راستہ نظر نہ ائے تب اللہ پر یقین
جب کوئی راستہ نظر نہ ائے تب اللہ پر یقین ایمان ہے
جب انسان بے بس اور مجبور ہو جائے اور اسے کوئی راستہ نظر نہ ارہا ہو اس وقت اللہ پر ایمان رکھنا اور اللہ پر یقین اور کامل بھروسہ رکھنا یہی ایمان کی روح ہے یہی اصل توکل ہے
توکل کا یہ مطلب ہرگز نہیں انسان ہاتھ پر ہاتھ رکھ کے بیٹھا رہے نہ کوئی محنت کرے اور نہ ہی کوئی کوشش کرے اور نہ ہی کسی قسم کا ارادہ کرے اور یہ کہے کہ اللہ کر دے گا اللہ پر بھروسہ ہے توکل یہ نہیں ہے
توکل یہ ہے کہ وہ تمام اسباب جو اللہ نے تمہیں مہیا کر رکھی ہیں وہ استعمال میں لائے اس کے بعد بھروسہ اللہ پر کرے
ایمان کیا ہے اللہ کو ماننا یقین رکھنا اور بھروسہ کرنا ہر حال میں اللہ پر بھروسہ کرنا یہ یقین ہے اور یہی ایمان ہے راستہ نظر ارہا ہوتا ہے سب تو ہر کوئی بھروسہ کرتا ہے کیونکہ سب کچھ انکھوں سامنے ہے اور سب کچھ نظر ا رہا ہے لیکن اگر کوئی راستہ نظر نہ ارہا ہو اللہ پر بھروسہ کرنا
اللہ پر یقین رکھنا یہ ایمان کی پختگی اور مضبوطی ہے کیونکہ جب ہمیں راستہ نظر ارہا ہوتا ہے تو ہمیں اطمینان اور سکون ہوتا ہے
راستہ نظر نہ ائے تب اللہ پر یقین
حضرت موسی کا واقعہ
جب اللہ پاک نے حضرت موسی علیہ السلام کو حکم دیا کہ راتوں رات اپنے لشکر کو لے کر یہاں سے نکل پڑو تو حضرت موسی علیہ السلام نے ایسا ہی کیا اپنا لشکر تیار کیا اور راتوں رات لے کر نکل پڑے پیچھے جب فرعون کو خبر ہوئی کہ حضرت موسی علیہ السلام اپنا لشکر لے کر
نکل گئے ہیں تو اس نے بھی فورا اپنا لشکر تیار کیا اور راتوں رات حضرت موسی علیہ السلام کا پیچھا کرنا شروع کر دیا اگے اگے حضرت موسی علیہ السلام اپنے لشکر کو لے کر چل رہے تھے اور پیچھے پیچھے فرعون چل رہا تھا چلتے چلتے اگے دریا اگیا حضرت موسی علیہ السلام کا لشکر گھبرا
گیا انہوں نے کہا ہم تمہارے گئے ہم تو ہلاک ہو گئے تو نے تو ہمیں مروا دیا انہوں نے ایسے جملے کیوں کہے اس لیے کہ جس راستے پر جا رہے تھے سامنے دریا اگیا اس کو پار کرنا بظاہر ناممکن تھا پیچھے سے فرعون اپنے لشکر سمیت ا رہا تھا اسرائیل پر حملہ کرنے کے لیے کہ ان کا
بھروسہ تھا وسائل پر جب تک وسائل تھے پرسکون رہے اور کسی قسم کی پریشانی نہ لی راستہ نظر ارہا تھا تو اطمینان تھا جیسے ہی رستہ نظر نہ ایا تو گھبرا گئے اور کہا اے موسی تو نے تو مروا دیا لیکن حضرت موسی علیہ السلام کا بھروسہ اللہ پر تھا اور ان کا ایمان کامل اور اکمل تھا انہوں نے
جواب دیا میرا رب ضرور راستہ نکالے گا پھر ایسا ہی ہوا اللہ پاک نے حکم دیا کہ اے موسی اپنے عصا مبارک کو پانی پر مارو جیسے ہی حضرت موسی علیہ السلام نے اپنا عذاب پانی پر مارا تو پانی دو حصوں میں تقسیم ہو گیا اور درمیان میں خشک راستہ بن گیا حضرت موسی علیہ السلام
وہاں سے لے کر اپنے لشکر کو گزر گئے فرعون نے جب دیکھا کہ حضرت موسی علیہ السلام اپنے لشکر سمیت وہاں سے گزر گئے ہیں تو اس نے سمجھا میں بھی گزر جاؤں گا وہ بھی اپنے لشکر کو لے کر اسی راستے پر چل پڑا جب فرعون عین دریا کے درمیان میں پہنچا اور اس کے لشکر
کا اخری بندہ تک دریا میں اتر گیا تو اس وقت میرے رب نے دریا کے پانی کو حکم دیا اپس میں مل جاؤ تو پانی مل گیا فرعون اپنے پورے لشکر سمیت ڈوب گیا پورے لشکر کی نا معلوم کہاں پہنچ گئی کسی کی کوئی لاش نہیں نکلی لیکن فرعون کی لاش کو پانی نے بھی نہیں رکھا بلکہ نکال
باہر پھینکا تو یہ تھا حضرت موسی علیہ السلام کا اللہ پر یقین اور ایمان کہ کوئی راستہ نظر نہیں ارہا صورتحال ایسی ہے کہ اگے اگے بڑھے تو ڈوب جائیں گے اور اگر کھڑے رہیں یا پیچھے ہٹیں فرعون کے لشکر کے ہاتھوں مارے جائیں گے لیکن ذرہ برابر بھی نہ ایمان میں لغزش
ائی اور نہ یقین میں لغزش بلکہ فرمایا کہ میرا رب ضرور راستہ نکالے گا یا اللہ پر یقین تھا نا یہ پتہ تھا کہ میں نے جو کیا ہے وہ درست کیا ہے حق پر ہوں تو اللہ مجھے ضائع نہیں کرے گا بلکہ میری مدد فرمائے گا یہ ہے انبیاء کی شان اور یہ ہے انبیاء کے ایمان کی پختگی جو کسی بھی صورت متزلزل نہیں ہوتی
راستہ نظر نہ ائے تب اللہ پر یقین
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا واقعہ
جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کے لیے نکلے تو پیچھے سے کفار کو خبر ہو گئی کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے ہجرت فرما گئے ہیں تو انہوں نے فورا اپنے کارندے بھیجے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش میں اور پورے مکہ میں اعلان کر دیا کہ جو کوئی نبی
پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو ڈھونڈ کر لائے گا اس کو انعام دیا جائے گا اور پورے مکہ میں ہر جگہ پابندی اور ناکے لگا دیے جگہ جگہ لوگ کھڑے تھے اور انے جانے والے سے پوچھ گچھ کر رہے تھے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ محسوس کیا کہ اس وقت غار میں بنا لے لینا
زیادہ بہتر ہے لہذا انہوں نے غار میں پناہ لے لی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ تھے جب نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ غار میں داخل ہوئے تو حضرت ابوبکر نے پہلے غار کو صاف کیا تاکہ اگر کوئی
موذی جانور وغیرہ اندر ہو تو وہ نکال دیا جائے غار کی صفائی کے دوران حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ غار میں تین سوراخ ہیں انہوں نے یہ سوچا کہ ان سوراخوں میں سے کوئی چیز اگر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو ڈس نہ لے اس لیے ان سوراخوں کو بند
کر دیا جائے تو انہوں نے دو سوراخوں کو تو کپڑے وغیرہ سے بند کر دیا لیکن ایک تیسرے سوراخ کے لیے کوئی چیز موجود نہ تھی سے وہ بند کر تے انہوں نے تیسرے سراخ کو اپنی ایڑی سے بند کر دیا کہ اگر کوئی موذی جانور ہو تو وہ گزر نہ سکے پاک صلی اللہ علیہ وسلم حضرت
ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی گود میں سر رکھ کر سوئے ہوئے تھے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی اس ایڑی پر سانپ یا بچھو ان دونوں میں سے کسی ایک نے ڈس لیا اس کے ڈسنے کی تکلیف سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی انکھوں سے انسو اگئے لیکن اپنا
پاؤں ہلنے نہیں دیا کہیں میرے پاؤں کے ہلنے سے اللہ کے نبی کی انکھ نہ کھل جائے لیکن یہ انسو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے رخسار مبارک پر گرا جس سے ان کی انکھ کھل گئی تو اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جگہ پر جہاں سانپ یا بچھو نے ڈسا تھا وہاں پر اپنا لعاب مبارک
لگایا تو تکلیف کا اثر ظاہر ہو گیا یہ تو تھا غار کے اندر کا واقعہ لیکن جس وجہ سے یہ واقعہ بیان کیا گیا وہ یہ ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم جب غار میں تھے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ غار کے منہ کے قریب بیٹھے تھے نبی پاک صلی
اللہ علیہ وسلم کو اگے بھیجا کہ اگر خدانخواستہ حملہ ہو تو پہلے مجھ پر ہو اور میرے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم محفوظ رہیں کفار نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے اس غار پر پہنچ گئے جس میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم وہ مقیم تھے ایک شخص خواب کے بالکل دہانے پر
کھڑا تھا حضرت ابوبکر فرماتے ہیں کہ اگر یہ تھوڑا سا نیچے ہو کر دیکھتا یا تھوڑا مزید اگے ہو جاتا تو اس کی نظر مجھ پر پڑ جاتی کیونکہ یہ اتنے قریب کھڑے تھے کہ مجھے اندر سے ان کے پاؤں نظر ارہے تھے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ گھبرا گئے اللہ کے نبی نے فرمایا
راستہ نظر نہ ائے تب اللہ پر یقین
لا تحزن ان اللہ معنا
ترجمہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ غم نہ کرو بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے
یہ ہے ایمان اور یقین حالات ایسے ہیں کہ دشمن بالکل سر پر ہے اور باہر ہزاروں لوگ پھر رہے ہیں جو خون کے پیاسے ہیں پورا مکہ ان کی تلاش میں لگا ہوا ہے اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو ڈھونڈ کر کے لانے پر انعامات مقرر کیے گئے تاکہ ہر بندہ انعام کی لالچ میں
ڈھونڈنے نکل پڑے لیکن اللہ کے نبی اس وقت بھی نہیں گھبراۓ بلکہ انہیں اللہ پر پورا یقین تھا کی کہ اللہ کوئی نہ کوئی راستہ ضرور نکالے گا اور پھر ایسا ہی ہوا اللہ نے راستہ بنا دیا میرے رب نے راستہ نکالا میرے رب نے مکڑی کو حکم دیا کہ غار کے دہانے پر جالا بنا دو جب
انہوں نے غار کی طرف دیکھا تو اس کے منہ پر جالا تھا انہوں نے سوچا کہ اس کے اندر کوئی نہیں گیا کیونکہ جالا اس بات کی نشان دہی کر رہا تھا کہ غار کے اندر کوئی نہیں گیا اگر کوئی گیا ہوتا تو جالا ٹوٹ جاتا جالے کی موجودگی یہ بتاتی ہے کہ اندر کوئی گیا ہی نہیں لہذا یہ بات سوچ کر
انہوں نے دیکھا ہی نہیں اور واپس چلے گئے اور اللہ کے نبی کو اللہ نے محفوظ رکھ لیا اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم تین دن تک اسی غار میں مقیم رہے اور اللہ نے ایسی مدد فرمائی کہ کسی کو کانوں کان خبر ہی نہ ہوئی حضرت ابوبکر صدیق کی بیٹی حضرت اسماء رضی اللہ عنہ جو کہ اس
وقت کم سن تھی وہ اس غار میں تین دن تک کھانا پہنچاتی رہیں اور کسی کو خبر ہی نہ ہوئی کسی نے ان کو اتے جاتے نہیں دیکھا انتہائی خطرناک راستہ تھا جس سے گزر کر اتی لیکن اللہ نے مدد فرمائی اور تین دن تک یہ کام خوش اسلوبی سے ادا کرتی رہیں نہ صرف یہ بلکہ ان
کے دادا اور دادی کافرتھے جب حضرت ابوبکر گھر نہیں تھے جبکہ وہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر پر تھے تو ان کے والد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بارے میں پریشان تھے اور پھر کافر بھی ا کر ان کو پریشان کر جاتے اور یہ کہتے کہ وہ فرار ہو گئے
ہیں اور جو کچھ ان کے دل میں اتا ہے وہ کہہ کر جاتے تو وہ گھبرا جاتے اور پریشانی کے عالم میں کہتے کہ ابوبکر گھر کی جمع پونجی لے کر بھاگ گیا ہے اور یہ سو سوچ کر پریشان ہوتے تو اس وقت حضرت اسماء نے اپنے دادا کو تسلی دی اور تسلی دینے کا انہوں نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ
کچھ کنکر جمع کیے اور ان کو ایک تھیلی میں باندھ دیا اور اس جگہ پر رکھ دیا جہاں وہ درہم و دینار رکھا کرتے تھے پھر وہ اپنے دادا کو پکڑ کر لے گئی اور ان کا ہاتھ ان پتھروں پر لگوا دیا جب ان کے دادا نے اس تھیلی پر ہاتھ لگایا تو انہیں محسوس ہوا کہ یہ درہم ہیں اور ان کو تسلی ہو گئی کہ
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ رقم لے کر نہیں گئے اور ان کے پریشانی ختم ہو گئی اس طرح سے حضرت اسماء نے اس کوکٹھن وقت بھی حضرت محمد اور حضرت ابوبکر کا ساتھ دیا اور اپنے دادا کے لیے بھی تسلی کا ذریعہ بنی رہیں