نکاح کی اہمیت اور ضرورت
نکاح کی اہمیت اور ضرورت
دنیا کے کسی بھی مذہب نے نکاح پر اس قدر زور نہیں دیا جس قدر اسلام نے دیا ہے کیونکہ اسلام دین فطرت ہے اور اس کو عین فطرت کے مطابق تشکیل دیا گیا دین اسلام انسان کےفطرتی تقاضوں کے بالکل مطابق ہے اور اسلام نے زندگی کا کوئی پہلو ایسا نہیں چھوڑا جس
کے متعلق تعلیمات فراہم نہ کی ہوں زندگی کے ہر شعبے سے متعلق رہنمائی فراہم کی ہے پیدایش سے لے کر موت تک تمام مراحل سے اگاہی انسان کو فراہم کی ہے اب اس سے فائدہ اٹھانا انسان کا کام ہے لیکن افسوس اس بات پر ہے کہ ہم اسلام کی تعلیمات سے فائدہ حاصل
کرنے کی بجائے معاشرے کی تعلیمات سے فائدہ اٹھاتے ہیں ہم معاشرے کو ترجیح دیتے ہیں رسم و رواج کو ترجیح دیتے ہیں اور یہیں سے ہماری ناکامی شروع ہو جاتی ہے بہرحال جہاں اسلام نے زندگی کے باقی شعبوں سے متعلق رہنمائی فرمائی ہے وہاں ہمیں نکاح سے متعلق بھی رہنمائی فراہم کی ہے
نکاح کی اہمیت اور ضرورت
اسلام میں مرد کو بیک وقت چار شادیوں کی اجازت دی ہے
قران میں اتا ہے
اور تم نکاح کرو دو دو تین تین اور چار چار
اس ایت سے صاف پتہ چلتا ہے کہ مرد کو اللہ تعالی نے دو نکاح کرنے کی اجازت دے رکھی ہے اور تین بھی اور چار بھی ہاں اجازت اس شرط کے ساتھ دے رکھی ہے اگر تم بیویوں میں عدل کر سکو اور اگر تم بیویوں میں عدل نہ کر سکو یا تمہیں ایک طرف جھکاؤ کا خوف
ہو تو پھر تم دوسرا نکاح ہی نہ کرو پھر تم ایک ہی نکاح پر اکتفا کرو اسلام نے جہاں مرد کو حقوق فراہم کیے ہیں وہاں عورت کو بھی حقوق فراہم کیے ہیں ایسا نہیں ہے کہ عورت کے حقوق کو نظر انداز کر دیا گیا ہو اگر مرد کو چار نکاحوں کی اجازت دی ہے تو ساتھ یہ حکم بھی دیا
ہے کہ اس شرط پر تم نکاح کر سکتے ہو اگر تو بیویوں کے حقوق ادا کر سکو اور ان میں برابری کر سکو تو یہ کس کا حق ہے کس کو حق دیا ہے یہ عورت کو حق دیا ہے تاکہ عورت پر ظلم نہ ہو سکے یہ بات کڑوی ضرور ہے لیکن حقیقت یہی ہے
بالکل اسی طرح سے اسلام نے عورت کو بھی اجازت دی ہے کہ اگر اس کو سابقہ شوہر سے طلاق ہو جائے یا اس کا سابقہ شوہر فوت ہو جائے تو وہ عورت بھی عدت پوری کرنے کے بعد دوسرا نکاح کر سکتی ہے ہاں بس فرق اتنا ہے کہ مرد کو اللہ نے پہلی بیوی کے ہوتے
ہوئے دوسری بیوی کرنے کی اجازت دی ہے عورت کو اللہ نے یہ حکم نہیں دیا بلکہ وہ ایک وقت میں ایک ہی شوہر کے نکاح میں رہ سکتی ہے ہاں اس کا پہلے شوہر سے کسی بھی طریقہ سے نکاح ختم ہو جائے تو پھر وہ دوسرے شوہر سے نکاح کر سکتی ہے اس کو بھی یعنی عورت کو
بھی متعدد نکاحوں کی اجازت ہے لیکن اس صورت میں کہ اس کا پہلا شوہر فوت ہو جائے پھر وہ دوسرا نکاح کر سکتی ہے پھر اگر یہ دوسرا نکاح اس کا ٹوٹ گیا یا شوہر فوت ہو گیا پھر وہ تیسرا بھی کر سکتی ہے پھر اس کا یہ تیسرا نکاح ٹوٹ گیا یا شوہر فوت ہو گیا تو وہ مزید نکاح کر سکتی ہے
ایک وقت میں وہ ایک سے زیادہ شوہروں کے نکاح میں نہیں رہ سکتی لیکن سابقہ شوہر سے کسی بھی وجہ سے علیحدگی ہو جائے اس سے نکاح ٹوٹ جائے یا شوہر فوت ہو جائے یا وہ شوہر سے خلع لے لے تو اس صورت میں وہ عدت پوری ہونے کے بعد دوسرے شوہر سے نکاح کر سکتی ہے
نکاح کی اہمیت اور ضرورت
آتے ہیں اس کی وضاحت کی طرف
ایک عورت کی شادی ہوئی کچھ عرصہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ رہی لیکن پھر ایسا ہوا کہ اس کے شوہر کی وفات ہو گئی یہاں اسلام کی تعلیمات کیا ہیں اسلام یہ کہتا ہے کہ یہ عورت اپنی عدت پوری کرے جب عدت مکمل ہو جائے گی تو یہ عورت کسی دوسرے مرد سے
نکاح کر سکتی ہے اور اب ایسا نہیں ہے کہ یہ عورت ساری عمر مجبور اور مظلوم بن کر زندگی گزار دے ایسا ہرگز نہیں یہ تو زمانہ جاہلیت کی رسم ہے اب یہ عورت تباہ و برباد ہو گئی لٹ گئی اسلام میں اس کا کوئی کانسپٹ نہیں ہے اسلام کی تعلیمات تو یہ ہیں یہ عورت اگے جہاں
چاہے نکاح کر سکتی ہے ہاں اسلام کے علاوہ جتنے بھی مذہب ہیں ان میں اس کا کوئی کانسپٹ نہیں ہے اسلام نے اس کو اس کی اجازت دی ہے کیوں دی ہےاس وجہ سع دی ہے کہ جب اس عورت کو نہ کوئی خرچہ دینے والا ہوگا نہ کوئی اس کے دکھ درد کو سننے والا ہوگا اور نہ ہی کوئی اس کی جنسی خواہش
پوری کرنے والا ہوگا تو یہ عورت حالات سے مغلوب ہو کر برائی پر امادہ ہوگی گناہ پر امادہ ہوگی گناہ کی طرف جائے گی عورت کو تحفظ اور
حقوق فراہم کرنے کے لیے اسلام نے اس کو اجازت دے رکھی ہے کہ وہ دوسرا نکاح کرے تاکہ اس کو بھی حقوق ملے اور یہ بھی اپنی زندگی پرسکون اور مطمئن طریقے سے گزار سکےیہ تو تھا بیوہ کا حکم اب آتے ہیں اس طرف کہ اسلام میں مطلقہ کا حکم کیا ہے
نکاح کی اہمیت اور ضرورت
اسلام میں مطلقہ عورت کو حکم
ایسی عورت جس کو اس کے شوہر نے طلاق دے دی ہو تو یہ عورت طلاق کی عدت پوری کر کے اگے نکاح کر سکتی ہے لیکن ہمارے معاشرے میں اس کا کوئی رواج نہیں ہے بلکہ ایسی عورت کو جو دوسرا نکاح کرے اس کو معیوب خیال کیا جاتا ہے اور اس عورت کو بہت
بری عورت سمجھا جاتا ہے حالانکہ اسلام میں ایسی عورت کو پورے حقوق حاصل ہیں اس کو پورا تحفظ فراہم کیا جاتا ہے اسلام کا حکم یہ ہے کہ اگر اگے کہیں اچھی جگہ بات بن جائے تو یہ عورت نکاح کر سکتی ہے بلکہ اس کے لیے نکاح کرنا ضروری ہے ہمارے ہاں ایک غلط اور
بہت ہی غلط کونسیپٹ ہے خواتین کے بارے میں کہ وہ عورت جس کا ایک بار نکاح ہو گیا اب اس کا جینا مرنا وہی ہے چاہے عورت کا شوہر مرے یا زندہ رہے لیکن وہ عورت اب اسی گھر کی ہو گئی ایسا نہیں ہے اور نہ ہی اسلام میں ایسا کوئی تصور موجود ہے کیا اس عورت کی کوئی
زندگی نہیں اس کی کوئی خواہش نہیں وہ بقیہ ساری زندگی کیسے گزارے یہ بھی تو سوچیں نا اسلام ایسا دین ہے جو سب کو حقوق فراہم کرتا ہے اب ایسا نہیں کہ جو کامیاب ہو گیا بس سارےحقوق ساری کامیابیاں اسی کے کھاتے میں ہیں اور جو ایک بار ناکام ہو گیا پھر ساری
ناکامیاں ساری محرومیاں ساری مایوسیاں اسی کے کھاتے میں ڈال دی جائیں ایسا نہیں ہے اسلام گرے ہوؤں کو بھی تھامتا ہے اور اٹھے ہوؤں کو بھی تھامتا ہے اسلام نے مظلوم کو بھی اتنے ہی حقوق فراہم کیے ہیں اور ظالم کو بھی حقوق سب کو برابر فراہم کیے ہیں چاہے کوئی
ظالم ہو یا مظلوم ہو اللہ کے ہاں سب نے جواب دینا ہے اور اللہ نے سب کو حقوق دیے ہیں
نکاح کی اہمیت اور ضرورت
ایک تیسری صورت بھی ہمارے معاشرے میں موجود ہے
معاشرے میں ایک تیسری صورت بھی پائی جاتی ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر کوئی عورت اپنے شوہر سے طلاق مانگ لے تو شریعت میں اس کو خلع کہتے ہیں یعنی کہ عورت نے خلع لے لیا اب اگر کسی عورت نے خلع لے لیا تو ہمارا معاشرہ اس کو تحفظ فراہم نہیں کرتا اور اس عورت
کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے بھائی کیوں دیکھتے ہو اس کو حقارت کی نگاہ سے یہ اجازت یہ رخصت اللہ رب العزت نے اس کو دی ہے تو پھر تم اور میں کون ہوتے ہیں اس سے یہ حق چھیننے والے شریعت میں خلع لینے کا حکم بھی موجود ہے اور واقعہ بھی موجود ہے
حضرت زینب رضی اللہ تعالی نے اپنے شوہر سے خع لیا تھا اورخلع لینے کے بعد اللہ نے ان کو اعلی سے اعلی اور اعلی ترین درجے کا شوہر عطا فرمایا شوہر تھے حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم اگر خلع لینے والی عورت حقیر ہوتی تو قبیلہ قریش کی معزز خاتون اور پھر نبی پاک صلی
اللہ علیہ والہ وسلم کے خاندان کی عورت یہ کام کیوں کرتی پھر ان کی شادی دونوں جہانوں کے سردار اور نبیوں میں سب سے اعلی درجے کے نبی سے کیوں ہوتی اور وہ کیوں اس عورت سے شادی کرتے
خدارا اپنی سوچ کو بدلو اپنے معاشرے کو بدلو اور نکا لو اپنے آپ کو ان ہندی رسم و رواج سے اور ہندو معاشرے سے اگر خیر کے کام نہیں کر سکتے تو کم از
کم شر کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ نہ لو خدارا اپنے اپ کو بچاؤ دوزخ کی اگ سے اور اپنی اخرت اور لوگوں کی دنیا خراب کرنے سے خود کو محفوظ رکھواگر کسی کے لیے اچھا نہیں کر سکتے ہو تو اس کے لیے برا بھی نہ کرو
وضاحت طلب نقطہ
دین اسلام نے خلع کی اجازت دی ہے لیکن پہلے یہ دیکھ لو کن صورتوں میں اجازت دی ہے چھوٹی چھوٹی باتوں پر خلع لینے کی اجازت نہیں ہے ایسی بات ہو جو ناقابل برداشت ہو ظلم ہو اور ظلم کی انتہا کر دی گئی ہو پھر کوئی ایسی بات ہو جس سے نکاح کے اصل مقاصد ہی پورے نہ ہو
رہے ہوں جن مقاصد کے حصول کے لیے نکاح کیا گیا تھا وہ تو پورے ہی نہیں ہو رہے وہ مقاصد تو حاصل نہیں ہو رہے یا پھر عورت پر بہت زیادہ ظلم ہو رہا ہو اور وہ واقعہ ہی ظلم ہو ان صورتوں میں خلع لینا جائز ہے کہ بعض صورتیں تو ایسی ہیں کہ ان میں خلع لینا واجب ہو جاتا ہے
البتہ چھوٹی چھوٹی بات پر خلع لینا جائز نہیں اور
اس بات کی بھی وضاحت کرتی چلوں خلع لینے کی اجازت کیوں دی گئی ہے
عورت کو خلع لینے کی اجازت اس لیے دی گئی ہے کہ اگر شوہر میں کوئی ایسی عادت ہے جو ظلم ہے یعنی وہ بیوی پر ظلم کرتا ہے تو پھر بیوی کو رخصت اس لیے دی گئی اگر بیوی شوہر کے اس ظلم کے ساتھ صبر کرتی رہی ایسا نہ ہو کہ ایک وقت آئے کہ وہ صبر کرتے کرتے تھک
جائے اور بے صبری کرنا شروع کر دے بے صبری کے کلمات منہ سے ادا کرنے لگے اور ان کلمات کی وجہ سے وہ گنہگار ہو وہ ڈپریشن کا شکار ہو یا وہ اللہ کی رحمتوں سے مایوس ہونا شروع کر دے یا وہ اللہ سے بد گمان ہو جائے اوروہ ڈپریشن کی اس انتہا تک پہنچ جائے کہ کفریہ
کلمات بولنا شروع کر دے ساری برائیوں اور خرابیوں سے محفوظ رہنے کے لیے اللہ پاک نے عورت کو بھی اجازت دی کہ وہ خلع لے سکتی ہے اگر عورت خلع لینے میں حق پر ہے تو پھر انشاءاللہ اللہ اس کو ضرور کوئی بہتر رشتہ عطا فرما دیں گے
نکاح کی اہمیت اور ضرورت
اب آتے ہیں اس طرف کہ اللہ نے مرد کو چار نکاحوں کی اجازت کیوں دی ہے
اللہ کے ہر حکم میں کوئی نہ کوئی حکمت ہوتی ہے اور اس کے ہر حکم میں انسان کا کوئی نہ کوئی فائدہ ہوتا ہے لیکن اللہ کی یہ حکمتیں ہماری
سمجھ سے بالاتر ہوتی ہیں ہمیں اللہ کی یہ حکمتیں سمجھ نہیں اتی پھر میرا رب ہمیں بعض حالات و واقعات سے یہ حکمتیں سمجھا دیتا ہے انہیں حکمتوں میں سے ایک حکمت ہے مرد کے چار نکاح کرنا
سارے ملک کے اندر جو حالات ہیں برائی اور فحاشی کےان حالات نے ہمیں یہ حکمتیں سمجھا دیں اللہ نے نکاح کا حکم کیوں دیا اور یہ کہ شریعت اسلامیہ یہ کیوں کہتی ہے کہ نکاح کو ترجیح دو اور نکاح کرنے میں جلدی کرو تیسری حکمت یہ بھی سمجھ اگئی کہ اللہ نے ایک مرد کو
ایک سے زیادہ نکاح کرنے کی اجازت کیوں دےرکھی ہے مرد کیوں ایک وقت میں زیادہ نکاح کر سکتا ہے اس لیے کہ عورتوں کو تحفظ اور حقوق مل جائیں اب وہ خواتین جو بچوں والی ہیں یا متعلقہ ہیں یا بیوہ ہیں ان سے کوئی کنوارا لڑکا تو شادی نہیں کرے گا نا اس سے وہ مرد
شادی کرے گا جو پہلے سے شادی شدہ ہوگا اور اس کی دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ عورتوں کی تعداد زیادہ ہے مردوں کی نسبت اب ایک مرد زیادہ شادیاں کرے گا تب ہی ساری خواتین کو تحفظ مل سکے گا کہ عورتوں کی تعداد زیادہ ہے اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عورتوں کی
تعداد زیادہ ہے کیوں ہےاس کی حکمت تو اللہ جانتا ہے لیکن حالات و واقعات سے اور ظاہری اسباب سے جو بات نظر ارہی ہے وہ یہ ہے کہ عورتوں کی برتھ ریشو زیادہ ہے مردوں کی نسبت اور اس کے علاوہ مرد جلدی وفات پا جاتے ہیں اور عورتیں زیادہ لمبی عمر پاتی ہیں یہ چیز ہماری
انکھوں کے سامنے ہو رہی ہے عموما شوہر پہلے فوت ہو جاتا ہے بیوی زندہ رہتی ہے دیکھ لیجیے روزانہ اعلان ہم سنتے ہیں اور ایک دن میں ہم جتنے بھی اعلان سنتے ہیں ان میں زیادہ تعداد مردوں کی وفات کی ہوتی ہے اور کم عورتوں کی وفات کے اعلان ہوتے ہیں اور مردچو نکہ عموما
گھر سے باہر رہتے ہیں اس لیے حادثات اور دھماکوں وغیرہ میں بھی ان کی وفات عورتوں کی نسبت زیادہ ہوتی ہے اور مرد چونکہ جنگوں وغیرہ میں بھی شرکت کرتے ہیں اس لیے مردوں کی شہادت ہو جاتی ہے اب خواتین بیوہ ہو گئیں بیوہ خواتین کو تحفظ کس نے دینا ہے کس نے کرنا ہے یہ کام
دیکھو جب ان خواتین کو جو بیوہ ہو گئی متعلقہ ہیں یا خلع لینے والی ہیں مردوں نے تحفظ فراہم نہ کیا تو یہ خواتین برائی کی طرف جائیں گی اور بے راہ روی کی طرف جائیں گی اور زنا کاری اور بدکاری کی طرف مائل ہوں گی پھر ہمارا یہی معاشرہ ان کو برا بھلا کہے گا پھر ہمارا یہی معاشرہ ان
کو بدکار اور فاحشہ کا خطاب دے گا اور ان کو زنا کار اور بدکار کا لقب مل جائے گا حالانکہ یہ پتہ نہیں کہ اس عورت کو اس دوراہے پر لا کھڑا کرنے والے ہم ہی ہیں اس کام کے کروانے والے ہم ہی ہیں اور اپ کو پتہ ہے اگر کوئی عورت جنسی خواہش کے ہاتھوں مجبور ہو کر زنا
کرے گی تو اس میں ہم سب قصور وار ہیں ہم سب اس کے مجرم ہیں عورتیں بھی اور مرد بھی اس لیے کہ ہم نے اس عورت کو تحفظ فراہم نہیں کیا کیونکہ اس نے یہ جرم جنسی خواہش کے ہاتھوں مغلوب ہو کر کیا ہے طلاق دے دینا یہ جرم نہیں ہے جرم یہ ہے کہ اس کا
اگے نکاح نہ کرنا اللہ پاک ہم سب کو ہدایت نصیب فرمائے اور ہم سب کو دین کی سمجھ بوجھ عطا فرمائے اور اللہ ہمیں صحیح معنوں میں مسلمان بنائے اللہ ہمیں توفیق دے کہ ہم وہ کلچر اپنائیں جو کلچر اسلام نے پیش کیا ہے ہے بجاۓ اسکے کہ ہم وہ کلچر اپنائی بیٹھے ہیں جو کلچر ہمیں غیروں نے دیا ہے