نمازِ اوابین:
مغرب اور عشاء کے درمیان جو وقت ہوتا ہے اس وقت کو بہت قیمتی شمار کیا گیا ہے اس وقت کو غنیمت سمجھتے ہوئے اس وقت میں چند نوافل پڑھ لینا اجر اور ثواب کا باعث ہے۔ اور پھر مزید یہ کہ قرآن مجید میں بھی ایسے لوگوں کی تعریف کی گئی ہے۔ چنانچہ اللّٰہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیں کہ:
تَتَجَافٰى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ ……….. الخ (سورۃ السجدہ 16) ان کے پہلو سونے کی جگہ سے الگ رہتے ہیں۔
اسی آیت کے حوالے سے حضرت انس فرماتے ہیں: انها نزلت في ناس من اصحاب رسول الله کانو يصلون مابين المغرب والعشاء (زادالمیسر جلد 2۔ ابن جوزی) یہ آیت ان صحابہ کرام کی تعریف میں نازل ہوئی جو مغرب اورعشاء کے درمیان نفلی نماز پڑھتے تھے۔ اور مزید محمد بن نصر المروزی (وفات )294 نے بھی کتاب (قیام الیل صفحہ نمبر 56 پر بہت سے صحابہ کرام کا یہ عمل نقل کیا ہے کہ وہ مغرب اور عشاء کے درمیانی وقت میں نوافل پڑھتے تھے۔
حضرت عمار بن یاسر کے بیٹے محمد بن عمار سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد ماجد عمارین یا سر کو دیکھا کہ وہ مغرب کے بعد چھ رکعتیں پڑھتے تھے اور کہتے تھے کہ میں نے اپنے حبیب کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ مغرب کے بعد چھ رکعتیں پڑھتے تھے اور فرماتے تھے کہ جو بندہ مغرب کے بعد چھ رکعات نماز پڑھے اس کے صغیرہ گناہ بخش دیئے جائیں گے اگر چہ وہ گناہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہوں ۔ (معارف الحدیث بحوالہ معجم طبرانی)
صحیح روایات میں “صلوٰۃ الاوابین” کا لفظ چاشت کی نماز کے لئے استعمال ہوا ہے لیکن محمد بن المنکدر کی مرسل روایت میں مغرب اور عشاء کی نماز کے درمیان پڑھی جانے والی نفل نماز کو بھی صلوۃ الاوابین کہا گیا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص مغرب کی نماز کے بعد چھ رکعت (اوابین کی نماز) پڑھے گا اور ان کے درمیان کوئی غلط بات زبان سے نہ نکالے گا تو یہ چھ رکعات ثواب کے اعتبار سے اس کے لیے بارہ سال کی عبادت کے برابر قرار پائیں گے۔ (ترمذی شریف: جلد 01 صفحہ 98)