اسلام کے بنیادی عقائد
اسلام کے بنیادی عقائد
جب کوئی انسان دائرہ اسلام میں داخل ہوتا ہے تو اسے بنیادی طور پر ان پانچ بنیادی عقائد کو ماننا اور ان پر ایمان لانا ضروری ہوتا ہے سب
سے پہلا عقیدہ ہے
اللہ پر ایمان لانا
فرشتوں پر ایمان
کتابوں پر ایمان
اخرت پر ایمان
انبیاء پر ایمان
ان عقائد پر ایمان رکھنا کیوں ضروری ہے اور کس حد تک ضروری ہے اور اللہ نے کس قدر ایمان لانا ضروری قرار دیا ان سب سوالوں کا جواب جاننے کے لیے ہم باری باری ان عقائد پر روشنی ڈالتے ہیں سب سے پہلا عقیدہ ہے عقیدہ توحید ائیے سب سے پہلے اسی کے بارے میں بات کرتے ہیں
اسلام کے بنیادی عقائد
عقیدہ توحید
معنی اور مفہوم
لفظ عقیدہ عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے یقین رکھنا ایمان لانا ماننا وغیرہ اور توحید بھی عربی زبان کا لفظ ہے جو واحد سے نکلا ہے جس کا معنی ہے اکیلا یکتا اور ایک تو اس طرح سے عقیدہ توحید کا مطلب ہوا اکیلے اللہ پر یقین رکھنا اللہ کو وحدہ لا شریک ماننا اور اس بات پر
یقین رکھنا کہ اللہ ایک ہے وہ اپنی ذات میں صفات میں اور عبادت میں یکتا ہے کوئی اس کا شریک نہیں توحید کا مطلب ہے اللہ کو ایک ماننا اس کی ذات میں کسی کو شریک نہ کرنا اور نہ ہی اس کی صفات میں کسی کو شریک کرنا اکیلا ہے اور اکیلا ہی رہے گا وہ ضرورت سے پاک ہے
وہ محتاجی سے پاک ہے اس نے سب کو بنایا ہے کسی نے اس کو نہیں بنایا اس کائنات کی ہر چیز کا خالق مالک رازق اللہ تعالی ہے اور اسی نے سب کو بنایا ہے تمام مخلوقات کا بنانے والا وہی اللہ ہے تمام مخلوقات اسی کی محتاج ہیں وہ کسی کا محتاج نہیں ہے
اللہ سے ہونے کی امید اور اللہ کے غیر سے کچھ نہ ہونے کی یقین
پر ایمان رکھنا کہ دنیا کے سارے کام اللہ ہی سے ہوتے ہیں اور اللہ کے سوا کسی سے کچھ نہیں ہوتا اور نہ ہی کسی کو کچھ کرنے کا اختیار ہے انسان صرف اتنا کر سکتا ہے جتنا اللہ نے اس کو اختیار دیا ہے اللہ کے دیے ہوئے اختیار طاقت اور قوت سے ہی انسان کچھ کرنے کا اختیار
رکھتا ہے اگر اللہ اس سے یہ اختیار چھین لے تو انسان کچھ نہیں کر سکتا اگر کوئی کام اللہ کرنا چاہے تو دنیا کی کوئی طاقت اسے کرنے سے روک نہیں سکتی اور اگر کسی کام کو اللہ نہ کرنا چاہے تو دنیا کی کوئی طاقت اور کوئی قوت وہ کام کر نہیں سکتی یہی وہ سوچ ہے جو اللہ پر ایمان کو
مضبوط کرتی ہے اور یہی وہ ایمان ہے جو عقیدہ کہلاتا ہے اور یہی عقیدہ توحید ہے اس بات پر ایمان رکھنا کہ پوری کائنات کا بنانے والا اللہ ہے اور اس کائنات کا نظام چلانے والا اللہ ہے اسی نے یہ نظام چلایا اور وہی یہ نظام چلا رہا ہے جب وہ یہ نظام چلا رہا ہے تو دنیا کی کوئی طاقت
اس نظام کو روک نہیں سکتی اور اگر وہ یہ نظام چلانا روک دے تو دنیا کی کوئی طاقت اس نظام کو چلا نہیں سکتی اس پورے کے پورے نظام پر اختیار اور قدرت صرف اللہ کو حاصل ہے چاہے تو ایک سیکنڈ میں پورا نظام کائنات تباہ و برباد کر سکتا ہے
اسلام کے بنیادی عقائد
اس بات کی وضاحت ایک مثال سے کی جاتی ہے
جیسے کہ ایک شخص ہے وہ بالکل صحت مند اور تندرست و توانا ہے اس کو کوئی مسئلہ نہیں اللہ پاک نے اس کو اپنے اعضاء پر طاقت اور قدرت دے رکھی ہے جب تک اللہ چاہتا ہے کہ وہ دنیا میں رہے اس کو رکھتا ہے چاہتا ہے تو اس کو واپس بلا لیتا ہے کے اپنے ہی اعضا سے
تمام اختیارات ختم کر دیتا ہے رفتہ رفتہ اس سے اللہ پاک ہر اس کا اختیار کھینچتا چلا جاتا ہے ایک وقت اتا ہے کہ وہ بالکل بے بس مجبور اور بے سہارا ہو جاتا ہے بڑھاپا ا جاتا ہے اس پر پھر ایک وقت اتا ہے اس کو اپنے پاس بلا لیتا ہے اس بات سے اللہ کا مقصد یہ دکھانا ہے کہ یہ
قوت یہ طاقت یہ اختیار جو میں نے تمہیں دے رکھا تھا یہ میرا دیا ہوا تھا جب تک میں نے چاہا تمہیں دیا اور جب میں نے چاہا تم سے واپس لے لیا دنیا کی کوئی طاقت یہ قوت یا طاقت بحال نہیں کر سکتی
اللہ نے انسان کی موت مختلف طریقوں پر رکھی ہے کسی کو بڑھاپے میں موت دی جب اس کے تمام اعضاء و جوارح جواب دیے گئے ہیں اس وقت موت دی
کسی کو جوانی میں موت دے دی وہ کڑیل جوان تھا اور اس کے جسم میں خوب طاقت تھی اور اس کے تمام اعضاء و جوارح جوش پر تھے تو اس وقت موت دے کر دکھا دیا کہ قدرت ساری میری ہی ہے
کسی کو ستارہ 18 سال کی عمر میں موت دے دی
کسی کو 14 15 سال کی عمر میں موت دے دی
کو بچپن میں موت دے دی
کسی کو پیدا ہونے کے فورا بعد موت دے دی
کسی کو ماں کے پیٹ میں موت دے دی
کسی کو پورا بچہ بننے سے پہلے ہی اس کے پیٹ سے حمل گرا دیا
یہ سب واقعات دکھا کر انسان کو یہ بتا دیا کہ تمہارا تو تمہاری اپنی ہی ذات پر کچھ اختیار نہیں جب چاہوں جس وقت چاہوں موت دے دوں تحقیق کوئی شخص یہ ذہن نہ بنا لے کہ فلاں عمر میں جا کر موت انی ہے یا کوئی یہ نہ سوچ لے کہ اہستہ اہستہ ہماری قوتیں گھٹتی جاتی ہیں
لہذا اس لیے ہمیں موت ا جاتی ہے اس لیے اللہ نے دکھا دیا کہ تمہیں بھرپور قوت اور طاقت کے وقت بھی میں موت دے سکتا ہوں اس وقت بھی موت دے سکتا ہوں جب تمہارے اندر کوئی طاقت نہیں دوسروں کے محتاج ہو اس وقت بھی موت دے سکتا ہوں جب تم ابھی پیدا ہی نہیں ہوئے
دنیا کی کتنی طاقتیں مل کر بھی کوششیں کر لیں کہ وہ اس انسان کو بچا لیں تو وہ بچا نہیں سکتی اس لیے کہ اس کی موت کا وقت اگیا اب کوئی کچھ نہیں کر سکتا اس لیے کہ میرے رب نے چاہا کہ میں اب اس کو اپنے پاس بلا لوں
حدیث نبوی کا مفہوم ہے
قران میں ہر بیماری کی شفا ہے سوائے موت کے
اللہ پاک نے دنیا کے ہر مسئلے کا حل رکھا ہے قران میں سوائے موت کے ہاں موت کا کوئی حل نہیں کیونکہ اللہ نے اس کی موت کا فیصلہ فرما دیا
تو بالکل اسی طرح سے جو ذات کائنات کا نظام چلا رہی ہے وہ اللہ کی ذات ہے اگر وہ نظام کائنات درہم برہم کرنا چاہے وہ ایک سیکنڈ میں کر سکتا ہے
اسلام کے بنیادی عقائد
اللہ موجود ہے
کائنات میں غور و فکر
اگر ہم کائنات میں غور و فکر کریں تو ہمیں ہر طرف اللہ کا وجود نظر اتا ہے کائنات کی ہر چیز اللہ کے وجود اور اس کی وحدانیت کی گواہی دیتی ہے کون ہے جو دنیا کا نظام چلا رہا ہے کون ہے جو ہوا چلا رہا ہے وہ کون ہے جو بارش برسا رہا ہے وہ کون ہے جس نے زمین میں گھاس کے
اگانے کی صلاحیت رکھی وہ کون ہے جس نے اس گھاس کو جانوروں کی خوراک بنایا پھر اس گھاس کے اندر ہضم ہونے اور جانوروں کے معدے میں گھاس کو ہضم کرنے کی صلاحیت رکھی پھر اس جانور میں یہ نظام ترتیب دیا کہ اس کا نظام نظام خوراک کو ہضم کر کے اس کے
جسم کا حصہ بنا دیتا ہے اور یہ جانور انسان کے لیے دودھ اور گوشت تیار کر دیتا ہے اب بھلا بتاؤ اس جانور کی تخلیق کس نے کی کس نے بنایا جانور کو اور یہ کہ یہ جانور کس کو فائدہ دے رہا ہے اللہ نے اس جانور کو کس کے لیے بنایا کس کے فائدے کے لیے بنایا اس سے کون فائدہ
اٹھا رہا ہے دودھ اور گوشت کس کے کام ا رہا ہے انسان کے کام ا رہا ہے بوجھ سے انسان فائدہ اٹھا رہا ہے اور گوشت سے بھی انسان فائدہ اٹھا رہا ہے جانور خود تو نہ دودھ سے فائدہ اٹھا رہا ہے اور نہ ہی گوشت سے فائدہ اٹھا رہا ہے اللہ نے یہ سب کس کے فائدے کے لیے بنایا انسان
کے فائدے کے لیے نا اور اس سارے معاملے میں غور کرو کس کی کاریگری نظر ارہی ہے اللہ ہی کی کاریگری نظر ارہی ہے
یہ چاند یہ سورج یہ اسمان یہ ستارے یہ سب کچھ اللہ نے پیدا کیا یہ سب چیزیں اللہ کے وجود کی گواہی دیتی ہیں بھلا بتاؤ یہ چیزیں کسی بنانے والے کے بغیر بن گئی کیا یوں ہی بلاوجہ تخلیق پا گئی جب ایک کھلونا بھی کسی بنانے والے کے بغیر نہیں بنتا تو اتنی بڑی کائنات خود بخود کیسے
بن گئی ایک کھلونے کو بھی کوئی نہ کوئی بناتا ہے تب ہی وہ بنتا ہے تو اس پوری کائنات کو بھی بنانے والا کوئی ہے کوئی ہے جو اس کا نظام چلا رہا ہے اور وہ اللہ کی ذات ہے
اسلام کے بنیادی عقائد
تو تھا اللہ کے وجود کا اقرار اب اتے ہیں اللہ کی وحدانیت کی طرف
قران پاک کی ایک سورت ہے سورہ اخلاص جس میں اللہ پاک نے صرف اپنی وحدانیت بیان کی ہے وہ پوری سورت صرف اللہ کی وحدانیت کی گواہی دیتی ہے اس وجہ سے اس سورت کا نام اخلاص رکھا گیا سورۃ اور اس کا ترجمہ یہ ہے
قل ھو اللہ احد
اللہ الصمد
لم یلد ولم یولد
ولم یکن لہ کفوا احد
ترجمہ
کہہ دیجیے کہ وہ اللہ ایک ہے
اللہ بے نیاز ہے
نہ اس کی کوئی اولاد ہے
اور نہ وہ کسی کی اولاد ہے
اور نہ کوئی اس کے برابر کا ہے
پوری سورت میں اللہ پاک کی وحدانیت بیان کی گئی
کہہ دیجئے اللہ ایک ہے
اتے ہی سورت کی پہلی ایت میں اللہ پاک نے اپنے واحد ہونے کی دلیل پیش کی تاکہ سب سے پہلے میرے بندے اس بات پر ایمان لے ائیں کہ اللہ اکیلا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ جب تک ہم اللہ کی وحدانیت کا اقرار نہیں کر لیتے اس وقت تک ہمارا ایمان مکمل نہیں ہوتا ہم
لاکھ عبادت کر لیں نیک اعمال کر لیں نیکی اور بھلائی کے کام کر لیں فلاحی اور رفاعی ادارے قائم کر لیں لیکن اگر ہمارا عقیدہ درست نہیں ہم اللہ کو واحد نہیں مانتے اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراتے ہیں کسی بھی لحاظ سے تو ہمارے یہ تمام نیک اعمال بے کار اور ضائع ہو
جائیں گے یہ باقی تمام باتیں بیان کرنے سے پہلے اپنی وحدانیت بیان کی تاکہ میرے بندے سب سے پہلے اپنا عقیدہ درست کر لیں اور خوب اچھی طرح سے سمجھ لیں کہ اللہ کی ذات وحدہ لا شریک ہے وہ یکتا ہے کوئی اس جیسا نہیں نہ کوئی اس کے برابر کا ہے پوری کائنات
میں اور نہ ہی کوئی اس سے بڑا ہے نہ اس جہاں میں نہ اس جہاں میں کوئی اس کے برابر کا ہے اس نے سب کو بنایا ہے کسی نے اس کو نہیں بنایا تو ظاہر ہے جو جس کو بناتا ہے وہ اس کی مخلوق ہوتی ہے وہ اس کی تخلیق ہوتی ہے
اللہ بے نیاز ہے
دوسری ایت میں اپنی بے نیازی بیان کر دی کہ وہ ضرورت سے پاک ہے محتاجی سے پاک ہے جس کو کوئی ضرورت درپیش ہوتی ہے وہ محتاج ہوتا ہے تو اللہ ایسی ذات ہے جو ضرورت سے پاک ہے کیونکہ وہ ہر چیز کا خالق ہے اس کے پاس تمام قوتیں اور اختیارات ہیں وہ جو
کرنا چاہے وہ کر سکتا ہے کسی کی مجال نہیں کوئی اس کو روک سکے اور کسی کی مجال نہیں جو کوئی اس کے کام میں کسی قسم کا کوئی خلل ڈال سکے سب طاقتیں اور تمام قوتیں اس کے اگے بے بس ہیں وہ ایسی ذات ہے جس کے قبضہ قدرت میں سب کچھ ہے وہ جو کچھ کرنا چاہے
کر سکتا ہے اس کا کام ہے بس کن فرمانا تو وہ کام ہو جاتا ہے تمام کی تمام مخلوقات صرف اللہ کی محتاج ہیں وہ کسی کا محتاج نہیں وہ بیوی سے پاک ہے وہ ساتھی سے پاک ہے اپ تمام مخلوقات پر غور کر لیں ہر ایک کو دوسرے کی ضرورت ہوتی ہے وہ کیوں وہ اس لیے کہ اللہ نے
یہ رشتے یہ تعلق صرف اس لیے بنائے تاکہ یہ ایک دوسرے کے ساتھ جڑے رہیں لیکن اللہ کو کسی ساتھ کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ ہر ضرورت سے پاک ہے وہ کسی کا محتاج نہیں سب اس کے محتاج ہیں
اسلام کے بنیادی عقائد
وہ اولاد سے پاک ہے
اللہ ایسی ذات ہے جواولاد سے پاک ہے یہاں ایک نقطہ وضاحت طلب ہے اور وہ یہ کہ اللہ نے خاص کر اولاد کا ذکر کیوں کیا
اللہ نے اس لیے فرمایا کہ وہ اولاد سے پاک ہے کیونکہ سابقہ امتوں میں سے کچھ امتوں کو یہ مغالطہ لگا کہ نعوذ باللہ ان کے نبی اللہ کے بیٹے ہیں جیسے حضرت عیسی علیہ السلام کی امت کا ایک گروہ اس مغالطے کا شکار ہو گیا کہ حضرت عیسی علیہ السلام اللہ کے بیٹے ہیں اور ایک گرو
نے کہا کہ نہیں وہ اللہ کے بیٹے نہیں بلکہ نعوذ باللہ خود اللہ تھے اور تیسرے گروہ نے کہا کہ حضرت عیسی علیہ السلام نہ تو اللہ تھے اور نہ ہی اللہ کے بیٹے تھے بلکہ وہ اللہ کے بندے اور رسول تھے اور یہی گروہ حق پر تھا
اسی طرح سے حضرت عزیر علیہ السلام کی امت نے کہا کہ نعوذ باللہ حضرت عزیر علیہ السلام اللہ کے بیٹے تھے اور سابقہ امتوں میں سے بعض امتیں یہ غلطی کر بیٹھی کہ انہوں نے کہا کہ فرشتے نعوذ باللہ اللہ کی بیٹیاں ہیں تو اس لیے اللہ نے اس کتاب میں اس بات کی
وضاحت کر دی کہ اللہ اولاد سے پاک ہے اس کی کوئی اولاد نہیں کیونکہ وہ اس اور اس جیسی تمام ضروریات سے پاک ہے دیکھو اولاد کی ضرورت ہو اس کو ہوتی ہے جو محتاج ہو جس پر بڑھاپا انا ہو جس کو موت انی ہو جس کو ساتھ کی ضرورت ہو تو اللہ ان تمام ضروریات سے
پاک ہیں وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا اس کو نہ زوال ہے اور نہ ہی اس کو موت انی ہے تمام جہانوں پر حکمرانی اسی کی ہے سب اسی کے حکم پر چلتا ہے اس کو کسی کی ضرورت نہیں ہاں البتہ تمام مخلوقات کو اللہ کی ضرورت ہے
اور یہ تمام وضاحت کیوں کر دی اس لیے کر دی تاکہ اب وہ لوگ جو موجود ہیں اور وہ تمام لوگ جو قیامت تک دنیا میں ائیں گے سب اچھی طرح سے جان لیں کہ جو غلطی سابقہ امتوں نے کی ہے وہ غلطی اب یہ لوگ نہ دہرائیں
ماں باپ سے پاک
اللہ ایسی ذات ہے جو جو ماں باپ سے پاک ہے جس کو کسی نے نہیں جنا کسی نے نہیں بنایا سینے پیدا نہیں کیا کا پیدا کرنے والا ہے اس دفعہ کفار نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال کرتے تھے کہ یہ بتاؤ وہ اللہ کس نسل سے ہے جس اللہ کی تم بات کرتے ہو اس کے رد میں
اللہ نے یہ فرما دیا کہ اللہ وہ ذات ہے جو ان تمام چیزوں سے پاک ہے ذات پات نسل پاک ہے نہ کوئی اس کو بنانے والا ہے اور نہ کوئی اس کو پیدا کرنے والا ہے وہ ان سب باتوں سے پاک ہے
کوئی اس کے برابر کا نہیں
اللہ ایسی ذات ہے جیسی ذات کوئی نہیں تنہا ہے یکتا ہے وہی معبود برحق ہے کوئی اس جیسا ہے نہ کوئی اس سے بڑا ہے طاقتوں قوتوں کا مالک وہی اللہ ہے