Firqa | فرقہ اسماعیلیہ | Firqa in Quran | Firqa in Islam (3) | فرقہ اسماعیلیہ کاپس منظر | What is Firqa | Firqa wariat kia hai | Best Discussion on Frqa

 

Firqa | فرقہ اسماعیلیہ | Firqa in Quran | Firqa in Islam (3) | فرقہ اسماعیلیہ کاپس منظر | What is Firqa | Firqa wariat kia hai | Best Discussion on Frqa
Firqa | فرقہ اسماعیلیہ | Firqa in Quran | Firqa in Islam (3) | فرقہ اسماعیلیہ کاپس منظر | What is Firqa | Firqa wariat kia hai | Best Discussion on Frqa

فرقہ اسماعیلیہ

فرقہ اسماعیلیہ کاپس منظر

فرقه اسماعیلیت یہ بھی شیعہ کا ہی ایک فرقہ ہے۔ جب دینِ اسلام چاروں طرف پھیلنے لگا تو کچھ لوگ اسلام کو نقصان پہنچانے کیلئے منافقانہ طور پر اسلام قبول کرنے لگے۔ تاکہ مسلمانوں میں گھس کر مسلمانوں کو نقصان پہنچایا جائے۔ ان منافقوں میں سے ایک

یہودی عالم عبد اللہ بن سبا بھی تھا۔ اس نے حضرت علی کے ساتھ غیر معمولی عقیدت و محبت میں زیادتی کا اظہار کیا اور ان کو مافوق البشر ہستی باور کرانے کی کوشش کی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ابتداء اس کو سمجھایا اور نہ مانے پر مدینہ منورہ سے جلاوطن کر

دیا۔ پھر اس شخص نے فرقہ شیعیت کی بنیاد رکھی جس سے پھر اسماعیلی فرقہ وجود میں آیا۔ ابتدائی زمانے میں یہ دونوں فرقے امام جعفر تک اماموں میں متفق ہیں مگر پھر ان میں اختلاف شروع ہوا۔ کہ حضرت جعفر صادق نے اپنے بیٹے حضرت اسمعیل کو اپنا

جانشین بنایا، مگر اسمعیل کا 133 ہجری میں حضرت امام جعفر صادق کی زندگی میں ہی انتقال ہوگیا۔ اس کے انتقال کے بعد حضرت امام جعفر صادق نے اپنے دوسرے بیٹے موسیٰ الکاظم کو اپنا جانشین بنایا اور جب حضرت امام جعفر صادق کا انتقال ہوا تو اب شیعوں

میں اختلاف ہوا۔ ایک گروہ نے کہا کہ ہم تو ساتواں امام حضرت اسمعیل کے بیٹے محمد کو مانیں گے تو یہ لوگ حضرت اسماعیل بن امام جعفر رحمہ اللہ تعالی کی نسبت کی وجہ سے اسماعیلی کہلواتے ہیں۔ اور پھر آئندہ کے لئے امامت کا سلسلہ محمد بن اسماعیل کی اولاد میں

ہی جاری ہوا اور آج تک یہ سلسلہ چل رہا ہے اور اب پچاسواں امام دنیا میں کریم آغا خان کے نام سے موجود ہے۔
جب امام جعفر صادق نے اپنے بیٹے محمد اسماعیل کو اپنا نائب بنایا اور یہ سن 133 ہجری تھا تو تب سے یہ فرقہ وجود میں آیا۔

 

فرقہ اسماعیلیہ

فرقہ اسماعیلیہ کے 50 امام:

حضرت علی
حضرت حسین

حضرت زین العابدین
حضرت محمد الباقر
جعفر الصادق

اسماعیل
محمد بن اسماعیل
وفی احمد

تقی محمد
رضی الدین عبدالله
محمد المہدى

القائم
المنصور
المضر

العزيز
الحاكم بامرالله
الطاهر

المستنصر بالله
نزار
ہادی

مہتدی
قاہر
علی ذکر الاسلام

جلال الدین حسن
علاء الدین محمد
رکن الدین خیر شاہ

شمس الدین محمد
قاسم شاہ
اسلام شاه

محمد بن اسلام شاہ
مسنتصر بالله
عبد السلام

فریب مرزا
ابوذر علی
مراد مرزا

ذوالفقار علی
نور الدین علی
خلیل اللہ علی

نزار
سید علی
حسن علی

قاسم علی
ابوالحسن ولی
خلیل اللہ علی

حسن علی
علی شاہ
سلطان محمد شاہ

علی سلمان خان
کریم الحسینی
کریم آغا خان

آغا خان شاہ کریم الحسینی کے حالات:

 

آغا خان کی پیدائش 13 دسمبر 1936ء میں بعض لوگوں کے نزدیک بمبئی میں اور بعض کے نزدیک پیریس میں ہوئی۔
1957ء میں جب آغا خان سوم امام سلطان محمد شاہ کا انتقال ہوا تو اب ان میں اختلاف ہو گیا کہ ان کا جانشین کون ہوگا؟ لوگوں میں

دو گروہ بن گئے۔ ایک گروہ ان کا حقیقی بیٹا علی سلطان خان جس کو شہزادہ علی خان بھی کہتے ہیں ان کو 49 واں امام مانتا ہے جب کہ دوسرا طبقہ ان کے لئے شاہ کریم الحسینی کو 49 واں امام مانتا ہے اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ آغا خان سوم نے مرنے سے پہلے وصیت

کی تھی کہ میرا جانشین شاہ کریم الحسینی ہو گا اس میں شیعہ مسلم اسماعیلی کمیونٹی کا مفاد ہے۔

 

آغا خان کہنے کی وجہ:

 

آغا خان کہنے کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ جب ان کا 45 واں امام خلیل اللہ ایک سازش کے تحت قتل کر دیا گیا جس پر اسماعیلیوں کو خوش کرنے کیلئے خلیل اللہ کے دو سالہ بیٹے کہ جس کا نام حسن علی تھا اس کو آغا خان کا لقب دیا۔ جس پر انہیں آقا خان محلاتی پکارا

جانے لگا اور ایرانی بادشاہ نے اپنی لڑکی سے اس کی شادی بھی کر دی مگر بادشاہ فتح علی کے مرنے کے بعد حسن علی شاہ آغا خان محلاتی کو ایران میں بڑی مشکلات پیش آئیں اس لئے انہوں نے ایران کو چھوڑ کر ہندوستان میں بمبئی آکر رہائش اختیار کرلی۔ پھر یہاں آکر آقاخان سے آغا خان استعمال ہونے لگا۔

 

تعلیم:

چونکہ دوران تعلیم ہی جانشینی وجود میں آگئی تھی۔ اور امامت کی اہم ذمہ داری طالب علمی کے زمانہ میں ہی مل گئی تھی۔ اس لیے

اس سے تعلیم پر بہت اثر پڑا۔ اور تعلیم رک گئی۔ لیکن 1958ء میں انہوں نے دوبارہ تعلیم حاصل کرنا شروع کی اور بی اے آنرز کے دوران پرنس کریم آغا خان نے تحقیقی مقالات بھی لکھے۔

 

شادی:

اس نے اکتوبر 1969ء میں سلیمہ نامی لڑکی (جس کا پہلے نام ماڈل سیلی تھا جو پہلے مذہباً عیسائی تھی) سے شادی کی جس سے تین بچے پیدا ہوئے۔

پرنس زہرہ
پرنس رحیم
پرنس حسین

اور پھر قریباً 25 سال کے بعد اس سلیمہ کو طلاق دے دی۔ پھر طلاق کے بعد پرنس آغا خان نے سلیمہ کو 50 ملین پونڈ کی رقم دی

جس میں سے 20 ملین پونڈ نقد اور تیس ملین پونڈ کے زیورات شامل ہیں۔ اخبارات کے بقول یورپ میں آج تک کسی بھی طلاق کی صورت میں اتنی بڑی رقم کسی بھی عورت کو نہیں دی گئی۔

آغا خان اس وقت دنیا کے امیر ترین لوگوں میں سے ایک ہے۔ آغا خان پرنس انگریزی، فرانسیسی، اطالوی زبانیں روانی سے بولتا ہے۔ لیکن عربی اور اردو میں اٹک اٹک کر اپنے خیالات کا اظہار کرتا ہے۔ اس کے مشاغل میں سے گھڑ دوڑ، اسکیٹنگ، فٹ بال،

ٹینس اور کشتی رانی شامل ہیں۔ اسکیٹنگ میں وہ ایران کی طرف سے نمائندگی کرتے ہوئے اولمپک چیمپئن ہے۔
انگلستان کی ملکہ الزبتھ نے اس کو ہزبائی نس کا لقب دیا اور سابق شاہ ایران رضا پہلوی نے ہزرائل ہائی نس کا لقب دیا تھا۔

پرنس کریم آغا خان چہارم ابھی بھی تقریباً 70 سال کی عمر میں ہے اور زندہ ہے۔

فرقہ اسماعیلیہ کے نظریات و عقائد خود ان ہی کی زبانی

مولانا شاه كريم الحسيني الامام الحاضر الموجود ارحمنا واغفر لنا۔ (ڈی، ایچ، آر، ایچ، پرنس آغا خان فیڈرل کونسل برائے پاکستان) ریلیجئس (مذہبی کمیٹی) نیو جماعت خانہ بریٹیوروڈ کراچی 03

آغا خانی مذہبی عبادات کا پیغام
حقیقی مؤمنوں کو یاعلی مدد!

بیان یہ ہے کہ ہم لوگ آغا خانی ہیں۔ ہمارا تعلق اسماعیلی تنظیم سے ہے۔ جس کی ذمہ داری لوگوں کو مذہبی معلومات فراہم کرنا ہے۔ ہمیں جماعت خانوں میں لکھی صاحب کی زیر سر پرستی جو مذہی تعلیم دی جاتی ہے اس تعلیم کی روشنی میں ہم آغا خانی بندگی،

عبادت اور جو کچھ جماعت خانوں میں کرتے ہیں اس کی مکمل تفصیل ہم تحریر کر رہے ہیں۔
ہمارا سلام “یا علی مدد” ہے اور ہمارے سلام کا جواب “مولا علی مدد” ہے۔

ہمارا کلمہ ” اشهد ان لا اله الا الله واشهد ان محمد رسول الله واشهد ان علی الله” ہے۔
ہمیں وضو کی ضرورت نہیں ہے اس لیے کہ ہمارے دل کا وضو ہوتا ہے۔

نماز کی جگہ ہر آغا خانی پر فرض ہے تین وقت کی دعا جو جماعت خانے میں آکر پڑھے پانچ وقت فرض نماز کے بدلے۔ اور ہماری دعا میں قیام ورکوع کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمیں قبلہ رخ ہونے کی بھی ضرورت نہیں ہے ہم ہر سمت رخ کر کے پڑھ سکتے ہیں جس

کیلئے دعا میں حاضر امام کا تصور لانا بہت ضروری ہے (ہم دعا کی کتاب اس پیغام کے ساتھ بھیج رہے ہیں۔ آپ خود بھی پڑھیں اور دوسرے روحانی بھائیوں کو بھی دیں)۔

ہمارے نزدیک روزہ تو اصل میں آنکھ، کان اور زبان کا روزہ ہوتا ہے۔ کھانے پینے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ ہمارے نزدیک روزہ سوا پہر کا ہوتا ہے جو صبح دس بجے کھول لیا جاتا ہے اور یہ بھی اس وقت ہے کہ اگر کوئی مؤمن رکھنا چاہے ورنہ روزہ فرض نہیں ہے۔

البتہ سال بھر میں جس مہینے کا چاند جب بھی جمعہ کے روز کا ہو گا اس دن ہم روزہ رکھتے ہیں۔
زکوۃ کی بجائے ہم آمدنی میں ایک روپے پر دو آنہ فرض سمجھ کر جماعت خانے میں دیتے ہیں۔

ہمارا حج موجودہ امام کا دیدار کرنا ہے (وہ بھی اس لئے کہ زمین پر خدا کے روپ میں صرف موجودہ امام ہے)
ہمارے پاس تو بولتا ہوا قرآن (موجودہ امام) موجود ہے جبکہ مسلمانوں کے پاس تو خالی کتاب ہے۔

ہمارے صبح و شام تک کے گناہ مکھی صاحب چھینٹا ڈال کر معاف کردیتے ہیں۔ اگر ہم میں سے کوئی آدمی روزانہ جماعت خانہ میں نہ

جا سکے تو پھر جمعہ کے روز اور اگر مہینہ بھر کے گناہ چاند رات کو پیسے دے کر چھینٹا ڈلوا کر اور آب شفاء (یعنی گھٹ پاٹ) پی کر معاف کروا سکتا ہے۔

ہماری عبادت کا طریقہ یہ ہے کہ “موجودہ امام ہمیں ایک بول یعنی اسم اعظم دیتے ہیں جس کے بدلے ہم 75 روپے ادا کرتے ہیں جس کی عبادت ہم رات کے آخری حصے میں کرتے ہیں۔ پانچ سال کی عبادت معاف کروانے کیلئے ہم دو سو روپے اور بارہ سال کی

عبادت معاف کروانے کے لئے بارہ سو روپے اور پوری زندگی کی عبادت معاف کروانے کے لئے پانچ ہزار روپے ہم جماعت خانوں میں دے دیتے ہیں۔ اور موجودہ امام کے نور کو حاصل کرنے کیلئے سات ہزار روپے ہم جماعت خانوں میں دیتے ہیں جس

سے ہمیں موجودہ امام کا نور حاصل ہوتا ہے۔ قیامت کے روز موجودہ امام سے ہم اپنے آپ کو بخشوانے یعنی موجودہ امام کے نور کے ساتھ اپنے نور کو ملائے جانے کا خرچہ پچیس ہزار ہم جماعت خانوں میں دیتے ہیں۔ ناندی خیرات کو کہتے ہیں ہمارے گھروں میں

بہترین قسم کے پکنے والے کھانے، عمدہ قسم کے کپڑے اور زیورات کے بدلے ہم جماعت خانوں میں ناندی دیتے ہیں۔ پھر جماعت خانے والے اس ناندی کو نیلام کرکے اس کی رقم جماعت خانے میں جمع کر دیتے ہیں۔

ہمارے نزدیک امامت کا درجہ نبوت سے بڑھ کر ہے۔
ہمارا امام خدا میں حلول کر گیا ہے اس لئے امام ہی حقیقت میں خدا ہے(معاذ اللہ) اور ہم اسی کو سجدہ کرتے ہیں۔

قیاس اور اجتماع کی کوئی حقیقت نہیں ہے کیونکہ ہر وقت امام یا نائب امام موجود ہوتا ہے اور جو کچھ وہ فرما دیتا ہے وہی ہمارے نزدیک نص قطعی ہے۔

فرقہ اسماعیلیہ

 

فرقہ اسماعیلیہ یعنی آغا خانیوں کے عقائد و نظریات اور قرآن و حدیث کی روشنی میں ان کے جوابات:

پہلا عقیدہ:

آغا خانیوں کا سلام “یاعلی مدد” اور سلام کا جواب “مولا علی مدد” ہے۔ بلکہ آغا خانیوں کے مطابق ہر وقت اٹھتے بیٹھتے گھر سے نکلتے وقت اور گھر میں داخل ہوتے وقت اور ملاقات کے وقت غرض ہر وقت یا علی مدد کہتے رہنا ہے۔

اہلِ سنت والجماعت کی طرف سے جواب یہ ہے کہ اہل سنت والجماعت کے نزدیک سلام کے الفاظ یہ ہیں کہ سلام کرنے والا “السلام علیکم” اور جواب دینے والا “وعلیکم السلام” کہے گا اور یہی بات قرآن اور احادیث سے ثابت ہے۔

دوسرا عقیدہ:

آغا خانیوں کے مطابق ان کا کلمہ ” اشهد ان لا اله الا الله واشهد ان محمد رسول الله واشهد ان علي الله” ہے۔

جبکہ اہل سنت والجماعت کی طرف سے جواب یہ ہے مسلمان ہونے کے لئے لازم ہے کہ کلمہ کے الفاظ صحیح ہوں اور کلمہ کے صحیح الفاظ یہ ہیں “لا الہ الا الله محمد رسول اللہ ” اس کے علاوہ کوئی دوسرا کلمہ پڑھنے والا اہل سنت والجماعت کے نزدیک مسلمان نہیں ہے۔

تیسرا عقیدہ:

آغا خانیوں کے مطابق وضو کی ہم کو ضرورت نہیں ہے کیونکہ کہ ہمارے دل کا وضو ہوتا ہے اور اسی وجہ سے پہلے جماعت خانے میں

وضو کی جگہ مقرر ہوتی تھی لیکن اب یہ نظریہ تبدیل ہوگیا ہے کہ دل کا وضو ہوتا ہے اس لئے جماعت خانے میں اب وضو کی جگہ بھی نہیں بنائی جاتی ہے۔

اسی طرح غسل بھی ان کے نزدیک ضروری نہیں ہے خواہ وہ غسل جنابت ہو یا غسل احتلام یا پھر غسل عورتوں کا ایامِ حیض سے

فارغ ہونے کا ہو یا ولادت کے بعد کا ہو یا کسی بھی اور حالت میں غسل ضروری نہیں ہے۔ لیکن صبح سویرے دعا کیلئے جماعت خانے میں حاضری لازمی ہوتی ہے۔

اہلِ سنت والجماعت کی طرف سے جواب یہ ہے کہ اہل سنت والجماعت کے نزدیک ان تمام حالتوں میں غسل کرنا فرض ہے۔

چوتھا عقیدہ:

آغا خانیوں کے نزدیک پانچ وقت کی نماز کی جگہ پر تین وقت کی دعا جو جماعت خانے میں ہوتی ہے یہی کافی ہے اور اس دعا میں قیام، رکوع اور قبلہ رخ ہونے کی بھی ضرورت نہیں ہوتی۔

آغا خانیوں کی عبادت کرنے کا نام دعا اس لیے رکھا ہوا ہے کہ یہ دین کی پہلی بنیاد ہے اور ہمیشہ کیلئے جماعت خانہ میں حاضر ہونا اور وہاں دعا کرنا ضروری ہے۔

اور اختتامِ دعا سے کچھ پہلے یہ دعا بھی پڑھی جاتی ہے:
“مولانا شاه كريم الحسينی الإمام الحاضر الموجود ارحمنا واغفرلنا”۔

اور یہ مذکورہ دعا آغا خان کی تصویر کے سامنے کی جاتی ہے۔ دعا کے بعد اسماعیلی اپنے دائیں اور بائیں بیٹھے ہوئے افراد خواہ وہ مرد ہو یا عورت اس سے مصافحہ کرتے ہیں اور زبان سے “شاہ جودیدار“ کہتے ہیں کہ آپ کو موجودہ امام آغا خان کا دیدار نصیب ہو۔

اہلِ سنت والجماعت کی طرف سے جواب یہ ہے کہ اہل سنت والجماعت کے نزدیک نماز کی ایک خاص کیفیت یعنی حالت ہے جس میں قیام، رکوع، سجدہ، قعدہ وغیرہ سب کچھ ہوتا ہے۔ اور اس نماز کا انکار کرنا بالاتفاق کفر ہے۔

پانچواں عقیدہ:

اسماعیلیوں کے مطابق روزہ آنکھ، کان اور زبان کا ہوتا ہے۔ اور کھانے پینے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ جبکہ آغاخانی لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ بھوکا رہنے سے کچھ بھی نہیں ملتا بلکہ ثواب تو جماعت خانے میں جا کر ہی ملتا ہے۔

جب کہ اہل سنت والجماعت والے اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ ہمارے نزدیک روزے کا وقت صبح صادق سے لے کر سورج کے غروب ہونے تک ہے اور اس دوران کھانے پینے اور بیوی سے جماع سے اپنے آپ کو روکے رکھنے کا نام روزہ ہے۔ یہی حکم قرآن

اور احادیث سے ثابت ہے اور روزہ کا انکار کرنا کفر ہے۔

چھٹا عقیدہ:

آغا خانیوں کے نزدیک زکوٰۃ کی بجائے اپنی آمدنی میں سے روپیہ میں دو آنہ فرض سمجھ کر جماعت خانے میں جمع کروانا ضروری ہے۔

اس پر یہ ثواب ہے کہ اگر یہ دسواں حصہ دیتے رہیں گے تو آپ کی آل اولاد میں اور مال میں برکت ہی برکت ہوگی اور وہ حسین ابن علی آپ کا ایمان سلامت رکھے گا۔

اس کا جواب یہ ہے کہ اہل سنت والجماعت کے نزدیک زکوۃ ہمارے نزدیک اڑھائی فیصد فرض ہے اور اس کیلئے مخصوص نصاب بھی مقرر ہے۔

ساتواں عقیدہ:

آغا خانیوں کے نزدیک حج موجودہ امام کے دیدار کا نام ہے۔ اور اس دیدار پر ان کا عقیدہ یہ ہے کہ جس کو امام حاضر کا دیدار نصیب ہوگا تو اس کے پہلے والے تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں اور اس کو حج کا ثواب ملتا ہے اور اس کو دیدار مبارک کہا جاتا ہے۔

اہل سنت والجماعت کی طرف سے جواب یہ ہے کہ ہمارے نزدیک حج ارکان اسلام میں سے ایک رکن ہے اور یہ حج ہر اس شخص پر فرض ہے جس کے اندر بیت اللہ جانے کی استطاعت ہو۔

مولانا یوسف لدھیانوی فرماتے ہیں کہ جب آغا خانی اسلام کے پانچوں ارکان کے منکر ہیں تو پھر ان کا اسلام اور مسلمانوں سے کیا تعلق ہے اور ان کو مسلمانوں کا ایک فرقہ کیسے تسلیم کیا جا سکتا ہے…؟

آٹھواں عقیدہ:

آغا خانی کہتے ہیں کہ ہمارے پاس تو بولتا ہوا قرآن یعنی حاضر امام موجود ہے جبکہ مسلمانوں کے پاس خالی قرآن ہے۔ آغا خانیوں کا عقیدہ یہ ہے کہ حضرت عثمان نے قرآن کو (معاذ اللہ) بدل دیا ہے۔ اور وہ اصل قرآن اب موجودہ امام کے پاس موجود ہے جو اصل

قرآن کے متعلق سوال کرتے ہیں تو وہ ان کو سناتے ہیں۔ نیز قرآن کے چالیس پارے تھے دس پارے امام کے گھر میں ہیں۔ ان دس پاروں کو وہ اتھروید کہتے ہیں امام کے زبان پر ہی دس پارے ہیں۔

آغا خانیوں کے مطابق موجودہ امام بولنے والا قرآن ہے۔ اس لئے اس کے ہر فرمان کے مطابق عمل کرنا چاہیے۔ اس کے فرمان پر

عمل کرنے والے دنیا میں فلاح پاتے ہیں۔ امام کا ہاتھ خدا کے ہاتھ کے برابر ہے اور امام کا چہرہ خدا کے چہرے کے برابر ہے۔ امام کا دیدار خدا کا دیدار ہے۔

جبکہ اس کے مقابل اہل سنت والجماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ قرآن مجید کا ایک ایک حرف جس طرح نازل کیا گیا تھا اسی طرح آج تک محفوظ ہے اور قیامت تک اسی طرح محفوظ رہے گا کیونکہ اس کی حفاظت کی ذمہ داری خود خالق کائنات نے لی ہے۔

نواں عقیدہ:

مذہبی پیشوا یعنی موجودہ امام چھینٹا ڈال کر گناہوں کی مغفرت کر دیتا ہے۔ آغا خانیوں کے نزدیک یہ چھینٹا ڈلوانا بہت ضروری ہے اور باعث ثواب ہے اور یہ عمل کئی مرتبہ کیا جاتا ہے۔ مثلاً:

پیدائش کے دس دن کے بعد یہ عمل تیس روپے جماعت خانہ میں جمع کروانے پر ہوتا ہے۔
جماعت خانے کی کسی بھی مجلس میں شرکت سے پہلے کم سے کم ایک روپیہ لازمی جمع کروانا ہوتا ہے اور زیادہ کی کوئی حد نہیں ہے۔

شادی کے دلہا دلہن کا چھینٹا میں مکھی صاحب کو پچاس روپے دولہا دلہن ادا کرنے کے بعد مکھی صاحب کو سجدہ کرتے ہیں۔ واضح

رہے کہ جماعت خانے کے مکھی صاحب کو امام کے قائم مقام کا مرتبہ حاصل ہے۔ اسی طرح سے جو سجدہ مکھی صاحب کو کیا جاتا ہے وہ دراصل موجودہ امام آغا خان کو ہی کیا جاتا ہے۔

جب کہ اہل سنت والجماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ گناہوں کو معاف کرنے والی ذات صرف اللہ تعالیٰ کی ہی ذات ہے اور سجدہ بھی اللہ کے سوا کسی دوسرے کو کرنا حرام ہے۔

دسواں عقیدہ:

آغا خانیوں کی بندگی کا مخصوص طریقہ یہ بھی اہل سنت والجماعت کے طریقہ کے بالکل خلاف ہے اور قرآن وحدیث کے بالکل مخالف ہے۔ غیر اللہ کو عبادت کی نیت سے سجدہ کرنے سے آدمی بالاتفاق دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔

گیارہواں اور بارہواں عقیدہ:

آغا خانیوں کے نزدیک امامت کا درجہ نبوت سے زیادہ ہے۔ اور آغا خانیوں کی کتابوں میں امام کی جو گیارہ صفات لکھی ہوئی ہیں ان کو ذیل میں بیان کیا جاتا ہے:

امام عَلم خدا کا خازن اور علم نبوت کا وارث ہوتا ہے۔
اس کا جوہر سماوی اور اس کا علم علوی ہوتا ہے۔

اس کے نفس پر اخلاق کا کوئی اثر نہیں ہو تا کیوں کہ اس کا تعلق اس عالَم سے ہے جو خارج از اخلاق ہے۔
امام اور دوسرے لوگوں میں وہی فرق ہے جو حیوان ناطق اور غیر حیوان ناطق میں ہے۔

ہر زمانے میں ایک امام کا موجود ہونا ضروری ہے۔
ضرف امام کو ہی دنیا پر حکومت کرنے کا حق حاصل ہے۔

ہر مؤمن کیلئے امام کی معرفت ضروری ہے۔
امام معصوم عن الخطاء ہو تا ہے اس سے خطا ہو ہی نہیں سکتی۔

امام کی معرفت کے بغیر نجات ناممکن ہے۔
اللہ تعالی کے جو اوصاف قرآن مجید میں بیان ہوئے ہیں ان سے حقیقتاً امام ہی مراد ہیں۔

اماموں کو شریعت میں ترمیم و تنسیخ کا اختیار حاصل ہوتا ہے۔
جبکہ یہ تمام باتیں اہل سنت والجماعت کے نزدیک شرک ہیں اور قرآن وحدیث میں ان سب کی کئی مقامات پر تردید کی گئی ہے۔

لہذا ان کا یہ عقیدہ بھی باطل ہے۔

تیرہواں عقیدہ:

آغا خانیوں کے نزدیک قیاس اور اجماع کی ضرورت نہیں ہے وہ اس لئے کہ امام یا نائب امام ہر وقت موجود ہوتا ہے تو اس کا ہر حکم قطعی ہوتا ہے اور اس کا حکم ماننا ہر حال میں ضروری ہے اس لئے اب قیاس اور اجماع کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔

جبکہ اہل سنت والجماعت کے نزدیک شریعت کے اصول چار ہیں:

قرآن
حدیث
اجماع
قیاس

اجماع کہتے ہیں کہ جس پر صحابہ اور بعد والوں لوگوں کا اتفاق ہو جائے۔

آغا خانیوں (اسماعیلیوں) کے بارے میں اہل فتاوی کی رائے
مولانا محمد یوسف لدھیانوی رحمہ اللہ کا فتوی:

سوال:

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے علاقہ چترال کے علاوہ گلگت، کراچی اور دیگر علاقوں میں اسماعیلی (آغا خانی) فرقہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی کافی تعداد آباد ہے جو اپنے آپ کو تو مسلمان کہلاتے ہیں لیکن ان کے عقائد اور

نظریات مختلف ہیں جو کہ ذیل ہیں بیان کیے جاتے ہیں:
ان کا کلمہ “اشهد ان لا اله الا الله واشهد ان محمد رسول الله و اشهد ان امیر المؤمنين علي الله” ہے۔

یہ لوگ آغا خان کو اپنا امام مانتے ہیں اور اس کو ہر نیک اور بری چیز کا مالک جانتے ہیں اور اس کی باتوں اور احکامات کو فرمان کا نام دیتے ہیں اور اس کے فرمان ماننے کو سب سے بڑا فرض سمجھتے ہیں۔

ظاہراً شرع کی پابندی نہیں کرتے بلکہ آغا خان کو بولنے والا قرآن، کعبہ اور سب کچھ جانتے ہیں ان کی کتابوں میں ہے کہ اس ظاہری قرآن میں جہاں کہیں “اللہ” کا لفظ آیا ہے اس سے مراد موجودہ امام (آغا خان) ہے۔

پانچ وقت کی نماز کے منکر ہیں اور نماز کی بجائے تین وقت کی دعاؤں کے قائل ہیں۔
مسجد کی بجائے “جماعت خانہ” کے نام سے اپنے لیے مخصوص عبادت خانہ بناتے ہیں۔

شرعی زکوٰۃ نہیں مانتے بلکہ اس کی بجائے اپنے ہر قسم کے مال کا ایک مخصوص حصہ مالِ واجب کے طور پر “دشوند ” کے نام سے آغا خان کے نام پر دیتے ہیں۔

رمضان المبارک کے روزہ کے منکر ہیں۔
حج کے بھی منکر ہیں اس کی بجائے آغا خان کے دیدار کو حج کہتے ہیں۔

السلام علیکم کی بجائے ان کا مخصوص سلام “یا علی مدد” ہے۔ جبکہ وعلیکم السلام کی بجائے “یا علی مدد” کے جواب میں وہ “مولا علی مدد” کہتے ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ:

ان عقائد و نظریات کی بنیاد پر یہ فرقہ مسلمان کہلانے کا مستحق ہے یا کافر ہے…..؟
ان کا نماز جنازہ جائز ہے؟

مسلمانوں کے قبرستان میں ان کو دفنانا جائز ہے؟
ان کے ساتھ نکاح کرنا جائز ہے؟

ان کا ذبیحہ کھانا حلال ہے؟
کیا ان کے ساتھ مسلمانوں جیسے معاملات کیے جا سکتے ہیں؟

ان تمام سوالات کے جواب صادر فرما کر مسلمانوں کے الجھنوں کو دور فرمائیں۔
جواب:

الحمد لله وسلام علیٰ عباده الذين اصطفیٰ:

جس شخص کو اسلامی تعلیمات اور آغا خانی عقائد و نظریات کے بارے میں اگر تھوڑا بہت بھی علم ہو تو اسے اس امر میں قطعاً کوئی شبہ نہیں ہو گا کہ آغا خانی جماعت بھی قادیانیوں کی طرح زندیق و مرتد ہے۔ چنانچہ شروع اسلام سے لے کر آج تک تمام اہل علم ان

کے کفر وارتداد اور زندقہ والحاد پر متفق ہیں۔ جو لوگ جہالت اور ناواقفی کی وجہ سے آغا خانیوں کو بھی مسلمانوں ہی کا ایک فرقہ سمجھتے ہیں ان کی بے خبری ولا علمی حد درجہ لائق افسوس اور لائق صد ماتم ہے۔

آغا خانیوں کی دعوت ہمیشہ خفیہ، پراسرار اور ایک خاص حلقے تک محدود رہی ہے۔ لیکن انہیں عام بندوں تک اپنے عقائد باطلہ کی تبلیغ کی کبھی جرات نہیں ہوئی۔ لیکن اس موجودہ دور میں مسلمانوں کی کمزوری، پسماندگی اور غفلت شعاری نے ان باطنی ڈاکوؤں کے

حوصلے بلند کر دیے ہیں اور انہوں نے ایسے منصوبے بنانے شروع کر دیے ہیں کہ جن کے ذریعے مسلمانوں کے بچے کھچے ایمان کے سرمایہ کو بھی لوٹ لیا جائے۔

ان سازشی منصوبوں میں رفاہی اداروں کا جال سب سے زیادہ کامیاب شیطانی حربہ ہے۔ کیونکہ حکمرانوں سے لے کر عوام تک سب کی گردنیں “بت زر” کے آگے جھکی ہوئی ہیں۔ دین وایمان کے ڈاکوؤں کو مسلمانوں کی خدمت و پاسبانی کی سرکاری و عوامی

سند مل جاتی ہے۔ اور انہیں مسلمانوں میں اپنے زندیقانہ نظریات و کافرانہ عقائد پھیلانے کا موقع بغیر کسی روک ٹوک کے میسر ہو جاتا ہے۔

ان حالات میں آغا خان فاونڈیشن کا قیام مسلمانوں کے وجود ملی کے لئے سم قاتل ہے۔ اور اس کی رکنیت قبول کرنا، اس سے تعاون

کرنا اور اس سے کسی قسم کی مدد لینا ایمانی غیرت کا جنازہ نکال دینے کے مترادف ہے اور یہ ایک ایسا اجتماعی جرم ہے جس کی سز اخد اتعالیٰ کے قہر اور عذاب کی شکل میں نازل ہوگی۔

مسلمانوں کو آغا خانیوں کے اس جال سے بچانے کیلئے حکومت کا فرض ہے کہ وہ اس ادارے کے قیام کا اجازت نامی منسوخ کرے اور مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ اس سازشی فاؤنڈیشن کا بائیکاٹ کریں اور اس علاقے کے علماء و صلحاء کا فرض ہے کہ وہ کھل کر اس

سازش کو بے نقاب کریں اور حکومت کے سامنے اس کے خلاف پر زور احتجاج کریں۔ جو شخص اس فاؤنڈیشن کے ساتھ کسی قسم کا تعاون کرے گا یا تعاوان لے گا وہ کل بروز قیامت خدا اور سول کے باغیوں کی صف میں اٹھایا جائے گا۔

 

فرقہ اسماعیلیہ

حضرت مولانا مفتی رشید احمد لدھیانوی رحمہ اللہ کا فتویٰ:

 

آغا خانی مرتد اور زندیق ہیں اور آغا خانیوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ لوگ بلا شبہ کافر اور مرتد ہیں اور واجب القتل ہیں لہذا ایسے لوگوں سے کسی قسم کا تعاون کرنا در حقیقت چند پیسوں کی خاطر ایمان کو فروخت کرنا ہے۔ حکومت پر فرض ہے کہ سادہ

لوح مسلمانوں کو مرتدین کے چنگل سے نجات دلائے اور اسلام کے ان دشمنوں کو عبرت ناک سزا دے وہاں کے علماء اور صلحاء اور بااثر لوگوں پر بھی یہ فرض ہے کہ جلد از جلد اس بارے میں مؤثر اقدامات کریں اورعوام پر ان لوگوں کا کفر وزندقہ واضح کیا جائے تا

کہ اس خطر ناک حربہ سے دنیا و آخرت تباہ نہ کریں۔ وہاں کے مسلمانوں کو پھر باور کرایا جائے کہ آغا خانیوں کے ادارہ میں شرکت خواہ کسی بھی درجہ میں ہو یا کسی قسم کا تعاون یا کسی تنظیم کا ممبر وغیرہ بننا ناجائز اور حرام ہے۔

دار الافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی کا فتویٰ:

 

آغا خانیوں کا فرقہ باجماع المسلمین کافر ہے اور زندیق والے احکام ان پر جاری ہوں گے۔ اس لئے کہ ہر وقت وہ اس کوشش میں رہتے ہیں کہ کسی طرح مسلمانوں کو نقصان پہنچے وہ مسلمانوں کے خیر خواہ نہ پہلے تھے اور نہ اب وہ مسلمانوں کے خیر خواہ ہیں بلکہ

مسلمانوں کو نقصان پہنچانا اور دھوکہ دینا ان کے نزدیک اہم عبادت اور ثواب ہے چنانچہ ابن کثیر نے “البدایہ والنہایہ“ میں لکھا ہے کہ تاتاریوں نے جب دمشق پر حملہ کیا تھا تو ان اسماعیلیوں نے ان کا ساتھ دے کر مسلمانوں کو تباہ و برباد کرنے کی ناکام کوشش

کی تھی چنانچہ یہ فرقہ کبھی مسلمانوں کا دوست نہیں ہو سکتا ہے۔ یہ خدا اور رسول کا دشمن ہیں تو اب ظاہر ہے کہ ایک مسلمان کے لئے کس طرح ان کے ساتھ دوستی یا ان کے فاؤنڈیشن یا ان کی کسی تنظیم میں شرکت جائز ہے ل…؟؟ جب کہ اللہ تعالی نے بھی

قطعاً یہ حرام کیا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے:

لَا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللّٰهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوْا آبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْ أُولٰئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الْإِيمَانَ

ترجمہ: آپ نہیں پائیں گے کسی قوم کو جو ایمان لائے اللہ پر اور آخرت کے دن پر (پھر) وہ محبت کرے ان سے جن سے اللہ اور اس

کا رسول دشمنی کرتے ہیں اگر چہ وہ ان کے باپ یا بیٹے یا بھائی یا قبیلہ والے ہوں یہی وہ لوگ ہیں جن کے دل میں اللہ نے ایمان لکھ دیا ہے۔

دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا:

أَلَمْ تَرَ إِلَى ٱلَّذِينَ تَوَلَّوْاْ قَوْمًا غَضِبَ اللّٰهُ عَلَيْهِم مَّا هُم مِّنكُمْ وَلَا مِنْهُمْ وَيَحْلِفُونَ عَلَى ٱلْكَذِبِ وَهُمْ يَعْلَمُونَ۔ اَعَدَّ اللّٰهُ لَهُمْ عَذَابًا شَدِیْدًا۔ اِنَّهُمْ سَآءَ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۔

ترجمہ: کیا آپ نے نہیں دیکھا ان لوگوں کو کہ جنہوں نے دوستی کی ایسی قوم سے کہ ان پر اللہ ناراض ہوا نہ وہ تم میں سے ہے اور نہ ان میں سے اور وہ قسم کھاتے ہیں جھوٹ ہو اور وہ جانتے ہیں۔ اللہ نے ان کے لئے درد ناک عذاب تیار کیا ہے۔ برا ہے جو وہ کرتے ہیں۔
دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا:

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّیْ وَ عَدُوَّكُمْ اَوْلِیَآءَ تُلْقُوْنَ اِلَیْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ وَ قَدْ كَفَرُوْا بِمَا جَآءَكُمْ مِّنَ الْحَقِّ

ترجمہ: اے ایمان والو نہ بناؤ میرے اور اپنے دشمن کو دوست کہ تم دوستی کا پیغام ان کو دو حالانکہ انہوں نے کفر کیا ہے حق سے۔

ان تمام آیتوں سے واضح معلوم ہو رہا ہے کہ مشرکین اور دین کے دشمنوں سے دوستی رکھنا جائز نہیں اور نہ ان سے مالی امداد اور ہدیہ قبول کرنا جائز ہے۔

حضرت سلیمان علیہ السلام کا واقعہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ذکر فرمایا ہے کہ انہوں نے مشرکین کے ہدیہ کو قبول نہیں فرمایا:
فَلَمَّا جَآءَ سُلَیْمٰنَ قَالَ اَتُمِدُّوْنَنِ بِمَالٍ فَمَاۤ اٰتِن ےَ اللّٰهُ خَیْرٌ مِّمَّاۤ اٰتٰىكُمْ بَلْ اَنْتُمْ بِهَدِیَّتِكُمْ تَفْرَحُوْنَ۔

جب (قاصد) آیا سلیمان کے پاس فرمایا کہ تم مال کا مجھے لالچ دیتے ہو جو اللہ نے مجھے دیا ہے وہ تمہارے دینے سے بہتر ہے بلکہ تم ہی اپنے مال پر خوش رہو۔

بعض مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تالیف قلب اور کسی مصلحت کی وجہ سے مشرکین کو تحائف دیے بھی اور ان سے قبول بھی کیے ہیں۔ لیکن علامہ آلوسی رحمہ اللہ کی تحقیق کے مطابق اگر دینی مصالح اور امورِ دینیہ میں خلل پڑتا ہو تو پھر ان کے تحائف قبول

کرنا جائز نہیں ہے۔ عمدۃ القاری میں علامہ عینی نے اور سنن ابو داؤ میں امام ابو داؤد نے کعب بن مالک اور عیاض بن حماد کی روایت

نقل کی ہے کہ جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ “انی لا اقبل هدية مشرك” کہ “میں مشرکین کا ہدیہ قبول نہیں کرتا” اور ” انی غيبت عن زبد المشركين” اور “مشرکین کی دوستی سے دور رہتا ہوں”

ان تصریحات سے معلوم ہوا کہ غیر مسلم کے ساتھ دوستی بھی جائز نہیں ہے اور ان کی امداد کو قبول کرنا بھی جائز نہیں ہے کیونکہ یہ

در حقیقت نہ ہدیہ ہے اور نہ مدد بلکہ یہ مسلمانوں کو گمراہ کرنے اور بے دین بنانے کی ایک سازش ہے جو عیسائی مشنریوں کی طرز پر چلائی جارہی ہے۔

جب اسلام کی نظر میں ان کا ہدیہ قبول نہیں تو ظاہر ہے کہ نہ ان سے کسی قسم کے مالی فوائد بصورت امداد اور ہدیہ لینا جائز ہے اور نہ ان کی فاونڈیشن اور نہ کسی تنظیم میں شرکت جائز ہے۔ اور دوسرے کافروں کی امداد پر بھی اس کو قیاس نہیں کیا جاسکتا کیونکہ وہ

امداد حکومتی سطح پر ہوتی ہے اور اس سے عام مسلمانوں کی زندگی اور دین کے متاثر ہونے کا خطرہ نہیں ہے۔ جبکہ مذ کورہ امداد سے عام مسلمانوں کی انفرادی زندگی متاثر ہونے کا خطرہ ہے اور مسلمانوں کے مرتد اور زندیق بننے کا قوی احتمال ہے لہذا ان کے ساتھ

کسی قسم کی شرکت اور ان کی امداد قبول کرنا حرام ہے۔ “مَنْ كَثُر سَوَادَ قَوْمٍ فهو منهم” (جس نے کسی قوم کی تعداد کو زیادہ کیا تو وہ انہی میں سے ہے)۔

اب علماء اور عام دیندار مسلمانوں پر اس کا تدارک فرض ہے ورنہ وہ خدا کے ہاں جوابدہ ہوں گے۔

 

فرقہ اسماعیلیہ
دارالعلوم کراچی نمبر 14 کا فتویٰ:

 

آغا خانی دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔ یہ کافراور زندیق ہیں۔ قرآنی آیات کے مطابق کفار مسلمانوں کے بدترین دشمن ہیں اور مزید یہ کہ کافروں کے ساتھ محبت کرنا اور ان کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرنا ناجائز اور حرام ہے اور ہر وہ چیز جو حرام کا سبب بنے وہ

چیز بھی حرام ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ہمیشہ کافروں نے سازشوں سے مال اور سامان کا لالچ دے کر مسلمانوں کے ایمان کو لوٹنے کی کوشش کی ہے۔ اس لئے آغا خانیوں کا ترقیاتی کاموں کے نام پر مسلمانوں کو جھانسا دے کر ان کو آہستہ آہستہ اپنے مسلک سے

 

 

قریب کرنے کی ایک گہری سازش ہے۔ اگر ان کے ساتھ قرض وغیرہ کے معاملات جائز رکھے جائیں تو سادہ مسلمان ان کو مسلمانوں کا ایک فرقہ سمجھنے لگیں گے چنانچہ بہت سارے مسلمانوں کو اب بھی ان کے کافر ہونے کا علم نہیں۔ لہذا آغا خان

فاونڈیشن کا ممبر بننا قطعاً ناجائز اور حرام ہے اور مسلمانوں پر واجب ہے کہ ان کیلئے کوئی نرم گوشہ اختیار نہ کریں اور علاقہ کے علماء اور بااثر لوگوں پر ضروری ہے کہ وہ لوگوں کو وعظ و نصیحت کے ذریعے سے اس کا ممبر بننے سے منع کریں اور حکومت سے مطالبہ کریں

کہ وہ آغا خانیوں کی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھے اور جو لوگ فاونڈیشن کا ممبر بننے کی لوگوں کو ترغیب دیتے ہیں انہیں پہلے سمجھایا جائے اگر وہ ترغیب دینے سے ہی باز آجائیں تو ٹھیک ورنہ ان کے ساتھ قطع تعلق کیا جائے۔

دارالافتاء دارالعلوم نعیمیہ کا فتویٰ:

آغا خانیوں (اسماعیلیوں) کے عقائد ونظریات کے متعلق جو کچھ بیان کیا جاتا ہے اگر وہ درست ہے تو ہر ایسے معاملہ میں کہ جس سے اسلامی عقائد متاثر ہوتے ہوں تو ایسے معاملات میں ان سے تعاون اور فوائدہ حاصل کرنا قطعاً درست نہیں بلکہ باعثِ گناہ ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَتَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوىٰ وَلا تَعَاوَنُوْا عَلَى الإثْمِ وَالْعُدْوَانِ

ترجمہ: نیکی اور تقویٰ پر تعاون کرو اور گناہ اور دشمنی پر تعاون نہ کرو۔
جو مسلمان ان سے اس طرح کا تعاون کریں گے جو ان کے فروغ کا سبب ہوگا تو وہ گناہ گار ہوں گے اور آخرت میں ان سے مواخذہ بھی ہوگا۔

دار الافتاء دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کا فتویٰ:

آغا خانی ضروریاتِ دین کے انکار کی وجہ سے بغیر کسی شک و شبہ کافر ہیں اور اسلام سے خارج ہیں۔ اور ان سے دوستانہ تعلقات رکھنا حرام ہے۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:

لَا یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْكٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَلَیْسَ مِنَ اللّٰهِ فِیْ شَیْءٍ اِلَّاۤ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْهُمْ۔
ترجمہ: مؤمنین مؤمنین کو چھوڑ کر کافروں سے دوستی نہ کریں اور جو ایسا کرے گا تو اللہ پر کوئی ذمہ نہیں مگر یہ کہ تم بچو ان سے۔

یہ فرقے اقلیت میں ہونے کی وجہ سے اور مذہبی دلائل سے محروم ہونے کی وجہ سے نہ سیاسی تحریک کی ہمت رکھتے تھے اور نہ ہی اپنی کفریہ عقائد کی دعوت دینے کے ارادے رکھتے تھے۔ مگر اس موجودہ دور میں یہ فرقے اپنی کثرتِ مال کو دیکھ کر تنظیموں کے

داموں میں کم علم اور سادہ لوح لوگوں کو پھنسانا چاہتے ہیں اور اس مکر و فریب کی سے سیاسی عروج اور اپنے عقائد کی دعوت میں کامیابی کا ارادہ رکھتے ہیں پس اس بنیاد پر ان کی تنظیموں میں کوئی حصہ لینا اسلام سے دشمنی ہے۔

مدرسہ مظاہر علوم سہارنپور (یوپی، ہند) کا فتویٰ:

عرصہ دراز سے فرقہ اسماعیلیہ پر کفر کا فتویٰ ہے اور جو ایسے گھرانے میں پیدا ہو وہ بھی کافر ہے اور جس نے بذاتِ خود اسلامی عقائد چھوڑ کر فرقہ اسماعیلیہ کے عقائد اختیار کیے وہ مرتد ہے۔ اور مرتد کے احکام بہت سخت ہیں۔ مرتد کے ساتھ سلام کرنا، بات چیت

کرنا، اس کے اٹھنا بیٹھنا اور خرید و فروخت کا معاملہ کرنا جائز نہیں ہے۔ اسلامی حکومت میں ایسے شخص کو (اگر وہ تین دن میں اسلام قبول نہ کرے) قتل کر دیا جاتا ہے۔

دارالعلوم دیوبند کا فتویٰ:

اس فرقہ کے متعلق جو عقائد بیان کیے گئے ہیں اگر وہ صحیح ہیں تو ان کے کافر ہونے میں کسی قسم کا کوئی شک و شبہ نہیں ہے اور ان کے مرنے والے کے ساتھ وہ تمام مذ ہبی معاملے جائز نہیں جو مسلمانوں کے ساتھ مخصوص ہیں۔ پس نہ نمازِجنازہ درست ہوگی نہ

مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنا اور اسی طرح ان کے ساتھ نکاح کرنا بھی جائز نہیں اور نہ ان کا ذبیحہ جائز ہو گا اور نہ مسلمانوں کا جیسا برتاؤ کرنا۔

فرقہ اسماعیلیہ
آغا خانیوں (یعنی اسماعیلیوں) کے بارے میں مزید تحقیق کیلئے درج ذیل کتابوں کا مطالعہ مفید ہو گا:

ہمارا اسماعیلی مذہب اور اس کا نظام۔ “ڈاکٹر زاہد علی”

تاریخ فاطمیین۔ “ڈاکٹر زاہد علی”
فردوس بریں۔ “مولانا عبد الحلیم شرر”
حسن بن صباح۔ “مولانا عبد الحلیم شرر”

الاسماعیلیہ (عربی)۔ “علامہ احسان الہی ظہیر شہید”
اسماعیلیہ اور عقیدہ امامت کا تعارف تاریخی نقطہ نظر سے۔ “سید تنظیم حسین”
آغا خانیت کی حقیقت۔ “مولانا عبد اللہ چترالی”

آغا خانیوں کے زیر زمین منصوبے۔ “مولانا عبد اللہ چترالی”
مذہب اسماعیلیہ قرآن و سنت کی روشنی میں۔ “مولانا عبد اللہ چترالی”
آغا خانیوں کے سیاسی عزائم۔ “زکریا رازی”

آغا خانی کافر ہیں علماء اسلام کا متفقہ فیصلہ۔ “قاری فیض اللہ چترالی”
آغا خانیت کیا ہے؟۔ “قاری فیض اللہ چترالی”
ہمارے بھی مہربان کیسے کیسے

اسماعیلی معبود
آغا خان فاونڈیشن چترال
جماعت خانہ سے مسجد تک۔ “علی بن علی”

حقیقت اسماعیلیہ یا اسماعیلی طریقت ایک منفرد طریقہ۔ “اکبر علی مہر علی”
آغا خانیوں میں بیداری کے آثار
جماعت خانہ سے عدالت عالیہ سندھ تک

الاسماعیلیہ (عربی) وشی من عقائدها و افکارها
آغا خانی اسماعیلیوں کی تاریخ۔ “اکبرعلی مہرعلی”
مذاہب الاسلام۔ “مولانا نجم الغنی رام پوری”

آغا خانیت علماء امت کی نظر میں۔ “مولانا فیض اللہ چترالی”
الحكم الحقانی فی الحزب الآغا خانی۔ “حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی”

FRQA Meaning

What Does FRQA Stand for

Leave a Comment