کا انہوں دریافت کیا کہ کیا۔یہ اللہ کا حکم ہے انہوں نے فرمایا جی تو بولیں پھر الہ ہمیں ضائع نہیں کرے گا آپ جاتے ہوے کچھ کھجوریں اور پانی چھوڑ آۓ تھے لیکن وہ بھی جلد ختم ہو گیا جب بچہ بھوک پیاس سے رونے لگا تو
حضرت ہاجرہ نے پانی۔کی تلاش میں صفا مروہ کے سات چکر کاٹے لیکن۔کوئی نظر نہ آیا ساتویں چکر کے بعد واپس تشریف لائیں تو دیکھا زم زم کے کنویں کے۔پاس فرشتہ کھڑا ہے اور اور اس نےاپنی ایڑی یا پر مارکر پانی کا کنواں جاری کردیا آپ علیھا السلام مے۔خود بہی پیا اور بچے کو بھی پلایا اس کے کچھ عرصے بعد کنویں
حضرت ابراہیم علیہ السلام
کی وجہ سے وہاں کچھ آبادی ہونے لگی
حضرت اسماعیل بڑے ہوۓ تو اب اللہ کیطرف سے حضرت ابراہیم کو خواب میں دکھلایا گیاکہ وہ اپنے بیٹے کو ذبح کر رہے ہیں انہوں نے اس بات کا مشورہ اپنے بیٹے سے کیا تو بھی تیار ہو گئے اور اور ذبح کے وقت اللہ نے ان کی جگہ ایک مینڈھا ذبح کروا دیا اور فرمایا اے ابراہیم آپ اپنے امتحان میں کامیاب ہوگئے
اس کے کچھ عرصے بعد حضرت اسحاق علیہ السلام کی ولادت ہوئی اب ان کی ولادت حضرت سارہ سے ہوئی جو کہ آپ کا ایک معجزہ تھی اس کے بعد اللہ نے آپ کو بیت اللہ کی تعمیر حکم دیا اور آپ نے اس کی تعمیراپنے بیٹے اسماعیل کے ساتھ مل کر کی اور دعا کی جیسا کہ قرآن مجید میں ہے
ترجمہ=( اور جب ابراہیم اور اسماعیل بیت اللہ کی بنیادیں اونچی کر رہے تھے (تو دعا کرتے تھے )اے ہمارے رب یہ ہماری طرف سے قبول فرما بے شک تو سننے والا دیکھنے والا ہے اور ہماری اولاد میں سے بھی ایک گروہ اپنا مطیع بناتے رہنااور ہمیں ہمارا طریق بتا اور ہمارے حال پر توجہ فرما بے شک تو توجہ فرمانے والا مہربان
ہے )سورت البقرہ)
قرآن و حدیث سےحضرت ابراہیم علیہ السلام کی بہت فضیلت معلوم ہوتی ہے اورآپ کا انتقال ایک سو پچہتر سال کی عمر میں ہوا اور تدفین کا انتظام حضرت اسماعیل اور حضرت اسحاق علیھما السلام نے کیا
nooh in which para