حضرت آدم
۔ ۔ ۔ ۔ بسم اللہ الرحمان الرحیم ۔ ۔ ۔ ۔
(حضرت آدم علیہ السلام )
قرآن مجید میں تخلیقِ نوعِ انسانی کو بیان کرتے ہوۓ اللہ تعالٰی نے حضرت آدم علیہ السلام کا واقعہ بیان فرمایا ارشاد فرمایا
(ترجمہ اور جب تیرے رب نے فرمایا فرشتوں سے بے شک میں میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں )(سورت البقرہ )
اللہ نے آدم علیہ السلام کو پیدا کرنے کا اعلان فرمایا تو فرشتوں نے سوال کیا یا اللہ کہ آپ زمین میں اس چیز کو پیدا فرما رہے ہیں جو زمین میں فساد پھیلا یں گے ایک روایت سے پتہ چلتا ہے کہ انسانوں سے پہلے زمین پر جنات رہتے تھے انہوں نے فساد مچانا شروع کیا تو اللہ نے انہیں فرشتوں کے ذریعے جنگلوں اور پہاڑوں کی طرف دھکیل دیا اگر آپ اپنی تسبیح کیلئے پیدا کر رہے ہیں
حضرت آدم
تو ہم آپ کی تسبیح دن رات دن رات بغیر تھکے کر رہے ہیں
اللہ جواب میں فرمایا کہ جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے
اللہ نے آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا آدم علیہ السلام کے ڈھانچےمیں روح پھونکنے کے بعد اللہ نے آدم علیہ ا لسلام کو کچھ چیزوں کا علم عطا فرمایا علم عطا کرنے کے بعد اللہ نے آدم کو فرشتوں کے سامنے کھڑا کیا اور فرشتوں سے سوال کیا کہ ان چیزوں کے نام بتاؤ فرشتوں نے جواب میں کہا یا اللہ جن چیزوں کا علم آپ نے ہمیں عطا کیا ہے ہم تو وہی جانتے ہیں اس کے بعد اللہ نے
فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تمام فرشتوں نے آدم کو سجدہ کیا لیکن ابلیس نے سجدے سے انکار کر دیا اللہ تعالی نے ابلیس سے پوچھا کہ تم نے سجدے سے انکار کیوں کیا تو جواب میں اس نے کہا کہ آپ نے آدم کو مٹی سے پیدا کیا ہے اور مجھے آگ سے اس لیے میں آدم سے بہتر ہوں اس لیۓ میں نے سجدہ نہیں کیا اس چیز کو اللہ تعالی نے قرآن مجید میں بیان فرماتے ہوۓ فرمایا
(ترجمہ= اللہ نے فرمایا اے ابلیس کس چیز نے تجھے روکا اس سے کہ تو سجدہ کرے جبکہ میں نے تجھے اس کا حکم دیا ہے کہنے لگا میں اس سے بہتر ہوں (اس لیے کہ ) آپ نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اس کو مٹی سے اللہ نے فرمایا تو یہاں سےنکل جا بے شک تو مردود ہے اور تجھ پر قیامت کے دن تک لعنت ہے کہنے لگا اے میرے رب مجھے دوبارہ اٹھاۓ جانے کے دن تک مہلت
دے دے فرمایا بے شک تو مہلت دیۓ ہوؤں میں سے ہے ایک معلوم وقت تک )(سورت ص )
حضرت آدم
اللہ تعالی نے ابلیس کو ملعون قرار دے کر وہاں سے نکلنے کا حکم فرمایا ابلیس نے قیامت تک کی مہلت مانگی جو کہ اس کو دے دی گئی اس کے بعداللہ نے آدم علیہ السلام کو جنت میں رہنے کا حکم دیا اور یہ تنبیہ کی کہ ابلیس کب باتوں میں نہ آنا وہ تمہارا کھلا دشمن ہے اور ایک مخصوص درخت کے کھانے سےمنع فرماتے ہوۓ فرمایا اس دذخت کے قریب بھی مت جانا حضرت آدم
علیہ السلام جنت میں رہتے اور کھاتے پیتے
جنت میں سب کچھ ہونے کے باوجود حضرت آدم اداس رہتے اس لیۓ اللہ نے دل جوئی کیلیۓ حضرت حوا علیھا السلام کو ان کی پسلی سے پیدا فرما دیا چنانچہ ایک حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ ایک مرتبہ آدم علیہ السلام جنت میں سوۓ ہوۓ۔ تھے کہ اللہ نے ان کی بائیں پسلی سے سے حضرت حوا علیھا السلام ک پیدا فرما دیا جب وہ بیدار ہوے تو دیکھا کہ وہ سرہانے بیٹھی ہیں پوچھا
تم کون ہو کہنے لگی میں عورت ہوں اور اللہ نے مجھے آپ کی تسکین کیلۓ پیدا فرمایا ہے (الحدیٹ)
حضرت أدم اور اماں حوا جنت میں رہتے لیکن ابلیس کو یہ کہاں منظور تھا کہ وہ جس کی وجہ سے دھتکارا گیا وہ جنت میں رہے اس لئے حضرت آدم اور حوا کو بہکانے لگا اور اس بات کی یقین دہانی
کروانے میں کامیاب ہو گیا کہ وو ان کا خیر خواہ ہے اور ان دونوں کو وہ درخت کھانے پر آمادہ کر لیا جس کے کھانے سے اللہ نے منع فرمایا تھا
اور حضرت آدم اور حضرت حوا علیھما السلام نے وہ درخت کھا لیا بس اس درخت کا کھانا تھا کہ جنت کی سب نعمتیں چھن گیئں یہاں تک کہ کہ جنت کا لباس بھی اتار لیا گیا اب دونوں اپنے
حضرت آدم
جسم کو جنت کے پتوں سے ڈھانپنے لگے چنانچہ ارشاد فرمایا
(ترجمہ= پس جپ ان دونوں نے وہ درخت کھا لیا تو ان دونوں کی شرم گاہ ظاہر ہو گئی اور وہ دونوں اس پر جنت کے پتے ڈالنے لگے )(سورت الاعراف)
اب آدم علیہ السلام کو لگا کہ ان سے لغزش ہوئی ہے اس لئے اللہ کی طرف متوجہ ہوۓ اللہ تعالی نے فرمایا کہ میں نے آپ کو وہ درخت کھانے سے منع فرمایا تھا اس کے باوجود بھی آپ نے
کھایا اس لئے بطور سزا اب آپ اپنی بیوی کو لے کر زمین پر چلے جاؤ اور وہیں رہو
اب بھی اس بات کا دھیان رکھنا کہ ابلیس تمہارا کھلا دشمن ہے
اس کے بعد آدم وحوا اس دنیا میں رہنے لگے اور آدم علیہ السلام اپنی لغزش پر اللہ سے معافی مانگتے رہے حضرت آدم علیہ السلام کی اس توبہ کا ذکر الہ تعالی نے سورت الاعراف اس طرح بیان فرمایا ہے
(ترجمہ= وہ دونوں کہنے لگے اے ہمارے رب ہم اپنے نفسوں پر ظلم کیا ہے اگر آپ نے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ کیا تو ضرور ہم نقصان والوں میں سے ہوں گے) بلآخر اللہ نے
حضرت آدم
معافی کا اعلان فرما دیا لہذا ارشاد فرمایا
(ترجمہ = پس حاصل کیۓ آدم نے اپنے رب کی طرف سے کچھ کلمات پس اللہ نے رجوع فرمایا ان کی طرف بے شک وہ رجوع فرمانے والا بڑا مہربان ہے ( سورت البقرہ )
توبہ قبول ہونے سے پہلے ہی اللہ نے ان دونوں کو زمین پر بھیج دیا زمین پر بھی آدم علیہ السلام توبہ کرتے رہے جو کہ بعد میں قبول ہوئی