ذی الحجہ کے پہلے عشرہ کی فضیلت:
اللّٰہ تعالیٰ ذی الحجہ کے پہلے عشرہ کی فضیلت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ:
“وَالْفَجْرِ وَلَيَالٍ عَشْرٍ وَالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ”
ان آیات کا ترجمہ و تفسیر یہ ہے کہ “قسم ہے فجر کے وقت کی، اور قسم ہے (ذی الحجہ کی) دس راتوں کی (یعنی کہ وہ نہایت فضیلت والی ہیں) اور قسم ہے جفت کی اور طاق کی۔
جفت سے مراد ذی الحجہ کی دسویں تاریخ ہے اور طاق سے مراد نویں تاریخ ہے۔
در منثور میں متعدد سندوں سے یہ روایت درج ہے کہ حضور پاک صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اس آیت میں “لیال عشر“ سے عشرہ ذی الحجہ مراد ہے۔ اور “وتر” (طاق) سے مراد عرفہ کا دن یعنی نویں ذی الحجہ کا دن ہے اور جفت سے قربانی کا دن یعنی ذی الحجہ کی دسویں تاریخ مراد ہے۔
رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ کوئی بھی دن عشرہ ذی الحجہ کے علاوہ ایسا نہیں کہ ان میں عبادت کرنا خدا تعالیٰ کو زیاہ پسند ہو۔ اور ان میں سے ایک دن کا روزہ ایک سال روزہ رکھنے کے برابر ہے۔ اور انکی ہر رات کا جاگنا شب قدر کے برابر ہے۔
نیز حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ نہ کوئی دن اللہ کے نزدیک اس عشرہ (ذی الحجہ) سے افضل ہے اور نہ ہی کسی دن میں عمل کرنا ان (دنوں) میں عمل کرنے سے افضل ہے۔ اس خصوصیت کی وجہ سے سے ان دنوں میں لا الہ الا الله والله اکبر کی کثرت کیا کرو کیونکہ یہ تہلیل و تکبیر اور اللہ کے ذکر کے دن ہیں۔
اس عشرہ کی فضیلت میں بہت احادیث وارد ہوئی ہیں۔ مگر یہاں اختصار کی وجہ سے چند حدیثیں لکھی ہیں۔ اور انہیں سے معلوم ہو گیا کہ ایک ذی الحجہ سے نویں ذی الحجہ تک ہر طرح کی عبادت میں کوشش کرنا چاہئے۔ اور جتنا بھی ممکن ہو ان دنوں میں روزہ اور شب بیداری کا اہتمام کرنا چاہئے اور خصوصاً نو تاریخ کا روزہ زیادہ فضیلت رکھتا ہے۔
اس بات میں اختلاف ہے کہ یہ ذی الحجہ کا عشرہ افضل ہے یا رمضان شریف کا آخری عشرہ۔
شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اللّٰہ نے لکھا ہے کہ مختار یہ ہے عشرہ ذی الحجہ کے دن افضل ہیں اور رمضان کے آخری عشرہ کی راتیں افضل ہیں۔
ایک حدیث شریف بھی ہے کہ جس سے دسویں رات کو جاگنے کی فضیلت معلوم ہوتی ہے۔ چناچہ آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص عیدین (یعنی عید الفطر وعید الاضحیٰ) کی دونوں راتوں میں ثواب حاصل کرنے کیلئے بیدار رہا تو اس کا دل اس دن زندہ رہے گا جس دن سب کا دل مردہ ہو گا (یعنی قیامت کے دن).
عرفہ یعنی نو ذی الحجہ کا روزہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ عرفہ کا روز ایک ہزار روزوں کے برابر ہے لیکن ایک اور روایت میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس نے عرفہ کا روزہ رکھا اس کے پے در پے دو سال کے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔ یعنی ایک سال گزشتہ کے اور ایک سال آئندہ کے گناہ معاف ہوتے ہیں جیسا کہ اسکی مزید تفصیل ایک اور روایت میں آئی ہے کہ “رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں اللہ تعالیٰ سے امید کرتا ہوں کہ عرفہ یعنی ذی الحجہ کی نویں تاریخ کا روزہ ایک سال گزشتہ اور ایک سال آئندہ کا کفارہ ہو جاتا ہے۔
مسئلہ 01:
ذی الحجہ کی نویں تاریخ کا روزہ رکھنے میں بڑا ثواب ہے۔ اس سے ایک سال کے اگلے اور ایک سال کے پچھلے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ اور اگر شروع چاند سے نویں ذی الحجہ تک برابر روزہ رکھے تو بہت ہی بہتر ہے۔ اور ذی الحجہ کی دسویں تاریخ سے تیرہویں تک چار دن کا روزہ رکھنا حرام ہے۔ وہ اس لیے کہ ان دنوں کے روزہ کی فضیلت نو تاریخ تک ہے۔
مسئلہ 02:
نو ذی الحجہ کا روزہ وقوف عرفہ کرنے والے حاجیوں کے لئے جائز ہے یا نہیں؟ جامع ترمذی کی ایک حدیث سے تو ثابت ہے کہ عرفہ میں نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے افطار کیا، لیکن بعض علماء اس دن روزہ رکھنے کو جائز کہتے ہیں۔
اس کا جواب یہ ہے کہ وقوف عرفات میں اگر روزہ رکھنے کی وجہ سے کمزوری کا اندیشہ نہ ہو تو پھر روزہ رکھنا بلا کراہت مستحب ہے اور اگر کمزوری کا اندیشہ ہو تو پھر روزہ رکھنا مکروہ ہے۔
مسئلہ 03:
ایک شخص ایام بیض کے روزے ہر ماہ کی 13، 14، 15 تاریخ کو رکھتا ہے جو کہ مسنون ہیں مگر اب ذی الحجہ کی 13 تاریخ کو چونکہ روزہ رکھنا حرام ہے، لہذا 14، 15، 16 تاریخ کو روزہ رکھے۔ یا پھر کسی اور دن اس کا بدل کر لے۔ اس صورت میں ایام بیض کا شمار فوت نہیں ہوگا۔
مسئلہ 04:
اگر کسی شخص کا قربانی کرنے کا ارادہ ہو تو اس شخص کیلئے مستحب یہ ہے کہ ذی الحجہ کا چاند دیکھنے سے پہلے پہلے اپنے ناخن اور حجامت وغیرہ بنا لے۔ ذی الحجہ کا چاند دیکھنے کے بعد ناخن نہ کاٹے اور حجامت بھی نہ بنوائے جب تک کہ قربانی نہ کرلے