Zikri Firqa
ذکری فرقہ کا پس منظر
ذکری فرقہ اس کا اصل بانی تو سید محمد جونپوری ہے لیکن اس کے انتقال کے بعد اس کے مریدین کو پھر محمد مہدی اٹکی نے استعمال کیا۔
ذکری مذہب یہ ایک ایسا مذہب ہے کہ جس کے باقاعدہ کوئی اصول وضوابط مقرر نہیں اور جو کچھ ان کے پیشوا حکم دے دیتے ہیں وہی ان کا دین اور
مذہب ہے۔ آج تک ان کے مذہب پر کوئی باقاعدہ کتاب نہیں بلکہ صرف چند قلمی نسخے ہیں۔
اس مذہب کی بنیاد تو 900ھ میں سید محمد جونپوری نے رکھی لیکن پھر مزید اس کو محمد مہدی اٹکی نے مرتب کیا اور پھیلایا۔ جس کا ظہور ے 977ھ بمطابق 1569ء میں ہوا تھا۔
Zikri Firqa
ذکری فرقے کا پس منظر:
ذکری فرقہ کب وجود میں آیا؟
ذکری فرقہ یہ دراصل فرقہ مہدویہ کی ہی ایک شاخ ہے۔ اب پہلے مہدویہ فرقہ کے بانی کے بارے میں کچھ باتیں جان لیں پھر ذکری فرقہ کے بارے میں کچھ باتیں معلوم ہوں گی۔
فرقہ مہدویہ کا بانی سید محمد جونپوری تھا جو بروز سوموار جمادی الاولی 874ھ بمطابق 1443ء جونپور ہندوستان میں پیدا ہوا۔ محمد جونپوری کو سندھ کے لوگ میراں سائیں اور مکران اور قلات کے لوگ نور پاک سے یاد کرتے ہیں۔
سید محمد جونپور یہ 900ھ میں اپنا علاقہ چھوڑ کر احمد نگر پہنچے اور پھر 901ھ میں حج کیلئے چلے گئے اور وہاں نو مہینے قیام کیا۔ پھر رکن اور مقام ابراہیم کے درمیان کھڑے ہو کر اعلان کیا کہ میں نبی آخر الزمان ہوں اور میرے ہی بارے میں اللہ نے انتباہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی وعدہ فرمایا تھا۔
حج سے واپسی پر احمد نگر سے ہوتے ہوئے یہ سندھ میں ٹھٹہ میں آئے اور چھ ماہ قیام کیا۔ اور آج بھی وہاں پر ان کی زیارت گاہ بنی ہوئی ہے۔
ٹھٹہ کے بعد یہ قندھار پہنچا اور اسی دوران اس نے مختلف امراء، سلاطین اور خوانین کو خط لکھا کہ میں ہی مہدی ہوں اور خط میں سس نے یہ بھی کہا کہ
جلدی پیروی کرو تاکہ تم فلاح کو پہنچ جاؤ اور جو میری نافرمانی کرے گا اللہ تعالیٰ اس کو سخت عذاب میں مبتلا کرے گا وغیره وغیره۔
پھر اس فرقہ کا بانی “فراہ” کے مقام پر جو اب افغانستان میں شامل ہے وہاں پر 910ھ میں انتقال کر گیا۔
Zikri Firqa
فرقہ ذکری بانی محمد مہدی اٹکی کے حالات:
اس فرقے کا بانی محمد مہدی اٹکی ہے۔ اس کے بارے میں ان کے پیروکاروں کا عقیدہ یہ ہے کہ وہ اللہ کا نور تھا اسی وجہ سے نہ اس کے والدین ہیں اور نہ ہی اسکی کوئی اولاد ہے م اور نہ اس کی ولادت ہوئی ہے اور نہ اس کی وفات ہوئی اور نہ کفن دفن ہوا بلکہ یہ نور تھا اور وہ نور غائب ہو گیا یا آسمان پر چلا گیا۔
اس کا ظہور 977ھ بمطابق 1569ء میں ہوا اور یہ اصل میں اٹک پنجاب کا رہنے والا تھا۔ سید محمد جونپوری ایک آدمی تھا اور اس کے بہت سے مریدین تھے۔ اس کی وفات کے بعد ان کے مریدین منتشر ہونے لگے تو محمد مہدی اٹکی نے اپنی سمجھداری اور ذہانت سے ان سب کو اپنا پیروکار بنالیا۔ اور اس نے
اپنا مرکز تربت کو بنایا اور وہاں پر بھی اس نے کافی چیزیں بنادیں اور پھر 1000ھ بمطابق 1592ء یا 1029ھ بمطابق 1619ء میں اس مہدی اٹکی نے اس خوف سے کہ کہیں میرا راز فاش نہ ہو جائے تو اس نے اپنی نشست گاہ میں چادر یا عمامہ کو دفن کیا کچھ حصہ باہر چھوڑ دیا اور راتوں رات غائب ہو گیا۔ اور اس کے مریدین نے شور کر دیا کہ وہ تو نور تھا جو آسمان پر چلا گیا۔
Zikri Firqa
فرقہ ذکری کے عقائد ونظریات:
پہلا عقیدہ:
ان کا کلمہ ہی اہل سنت والجماعت سے مختلف ہے۔ کبھی یہ “لا الہ الا اللہ نور پاک نور محمد مہدی رسول اللہ” پڑھتے ہیں۔ اور کبھی “لا الہ الا اللہ نور محمد مہدی
رسول اللہ صادق الوعد الامين” پڑھتے ہیں۔ اور کبھی “لا اله الا الله الملك الحق المبين نور پاك نور محمد مهدی
رسول الله صادق الوعدا الامين” پڑھتے ہیں۔
دوسرا عقیدہ:
اپنے مذہب کے بانی یعنی مہدی محمد اٹکی کو نبی آخر الزماں کہتے ہیں۔ اور اس کو تمام انبیاء کا سردار مانتے ہیں۔ حضرت سید المرسلین نور محمد مہدی کی شان جو کہ اولین و آخرین ہے اور برگزیدہ ہادی ہے رب العالمین کا نور ہے۔
تیسرا عقیدہ:
ان کے نزدیک محمد مہدی اٹکی کی نبوت کا انکار کرنے والا کافر ہےاور محمد اٹکی کو جھوٹ کہنے والا بھی کافر ہے۔
چوتھا عقیدہ:
محمد مہدی اٹکی اللہ کا نور ہے اور اللہ مہدی کا عاشق اور مہدی اس کا معشوق ہے۔
پانچواں عقیدہ:
جس مہدی کا ذکر احادیث میں آیا ہے یہ وہی مہدی ہے۔ اب کوئی دوسرا مهدی نہیں آئے گا۔
چھٹا عقیدہ:
قرآن مجید اصل میں محمد مہدی پر نازل ہوا تھا مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطہ سے مہدی پر نازل ہوا ہے۔ لہذا اب قرآن کی تفسیر و تشریح وہی معتبر
ہوگی جو محمد مہدی اٹکی نے کی ہے۔ مزید یہ کہ قرآن مجید کے چالیس سپارے تھے ان میں سے دس سپارے محمد مہدی نے منتخب کرلیے۔ اور باقی تیس سپارے اہلِ ظواہر کیلئے چھوڑ دیے۔ اور ان دس سپاروں کا نام “برہان” ہے۔
ساتواں عقیدہ:
جہاں پر قرآن مجید میں محمد کا نام آیا ہے اس سے مراد محمد مہدی اٹکی ہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام تو احمد ہے اور محمد تو مہدی کا نام ہے۔
آٹھواں عقیدہ:
“مَقَاماً مَحْمُوْدًا” اس سے مراد مقام محمود نہیں بلکہ اس سے مراد وہ پہاڑ ہے جہاں پر ذکری مذہب والوں کا حج ہوتا ہے۔
نواں عقیدہ:
سارے انبیاء پر لازم ہے کہ وہ مہدی اٹکی پر ایمان لائیں۔
دسواں عقیدہ:
ذکری مذہب میں انبیاء اور ملائکہ کی توہین بھی جائز ہے۔
گیارہواں عقیدہ:
محمد مہدی اٹکی کے اس دنیا میں آنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت منسوخ ہو گئی۔
بارہواں عقیدہ:
ان کے نزدیک نماز پڑھنے والے مرتد اور بد دین شمار ہوتے ہیں۔
تیرہواں عقیدہ:
ان کے نزدیک رمضان کے روزے منسوخ ہیں۔ اور ذی الحجہ کے ابتدائی دس دنوں کے روزے رکھنے چاہئیں اور ایام بیض (یعنی قمری مہینے کی تیرہ، چودہ اور پندرہ تاریخ) اور ہر دو شنبہ کا روزہ رکھ لینا چاہئے۔
چودھواں عقیدہ:
زکوۃ کا نصاب دسواں حصہ ہے جو صرف مذہبی پیشوا کو دینا جائز ہے۔
پندرھواں عقیدہ:
بیت اللہ کے حج کی فرضیت ختم ہو چکی ہے اب اس کے بدلے میں 27 رمضان المبارک اور 09 ذی الحجہ کو “کوہ مراد تربت” میں حج کرنا چاہئے۔
سولہواں عقیدہ:
ان کے نزدیک ذکر واذکار یا سجدہ کرتے وقت قبلہ رخ کی ضرورت نہیں ہے۔
سترہواں عقیدہ:
کوہِ مراد تربت میں انہوں نے منیٰ، حرم، مقام محمود، آب کوثر، شجرِ طوبیٰ، پل صراط، عرفات، غارِ حراء، آب زمزم، وغیرہ سب کچھ بنایا ہوا ہے اور اس کو حقیقی تصور کرتے ہیں۔
اٹھارہواں عقیدہ:
محمد مہدی اٹکی زمین پر غوطہ مار کر آسمانوں میں چلے گئے اور اب وہیں عرش معلیٰ پر خدا کے شانہ بشانہ بیٹھے ہوئے ہیں۔
انیسواں عقیدہ:
ان کے مذہب میں وضو، نماز اور نمازِ جنازہ کچھ بھی نہیں ہے۔ نماز جنازہ کی صورت یہ ہے کہ میت کو اپنے ذکر خانہ لے جاتے ہیں اور وہاں کچھ ذکر کرتے ہیں اور پھر میت کو دفن کر دیتے ہیں۔
Zikri Firqa
فرقہ ذکری کے عقائد ونظریات اور قرآن و احادیث کی روشنی میں ان کے جوابات:
پہلا عقیدہ:
کلمہ میں “محمد رسول اللہ” کی جگہ پر “نور پاک نور محمد مہدی رسول اللہ” یا اس قسم کے دوسرے الفاظ پڑھنے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا انکار ہوتا ہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا انکار بالا تفاق کفر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اور ختم نبوت کی احادیث متواتر ہیں جس
کا انکار چاروں اماموں اور پوری امت کے نزدیک کفر ہے۔ آپ کی ختم تم نبوت نبوت آیات قرآنیہ اور احادیثِ کثیرہ سے ثابت ہے۔ اور مزید یہ کہ ایسے شخص کو تو شریعت نے واجب القتل کہا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کے متعلق چند احادیث:
01: عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِیْ وَقَاصٍ عَنْ أَبِيْهِ رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعَلَیٍّ أَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى إِلَّا أَنَّهُ لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ۔ وَ فِیْ رِوَايَةِ الْمُسْلِمِ إِلَّا أَنَّهُ لَأَنُبُوَّةَ بَعْدِیْ۔
ترجمہ: حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے اپنے والد سے روایت نقل کی ہے وہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: تم مجھ سے وہی نسبت رکھتے ہو جو ہارون علیہ السلام کو موسیٰ علیہ السلام سے ہے۔ لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں اور مسلم شریف کی ایک روایت میں آتا ہے کہ میرے بعد نبوت نہیں ہے۔
02: عَنْ ثَوْبَانَ رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَيَكُونُ فِیْ أُمَّتِیْ كَذَّابُونَ ثَلَاثُونَ كُلُّهُمْ يَزْعَمُ أَنَّهُ نبِیٌّ وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ لَا نَبِيَّ بَعْدِیْ۔
ترجمہ: حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ میری امت میں تیس جھوٹے پیدا ہوں گے۔ ہر ایک یہی کہے گا کہ میں نبی ہوں حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں، میرے بعد کسی قسم کا کوئی نبی نہیں ہے۔
03: عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ الرِّسَالَةَ وَ النُّبُوَّةَ قَدِ انْقَطَعَتْ فَلَا رَسُولَ بَعْدِیْ وَلَا نَبِیَّ۔
ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بیشک رسالت اور نبوت ختم ہو چکی ہے پس میرے بعد نہ کوئی رسول ہے اور نہ کوئی نبی ہے۔
ان احادیث کے علاوہ اور بھی کئی احادیث اس موضوع پر موجود ہیں۔
دوسرا عقیدہ:
محمد مہدی اٹکی کو تمام انبیاء کا سردار مانتے ہیں۔
جبکہ اہل سنت و الجماعت کا عقیدہ ہے کہ تمام انبیاء کے سردار جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور آپ کے افضل الرسل سید المرسلین ہونے پر بھی سب کا اتفاق ہے اور اس کا انکار بھی اہل سنت والجماعت کے نزدیک کفر ہے۔
تیسرا عقیدہ:
محمد مہدی اٹکی کی نبوت کا انکار کرنا کفر ہے۔
اس سلسلہ میں اہل سنت و الجماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا انکار کرنا یہ کفر ہے اور محمد مہدی کی نبوت کو ماننا یہ بھی کفر ہے۔
چوتھا عقیدہ:
محمد مہدی اٹکی یہ اللہ کا نور تھا یعنی ان کے نبی نے خدا کے اندر حلول کیا ہوا ہے۔
اہلِ سنت والجماعت کے نزدیک یہ عقیدہ رکھنا بھی کفر ہے۔ چنانچہ قاضی عیاضی (مالکی) فرماتے ہیں کہ:
فَذَالِکَ کُلُّہٗ کُفْرٌ بِاِجْمَاعِ الْمُسْلِمِیْنَ وَكَذَالِكَ مَنِ ادَّعٰی مَجَالَسَةَ اللّٰهِ وَالْعُرُوْجَ إِلَيْهِ وَمُكَالَمَتَهٗ أوْ حُلُوْلَهُ فِیْ أَحَدِ الْأَشْخَاصِ كَقَوْلِ بَعْضِ الْمُتَصَوِّفَةِ وَالْبَاطِنِيَّةِ وَالنَّصَارٰي وَالْقَرَامَطَةِ
ترجمہ: پس یہ باتیں (حلول کے متعلق) تمام مسلمانوں کے اجماع سے کفر ہیں۔ اسی طرح جو شخص اللہ تعالی کے ساتھ ہم نشینی کا اور اللہ تعالی کی طرف جانے کا اور اس سے ہم کلام ہونے کا دعوی کرے یا کسی شخص میں اللہ تعالی کے حلول ہونے کا دعویٰ کرے جیسا کہ بعض بناوٹی صوفی باطنیه، نصاریٰ اور قرامطہ کا دعوئی ہے۔
پانچواں عقیدہ:
جس مہدی کا ذکر احادیث میں آیا ہے اس سے مراد یہی مہدی ہے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ محمد مہدی اٹکی کا یہ دعوی تو ابتداء میں تھا کہ میں مہدی ہوں پھر رسول ہونے کا دعوی کیا اور پھر سید المرسلین ہونے کا دعویٰ بھی کیا
جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اب نبوت کا دعویٰ کرنا کفر ہے اور اس کی تفصیل عقیدہ نمبر01 میں گزر چکی ہے۔ جبکہ مشہور کتاب “الاشباہ والنظائر“ میں علامہ ابن نجیم لکھتے ہیں کہ:
إِذَا لَمْ يَعْرِفْ أَنْ مُحَمَّدًا صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آخِرُ الْأَنْبِيَاءِ فَلَيْسَ بِمُسْلِمٍ لِأَنَّهُ مِنَ الضَّرُورِيَّاتِ
ترجمہ: جب کوئی شخص یہ نہ پہنچانتا ہو کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں تو وہ مسلمان نہیں ہے کیونکہ یہ عقیدہ ضروریات دین میں سے ہے۔
اسی طرح شرح فقہ اکبر میں ہے کہ:
دَعْوَی النَّبُوَّةِ بَعْدِ نَبِيِّنَا صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كُفْرٌ بِالْاِجْمَاعِ۔
ترجمہ: ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا دعویٰ کرنا بالاجماع کفر ہے۔
چھٹا عقیدہ:
قرآن مجید کے چالیس پارے کا عقیدہ رکھنا اور پھر ان میں سے دس پارے اپنے لئے چھپا کر رکھ لینا۔
یہ عقید و رکھنا بھی اہل سنت والجماعت کے نزدیک صریح کفر ہے اور اہل سنت و الجماعت کا عقید ہ یہ ہے کہ جس طرح اللہ نے قرآن نازل فرمایا تھا آج
بھی اسی طرح ہمارے پاس محفوظ ہے اور اس میں کوئی ایک حرف کی بھی تبدیلی نہیں ہوئی جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:
إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ۔
ترجمہ: بیشک ہم نے ہی قرآن نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔
ساتواں آٹھواں اور نواں عقیدہ:
اس کا جواب یہ ہے کہ یہ تحریف قرآن کے زمرے میں آتی ہے۔ جیسا کہ علامہ قاضی عیاض فرماتے ہیں کہ:
كَذَالِكَ وَقَعَ الْإِجْمَاعُ عَلیٰ تَكْفِيرِكُلِّ مَنْ دَافَعَ نَصَّ الْكِتَابِ أَوْخَصَّ مُجْمَعًا عَلیٰ نَقْلِهِ مَقْطُوعًا بِهِ مُجْمَعًا عَلیٰ حَمْلِهٖ عَلیٰ ظَاھِرِہٖ
اسی طرح ہر وہ شخص جو کتاب اللہ کی واضح نص کا انکار کرے یا کسی ایسی حدیث میں تخصیص کرے جس کے نقل کرنے پر اجماع ہو چکا ہو اور اس بات پر بھی اجماع ہوا ہو کہ یہ حدیث اپنے ظاہر پر محمول ہے تو ایسے شخص کے کفر پر سب کا اجماع ہے۔
دسواں عقیدہ:
انبیاء علیہم السلام اور فرشتوں کی توہین کرنا جائز۔
یہ عقیدہ بھی اہل سنت والجماعت کے نزدیک خبیث ترین کفر ہے۔ مستند کتاب جامع الفصولین اور بحرالرائق میں لکھا ہے کہ:
وَمَنْ لَّمْ يُقِرَّ بِبَعْضِ الْأَنْبِيَاءِ عَلَيْهِمُ السَّلَامُ أَوْعَابَ نَبِيًّا بِشَیْءٍ أَوْلَمْ يَرْضَ بِسُنَّةٍ مِنْ سُنَنِ الْمُرْسَلِينَ عَلَيْهِمُ السَّلَامُ كُفِّرَ۔
ترجمہ: جو شخص انبیاء میں سے کسی کا کا اقرار نہ کرے یا کسی نبی پر کوئی چھوٹا سا عیب بھی لگائے یا انبیاء کی سنتوں میں سے کسی پر راضی نہ ہو تو ایسا شخص کافر ہے۔
اسی طرح علامہ ابن نجیم فرشتوں کی توہین کے بارے میں لکھتے ہیں کہ:
وَبِعَيْبِهِ مَلَكًا مِنَ الْمَلَائِكَةِ أَوِ الْاِسْتِخْفَافِ بِهٖ۔
ترجمہ: فرشتوں میں سے کسی پر عیب لگانا یا ان کی توہین کرنا کفر ہے۔
گیارہواں عقیدہ:
شریعت محمد یہ منسوخ ہو گئی ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ ذکری فرقہ کا اسلام سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے کیونکہ ان کے بقول تو اسلام تو منسوخ ہوچکا ہے اب ان کا تعلق اس دین سے ہے جو محمد مہدی اٹکی کا ہے۔ تو اب اس کو دین اسلام والا کیسے کہہ سکتے ہیں۔
بارہواں عقیدہ:
نماز پڑھنا صحیح نہیں ہے اس لیے کہ نماز پڑھنے سے آدمی مرتد ہو جاتا ہے۔
اس عقیدے کے بارے میں جامع الفصولین میں ہے کہ:
لَا أُصَلِّى إِذْ لَا تَجِبُ عَلَيَّ يُكَفَّرُ فِيْهِ۔
ترجمہ: (کسی نے یہ کہا کہ) میں اس لئے نماز نہیں پڑھتا کہ مجھ پر نماز فرض نہیں تو اس طرح سے وہ کہنے سے کافر ہو جائے گا۔
اسی طرح قاضی عیاض لکھتے ہیں کہ:
وَكَذَالِكَ نَقْطَعُ بِتَكْفِيرِ كُلِّ مَنْ كَذَّبَ وَاَنْكَرَقَاعِدَةً مِنْ قَوَاعِدِ الشَّرْعِ……الخ۔
اسی طرح ہم ایسے شخص کو بھی قطعی کافر کہتے ہیں جو شریعت کے کسی قاعدہ کی یا شریعت کے کسی ایسے حکم کو جھٹلائے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے متواتر
طور پر ثابت ہو اور اس پر اجماع ہو۔ جیسے کوئی شخص پانچوں وقت کی نماز کا انکار کرے یا ان کی رکعات کی مقدار اور سجدہ کا انکار کرے۔
تیرہ سے انیس تک عقائد:
ان تمام عقائد سے بھی ان کا ارکان اسلام سے انکار ثابت ہوتا ہے۔ اور ارکان اسلام کا انکار بھی اہل سنت والجماعت کے نزدیک بالاتفاق کفر ہے۔ اس کے بارے میں “فتح الجلیل شرح مختصر الخلیل” میں لکھا ہے کہ:
اَوْ كَفَرَ بِأَنْ اسْتَحَلَّ مُحَرَّمًا مَجْمَعًا عَلىٰ تَحْرِيمِهِ مَعْلُومًا مِنَ الدِّينِ كَالشُّرْبِ لِلْخَمْرِ وَالزِّنَا وَالسَّرِقَةِ وَالْقَذَفِ وَالرِّبَا أَوْ أَنْكَرَ حِلَّ الْبَیْعِ وَاَكْلَ الثِّمَارِ وَوُجُوْبَ الصَّلَاةِ وَالصَّوْمِ وَلَوْ عَلیٰ وَلِیٍّ مُكَلَّفٍ أَوْ وُجُودِهٖ مَكَانٍ أَوِ الْبَيْتِ أَوِالْمَدِيْنَةِ أَوِالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ أَوِالْأَقْصَی أَوِ اسْتِقْبَالِ الْكَعْبَۃِ أَوْصِفَةِ الْحَجِّ أَوِ الصَّلَاةِ أَوْ حَرْفًا مِنَ الْقُرْآنِ أَوْزَادَهُ أَوْ إِعْجَازِهٖ أَوِ
الثَّوَابِ وَالْعِقَابِ قَالَ الْقَاضِیْ عِيَاض أَجْمَعَ الْمُسْلِمُونَ عَلَى تَكْفِيرِ كُلِّ مَنْ اسْتَحَلَّ الْقَتْلَ أَوْ شُرْبَ الْخَمْرِ أَوْ شَيْئًا مِمَّا حَرَّمَ اللّٰهُ تَعَالیٰ بَعْدَ عِلْمِهٖ بِتَحْرِيْمِهٖ كَاصْحَابِ الْإِبَاحَةِ مِنَ الْقَرَامَطَةِ وَبَعْضِ غُلَاةِ الْمُتَصَوِّفَةِ۔
ترجمہ: جو شخص کسی ایسے حرام کو حلال سمجھے جس کا حرام ہونا اجتماع اور دین سے واضح طور پر معلوم ہو تو وہ کافر ہے جیسے شراب پینا، زنا کرنا، چوری کرنا، تہمت لگانا ، سود کھانا اور جو شخص خرید وفروخت کے حلال ہونے اور پھل کھانے کے جائز ہونے کا انکار کرے یا نماز یا روزہ کی فرضیت کا انکار کرے، خواہ
کسی ولی مکلف کے حق میں یا وجود جگہ کا انکار کرے یا بیت اللہ کا انکار کرے یا مسجد اقصی کا انکار کرے یا مدینہ کا انکار کرے یا مسجد حرام کا انکار کرے ہویا استقبال قبلہ کا یا حج کے معروف طریقے کا انکار کرے یا نمازوں کا انکار کرے یا قرآن کے کسی حرف کا انکار کرے یا کسی حرف کو زیادہ کرے یا تبدیل
کرے یا قرآن کے معجز ہونے کا انکار کرے یا ثواب اور عذاب کا انکار کرے، یہ سب عقیدہ رکھنے والے کافر ہیں۔
مسلمانوں کا اجماع ہے کہ ہر اس شخص کو کافر قرار دیا جائے جو قتل کو، شراب پینے کو یا کسی ایسی چیز کو جسے اللہ نے حرام قرار دیا ہے حلال سمجھے جبکہ اس کے
حرام ہونے کا علم بھی ہو جیسے ابا حتی قرامطہ اور بناوٹی صوفیوں کا حال ہے حرام کو حلال سمجھنے میں تو یہ سب کافر ہیں۔
پاکستان کی قومی اسمبلی کے فیصلہ کے مطابق ذکری فرقہ بھی کافر ہے:
حکومت پاکستان کی قومی اسمبلی نے جو فیصلہ 1974ء میں قادیانیوں کے بارے میں دیا تھا ذکری فرقہ خود بخود اس میں داخل ہو گیا۔ جیسے پاکستان کے
قانون میں ہے کہ:
آرٹیکل 26 جو شخص خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت پر مکمل ایمان نہیں لاتا یا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی بھی انداز میں نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے یا کسی ایسے مدعی نبوت یا مذ ہبی مصلح پر ایمان رکھتا ہے تو وہ آئین و قانون کی رو سے مسلمان نہیں ہے۔
شق 03: جو شخص حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم جو کہ آخری نبی ہیں، ان کے خاتم النبیین ہونے پر قطعی اور غیر مشروط طور پر ایمان نہیں لاتا یا جو شخص حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی بھی مفہوم یا کسی بھی قسم کا نبی ہونے کا دعوی کرتا ہے یا جو کسی ایسے مدعی کو نبی یا دینی مصلح تصور کرتا ہے تو وہ آئین وقانون کی اغراض سے مسلمان نہیں ہے۔
تشریح: فرقہ ذکری چونکہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی نہیں مانتے بلکہ یہ محمد مہدی اٹکی کو آخری رسول اور امام مہدی تصور کرتے ہیں اور اس کا کلمہ پڑھتے ہیں جو مسلمانوں کے کلمہ کے علاوہ ہے۔ اور یہ ارکان اسلام نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج اور قبلہ وغیرہ کے بالکل ہی منکر ہیں لہذا دستور پاکستان کے مطابق وہ غیر مسلم ہیں۔
Zikri Firqa
فرقہ ذکری بلوچستان کی شرعی عدالتوں کی زد میں:
پاکستان کے صوبہ بلوچستان کی شرعی عدالتوں میں بھی اب تک ذکریوں کو غیر مسلم شمار کیا جاتا رہا ہے۔ چنانچہ وہ مسلمان اور ذکریوں کے درمیان نکاح کو ناجائز قرار دیتے ہیں یہاں تک کہ ان کو مسلمان کے طریقے پر قسم بھی اللہ تعالی کی نہیں دیتے کیونکہ ان کے نزدیک اس کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہے
چنانچہ انھیں “کوہ مراد“ اور “تا پگ” کا واسطہ دے کر قسم دیتے ہیں تو وہ یہ قسم کھانے سے ہچکچاتے ہیں۔
ذیل میں ہم صرف ایک مقدمہ کا فیصلہ کا حوالہ دیتے ہیں۔ مقدمہ کا فیصلہ آٹھ صفحات پر مشتمل ہے لیکن ہم یہاں پر صرف حکم درج کر رہے ہیں:
نقل فیصلہ عدالت فیملی کورٹ جج کولواواواران
مقدمه: فیض محمد ولد دلمراد، حبیب ولد شہداد سکنه لباچ
بنام: بدل ولد باران، موسیٰ ولد رحمت مسماۃ ایمنه بنت موسی سکنہ لباچ
دعویٰ تنسیخ نکاح 20 جنوری 1975ء
حکم: چونکہ مدعا علیہ پہلے ذکری مذہب کا پیروکار تھا اور اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرکے ایک مسلمان لڑکی سے شادی کی اور اب مرتد ہو کر پھر ذکری ہو گیا ہے اور یہ مذہب قادیانیوں کی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی تسلیم نہیں کرتا۔ یہ مذہب جو محدود تعداد میں صرف بلوچستان میں پایا جاتا
ہے۔ اور یہ لوگ نماز کے منکر ہیں، حج کعبۃ اللہ کے منکر ہیں۔ یہ لوگ تربت ضلع مکران میں ایک پہاڑ “کوہ مراد” میں ہر سال حج کرتے ہیں۔ رمضان شریف کے تیس روزوں کے منکر ہیں۔ یہ لوگ (نعوذ باللہ نقل کفر کفر نباشد) یوں کلمہ پڑھتے ہیں “لا الہ الا اللہ نور پاک محمد مہدی رسول الله” یہاں
“محمد” سے مراد جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نہیں بلکہ ایک اور محمد ہے جس کو محمد مہدی اٹکی کہتے ہیں۔ یہ پنجاب میں ایک جگہ کا نام ہے یہ شخص وہاں کا باشندہ تھا اور مکران ضلع میں آکر اس مذہب کی بنیاد ڈالی یہ لوگ صرف رات کے آخری حصہ میں ذکر کرتے ہیں اس لئے یہاں مسلمان ان کو
“ذکری” کہتے ہیں اور یہ لوگ اپنے آپ کو بھی “ذکری” کہتے ہیں۔
چونکہ مدعا علیہ نے دھوکے اور فریب سے ایک مسلمان شخص کو دھو کہ دے کر اس کی بیٹی سے نکاح کیا اور اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کیا لیکن اصل میں وہ ذکری تھا اور اس نے صرف شادی کی خاطر اس طرح کیا اور لڑکی کو بھی دھو کہ دیا اور اپنا ہم مذہب بنایا۔
لہذا مندرجہ حوالہ فتاویٰ اور فقہا کی تصریحات کے بموجب یہ نکاح منعقد ہی نہیں ہوا اور مدعیان کو اعتراض کا حق حاصل ہے۔ پس میں حکم کرتا ہوں کہ یہ نکاح فسخ ہوکر مدعا علیہا ایمنہ بدل مدعا علیہ کی زوجیت سے خلاص ہے اور وہ مسماۃ ایمنہ سے علیحدہ ہو۔
فائل ہذا داخل دفتر ہوئے۔ فریقین موجود ہیں حکم سنایا گیا۔
20/01/1975
دستخط قاضی برکت اللہ
مہر
قاضی کولواہ و فیملی کورٹ
جج کولواه آواران۔ مکران
Zikri Firqa
ڈپٹی کمشنر لسبیلہ کا رجسٹریشن آفیسروں کو حکم:
ڈپٹی کمشنر لسبیلہ نے ایک حکم اس سلسلہ میں جاری کیا ہے جس کو اخباری رپورٹ میں درج کیا ہے جو کہ ذیل میں ہے:
لسبیلہ 26 اپریل (نمائندہ امن) ڈپٹی کمشنر لسبیلہ نے تحصیل رجسٹریشن آفیسروں کو ہدایت کی ہے کہ وہ ذکری قبیلہ کے افراد کو شناختی کارڈ جاری کرتے
وقت ان کو غیر مسلم لازمی تحریر کریں تاکہ ان کو مسلم لکھنے سے عوام میں ہیجان نہ پھیلے۔ یاد رہے کہ حال ہی میں لسبیلہ کے بعض علماء نے ذکری قبیلہ کے افراد کو مسلمان ظاہر کرنے پر شدید اعتراض کیا تھا۔
Zikri Firqa
ذکری فرقہ کے بارے میں اہل فتاوی کی رائے:
مولانا یوسف لدھیانوی لکھتے ہیں کہ:
ان ذکری فرقے کے لوگوں کے ساتھ کسی بھی قسم کا تعلق رکھنا جائز نہیں ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے فرمایا کہ چونکہ وہ اپنے اصول و فروع کے اعتبار سے مسلمان نہیں ہیں اس لئے ان کا حکم قادیانیوں، بہائیوں اور
ہندوؤں کی طرح غیر مسلم اقلیت کا ہے۔ لہذا جو لوگ ذکریوں کو مسلمان تصور کرتے ہیں اور ان میں شامل ہیں تو ان کو توبہ کرنی چاہئے۔
فرقہ ذکری کے بارے میں مزید معلومات کیلئے ان کتابوں کا مطالعہ مفید ہو گا:
مہدوی تحریک
نزھة الخواطر جلد نمبر 04 صفحہ نمبر
322
ذکر توحید
میں ذکری ہوں
عمدة الوسائل (مولانا محمد موسی دشتی)
مکران تاریخ کے آئینہ میں
ذکر وحدت
نور تجلی
ذکرالہی (ملا محمد اسحاق درزئی)
سفر نامه مہدی (شیخ عزیز لامی)
نور ہدایت
ثنائے مہدی (ملاابراہیم و ملاعزت)
فرمودات مہدی
سیر جہانی (قلمی نسخه)
حقیقت نور پاک
معراج نامہ
فرقہ ذکری کے رد میں لکھی جانے والی کتابیں:
ذکری دین کی حقیقت (مولانا احتشام الحق آسیا آبادی)
فرقہ ذکریہ پر ایک نظر (مولانا محمد حیات)
ذکری مذہب اور اسلام (مولانا عبد المجید قصر قندی)
ذکری فرقہ (مولانا مفتی رشید احمد لدھیانوی)
کیا ذکری مسلمان ہیں؟ (مولانا محمد یوسف لدھیانوی)