اسمانی کتب پر ایمان
اسمانی کتب پر ایمان
اسمانی کتابوں سے مراد کون سی کتابیں ہیں اسمانی کتب سے مراد وہ کتابیں ہیں جو اللہ پاک نے انبیاء پر نازل فرمائیں اللہ نے انسان کو پیدا فرمایا تو پیدا فرما کر یوںہی بے کار نہیں چھوڑ دیا بلکہ اللہ نے انسان کو پیدا فرما کر پھر اس کی اصلاح اور تعلیم کے لیے انبیاء اکرام بھیجے پھر ان
انبیاء اکرام کو کتب اور صحیفے عطا کیے اوران کتب اور صحیفوں کے ذریعہ سے انسانوں کو زندگی گزارنے کی تعلیمات فراہم کی گئیں اللہ نے ہر قوم کو ان کی ضروریات اور اس وقت کے حالات و واقعات کے مطابق تعلیمات فراہم کیں
اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کیا سابقہ اسمانی کتب پر ایمان لانا ضروری ہے
بنیادی عقائد اسلام پانچ ہیں
اللہ پر ایمان لانا
رسولوں پر ایمان لانا
فرشتوں پر ایمان لانا
آسمانی کتب پر ایمان لانا
آخرت پر ایمان لانا
ان پانچ بنیادی عقائد پر ایمان لانا ضروری ہے تبھی ہمارا ایمان مکمل ہوتا ہے انہی بنیادی عقائد میں سے ایک عقیدہ اسمانی کتب پر ایمان لانا ہےائیے اس ٹاپک پر تفصیلا گفتگو کرتے ہیں
اسمانی کتب پر ایمان
ایک مسلمان کے لیے ضروری ہے
ایک مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ تمام سابقہ اسمانی کتابوں پر ایمان لائے جتنی بھی اسمانی کتب اور صحیفے نازل ہوئے سب پر ایمان لانا ضروری ہے اس بات پر ہمارا پختہ یقین ہو کہ وہ برحق ہیں اور حق سچ ہیں اور اللہ کی طرف سے نازل کیے گئے ہیں اور اللہ نے سابقہ
امتوں کی اصلاح کے لیے یہ کتابیں نازل فرمائی تھیں لیکن بعد میں وقت کے ساتھ ساتھ اس میں تبدیلیاں ہو گئیں لوگوں نے اپنی مرضی سے ان میں تبدیلیاں اور تحریفات کر دی اس لیے وہ کتابیں اور صحیفے اپنیاصلی شکل میں موجود نہ رہے اس لیے اس لیے ان
کتابوں کے اندر موجود مواد اب تحریف شدہ ہے کتابیں چونکہ اپنی اصلی شکل میں موجود نہ رہیں اس لیے ان کتابوں پر عمل کرنا درست نہیں
اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ایمان لانا ضروری ہے تو پھر عمل کرنا کیوں ضروری نہیں یا پھر عمل کرنا کیوں درست نہیں
تو اس کا جواب یہ ہے کہ ایمان لانا تو اس لیے ضروری ہے کہ یہ کتب اللہ کی طرف سے نازل ہوئی اور اللہ کے پیغمبر ان کو لائے اور اللہ کے پیغمبروں نے ان کی تعلیمات بیان کی اور جس وقت یہ کتب نازل ہوئی تھی اس وقت ان کا پیغام حق اور سچ تھا اور وہ پیغمبر بھی برحق
تھے اس لیے یہ ایمان کے عقائد میں سے ہے کہ ان کتابوں پر ایمان لایا جائے کیونکہ وہ اللہ کی طرف سے نازل کردہ تھی اور ان میں موجود تعلیمات بھی اللہ کی طرف سے بیان کرتا تھی اب رہی یہ بات کہ عمل کرنا کیوں ضروری نہیں بلکہ عمل کرنے والا گناہ گار کیوں
ہوتا ہے اس لیے کہ وہ کتابیں اپنی اصل شکل میں موجود نہیں ہیں لوگوں نے ان کے اندر اپنی مرضی سے تبدیلیاں کیں اور اپنی مرضی سے قوانین لکھ دیے اس لیے ان کتب کے اندر موجود معلومات پر ایمان لانا ضروری نہیں کیونکہ اصل معلومات اور لوگوں کی لکھی ہوئی
باتیں اپس میں غلط ملط ہو گئیں اب نئے لوگوں کے لیے یہ فیصلہ کرنا ممکن نہیں رہا کہ اس میں سے اللہ کی طرف سے نازل کی ہوئی کون سی بات ہے اور لوگوں کی لکھی ہوئی کون سی بات ہے
دوسرا جواب
اللہ کا ہمیشہ سے یہ طریقہ رہا ہے کہ اس نے ہماری رہنمائی کے لیے انبیاء کرام بھیجے اور ان انبیاء کرام کے ذریعے اسمانی کتب بھیجی ہر کتاب میں اللہ نے اس وقت کے حالات و واقعات کے مطابق رہنمائی فراہم کی کہ جس طرح کے حالات اس وقت تھے جس طرح کی ان کی
اس وقت کی ضروریات تھیں اسی وقت کے مطابق اللہ نے ان میں تعلیمات نازل فرمائی اور وہ تعلیمات ایک مخصوص مدت اور مخصوص قوم تک کے لیے محدود ہوتی تھی کیونکہ اللہ پاک نے سابقہ انبیاء کو مخصوص قوم اور مخصوص مدت تک کے لیے لوگوں کی
رہنمائی کے لیے بھیجا پھر جب ان انبیاء کی رحلت کا وقت ا جاتا تو وہ رحلت فرما جاتے پھر ایک وقت تک تو ان کی امت ان کی بتائی ہوئی تعلیمات پر عمل کرتی رہتی پھر جیسے جیسے وقت گزرتا جاتا ان کی امت برائیوں میں مبتلا ہوتی جاتی اپنی مرضی سے کتابوں میں تبدیلیاں کر
لیتی بے حد ف** اور عریانی اختیار کر لیتی اور فحش کاموں میں حد سے بڑھ جاتی اور اپنی کتاب میں اس قدر تحریفات اور تبدیلیاں کر لیتی کہ درست اور غلط کا فرق کرنا مشکل ہو جاتا اللہ کی بتائی ہوئی تعلیمات اور بندوں کی اپنی شامل کی ہوئی باتیں اس قدر غلط ملط ہو جاتی کہ
اس میں سے درست کو منتخب کرنا ناممکن ہو جاتا اس وقت اللہ نیا نبی بھیج دیتے تاکہ وہ جا کر ان کی اصلاح کرے اس لیے نہیں کتاب بھیجتے
اسمانی کتب پر ایمان
نئی کتاب کے نازل ہونے سے پہلی کتاب منسوخ ہو جاتی
جب اللہ پاک نیا نبی بھیج دیتے تو پہلے نبی کی لائی ہوئی تعلیمات کو منسوخ فرما دیتے اس لیے کہ لوگوں نے اس نبی کے لائے ہوئے دین میں تحریفات کر لی تھیں اور کتابوں میں اپنی مرضی سے دین لکھ لیا تھا لہذا اب وہ کتاب منسوخ ہو جاتی اور وہ دین بھی منسوخ ہو جاتا نئی
کتاب کے نازل ہونے سے پہلی کتاب کے منسوخ ہونے کی وجہ بھی سمجھ اگئی ہوگی اپ کو اس تنصیح کی وجہ سے بھی اب سابقہ کتب میں بیان کی گئی تعلیمات پر عمل کرنا ضروری نہیں بلکہ اگر اب بھی کوئی ان کتب کی تعلیمات پر عمل کرے گا تو وہ اللہ کے ہاں گنہگار ہے
گنہگار ہونے کا پتہ کیسے چلا
ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ ایک صحابی حضرت عبداللہ جو کہ دینی عیسوی پر قائم تھے پھر جب نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تو انہوں نے اسلام قبول کر لیا اور اب وہ دین محمدی کے مطابق زندگی بسر کر رہے تھے ایک دن انہوں نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم
سے سوال کیا کہ اے اللہ کے نبی اگر میں دین محمدی پر عمل کرنے کے ساتھ ساتھ دین عیسوی پر بھی عمل کر لیا کروں تو کیا یہ درست ہے اللہ کے نبی نے ان کو سختی سے منع فرمایا اور یہ فرمایا کہ اب اپ پر صرف اسی ایک دین پر عمل کرنا ضروری ہے
منع کیوں فرمایا تھا اللہ کے نبی نے اس لیے منع فرمایا کیونکہ اب سابقہ دین کی تعلیمات منسوخ ہو گئی تھیں اور منسوخ شدہ تعلیم پر عمل کرنا گناہ تھا
اسمانی کتابوں کی تعداد
اسمانی کتابوں کی تعداد چار ہے
تورات
زبور
انجیل
اور قران پاک
تورات
تورات حضرت موسی علیہ السلام پر نازل ہوئی
زبور
زبور حضرت داؤد علیہ السلام پر نازل ہوئی
انجیل
انجیل حضرت عیسی علیہ السلام پر نازل ہوئی
قران پاک
قران پاک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا
کتابوں میں اللہ پاک نے انسانوں کو زندگی گزارنے کا طریقہ سکھایا اگر ہم اسی طریقہ کے مطابق زندگی گزاریں جو ہمیں اللہ پاک نے سکھایا ہے ہم ضرور کامیاب و کامران ہوں گے دنیا میں بھی اور اخرت میں بھی اگر ہم اس کے برعکس چلیں گے کو ہمیں دنیا اور اخرت دونوں جہانوں میں رسوائی ملے گی اور دونوں جہانوں میں ہم ناکام ہوں گے
اسمانی کتب پر ایمان
ایک وضاحت طلب نقطہ
جب دین سارا کا سارا اللہ ہی کا ہے اور ہم سب اسی کے بندے ہیں اور اس کے حکم کے پابند ہیں وہ جو حکم نازل کرے ہمارا کام اس کے اگے سر جھکانا ہے نہ کہ اپنی من مانی اور مرضیاں کرنا ہم تو اسی کے حکم کے تابع ہیں وہ جو حکم نازل کرے گا ہمارا کام ہے اس کی
فرمانبرداری کرنا جب اس کے حکم نازل کیا کہ میرے اس نبی کی فرمانبرداری کرو تو ہمارے اوپر اس کی فرمانبرداری لازم ہے پھر جب ان کی تعلیمات کی ان کی امت نے حفاظت نہ فرمائی تو رب نے ایک اور نبی بھیج دیا اور اس کے ذریعے سے ایک اور کتاب نازل فرما دی اور
فرمایا کہ اس کی فرمانبرداری کرو کیونکہ تم نے حساب کا نبی کی فرمانبرداری چھوڑ دی اور اس کی لائی ہوئی تعلیمات کی حفاظت نہیں کر سکے لہذا میں نے وہ منسوخ فرما دی اب اس کی فرمانبرداری کرو
تو جب دین نازل کرنے والی ایک ذات ہے تو سادی ان سارے کا سارا ایک جیسا ہے ہر نبی نے ایک ہی دین کی تبلیغ کی ہے تمام انبیاء ایک ہی دین لائے ہیں اور تمام انبیاء نے ایک ہی بات بتائی کہ اللہ ایک ہے وہ وحدہ لا شریک ہے اس کا کوئی شریک نہیں
دین اسلام میں دو طرح کے مسائل ہیں
اصولی مسائل
فروعی مسائل
اصولی مسائل
اصولی مسائل ایک جیسے ہیں تمام انبیاء کی شریعتوں میں ایک جیسے ہیں ہر نبی نے ایک ہی بات کی تبلیغ کی اللہ کی وحدانیت کا اقرار اس پر کام الیقین اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا جیسے کہ نماز روزہ حج وغیرہ
فروعی مسا ئل
ہاں فرو عی مسایل میں اختلاف تھا وہ ہر نبی کی شریعت میں مختلف تھے جیسے نماز
نماز ہر شریعت میں موجود تھی لیکن نماز کا طریقہ ہر شریعت میں مختلف رہا ہے اسی طرح سے روزہ ہر شریعت میں رہا ہے لیکن روزے کا
طریقہ مختلف رہا جیسا کہ شریعت محمدیہ سے پہلے روزہ رکھنے کا طریقہ یہ تھا کہ ایک شخص نے صبح سحری کی اور روزہ رکھا شام کے وقت اس کا روزہ افطار ہوگا اب اگر افطاری کے بعد اس کو تھوڑی سی بھی نیند اگئی تو اس کا دوبارہ روزہ شروع ہو جائے گا کیونکہ اس شریعت میں
رات اور دن دونوں روزے ہوتے تھے صرف افطاری کے وقت تھوڑا سا ٹائم ہوتا تھا جس میں روزہ دار کھا پی سکتا تھا اور اگر کھانے پینے کے بعد اس کو نیند اگئی یا اونگ ا گئی یا کھانا کھانے سے پہلے ہی اس کو نیند اگئی تو اس کا اگلا روزہ شروع ہو جائے گا تو یہ فروعی مسائل تھے جو
ہر شریعت میں مختلف رہے ہیں لیکن اصولی مسائل تمام شریعتوں میں ایک جیسے تھے
اسمانی کتب پر ایمان
اب سوال پیدا یہ ہوتا ہے کہ فروعی مسائل میں اختلاف کیوں جب تمام شریعت بھیجنے والی ایک ہی ذات ہے تو پھر ان مسائل میں اختلاف کیوں
اس کا جواب یہ ہے کہ فروعی مسائل ہر امت کو ویسے ہی ملے جو اس وقت کے حالات و واقعات کی ضرورت تھی اور چونکہ سابقہ شریعتیں مختصر وقت اور مختصر عرصہ کے لیے تھی اس لیے اللہ نے ان کو مختصر مسائل دیے جو اس وقت کے لوگوں تک محدود ہوتے
تھے کیونکہ اللہ کو پتہ تھا کہ ایک مخصوص وقت کے بعد میں نے ایک نیا نبی بھیج دینا ہے تو پھر ان کی جو ضرورت اور جو حاجت ہوگی اس کے مطابق ان کو سب کچھ بتا دیا جائے گا اور چونکہ سب سے اخر میں اخری نبی حضرت محمد ائے اور ان کی شریعت چونکہ اخری شریعت
سے تھی اور اللہ نے یہ فیصلہ فرما دیا تھا کہ اب کوئی نبی نہیں ائے گا جب کوئی نیا نبی نہیں ائے گا تو شریعت کیسے ا سکتی ہے
لہذا اس شریعت میں تمام مسائل سمو دیے جن کی قیامت تک ضرورت پڑنی تھی تاکہ انے والے لوگوں کو پیش انے والے مسائل سے متعلق رہنمائی مل سکے
اسمانی کتب پر ایمان
اگر سابقہ امتوں نے اپنی کتابوں میں تبدیلیاں کر دی تو اس امت نے تبدیلی کیوں نہیں کی یہ امت بھی تو کر سکتی تھی
یہ امت اپنی کتاب میں تبدیلی اس لیے نہیں کر سکتی کہ اللہ نے قران میں فرمایا کہ میں نے اس کتاب کی حفاظت کا ذمہ خود لیا ہے
ارشاد باری تعالی ہے
انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحفظون
بے شک ہم نے ہی قران کو نازل کیا ہے اور ہم اس کی حفاظت کرنے والے ہیں
اللہ پاک نے اس کتاب کی حفاظت کا ذمہ خود لیا اس لیے اس میں کوئی تبدیلی نہیں کر سکا اور نہ ہی کوئی قیامت تک اس کی تبدیلی کر سکتا ہے 1400 سال گزر گئے کوئی تبدیلی نہیں کر سکا کیونکہ اس کا محافظ اللہ ہے اب اگر کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے اب اگر
کسی کے ذہن میں یہ سوال ائے کہ اللہ نے سابقہ کتابوں کی حفاظت کا ذمہ کیوں نہیں دیا وہ سابقہ کتابوں کی حفاظت کا ذمہ بھی تو لے سکتا تھا جی ہاں بالکل اپ کے ذہن میں یہ بات ا سکتی ہے اور شیطان ذہن میں یہ سوال ڈالتا ہے تو اس کا جواب سنیے پہلے تو یہ بات جانیے کہ اللہ
نے اس کتاب کی حفاظت کا ذمہ کیوں لیا قران کی حفاظت کا ذمہ اس لیے لیا کہ اللہ یہ طے کر چکے تھے کہ حضرت محمد اور ان کی لائی ہوئی کتاب اخری کتاب ہے نہ کوئی کتاب بھیجنی ہے اور نہ ہی کوئی نبی بھیجنا ہے بلکہ قیامت بھیجنی ہے جب اس امت کے حالات سابقہ امتوں
جیسےہو گئے یا ان سے بھی بدتر تو ان پر قیامت بھیج دی جائے گی تو قران کی حفاظت اس لیے فرمائی تاکہ دنیا کا کوئی انسان یہ نہ کہے کہ اللہ تیری بھیجی ہوئی کتاب اپنی شکل میں موجود نہیں تھی اس لیے مجھے پتہ نہ چل سکا کہ مجھے کیا کرنا ہے قران میں اپ کے کام اور لوگوں کی
بتائی ہوئی باتیں خلت ملت ہو گئی تھی اس لیے فیصلہ کرنا مشکل ہو گیا تھا کہ کیا درست ہے اور کیا غلط ہے
اس لیے اللہ نے اس کو محفوظ فرما دیا تاکہ کوئی اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہ کر سکے اور قران میں اس بات کا واضح اعلان فرما دیا کہ اس کتاب کو میں نے محفوظ کر دیا ہے ا کے سب کو پتہ چل جائے کہ اس کے اندر کسی انسان نے اپنی مرضی سے کچھ نہیں لکھا اور ہر انسان بلا
جھجک اس کی بتائی ہوئی تعلیمات پر عمل کرے
اب اتے ہیں اس بات کی طرف کہ سابقہ کتابوں کی حفاظت کا ذمہ کیوں نہ لیا
سابقہ کتابوں کی حفاظت کا ذمہ اس لیے نہیں لیا کہ اللہ نے یہ طے کر رکھا تھا کہ جب یہ امت کا شکار ہو گئی تو میں ایک نیا نبی بھیج کر ان کی اصلاح اور رہنمائی فرما دوں گا دوسری بات یہ کہ انسانوں کو یہ بتانا مقصود تھا کہ تم اس قدر قائم ہو کہ کتاب اللہ میں بھی اپنی مرضی کا دین
لکھ دیتے ہو اور کتاب اللہ میں بھی تبدیلیاں کر دیتے ہو اس لیے ہمیں سابقہ امتوں کا حال دکھانا مقصود تھا ان کا حال دکھا کر اس کے بعد یہ بات واضح کر دی کہ اس کتاب کی حفاظت کا ذمہ میں لوں گا میں کوئی کسی قسم کی تبدیلی نہیں کر سکے گا گھر میں نے اس کتاب کی
حفاظت کا سلمان نہ لیا اس کتاب کا بھی وہی حال کرو گے جو سابقہ امتوں نے اپنی کتابوں کا کیا