(ڈپریشن پر کیسے قابو پایا جائےپارٹ 1)
جیسا کہ اپ جانتے ہیں کے ڈپریشن کے ٹاپک پر ہماری گفتگو چل رہی ہے پچھلے ٹاپکس میں ڈپریشن اور اس کے علامات کے بارے میں گفتگو کی اج کی اس ٹاپک میں ہم اس سلسلے میں گفتگو کریں گے کہ ہم ڈپریشن پر کیسے قابو پا سکتے ہیں اور یہ جاننے کی کوشش
کریں گے کہ کیا ڈپریشن ایک ڈینجرس بیماری ہے اور کیا یہ جان دیوا ثابت ہو سکتی ہے تو ائیے چلتے ہیں اپنے ٹاپک کی طرف
اگر اپ کے اندر یہ علامات پائی جاتی ہیں جن کا گزشتہ ٹاپک میں ذکر کیا ہے تو ائیے پھر سیکھتے ہیں کہ اس سے نکالنے کا طریقہ کیا ہے
دیکھیں زندگی میں مختلف قسم کے حالات و واقعات پیش اتے رہتے ہیں اور بعض حالات واقعات ایسے ہوتے ہیں جو گہرا صدمہ چھوڑ جاتے ہیں تو ہمیں کیا کرنا ہے ہمیں اس میں سےکیسے نکلنا ہے
کیونکہ دیکھیں عام حالات میں تو ایک صدمہ پیش ایا عین ممکن ہے ابھی اس میں سے ہم نہ نکلی ہوں یہ دوسرا پیش ا جائے ہاں جی اس میں سے نکلنے کا ہم سوچ ہی رہے ہوں تو تیسرا پیش ا جائے کیونکہ زندگی نام ہی اسی چیز کا ہے
یہ بات میں اپ کو ایک مثال سے سمجھاتی ہوں مثال کے طور پر ہمارے عزیز رشتہ داروں میں سے کسی کی وفات ہو گئی جس کی ڈیتھ نے ہماری زندگی پہ گہرا اثر چھوڑا ہم اس کی موت کے صدمے سے ابھی نکل نہیں پائے تھے کے ساتھ ہی کوئی دوسرا واقعہ پیش اگیا
دوسرا واقعہ جو پیش ایا وہ اس طرح سے پیش ا سکتا ہے کہ ہماری چوری یا ڈکیتی ہو گئی جس میں بہت سارا مال و مالی نقصان ہو گیا تو اب ہمیں یہ صدمہ اور زیادہ فیل ہوگا
ابھی ہم اس اس صدمہ میں تھے کہ کوئی اور واقعہ پیش اگیا جیسے کسی عزیز رشتہ دار کا کوئی ایکسیڈنٹ وغیرہ یا اس طرح کا کوئی حادثہ پیش اگیا تو یہ حادثہ کیا ہوگا ہمارے لیے ایک اور پریشانی کا سبب بنے گا اور یہ ساری پریشانیاں مل کر اٹیک کریں گی جو ہماری دماغی
چوٹ میں مزید اضافے پر اضافہ کر دی جائیں گی اور یہ ایک حقیقت ہے اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کیونکہ زندگی نام ہی اسی چیز کا ہے
کیونکہ زندگی نام ہی حالات و واقعات کا ہے جہاں رہتے ہوئے ہمیں مختلف قسم کے حالات و واقعات اور مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ زندگی چل رہی ہے اور یہ ایک سسٹم ہے ایک نظام ہے جس کو روکا نہیں جا سکتا
کیونکہ عام حالات میں تو ہم روک سکتے ہیں کہ یہ بندہ پریشانی میں ہے ٹینشن میں ہے اس کو مزید ٹم پریشان نہ کیا جائے تو وہ عزیز رشتہ دار جو اس انسان سے محبت کرتے ہیں وہ اس کا خیال کریں گے اس کو پریشانی سے بچائیں گے اور کوشش کریں گے کہ اس کو
خوش رکھا جائے لیکن وہ حادثات و واقعات جو ہماری زندگی کا حصہ ہیں اور جو قدرتی ہیں جن سے محفوظ رہنا ممکن نہیں بچا نہیں جا سکتا ان سب سے کس طرح سے بچا جائے
ڈپریشن پر کیسے قابو پایا جائے
ان سے بچنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے جو شریعت نے بتایا ہے اور وہ یہ ہے
دیکھیے اگر کسی کی موت ہو گئی ہے تو یہ ایک صدمہ ہے واقعی بہت بڑا صدمہ ہے کسی عزیز رشتہ دار کا فوت ہو جانا بہت بڑا صدمہ ہے لیکن شریعت نے اس سے نکالنے کا طریقہ بتایا ہے یہ کہ اس کی وفات کا سوگ صرف تین دن کیا جائے اور تعزیت کرنے کے لیے
جو لوگ ائے ہیں وہ صرف حوصلہ اور تسلی دیں اور صبر کی تلقین کریں اور جس کے ساتھ یہ حادثہ پیش ایا ہے یعنی جس کا عزیز فوت
ہوا ہے اس کو شریعت یہ تلقین کرتی ہے کہ وہ اس کو قسمت کا لکھا سمجھ کر راضی ہو جائے اور یہ سوچ کر اپنے اپ کو حوصلہ دے کہ ہاں اج اس کی روانگی کا وقت ایا ہے کل میری روانگی کا وقت ہوگا
وہ اپنی منزل پر پہنچ گیا ہے مجھے اپنی منزل پر پہنچنے کی تیاری کرنی ہے اس کی تیاری کا وقت پورا ہو چکا میری تیاری کا وقت ابھی باقی ہے لہذا مجھے یہ فکر چھوڑ کر کہ وہ مجھے چھوڑ کر چلا گیا ہے یہ فکر کرنی چاہیے کہ میرے پاس ابھی وقت ہے اللہ نے مجھے مہلت دی ہے
میں اپنے اعمال درست کر لوں تاکہ میں کل مروں تو سرخرو ہو کر مروں اور اپنے اندر طاقت اور قوت جمع کرے اور ہمت پیدا کر کے ایک مضبوط چٹان کی مانند کھڑا ہو جائے صرف تین دن سوگ منانے کے بعد اس سوگ کو بالکل چھوڑ دیں اس غم کو ختم کر
ڈپریشن پر کیسے قابو پایا جائے
دے اور اپنے اپ کو زندگی کی دوسری سرگرمیوں میں مصروف کر لے
یہ بات میں خود سے نہیں کہہ رہی ایک حدیث پاک میں اتا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے جو والد صاحب نے وفات پائی تو انہوں نے تین دن کے بعد ہلکا پھلکا بناؤ سنگار کیا تاکہ لوگوں کے سامنے یہ بات واضح ہو جائے کہ میرےغم کے دن ختم ہو گئے ہیں
اور سوگ کا اختتام ہو گیا ہے اسلامیہ میں ہر غم کے صرف تین دن ہیں تین دن سے زیادہ سوک بنانا جائز نہیں تین دن سے زیادہ غم کا اظہار کرنا جائز نہیں صرف شوہر کی وفات پر عورت کو چار ماہ دس دن سوگ منانے کا حکم ہے باقی کسی موت کے لیے تین دن سے زیادہ کا حکم نہیں ہے
جب ہم ایک غم کو اپنے اوپر سوار کر لیتے ہیں اور اس کو بڑھاتے ہی چلے جاتے ہیں سوچتے ہی چلے جاتے ہیں تو وہ بڑھتا ہی چلا جاتا ہے اور ہم اندر سے مزید زخمی ہوتے چلے جاتے ہیں وہ ہمیں مزید زخمی کرتا چلا جاتا ہے اب ہمیں کرنا کیا ہے اس غم سے نکلنا ہے اور اسی
دوران اگر کوئی دوسرا واقعہ پیش اگیا ہے جیسا کہ میں نے اوپر بیان کیا کہ کوئی ڈکیتی ہو گئی مالی نقصان بہت زیادہ ہو گیا تو یہ سوچ کر اس کو نظر انداز کر دے کہ یہ قسمت میں لکھا تھا ہو گیا مال کی میرے سامنے کیا حیثیت ہے جب میرا رب میرے ساتھ ہے اور مجھے
اس نے مسلمان بنایا ہے اچھا میں مسلمان ہوں اور مجھے مسلمان ہونے کا شرف عطا کیا ہے تو میرے پاس تو دنیا کی تمام دولت موجود ہے یہ وقت ہی غم ہے میرے اللہ اس پر مجھے صبر دے اور ہمت اور حوصلے کی توفیق دے
اگر میرے رب کی رضا ہوئی ہے تو میرا رب مجھے اس سے کہیں زیادہ عطا کرے گا
ڈپریشن پر کیسے قابو پایا جائے
اسی طرح سے اگر کسی کا کوئی ایکسیڈنٹ یا حادثہ وغیرہ ہو گیا تو اس کو بھی ایک حادثہ سمجھ کر نظر انداز کرتے ہیں اور اس کے لیے بھلائی اور خیر خواہی کی دعا کریں اگر ہم اپنی توجہ دعا کی طرف کر لے اور قران کی طرف کر لیں تو ہماری ٹینشن ویسے ہی کافی حد تک ختم ہو جاتی ہے
کیونکہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے ہمیں یہی طریقہ ملا ہے کہ جس وقت اپ کو کوئی غم یا مصیبت پہنچے تو سب سے پہلا کام ہے اس پر صبر کرنا اور دوسرا کام یہ ہے کہ فورا اللہ کی طرف متوجہ ہونا دو رکعت صلاۃ الحاجت پڑھیں اور اللہ پاک سے دعا مانگیں اور
مسلسل دعائیں مانگتے رہیں کہ اے اللہ مجھے اس غم میں ہمت اور حوصلہ دے اور اس پر صبر کی توفیق دے اور اس غم میں سے نکلنے کی توفیق دی ہے
اس کے بعد اگلا کام کیا کرنا ہے اپ نے اس غم کو بھولنے کی کوشش کریں اس غم میں سے نکلنے کی کوشش کریں اور اپنی ایکٹیوٹیز کو بدلیں جو نارمل کام اپ کر رہے ہیں اس میں چینجنگ لائیں اپنی لائف سٹائل کو بدلیں اگر یہ سب ممکن ہو تو کریں
گر ممکن نہ ہو تو پھر وہ کریں جو اپ کے اختیار میں ہے اور یہ تو ہر انسان کے اختیار میں ہے جو اب میں بتانے جا رہی ہوں جیسے ہی کوئی حادثہ پیش ائے اس سے دور ہو جائیں اس ٹاپک پر سوچنا چھوڑ دیں فورا کسی دوسرے کام میں لگ جائیں اور فورا کسی خوشگوار بات کو
سوچنے لگی وہ خوشگوار بات وہ خوشگوار لمحات جو اپ کی زندگی میں گزرے ہوں اگر نہیں گزرے تو خود سے کچھ اچھا اچھا سوچنے لگیں اچھا اچھا سوچنا اپ کے اوپر مثبت اثرات ڈالے گا لمبے لمبے سانس لیں اور اپنی توجہ کسی دوسری طرف کر لیں یہ صرف دو منٹ کا پروسیس ہے
لیکن ان دو منٹ میں اگر اپ نے خود پر قابو پا لیا تو اپ نارمل ہو جائیں گے اور اب وہ بات جو اپ کو پریشان کر رہی تھی وہ پریشان نہیں کر پائے گی اب اپ پرسکون ہو جائیں گے اور اسی معاملے کو ڈیل بھی کر پائیں گے جس کی وجہ سے اپ ایک دم سٹریس میں
ہوئے تھے کیونکہ اپ نے ابتدائی چند منٹ میں خود کو قابو کر لیا ہے اور اس سے ڈریس کو اپنے اوپر حملہ اور نہیں ہونے دیا اب اس معاملے کے ساتھ نمٹنا اپ کے لیے اسان ہو جائے گا
اور اگر اپ نے شروع کے دو منٹ میں یہ کام نہیں کیا بلکہ اس ٹینشن کو محسوس کرتے چلے گئے ہیں اور اس کو سوچتے چلے گئے اور اس غم کے اندر کھوتے چلے گئے تو اب ہوگا کیا ڈپریشن کا ان ایکسائٹی کا اپ کے اوپر حملہ ہوگا اس میں ہوتا کیا ہے اپ کے اعصاب
سکڑ جاتے ہیں اور ان کے سکڑنے کی وجہ سے اپ میڈلی طور پر ڈسٹرب ہو جاتے ہیں اور پھر کئی دنوں تک اپ نارمل نہیں ہو پاتے
ڈپریشن یہ کیسی بیماری ہے اگر اس پر قابو نہ پایا جائے اس کو کم کرنے کی کوشش نہ کی جائے تو یہ بڑھتا ہی چلا جاتا ہے اور پھر اس کا اختتام خودکشی پر ہوتا ہے یاد رکھیے ایک تحقیق کے مطابق خود کشی کے جتنے کیسز سامنے اتے ہیں ان میں سے %98 کیسز نفسیاتی مریض ہوتے ہیں باقی صرف دو پرسنٹ لوگ کسی اور وجہ سے خودکشی کرتے ہیں
ڈپریشن پر کیسے قابو پایا جائے
نفسیاتی مریض اخری سہارا خودکشی میں کیوں ڈھونڈتا ہے
وہ شخص جو شدید ڈپریشن میں چلا جائے اس کو ہر وقت محسوس ہوتا ہے کہ میرا اس دنیا میں کوئی نہیں میرا کوئی خیر خواہ نہیں میرا کوئی ہمدرد نہیں اور وہ پرابلم جو اس کے اندر رونما ہو رہے ہوتے ہیں ان کے ساتھ نپٹنا ان کے ساتھ لڑنا اس کے لیے بہت مشکل ہو جاتا
ہے اس کے اندر کچھ کرنے کی صلاحیت نہیں رہتی کیونکہ اس کے اندر قوت فیصلہ نہیں ہوتی وہ خود سے کوئی فیصلہ کر نہیں پاتا طرح طرح کردار اور خوف اور وساوس نے اس کو گھیر رکھا ہوتا ہے دوسرے کی تکلیف کو وہ حد سے زیادہ محسوس کرتا ہے
ڈپریشن پر کیسے قابو پایا جائے
نفسیاتی امراض کا بڑھتا ہوا رجحان
پہلے تو یہ کیسز باہر کے ممالک میں ا رہے تھے لیکن اب ہمارے پاکستان میں بھی ان کیسز کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ اب ہمارے ملک میں بھی وہی مسائل پیش ا رہے ہیں جو باہر کے ممالک میں تھے کیونکہ ہم نے بھی اپنا اصل ٹارگٹ دنیا کو بنا
لیا ہے اور ہم بھی دنیاوی معاملات میں کامیاب ہونا چاہتے ہیں اگر دنیاوی معاملات میں کوئی حادثہ پیش اجائے ہمیں بھی لگتا ہے کہ بس ہم تباہ و برباد ہو گئے سب کچھ ختم ہو گیا
ہم اپنی کامیابی یا ناکامی کا مرکز اخرت کو نہیں سمجھ رہی ہم بھی دنیا ہی کو سمجھ بیٹھے ہیں سب کچھ اگر ہم اپنی کامیابی یا ناکامی کا مرکز اخرت کو سمجھ لیں تو ہماری ٹینشن یہی ختم ہو جاتی ہے ہم یہ سوچ لیں کہ ہم نے ایک دن یہ سب کچھ چھوڑ کر چلے جانا ہے جو مجھے
چھوڑ گیا ہے اسی طرح سے میں نے بھی کسی کو چھوڑ جانا ہے یہ دنیا ایک مسافر خانہ ہے اور میں یہاں ایک مسافر کی طرح ہوں جس قدر ایک مسافر مسافر خانے میں ٹھہرتا ہے اسی قدر ہر انسان اس دنیا میں ٹھہرنے ایا ہے
لیکن افسوس ہم اس دنیا کو ہی کل کائنات سمجھ بیٹھے ہیں اور اسی کو سب کچھ سمجھ بیٹھے ہیں اسی کو دنیا اور اخرت کی کامیابی و کامرانی سمجھ بیٹھے ہیں اس وجہ سے ہماری پریشانیاں بڑھتی چلی جا رہی ہیں
اگر ہم نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کی طرف دیکھیں تو ہمیں پرسکون عملی زندگی ملتی ہے اگر ہم اصحاب کی زندگیوں کی طرف دیکھیں ان کی زندگیوں میں یہ سب چیزیں جو اج ہمارے پاس ہیں ان کا نام و نشان تک نہیں تھا نہ ان کی زندگیوں میں کوئی
اسائشیں تھی اور نہ ہی کوئی سہولتیں تھیں لیکن اس کے باوجود ان کی زندگیاں پرسکون تھیں ڈپریشن کا کوئی نام و نشان نہیں ملتا اج تک نہیں پڑھا کہ کوئی صحابی یا صحابیہ کسی ڈپریشن میں چلی گئی کیونکہ وہ اپنی تمام زندگی شرعی طریقوں کے مطابق گزارتے تھے اور
وہ اپنے تمام مسائل و معاملات کو شریعت کے حکم کے مطابق حل کرتے تھے تو کامیابیاں ان کا مقدر تھی
یاد رکھیے ڈپریشن ایک ایسی بیماری ہے جس پر قابو پانا مشکل تو ہے لیکن ناممکن نہیں ہے اور اگر اس پر قابو نہ پایا جائے اس کا انجام بڑا بھیانک ہوتا ہے یہ اس بیماری کو اوائل ہی میں کنٹرول کیا جائے کے معاملہ حد سے نہ بڑھنے پائے
ایک ریسرچ کے مطابق کراچی میں اس وقت ہر چوتھے گھر میں ایک نفسیاتی مریض موجود ہے تو اس سے کیا بات سامنے اتی ہے کہ ہمارے ملک میں نفسیاتی مرض تیزی سے بڑھ رہا ہے جس کو ہمیں خود کنٹرول کرنا ہوگا اگر ہم نے اس کو کنٹرول نہیں کیا تو ہم نہ
صرف اؤٹ اف کنٹرول ہوں گے بلکہ اپنے ملک پر اور معاشرے پر ایک بوجھ بن جائیں گے اور یہ وہ دور چل رہا ہے جس میں ہر شخص اپنے ہی بوجھ سے تنگ ہے تو کسی دوسرے کا بوجھ وہ کہاں اٹھائے گا
اس لیے ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ ہم زیادہ سوچنے سے بچیں جیسے ہی ہمیں محسوس ہو کہ یہ بات مجھ پر اثر کر رہی ہے تو اس کو
فٹافٹ نظر انداز کریں اور اپنے اپ کو کسی دوسرے کام میں مصروف کر لیں کچھ اچھا سوچنے لگ جائیں جس سے اپ کے چہرے پر مسکراہٹ ا جائے اور چہرے پر مسکراہٹ اتے ہی اپ ڈپریشن سے نکلنا شروع ہو جائیں گے