شرک
شرک
شرک کا لفظی معنی ہے ساجھے داری حصہ داری شرعی اصطلاح میں شرک کا مطلب ہے اللہ کی ذات کے برابر کسی کو ٹھہرا دینا کوئی بھی چیز یا کوئی بھی مخلوق جس کو اللہ کے برابر ٹھہرایا جائے یہ شرک ہے زمانہ جاہلیت میں لوگ جس چیز سے تھوڑا متاثر ہوتے اسی کو اپنا رب
مان لیتے اور شرک کا ارتکاب کر بیٹھتے تھےانہوں نے ہر اس چیز کی پوجا شروع کر دی جس نےانہیں متاثر کیا انہوں نے چاند کی پوجا کی سورج کی ستاروں کی اور اگ کی پوجا کی جب ان لوگوں نے چاند کو پوری اب و تاب سے چمکتے دیکھا تو اس سے اس قدر متاثر ہوئے کہ اس
کو رب مان بیٹھے اور اس کی پوجا شروع کر دی اسی طرح جب اگ سے متاثر ہوئے تو آگ کی پوجا شروع کر دی ظاہر ہے آگ ہمیں سردی سے بچاتی ہے اور کھانا پکانے کے کام آتی ہے جب وہ آگ کی صفت سے متاثر ہوئے تو آگ کی پوجا شروع کر دی اس سے آگ کے پجاری
وجود میں آئے
شرک
شرک کی اقسام
اللہ کی ذات میں شرک کرنا
اللہ کی صفات میں شرک کرنا
اور عبادت میں شرک کرنا
اللہ کی ذات میں شرک
جب ہم اللہ کو رب مانتے ہیں اور اس بات کا اقرار کرتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ اللہ ہی ایسی ذات ہے جس جیسی کوئی ذات نہیں تو یہ اللہ کی وحدت کا اقرار ہے اس کے برعکس جب ہم اللہ کی ذات جیسا کسی اور کو قرار دیں یا یہ خیال کریں کہ اللہ کی ذات جیسی کوئی اور ذات ہے
تو یہ اللہ کی ذات میں شرک کرنا ہے یعنی کسی ذات جیسا اللہ کو سمجھنا یہ خیال کرنا کہ اللہ ایسا ہوگا یا یہ سوچنا کہ اللہ کا وجود ایسا ہوگا اور اللہ جیسا کسی کو خیال کرنا یہ سب اللہ کی ذات میں شرک ہے
شرک
عبادت میں شرک کرنا
شرک کی دوسری قسم ہے عبادت میں شرک کرنا یعنی جیسے ہم اللہ کی عبادت کرتے ہیں بالکل اسی طرح سے ہم کسی اور کی بھی عبادت کریں پھر خواہ وہ کوئی ہو ہم اسے اللہ کی برابری کا درجہ دے دیتے ہیں تو ہم شرک کے مرتکب ہو جاتے ہیں زمانہ جاہلیت میں شرک کی
یہ قسم پائی جاتی تھی اللہ کے غیر کی پوجا کی جاتی تھی جیسا کہ بت پرستی اس کی بہت بڑی قسم ہے بت پرستی کا اغاز کیسے ہوا
شرک
بت پرستی کا آغاز کیسے ہوا
دنیا میں حضرت آدم علیہ السلام کی تشریف آوری کے بعد حضرت آدم علیہ السلام اللہ کے حکم کے مطابق رہنے لگے اور اللہ نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیغمبر مبعوث فرمایا تو حضرت آدم علیہ السلام اللہ کے حکم سے دعوت و تبلیغ کا کام کرتے رہے اور اللہ کا پیغام لوگوں تک
پہنچاتے رہے اور لوگوں کو اللہ کے حکم کے مطابق زندگی گزارنے کا حکم دیتے رہے پھر جیسے کہ اللہ کا حکم ہے ہر نفس کو موت آنی ہے تو حضرت آدم علیہ السلام کو بھی اللہ کے حکم سے موت آگئی ان کی رحلت کے بعد ایک لمبا عرصہ تک لوگ اللہ کے حکم کے مطابق زندگی
گزارتے رہے حضرت آدم علیہ السلام کی امت میں اللہ نے بڑے بڑے اولیاء اور صلح پیدا فرمائے لوگ ان سے بڑی محبت اور عقیدت رکھتے تھے پھر جب ان اولیاء اور صلحا کی وفات ہو گئی تو لوگوں کو بڑا دکھ اور صدمہ پہنچا اور لوگ ان اولیاء کی محبت میں رویا کرتے تھے اور
ان کو بہت یاد کیا کرتے تھے رفتہ رفتہ شیطان نے ان کے دل میں یہ بات ڈالی کہ کیا تم ان سے محبت نہیں کرتے تو انہوں نے کہا کیوں نہیں ہم اپنے اولیاء سے بہت محبت کرتے ہیں تو پھر شیطان نے دل میں یہ بات ڈالی کہ اگر تم ان سے محبت کرتے ہو تو پھر ان کی تصاویر
بنا کر رکھ لو تاکہ انہیں دیکھ کر تمہیں سکون اور تسلی ملے تو انہوں نے اپنے اولیاء کی تصاویر بنا کر رکھ دیں اور ان کو اپنے گھروں میں رکھ لیا اور ان کو بڑی محبت اور عقیدت کی نگاہ سے دیکھتے تھے وقت گزرتا گیا اور یہ نسل ختم ہو گئی اور جب نئی نسل آئی توانہوں نے تو صرف یہ
دیکھا تھا کہ ہمارے بزرگ ان تصاویر کو بڑی محبت اور عقیدت کی نظر سے دیکھتے تھے تو ان لوگوں نے ان تصاویر کو اپنے گھروں میں برکت کی خاطر رکھا اور ان تصاویر کو مقدس اور متبرک سمجھتے تھے پھر وقت گزرتا گیا اور یہ نسل ختم ہو گئی ان کی جگہ ایک نئی نسل نے
لے لی جب یہ بچے بڑے ہوئے تو انہوں نے سوچا کہ ہمارے بزرگ ان تصاویر کو بہت اہم سمجھتے تھے اور ان کو متبرک اور مقدس خیال کرتے تھے اور ان سے تبرک حاصل کرنے کی خاطر ان کو گھروں میں رکھتے تھے جب یہ اتنی مقدس اور تبرک تصاویر ہیں تو کیوں نہ ان
کو ایک خوبصورت سانچے میں ڈھالا جائے لہذا انہوں نے ان کی مورتی بنا دی پھر جب اگلی نسل ائی تو انہوں نے یہ سوچا کہ ہم ان اولیاء کا واسطہ اللہ کو دیں گے اور اللہ سے دعا کریں گے اور ان کی برکت سے اللہ دعا جلد قبول کر لے گا تو ان کے پاس کھڑے ہو کر اللہ سے دعا
مانگتے پھر رفتہ رفتہ وقت گزرتا گیا اور یہ نسل ختم ہو گئی اس کی جگہ نئی نسل نے لے لی ان لوگوں نے چونکہ اپنے بزرگوں کو ان کے پاس کھڑے ہو کر دعا مانگتے دیکھا تھا اور ان کا واسطہ اللہ کو دیتے دیکھا تھا تو انہیں لگا شاید ہمارے بزرگ دعا بھی انہی سے مانگتے تھے تو انہوں
نے سوچا کیوں نہ ہم ان بتوں کو اپنی عبادت گاہوں میں رکھیں یعنی کہ مساجد میں زیادہ بہتر ہوگا انہوں نے یہ مورتیاں اٹھا کر اپنی مساجد میں رکھ دیں لیکن تھوڑی سائیڈ پر کر کے رکھیں جب اگلی نسل ائی تو انہوں نے سمجھا کہ شاید ہمارے بزرگ انہی مورتیوں کی عبادت
کرتے تھے انہی مورتیوں سے دعا مانگتے تھے لہذا انہوں نے ان مورتیوں کو اٹھا کر بالکل اپنے سامنے کر دیا اب یہ لوگ نماز پڑھتے اور یہ مورتیاں ان کے سامنے ہوتی اور جب اگلی نسل ائی تو انہوں نے سوچا شاید ہمارے بزرگ انہی کو سجدہ کرتے تھے اور انہی سے دعا مانگتے
تھے یوں باقاعدہ بت پرستی کا آغاز ہو گیا پھر بتوں کی ہی پوجا کی جانے لگی اور بتوں سے ہی مانگا جانے لگا اور مساجد بت خانے بننے لگے اور یہاں تک کہ مکہ مکرمہ میں 360 بت رکھے ہوئے تھے جن کی پوجا کی جاتی تھی اسی وجہ سے شریعت محمدیہ میں تصویر سازی ممنوع ہے
کیونکہ بت پرستی کا آغاز اسی تصویر سازی سے ہوا تھا واضح رہے کہ شریعت محمدیہ میں ہر وہ چیز منع ہے جس میں سے شرک کی کوئی گنجائش نکلتی ہو اور یہ تو شرک کی صرف ایک ہی صورت ہے اس کے علاوہ اور کئی صورتیں ہیں جن میں شرک کیا جاتا ہے بہرحال جب
ہم عبادت میں کسی کو شریک ٹھہرا دیں تو پھر وہ شرک فی العبادات ہے
شرک
صفات میں شرک
شرک کی ایک تیسری صورت ہے اور وہ ہے اللہ کی صفات میں شرک کرنا یعنی وہ صفات جو اللہ کی ہیں وہ کسی اور میں سمجھنا یہ صفات میں شرک ہے پہلے تو ہم لفظ صفات کا مطلب جاننے کی کوشش کرتے ہیں صفات صفت کی جمع ہے صفت کا لفظی معنی ہے کسی کی خوبی یا خامی
جو اس میں موجود ہو وہی اس کی صفت کہلاتی ہے شرعی اصطلاح میں صفات میں شرک سے مراد ہے کہ وہ صفات جو صرف اللہ ہی کی ہیں اور صرف اسی کو زیب دیتی ہیں ان صفات میں کسی دوسرے کو شریک کرنا صفات میں شرک کہلاتا ہے جن کی ذیل میں کچھ تفصیل
بیان کی جاتی ہے
جیسا کہ السمیع یہ اللہ کی صفت ہے اس کا مطلب ہےخوب سننے والا ہر جگہ سننے والا اگرچہ سننے کی صفت انسانوں میں بھی موجود ہے لیکن انسانوں کا سننا محدود ہے اور اللہ کا سننا لا محدود ہے انسان کی قوت سماعت محدود ہے وہ صرف محدود سن سکتا ہے ہم صرف کچھ ہی فاصلے
پر موجود شخص کو سن سکتے ہیں جب یہ دوری اس محدود فاصلے سے بڑھ جاتی ہے تو ہم سننے سے قاصر ہو جاتے ہیں ہمارے لیے پھر سننا ممکن نہیں رہتا یہ بات آپ کو ایک مثال سے سمجھاتی ہوں مثال کے طور پر ایک شخص ایک پہاڑ پر کھڑا اونچی اونچی بول رہا ہے تو یہ آواز
پہاڑ کے گرد و نواح میں موجود لوگ سن سکتے ہیں لیکن اب اگر یہی شخص کسی دوسرے شہر میں جا کر بالکل اسی طرح سے پہاڑ پر کھڑے ہو کر زور زور سے بولے تو کیا پھر بھی ہم اس کی آواز کو سن سکیں گے یقینا اپ کا جواب نہیں میں ہوگا ہاں بالکل نہیں سنیں گے ایسا کیوں
ہے ایسا اس لیے ہے کہ انسان کی جو قوت سماعت ہے وہ محدود ہے اس کے اندر سننے کی اتنی ہی صلاحیت ہے جتنی کہ اللہ نے رکھی ہے اس سے زیادہ دوری کے فاصلے پر وہ سننے سے قاصر ہے تمام انسانوں کی قوت سماعت یکساں ہےاس کے برعکس اللہ کی قوت سماعت جو
ہے وہ لامحدود ہے اللہ سنتا ہے اور ہر جگہ سنتا ہے چاہے پکارنے والا کہیں بھی ہو وہ سنتا ہے کوئی جہاں سے پکارے خواہ وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں ہو اللہ اس کی پکار کو سنتا ہے ساری دنیا کے سارے انسان بیک وقت پکاریں اور مختلف زبانوں میں پکاریں میرا رب ہر بندے کو
سن رہا ہوتا ہے اور سب کی پکار کا جواب دیتا ہے کیونکہ اس کی قوتیں لامحدوداس کی طاقتیں لامحدود اور اس کا وجود ایسا کہ وہ ہر جگہ موجود ہے
اس کے برعکس اگر دو یا تین لوگ ایک ساتھ بول پڑیں تو ہمیں ان میں سے کسی ایک کی بات بھی سنائی نہیں دیتی یہ ہے اللہ اور انسان کے سننے میں فرق جب ہم اللہ کی اس صفت میں کسی انسان یا جن یا فرشتے یا کسی پیر یا ولی یا نبی کو شامل کرتے ہیں تو ہم شرک کر بیٹھتے ہیں اس
بات پر یقین ہونا چاہیے کہ سننے کی جو صلاحیت میرے رب میں ہے وہ کسی اور میں نہیں ہو سکتی وہ کوئی بھی ہو تو یہ ہے عقیدہ توحید اور اللہ کی وحدانیت کا اقرار اور جب ہم کسی کو شامل کر بیٹھتے ہیں تو ہم شرک کر بیٹھتے ہیں اور یہیں سے ہماری تباہی و بربادی کا آغاز ہو جاتا ہے
ہم شرک کے مرتکب تبھی ہو جاتے ہیں اور لوگوں کے آگے ہاتھ بھی پھیلا بیٹھتے ہیں پھر دوسروں کو عظیم اور خود کو حقیر سمجھنے لگتے ہیں اور لوگوں کے اگے گھٹنے ٹیکتے ہیں اور شیطان کے بہکاوے کا شکار ہو جاتے ہیں اور خود کو مجبور اور بے بس خیال کرتے ہیں اور کیا ہی
اچھا ہوتا اگر ہم یہ سمجھ لیتے کہ اللہ سب کی سنتا ہے خواہ وہ کوئی گنہگار ہو یا نیک ہو بدکار ہو یا کوئی بھی ہو پھرغیرمسلم ہو یا مسلم ہو اللہ کے ہاں صرف مانگنے کی شرط ہے نیک یا بد ہونے کی کوئی شرط نہیں پھر ہمیں وسیلے یا واسطے ڈھونڈنے کی ضرورت نہ رہتی تو پھر ہم لوگوں
کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی بجائے اللہ کے اگے ہاتھ پھیلا دے اور اللہ ہی سے مدد مانگتے کاش ہماری عقل میں یہ بات بیٹھ جائے کہ دور سے جس ذات کو پکارا جاتا ہے وہ اللہ کی ذات ہے اور دور سے پکارنے والے کی پکار کو جو سن سکتا ہے وہ بھی صرف اللہ کی ذات ہے اور اللہ
کے علاوہ ہر نفس کی سننے کی صلاحیت محدود ہے
اوپر میں نے شرک کی تین قسموں کا ذکر کیا ان میں سے ہمارے ہاں جو سب سے زیادہ مروج ہے وہ ہے اللہ کے علاوہ کسی دوسرے کو پکارنا یہ شرک ہے قران سے اس کی دلیل ہے ارشاد باری تعالی ہے
ولا تدع مع اللہ الھا أخر
ترجمہ ۔ اور اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کی عبادت نہ کر
دوسری جگہ ارشاد ہے
فلا تدعوامع اللہ احدا
ترجمہ تو تم اللہ کے ساتھ کسی کو نہ پکارو
اس آیت میں واضح طور پر منع کیا گیا کیا اللہ کے علاوہ کسی کو نہ پکارو ہمارے ہاں یہی سب سے بڑی غلطی ہوتی ہے اور وہ یہ کہ ہم غیر اللہ کو پکارتے ہیں مدد کے لیے ضرورت کے لیے اور یہیں سے ہماری غلطی کا اغاز ہو جاتا ہے
مدداور ضرورت کی دو قسمیں ہیں
ایک تو ہے عمومی مدد
شرک
عمومی مدد کی ہمیں ہر وقت ضرورت ہوتی ہے جیسےبچے کو ماں کی ضرورت ہے اپ کو سامان خریدنے کے لیے دکاندار کی مدد کی ضرورت ہے
دوسری مدد ہے اللہ سے مدد مانگنا تو اس مدد مانگنے میں اگر ہم کسی دوسرے کو شریک کر لیتے ہیں ہم شرک کا ارتکاب کر بیٹھتے ہیں
اس کی وضاحت بھی ایک مثال سی کی جاتی ہےمثال کے طور پر ایک شخص ڈوب رہا ہو اور وہ مدد کے لیے ساحل پر کھڑے شخص کو پکارے تو یہ عمومی مدد کی مثال ہے ظاہر ہے اس وقت ساحل پر کھڑےشخص کو پکارنا کہ اے فلاں تو میری مدد کر میں ڈوب رہا ہوں مجھے
باہر نکالو یا یہ کہ ون 1122پر کال کرو تاکہ وہ فورا میری مدد کو پہنچے تو یہ عمومی مدد ہے یہ شخص ہمیں نظر ارہا ہے تو ہم اس کو پکار رہے ہیں اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ اس تک میری اواز پہنچ رہی ہے تبھی ہم اس کو پکاریں گے اس کے برعکس اگر صورتحال ایسی ہو کہ اپ پانی
میں ڈوبے اور ساحل پر کوئی شخص موجود نہیں دور دور تک کسی انسان کے کوئی اثار نظر نہیں اتے جس تک اپ کی اواز پہنچ سکے اور نیٹ بھی اپ کے پاس نہیں چل رہا کہ اپ کال کریں تو اس وقت اپ کس کو پکاریں گے اپ کو کوئی شخص نظر ہی نہیں ا رہا تو اپ اس کو کیسے
پکار سکتے ہو اپ اسے نہیں پکاریں گے اور اگر اپ اس کو پکاریں گے تو اپنا ہی وقت ضائع کریں گے کیونکہ نہ وہ انسان اپ کی اواز سنے گا اور نہ ہی وہ اپ کی مدد کو پہنچے گا اس وقت جب اپ کو کوئی نظر نہیں ارہا اپ کی توجہ کس کی طرف جائے گی اللہ کی طرف کہ اے اللہ تو مجھے
بچا یا مجھے یہاں سے نکالنے کا کوئی سبب پیدا فرما ہاں وہ اللہ ہی ہے جو اس وقت اپ کی پکار سنے گا اپ کی اواز سن سکتا ہے جو اپ کی پکار سن سکتا ہے ایسی صورت میں اگر اپ اللہ کے علاوہ کسی کو پکارتے ہو تو اپ اس کا انجام خود ہی سمجھ سکتے ہو نہ ہی کوئی سنے گا اپ کی اواز اور نہ
ہی کوئی مدد کو پہنچے گا ہاں اگر اللہ کو پکارو گے تو وہ تو اپ کی پکار کو سن رہا ہے اور وہ کوئی نہ کوئی مدد کا سبب بھی پیدا فرما سکتے ہیں
اب اگر کوئی شخص یہ یقین رکھیں کے فلاں شخص جہاں بھی ہو وہ سن سکتا ہے چاہے وہ مردہ ہو یا زندہ میں اس سے بات کروں گا تو وہ میری بات کو سنے گا میں اس کو مدد کے لیے پکاروں گا تو وہ میری مدد کے لیے حاضر ہو جائے گا یا میری مدد کا کوئی سبب بنا دے گا تو گویا ہم
نے اس شخص کو اللہ کی اس صفت میں داخل کر دیا تو ہم کس چیز کے مرتکب ہو گئے شرک کے مرتکب ہو گئے ہیں یہ تو صرف ایک صفت کی مثال میں نے بیان کی وہ تمام صفات جو اللہ کی صفات ہیں ان میں سے کسی صفت میں بھی ہم کسی کو شامل کریں گے تو ہم شرک
کے مرتکب ہو بیٹھیں گے تو یاد رہے کہ زمانہ جاہلیت میں بھی شرکی یہ قسم سب سے زیادہ مروج تھی وہ بھی یہ سمجھتے تھے کہ قبروں میں گئے ہوئے لوگ ہماری مدد کر سکتے ہیں کیونکہ وہ اللہ کے ولی تھے اور وہ بھی یہ سمجھتے تھے کہ جو مر جاتا ہے وہ ہماری باتوں کو سنتا رہتا ہے
لیکن اسلام نے اس چیز کا خاتمہ کیا اور انسان کو بتایا کہ یہ ساری باتیں تمہاری اپنی ہی گھڑی ہوئی ہیں اسلام کا اس سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی اللہ نے کوئی ایسا حکم نازل کیا ہے لہذا ہمیں ایسی فضول باتوں سے بچنا چاہیے
تو یہ تھی شرک کی تیسری قسم شرک بالصفات اور شرک کی یہ قسم ہمارے ہاں پائی جاتی ہےاور رفتہ رفتہ یہ مروج ہوتی جا رہی ہے اور اس کی طرف لوگوں کا رجحان تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے زمانہ جاہلیت میں بھی یہی حال تھا جس چیز سے لوگ متاثر ہوتے اس کے سامنے
سر بسجود ہو جاتے اور اج ہمارے ہاں بھی یہی حال ہے کوئی خلاف واقعہ اور خارق عادت بات ہو جائے تو ہم سمجھتے ہیں کہ یہ کوئی خاص چیزہے اور کوئی خاص معجزہ ہے جو اس بندے نے صادر کیا ہے لہذا ہم اس سے متاثر ہو جاتے ہیں جو کہ سراسر غلط ہے حالانکہ معجزہ
صرف اللہ اپنے انبیا کو عطا فرماتا ہے اور انبیا کے علاوا کسی کو عطا نہیں فرماتا اگر ہم نے اس غلط عقیدے کو اور اس غلط سوچ کو نہ بدلا تو ہم مستقبل قریب میں تباہی و بربادی کے دہانے پر ہوں گے اللہ ہماری حفاظت فرمائے اور ہمیں شرک سے محفوظ رکھے