Qanoon e wirasat | warson ka bian | wirasat ka qanoon | islami qanoon wirasat | the best division of inheritence in islam (2023) | bivi ka haq | bap ka haq |shoher ka haq | | وارثوں کا بیان اور ان کی اقسام

 

warson ka bian

وارثوں کا بیان اور ان کی قسمیں:

 

عمومی طور پر جو وارث پائے جاتے ہیں انکی تین قسمیں ہیں:

1۔ ذوی الفروض۔ 2۔ عصبات نسبی۔ 3۔ ذوی الارحام

01۔ ذوی الفروض: سے مراد وہ وارث ہیں کہ جن کا حصہ شریعت میں پہلے سے مقرر اور متعین ہے۔

02۔ عصبات نسبی: سے مراد وہ وارث ہیں جو میت سے نسبی تعلق رکھتے ہوں یعنی وہ مرد رشتہ دار کہ جن کے رشتہ میں عورت کا ذریعہ اور واسطہ نہ ہو اور

شریعت میں ان کا کچھ حصہ مقرر نہ ہو بلکہ ذوی الفروض کے پورے حصے نکال لینے کے بعد جو کچھ مال باقی رہے وہ ان کو مل جائے گا اور اگر باقی نہ رہے تو یہ محروم رہیں گے۔

03۔ ذوی الارحام: سے مراد وہ وارث ہیں کہ جن کا حصہ بھی شریعت میں مقرر نہیں ہے اور میت میں اور ان وارثوں میں عورت کے واسطے سے رشتہ قائم ہو یا وہ خود ہی عورت ہو۔

 

 

 

 

جب میت کے ذوی الفروض اور عصبات نسبی میں سے کوئی وارث بھی موجود نہ ہو تو پھر ذوی الارحام وارث بنتے ہیں۔

تنبیہ: اگر کسی میت کے مذکورہ بالا تینوں قسموں میں سے کوئی بھی وارث نہ ہو یا کوئی وارث تو ہو مگر کسی کو وارث معلوم نہ ہو تو اس کا مال اسلامی حکومت کے

بیت المال میں جمع کیا جائے گا اور اس مال کو رفاہی کاموں، دفاع اور مدارس وغیرہ کی ضروریات میں خرچ کیا جائے گا لیکن چونکہ آج کل کوئی ایسا تسلی بخش انتظام نہیں ہے لہذا میت کا ترکہ اب پھر فقراء پر صدقہ کر دیا جائے گا۔

warson ka bian

ذوی الفروض کا بیان:

 

ذوی الفروض یعنی وہ وارث کہ جن کا حصہ شریعت نے مقرر و معین کر دیا ہے وہ کل تیرہ ہیں۔ جن میں سے چار مرد اور نو عورتیں ہیں جو یہ ہیں میت کا باپ،

دادا، ماں شریک بھائی، شوہر، بیوی، ماں، بیٹی، پوتی، حقیقی بہن، باپ شریک بہن، ماں شریک بہن، دادی، نانی۔
اب ذیل میں ان میں سے ہر ایک کے حالات بیان کیے جاتے ہیں:

01۔ میت کا باپ:

اس کی تین صورتیں ہیں:

01۔ جب میت کا کوئی بیٹا یا بیٹے کی مذکر اولاد یا پوتے کی مذکر اولاد ہو تو باپ کو چھٹا حصہ ملے گا۔
02۔ میت کی نرینہ اولاد کسی درجے میں بھی نہ ہو بلکہ بیٹی، پوتی یا پڑپوتی موجود ہو تو پھر بھی باپ کو چھٹا حصہ ملتا ہے اور پھر باقی ترکہ ذوی الفروض کو دینے

کے بعد کچھ بچے تو وہ بھی باپ کو (اس کےعصبہ ہونے کی وجہ سے) دیا جاتا ہے۔
03۔ اگر میت کی نہ بیٹی ہے نہ بیٹا ہے نہ بیٹے کی اولاد ہے اور نہ ہی پوتے پڑپوتے کی اولاد ہے تو اس صورت میں دیگر ذوی الفروض کو ان کے حصے دینے کے

بعد باقی سارا مال باپ کو ملے گا۔

02۔ میت کا دادا:

اگر میت کا باپ زندہ ہوتو دادا کو کچھ حصہ نہیں ملتا کیونکہ باپ کا درجہ قریب ہے اور اسی وجہ سے اس کی موجودگی میں دادا مستحق نہیں ہو سکتا۔ البتہ جب

باپ موجود نہ ہو تو دادا کو بالکل اسی طرح وہی حصے ملتے ہیں جو باپ کو ملتے ہیں۔

03۔ میت کا ماں شریک بھائی:

وہ بھائی جو صرف ماں شریک ہے اور باپ دونوں کا الگ الگ ہے تو اس کو اخیافی بھائی بھی کہتے ہیں اور اس کی بھی تین صورتیں ہیں:

01۔ اگر میت کے باپ دادا موجود ہوں یا اس کا بیٹا، بیٹی، پوتا، پوتی وغیرہ میں سے کوئی بھی موجود ہو تو ماں شریک بھائی کو کچھ نہیں ملتا۔
02۔ اور اگر مذکورہ بالا وارثوں میں سے کوئی بھی موجود نہ ہو تو پھر اگر ماں شریک بھائی صرف ایک ہو تو اس کوکل ترکہ کا چھٹا حصہ ملتا ہے۔

03۔ اور اگر بھائی ایک سے زیادہ ہوں خواہ وہ سارے صرف بھائی ہوں یا ماں شریک بہنیں بھی ساتھ ہوں تو ان سب کو کل ترکہ کا ایک تہائی ملے گا جو یہ سب آپس میں برابر برابر تقسیم کریں گے۔

تنبیه: یہ خصوصیت صرف ماں شریک بہن بھائیوں کی ہے کہ مرد اور عورت دونوں کو برابر حصہ ملتا ہے ورنہ ان کے علاوہ ہر جگہ یہی قانون ہے کہ مرد کا حصہ عورت سے دو گنا ہوتا ہے۔

04۔ میت کا شوہر:

میت کے شوہر کی دو صورتیں ہیں:

01۔ اگر بیوی نے اپنا کوئی بیٹا، بیٹی، پوتا، پوتی، پڑپوتا، پڑپوتی نہیں چھوڑی تو پھر شوہر کو بیوی کے ترکہ کا نصف ملتا ہے۔

02۔ اور اگر بیوی کی مذکورہ بالا اولاد میں سے کوئی موجود ہو تو پھر شوہر کو کل ترکہ کا چوتھائی حصہ ملے گا خواہ بیوی کی یہ اولاد اسی شوہر سے ہو یا اس کے سابقہ شوہر سے ہو۔

05۔ میت کی بیوی:

اس کی بھی دو صورتیں ہیں:

01۔ اگر شوہر کا کوئی بیٹا، بیٹی، پوتا، پوتی، پڑپوتا اور پڑپوتی میں سے کوئی بھی موجود نہ ہو تو کل ترکہ میں سے چوتھائی حصہ بیوی کو ملے گا۔

02۔ اگر شوہر کے مذکورہ بالا وارثوں میں سے کوئی موجود ہوں (خواہ وہ وارث اسی بیوی سے ہوں یا کسی اور بیوی سے ہوں) تو پھر بیوی کو صرف آٹھواں حصہ ملے گا۔

تنبیہ: جس اولاد کی وجہ سے شوہر اور بیوی کا حصہ کم ہو جاتا ہے وہ اولاد یہ ہے:
بیٹا، بیٹی، پوتا، پوتی، پڑپوتا اور پڑپوتی۔

لہذا اگر کسی میت کے نواسہ، نواسی یا نواسی کی اولاد یا پوتی کی اولاد ہو (جب کہ خود میت کی بیٹی اور پوتی زندہ نہ ہوں) تو اس کی وجہ سے شوہر اور بیوی کے حصوں میں کچھ کمی نہیں آئے گی۔

06: میت کی والدہ:

میت کی والدہ کی بھی تین صورتیں ہیں:
01۔ اگر میت کے بیٹا، بیٹی، پوتا، پوتی، پڑپوتا، پڑپوتی یا ان میں سے کوئی بھی موجود ہو تو پھر والدہ کو کل ترکہ میں سے چھٹا حصہ ملے گا۔ اور اگر میت کے دو

بھائی بہن موجود ہوں تب بھی والدہ کو صرف چھٹا حصہ ملے گا یہ بھائی بہن خواہ کسی قسم کے بھی ہوں حقیقی ہوں یا باپ شریک ہوں یا ماں شریک ہوں جب ایک سے زیادہ ہوں گے تو والدہ کو چھٹے حصے سے زیادہ نہیں ملے گا۔

02۔ اگر مرد کا انتقال ہوا اور اس کے وارثوں میں اس کی بیوی اور باپ اور ماں موجود ہیں یا عورت کا انتقال ہوا ہے اور اس کے شوہر اور باپ اور ماں وارث ہیں تو شوہر یا بیوی کا شرعی حصہ نکالنے کے بعد باقی جو بچے اس میں سے ایک تہائی حصہ والدہ کو ملے گا۔

03۔ اگر مذکورہ بالا وارثوں میں سے کوئی بھی موجود نہ ہو تو میت کی والدہ کو کل ترکہ میں سے تہائی حصہ ملے گا یعنی والدہ کو کل ترکہ میں سے تہائی ملنے کے لیے تین شرطیں ضروری ہیں:

پہلی شرط یہ ہے کہ میت کے بیٹا، بیٹی، پوتا، پوتی، پڑپوتا اور پڑپوتی وغیرہ نہ ہوں۔ دوسری شرط یہ ہے کہ میت کے دو یا دو سے زیادہ بہن بھائی نہ ہوں۔ تیسری شرط یہ ہے کہ میت کے شوہر اور باپ دونوں اکٹھے زندہ نہ ہوں۔

 

07۔ میت کی بیٹی:

 

اس کی بھی تین صورتیں ہیں:
01۔ اگر میت کی صرف ایک بیٹی ہو اور کوئی بیٹا نہ ہو تو بیٹی کو میت کے ترکہ کا نصف ملے گا۔

02۔ اور اگر دو بیٹیاں یا دو سے زائد بیٹیاں ہوں اور کوئی بیٹا نہ ہو تو ان سب کو کل ترکہ کا دو تہائی حصہ ملے گا جو ان میں برابر برابر تقسیم ہوگا۔

 

 

 

03۔ اگر بیٹیاں خواہ ایک ہو یا زائد ہوں ان کے ساتھ میت کا بیٹا بھی موجود ہو تو پھر اس صورت میں بیٹی کا کوئی مقرر حصہ نہیں ہے بلکہ دیگر ذوی الفروض

کو ان کے حصے دینے کے بعد باقی مال بیٹے بیٹیوں میں اس طرح سے تقسیم کیا جائے گا کہ بیٹے کو بیٹی کا دو گنا حصہ ملے گا۔

08۔ میت کی پوتی:

اس کی چھ صورتیں ہیں:

01۔ اگر میت کے بیٹا اور بیٹی موجود نہ ہوں اور صرف ایک پوتی ہو تو اس کو کل ترکہ کا نصف ملے گا۔

02۔ اگر میت کے بیٹا اور بیٹی موجود نہ ہوں اور صرف دو یا دو سے زائد پوتیاں ہوں تو ان کو کل ترکہ کا دو تہائی حصہ ملے گا جو ان میں برابر برابر تقسیم ہوگا۔

03۔ اگر میت کے بیٹا اور بیٹی نہ ہوں ایک پوتی یا کئی پوتیاں ہوں اور ان کے ساتھ کوئی پوتا بھی ہو تو دیگر ذوی الفروض کو ان کا حصہ دینے کے بعد جو مال باقی بچے گا وہ پوتے پوتیوں میں تقسیم ہوگا اور تقسیم بھی اس طور پر ہوگا کہ پوتے کو پوٹ کا دو گنا حصہ ملے گا۔

04۔ اگر میت کا بیٹا یا پوتا نہ ہو لیکن صرف ایک بیٹی موجود ہو تو پوتیوں کو صرف چھٹا حصہ ملے گا خواہ ایک پوتی ہو یا ایک سے زیادہ ہوں۔
05۔ اگر میت کا بیٹا یا پوتا نہ ہو اور دو یا دو سے زیادہ بیٹیاں ہوں تو پھر پوتی کو کچھ بھی حصہ نہیں ملے گا۔

06۔ اور اگر میت کا ایک بھی بیٹا موجود ہو تو پھر پوتیاں اور پڑپوتیاں محروم رہتی ہیں پھر ان کو کچھ بھی نہیں ملتا۔

 

09۔ میت کی حقیقی بہن:

اس کی پانچ صورتیں ہیں:

01۔ اگر میت کا کوئی بیٹا، بیٹی، پوتا، پوتی نہ ہوں اور ایک حقیقی بہن موجود ہو تو اس کو میت کے ترکہ میں سے نصف حصہ ملے گا۔
02۔ اگر میت کا کوئی بیٹا، بیٹی، پوتا، پوتی نہ ہو اور دو یا دو سے زیادہ حقیقی بہنیں موجود ہوں تو ان کو ترکہ کا دو تہائی حصہ ملے گا جو ان میں برابر برابر تقسیم ہوگا۔

03۔ اگر میت کی بیٹی یا پوتی موجود ہو خواہ ایک ہو یا ایک سے زیادہ تو اس صورت میں ذوی الفروض کو ان کا حصہ دینے کے بعد جو کچھ ترکہ باقی رہے گا وہ میت کی حقیقی بہن کو ملے گا۔

مذکورہ بالا تینوں صورتیں اس وقت کی ہیں کہ جب حقیقی بھائی موجود نہ ہو۔
04۔ اور اگر میت کے حقیقی بھائی موجود ہوں خواہ ایک ہو یا ایک سے زیادہ ہوں تو ذوی الفروض کو ان کے حصے دینے کے بعد جو ترکہ کا مال باقی بچے وہ ان

 

بہن بھائیوں میں اس طرح تقسیم ہوگا کہ بھائی کا حصہ بہن کے حصے کا دو گنا ہوگا۔
05۔ اور اگر میت کے باپ، دادا، یا بیٹا، پوتا، پڑپوتا وغیرہ ان میں سے کوئی بھی موجود ہوں تو پھر حقیقی بہن کو کچھ نہیں ملے گا۔

 

10۔ میت کی باپ شریک بہن:

اور اگر میت کی حقیقی بہن نہ ہو تو باپ شریک بہن اس کے قائم مقام ہو جائے گی اور مذکورہ بالا پانچوں صورتیں میں سے سوائے چوتھی صورت کے باقی حصے وہی ہوں گے جو حقیقی بہن کے ہیں۔

11۔ میت کی ماں شریک بہن:

جو حصے ماں شریک بھائی کے ہیں (جن کو نمبر 03 پر بیان کیا گیا ہے) وہی حصے ماں شریک بہن کے بھی ہیں کیونکہ دونوں کا حال بالکل ایک جیسا ہے۔

warson ka bian

12۔ میت کی دادی:

 

یہاں پر دادی سے مراد صرف باپ کی ماں مراد نہیں بلکہ باپ کی دادی اور باپ کی نانی وغیرہ کو بھی شریعت میں دادی اور جدہ کہتے ہیں۔ لہذا تین پشتوں تک دادی کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ:

پہلی پشت: باپ کی ماں

دوسری پشت: دادا کی ماں۔ دادی کی ماں

تیسری پشت: پڑدادا کی ماں۔ پڑدادی کی ماں۔ باپ کی نانی کی ماں

اس طرح سے دادی کے حصے کی چار صورتیں ہیں:

01۔ اگر قریب درجہ کی دادی یا نانی موجود ہو تو دور کے درجہ کی دادی کو بالکل حصہ نہیں ملے گا۔

02۔ جس درجہ کی دادی ہے اگر اسی درجہ کی نانی بھی موجود ہو تو دونوں کو چھٹا حصہ ملے گا اور وہ دونوں میں برابر برابر تقسیم ہوگا۔

03۔ اگر میت کی ماں یا میت کا باپ موجود ہو تو پھر اس صورت میں تمام دادیاں بالکل محروم ہوں اور ان کچھ حصہ بھی نہیں ملے گا۔

04۔ اور اگر میت کا دادا موجود ہو تو پھر دادیاں محروم رہتی ہیں سوائے چار دادیوں کے یعنی باپ کی ماں، باپ کی نانی، باپ کی ماں کی نانی اور باپ کی نانی کی نانی۔

13۔ میت کی نانی:

یہاں پر بھی نانی سے مراد صرف ماں کی ماں مراد نہیں بلکہ ماں کی نانی اور نانی کی نانی بھی عربی میں جدہ کہلاتی ہے۔
لہذا تین پشتوں تک نانی کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ:

پہلی پشت: ماں کی ماں

دوسری پشت: نانی کی ماں

تیسری پشت: نانی کی نانی

اس طرح سے نانی کے حصے کی تین صورتیں ہیں:

01۔ اگر قریب درجہ کی دادی یا نانی موجود ہو تو بعید درجہ کی نانی کو میراث میں سے حصہ بھی نہیں ملے گا۔ جیسے مثلاً اگر پہلی پشت کی نانی موجود ہے تو پھر دوسری اور تیسری پشت کی نانی کو کچھ نہیں ملے گا۔

02۔ اگر میت کی جس درجہ کی نانی موجود ہے اگر اسی درجہ کی دادی بھی موجود ہو تو دونوں کو چھٹا حصہ ملے گا اور وہ دونوں میں برابر برابر تقسیم ہوگا۔
03۔ اگر میت کی ماں موجود ہو تو پھر تمام نانیاں محروم ہوں گی خواہ وہ کسی بھی پشت کی ہوں۔

تنبیہ 01: اگر میت کی ماں زندہ ہو تو پھر دادیاں اور نانیاں دونوں محروم رہتی ہیں۔ لیکن اگر میت کی ماں موجود نہ ہو بلکہ صرف باپ یا دادا موجود ہو تو پھر میت کی دادیاں تو محروم ہوں گی لیکن نانی محروم نہ ہوگی اور وہ باپ دادا کی موجودگی میں بھی حصہ پائے گی۔

تنبیہ 02: جدہ یعنی دادی اور نانی دو قسم کی ہوتی ہے۔ ایک وہ جو ذوی الفروض میں سے ہوں اوران کو جدہ صحیحہ کہتے ہیں اور دوسری وہ جو ذوی الارحام میں سے ہوں اور ان کو جدہ فاسدہ کہتے ہیں۔

جدہ صحیحہ یعنی صحیح دادی نانی وہ ہوتی ہے کہ جس کے رشتے میں کسی نانا کا واسطہ درمیان میں نہ ہو مثلا ماں کی ماں، نانی کی ماں، باپ کی ماں، دادا کی ماں، باپ

کی نانی وغیرہ اور وہ جدہ جس کے ساتھ رشتہ میں کسی نانا کا واسطہ آتا ہو وہ جدہ فاسدہ کہلاتی ہے۔ مثلا میت کے نانا کی ماں یا دادی نانی وغیرہ اور میت کے باپ کی نانی کی دادی وغیرہ کیونکہ اس میں بھی نانا شامل ہے اور وہ اس طرح کہ یہ میت کی دادی کے نانا کی ماں بھی بنتی ہے۔

warson ka bian

عصبات نسبی:

 

عصبات نسبی سے مراد میت کے ساتھ نسبی تعلق رکھنے والے وہ مرد رشتہ دار ہیں کہ جن کے میت کے ساتھ رشتہ میں کسی عورت کا واسطہ نہ ہو۔ اور

شریعت میں ان کا کوئی حصہ مقرر نہیں ہوتا بلکہ ذوی الفروض کے وارثوں کے مکمل حصے نکالنے کے بعد اگر ترکہ باقی ہو تو وہ پھر ان کو ملے گا اور اگر کچھ بھی باقی نہ ہو تو پھر عصبات نسبی کے وارث محروم ہو جائیں گے۔

عصبات نسبی کے چار درجے ہیں:

پہلا درجہ: میت کا ہی حصہ ہو یعنی اسی کی نسل سے ہو جیسے بیٹا، پوتا، پڑ پوتا سگڑپوتا وغیرہ۔

دوسرا درجہ: میت کے اصل جیسے باپ، دادا، پڑدادا سگڑدادا وغیرہ۔

تیسرا درجہ: میت کے باپ کا جز ہو یعنی باپ کی نسل سے ہوجیسے بھائی، بھتیجا، بھتیجے کا بیٹا وغیرہ۔

چوتھا درجہ: میت کے دادا کا جز ہو یعنی دادا کی نسل اور پھر ان کی اولاد در اولاد جیسے چچا، چچا کا بیٹا، چچا کا پوتا وغیرہ۔

اب ذیل میں عصبات نسبی کے متعلق چند ضروری قواعد بیان کیے جاتے ہیں:

قاعدہ  01:

جب تک میت کے اوپر کے درجہ میں اگر کوئی وارث موجود ہو تو نیچے والے درجہ کے عصبہ رشتہ داروں کو کچھ نہیں ملتا مثلاً جیسے درجہ اول میں سے کوئی عصبہ رشتہ دار موجود ہو تو درجہ دوم، سوم اور چہارم والے عصبہ رشتہ دار محروم رہیں گے۔

 

قاعدہ 02:

مذکورہ بالا ہر ایک درجے کے وارثوں میں بھی باہم فرق ہے۔ مثلاً اگر اول درجہ کے وارثوں میں جو سب سے زیادہ قریب ہوگا وہی ترکہ کا حقدار ہوگا اور جس کی رشتے داری دور کی ہوگی وہ محروم رہیں گے مثلاً ایک شخص کا بیٹا بھی موجود ہے اور پوتا بھی ہے تو بیٹا چونکہ پوتے کے مقابلے میں زیادہ قریب ہے لہذا

وہی سب مال لے لے گا اور پوتا محروم رہ جائے گا باوجود یکہ پوتا اور بیٹا دونوں ایک ہی درجہ کے عصبہ رشتہ دار ہیں۔

قاعدہ 03:

بھائی چچا اور ان کی اولاد میں سے جو حقیقی ہوں ان کا حق پہلے ہوگا اور باپ شریک کا حق بعد میں ہوگا مثلاً میت کا حقیقی بھائی بھی ہے اور باپ شریک بھائی بھی ہے تو چونکہ حقیقی بھائی میراث میں پہلے ہے لہذا وہ عصبہ بن کر سارا مال لے لے گا اور باپ شریک بھائی محروم رہے گا۔ اسی طرح اگر ایک حقیقی چچا ہویعنی

میت کے باپ کا حقیقی اور سگا بھائی ہو اور ایک باپ شریک چچا یعنی باپ کا باپ شریک بھائی ہو تو حقیقی چچا باپ شریک چچا پر مقدم ہوگا

 

قاعدہ 04:

اور اگر ایک ہی درجہ اور ایک ہی جیسے کئی وارث موجود ہوں مثلاً کئی بیٹے ہوں یا کئی پوتے ہوں یا کئی چچے ہوں تو پھر بچا ہوا ترکہ کا مال ان سب میں برابر برابر تقسیم کیا جائے گا۔

warson ka bian
ذوی الارحام

 

ذوی الارحام سے مراد میت کے وہ رشتہ دار ہوتے ہیں کہ جب ذوی الفروض بھی موجود نہ ہوں اور کوئی عصبہ بھی موجود نہ ہو تب ان کو میراث میں سے حصہ ملتا ہے۔ کیونکہ اگر عصبہ موجود ہوں تو ذوی الفروض سے بچا ہوا سارا مال وہ لے لے گا اور اگر عصبہ بھی موجود نہ ہوں تو ذوی الفروض سے جو کچھ باقی

رہے گا وہ دوبارہ اسی تناسب سے ان پر دوبارہ تقسیم کردیا جائیگا۔ اصطلاح میں اس کو ذوی الفروض پر رد کرنا کہتے ہیں۔
اب ردو کی مثال اس طرح سے سمجھیں کہ میت کے وارثوں میں مثلاً والدہ اور ایک بیٹی ہوں اور ان کے علاوہ کوئی عصبہ نہ ہو۔ تو والدہ کو چھٹا حصہ اور بیٹی کو

نصف دینے کے بعد باقی تہائی ماں جو بچے گا وہ دوبارہ والدہ اور بیٹی میں تقسیم کر دیا جائے گا۔ اس کی صورت یہ ہے کہ چونکہ 1/6 اور نصف کے درمیان

نسبت 1 اور 3 کی ہے (یعنی 1:3) لہذا کل مال کے چار حصے کر کے ایک حصہ والدہ کو اور تین حصے بیٹی کو دے دیں گے۔
البتہ جب ذوی الفروض اور عصبہ میں سے کوئی وارث بھی موجود نہ ہوں تو پھر ذوی الارحام کو وارث ہونے کا موقع ملتا ہے۔ لیکن دو ذوی الفروض ایسے بھی

ہیں کہ جن کی موجودگی میں بھی ذوی الارحام کو حصہ ملتا ہے اور وہ ذوی الفروض شوہر اور بیوی ہیں۔ یعنی اگر کسی میت کی صرف بیوی موجود ہو اور اس کے علاوہ کوئی ذوی الفروض اور عصبہ وارث موجود نہ ہوں تو زوجہ کو چوتھا حصہ دینے کے بعد باقی تین چوتھائی حصہ پھر اسی کو نہیں دیا جائے گا بلکہ باقی تین

چوتھائی ذوی الارحام کو دیا جائے گا۔ ایسے ہی اگر صرف شوہر وارث ہو اور کوئی اور ذوی الفروض اور عصبہ وارث موجود نہ ہوں تو شوہر کو نصف ترکہ دے کر باقی نصف ترکہ ذوی الارحام میں تقسیم کیا جائے گا۔

عصبات نسبی کی طرح ذوی الارحام کے بھی چار درجے ہیں جو کہ ذیل میں بیان کیے جاتے ہیں:
پہلا درجہ: خود میت کی وہ اولاد ہے جو ذوی الفروض اور عصبات نسبی میں شامل نہیں جیسے نواسہ اور نواسی وغیرہ۔

دوسرا درجہ: میت کے وہ اصول جو ذوی الفروض اور عصبہ نہیں ہیں جیسے نانا یا دادی کا باپ وغیرہ۔
تیسرا درجہ: میت کے ماں باپ کی وہ اولاد جو ذوی الفروض اور عصبہ نہیں ہے۔ جیسے بھانجا بھانجھی اور بھتیجی وغیرہ۔

چوتھا درجہ: میت کے دادا اور دادی اور نانی کی وہ اولاد جو عصبہ نہیں ہے جیسے پھوپھی، خالہ، ماموں، باپ کا ماں شریک بھائی وغیرہ۔

اب ذیل میں ذوی الارحام سے متعلق چند ضروری قواعد بیان کیے جاتے ہیں:

قاعدہ 01:

جب تک پہلے درجے والے ذوی الارحام موجود ہوں تو پھر دوسرے درجہ والوں کو میراث نہیں ملتی۔ اسی طرح دوسرے درجہ والوں کی موجودگی میں تیسرے درجہ والے محروم رہتے ہیں اور تیسرے درجہ والوں کی موجودگی میں چوتھے درجہ والے محروم رہتے ہیں اور ان کو کوئی حصہ نہیں ملتا۔

قاعدہ 02:

اگر ایک درجہ کے وارث موجود ہوں تو جو ان میں جو سب سے قریب ہوتا ہے وہ مستحق ہوتا ہے اور جو اس کی بنسبت دور ہوتے ہیں وہ سب محروم رہتے ہیں۔

قاعدہ 03:

اگر کوئی ذوی الارحام ایسے بھی ہیں کہ جو ایسے شخص کی اولاد ہیں کہ اگر وہ شخص زندہ ہوتا تو اس وقت ضرور وارث ہوتا تو ایسے ذوی الارحام کی اولاد اس شخص

کی اولاد پر مقدم ہوگی جو اگر خود بھی زندہ ہوتا تو اس کو میراث نہ ملتی۔
مثلاً ایک شخص نے اپنی ایک پوتی کی بیٹی چھوڑی اور ایک نواسی کا بیٹا اور بیٹی چھوڑی۔ اب اس شخص کا ترکہ پوتی کی بیٹی کو ملے گا جبکہ نواسی کا بیٹا اور بیٹی محروم

رہیں گے کیونکہ میت کے انتقال کے وقت اگر پوتی بھی زندہ ہوتی اور نواسی بھی زندہ ہوتی تو پوتی کو میراث ملتی اور نواسی محروم رہ جاتی۔ اب اسی لحاظ سے پوتی کی اولاد کے سامنے نواسی کی اولاد محروم رہے گی۔

warson ka bian
حمل کی میراث

 

وارثوں کیلئے مناسب یہ ہے کہ اگر کسی عورت کو ایسا حمل ہو جو میت کا وارث بننے کی صلاحیت رکھتا ہو تو اس عورت کے بچہ جننے تک ترکہ کی تقسیم کو روکے رکھیں تا کہ بچہ کی ولادت کے بعد پہلی تقسیم کو توڑ دوسری تقسیم نہ کرنی پڑے۔

لیکن پھر بھی اگر وارث انتظار نہ کریں اور بچہ کی ولادت سے پہلے ہی میراث تقسیم کرنا چاہیں تو اس حمل کو لڑکا سمجھ کر جتنا حصہ اس کا بنتا ہے اتنا حصہ اس کے

لیے امانت کے طور پر رکھ لیں اور اس حمل کے مرد ہونے کی وجہ سے جو لوگ محروم ہوتے ہیں ان کو محروم رکھا جائے اور جن کا حصہ کم ہوتا ہے ان کو کم حصہ دیا جائے۔

اب اگر حمل سے لڑکا ہی پیدا ہوا تو اس کا پورا حصہ اس کو دیا جائے گا اور ترکہ کی تقسیم اپنی حالت پر باقی رہے گی اور اگر حمل سے لڑکی پیدا ہوئی تو لڑکی کا جس

قدر حصہ بنتا ہے اتنا حصہ اس کو دیا جائے گا اور حمل کو لڑکا سمجھ کر جن لوگوں کا حصہ کم دیا گیا تھا یا بالکل محروم کر دیے گئے تھے تو پھر ان کا حق بھی ان کو دے دیا جائے گا۔

اب اس کی مثال سمجھیں کہ ابوبکر کا انتقال ہوا۔ اب اس کے وراثاء میں اس کی ایک بیوی ایک والدہ اور دو بہنیں موجود ہیں اور بیوی کو حمل بھی ہے تو اب ولادت سے پہلے میراث کو اس طرح تقسیم کریں گے کہ بیوی کو آٹھواں حصہ اور والدہ کو چھٹا حصہ دے کر باقی ترکہ حمل کے لیے امانت کے طور پر رکھ

دیں گے کیونکہ حمل اگر لڑکا ہو تو بیٹے کی وجہ سے میت کی بہنیں میراث سے محروم رہتی ہیں۔ اب اگر لڑ کا پیدا ہو تو یہ تقسیم اپنی اسی حالت پر قائم رہے گی اور اگر لڑ کی پیدا ہوئی تو نصف ترکہ لڑکی کو دے کر بقیہ ترکہ میت کی دونوں بہینوں کو دے دیں گے۔

حمل کے لیے جو حصہ رکھا جاتا ہے وہ اس حمل کو اس صورت میں ملے گا جب وہ زندہ پیدا ہو۔ اگر وہ حمل پیٹ ہی میں مر گیا تو وہ پھر اس مال کا مالک نہیں ہوگا اور پھر وہ حصہ اس حمل کو کالعدم سمجھ کر میت کے باقی وارثوں میں تقسیم کر دیں گے۔

مثلاً ابوبکر کی وفات ہوئی تو اس کی بیوی حاملہ تھی۔ اس کے علاوہ اس کے وارثوں میں والدہ اور ایک بھائی موجود ہے۔ اب حمل کو لڑکا سمجھ کر بیوی کو آٹھواں حصہ اور والدہ کو چھٹا حصہ دیں گے اور بھائی محروم رہے گا لیکن اگر لڑ کا مردہ پیدا ہوا تو پھر بیوی کو چوتھائی حصہ اور والدہ کو چھٹا حصہ اور باقی ترکہ بھائی کو ملے گا۔

جو حمل مکمل اور زندہ پیدا ہوا اور پیدا ہونے کے بعد مرگیا یا نصف بدن باہر نکل آنے کے بعد مر گیا تو وہ اپنے حصے کا مالک ہو جائے گا۔ لیکن چونکہ مالک ہو کر فورا مر گیا ہے اسی وجہ سے اس کا حصہ ان لوگوں پر تقسیم کیا جائے گا جو اس بچے کے شرعی وارث بنتے ہیں۔ یعنی اب یہ مال اس بچے کی ملکیت اور ترکہ سمجھا

جائے گا اور صرف انہیں وارثوں کو ملے گا جو اس کے مرنے کے وقت موجود اور مستحق ہوں گے۔

qanoon e wirasat book pdf
islami qanoon e wirasat in urdu pdf
wirasat ka qanoon in islam
wirasat ka qanoon in quran
wirasat in islam in urdu
wirasat ka qanoon in pakistan
wirasat ki taqseem pdf
wirasat ki taqseem ka formula
wirasat ki taqseem ka calculator
wirasat ki taqseem pdf
wirasat ki taqseem ka formula
wirasat ki taqseem ka calculator

Leave a Comment