تکبیرات تشریق:
تکبیراتِ تشریق ہر فرض نماز کے بعد ہر مسلمان پر خواہ وہ مرد ہو یا عورت، شہری ہو یا دیہاتی، مقییم ہو یا مسافر، حاجی ہو یا غیر حاجی، ان سب پر ایک دفعہ پڑھنا واجب ہے۔ خواہ اکیلے نماز پڑھے یا جماعت کے ساتھ نماز پڑھے۔ اور ایک دفعہ سے زیادہ پڑھنا خلاف سنت ہے۔ یہ امام ابو یوسف اور امام محمد کا قول ہے۔
تکبیراتِ تشریق احتیاطاً عیدالاضحی کے بعد اور ان ایام میں پڑھی جانے والی قضاء نماز کے بعد بھی پڑھنی چاہئیں۔ یہ تکبیراتِ تشریق اگر فرض نماز کے بعد چھوٹ گئی تو پھر ان کی قضاء نہیں ہے البتہ توبہ کرلے اور توبہ کرنے سے چھوڑنے کا گناہ معاف ہو جائے گا۔
تکبیراتِ تشریق یہ ہے:
اَللهُ أَكْبَرْ اَللهُ أَكْبَرْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَاللّٰهُ أَكْبَرْ اَللّٰهُ أَكْبَرْ وَلِلّٰهِ الْحَمْد(مصنف ابن ابی شیبہ حدیث 5293)
تکبیراتِ تشریق کی ابتدا نو ذی الحجہ کے دن فجر کی نماز کے بعد سے ہوتی ہے اور اس کا اختتام م تیرہ ذی الحجہ کے دن عصر کی نماز کے بعد ہوتا ہے۔ جن فرض نمازوں کے بعد تکبیراتِ تشریق کہی جائیں گی ان کی تعداد تیئیس بنتی ہے۔ لہذا سلام پھیرنے کے فوراً بعد تکبیرات تشریق ادا کرنی چاہئیں۔
جب سورج ایک نیزہ کے بقدر (3 گز یعنی 9 فٹ) بلند ہو جائے تو اشراق یعنی عید الاضحی کا سنت وقت ہے اور جب سورج 2 نیزے کے بقدر (6 گز یعنی 18 فٹ) بلند ہو جائے تو یہ عید الفطر کا مسنون وقت ہے۔
1۔ حد یث پاک میں آتا ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ارشاد فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر کی نماز ہم لوگوں کو ایسے وقت میں پڑھاتے تھے کہ سورج دو نیزے کے بقدر بلند ہوتا تھا اور عید الاضحی کی نماز ایسے وقت میں پڑھاتے تھے کہ سورج ایک نیزہ کے بقدر بلند ہوتا تھا۔
2۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صبح صبح عید گاہ تشریف لے جاتے تھے۔ اور یہی عمل حضرات صحابہ کرام کا بھی تھا کہ نماز فجر کے سلام کے فوراً بعد عید گاہ تشریف لے جاتے تا کہ جلدی پہنچ کر منبر کے قریب بیٹھ سکیں۔
3۔ عبداللہ ابن عمر کبھی نماز کے فوراً بعد اور کبھی نماز کے بعد غسل کرکے فوراً عید گاد تشریف لے جاتے تھے۔
یہی وجہ ہے کہ عبداللہ بن بسر رضی اللّٰہ عنہ نے عید الفطر یا عیدالاضحی کے موقع پر امام کے تاخیر سے آنے پر مذمت کی اور ارشاد فرمایا کہ اس وقت تک تو ہم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نمازِعید پڑھ کر فارغ ہو جایا کرتے تھے۔ راوی کہتے ہیں کہ یہ نوافل (چاشت کا) وقت تھا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عیدین کا اول وقت یعنی اشراق کے وقت میں پڑھنا ہی زیادہ بہتر ہے۔ اور ہمارے زمانے میں بہت سے مقامات پر عیدین کی نماز بہت تاخیر سے پڑھی جاتی ہے، یہ بلاشبہ خلاف سنت ہے۔
عیدین کی نماز کی نیت دل میں اس طرح کریں کہ دو رکعت نماز عید الفطر یا عیدالاضحی واجب مع چھ زائد تکبیروں کے پیچھے اس امام کے اللہ اکبر۔ اگر نیت دل میں کرلے تو پھر بھی ٹھیک ہے البتہ اگر زبان کے ساتھ کہہ لے تو یہ زیادہ بہتر ہوگا۔
عیدین کی نماز کی نیت کر لینے کے بعد امام تکبیر تحریمہ کہے گا اور مقتدی بھی امام کے ساتھ تکبیر تحریمہ کہے اور عام نمازوں کی طرح عیدین میں بھی امام اور مقتدی دونوں ناف کے نیچے ہاتھ باندھ لیں اس کے بعد امام اور مقتدی دونوں ثناء پڑھیں گے۔ پھر امام زائد تکبیروں میں سے پہلی تکبیر کہے گا اور مقتدی بھی امام کے ساتھ تکبیر کہیں اور ہاتھ کانوں تک اٹھا ئیں اور پھر ہاتھ چھوڑ دیں پھر امام اور مقتدی دوسری تکبیر کہیں اور ہاتھ کانوں تک اٹھا ئیں اور چھوڑ دیں پھر امام اور مقتدی تیسری تکبیر کہیں اور ہاتھ کانوں تک اٹھا ئیں اور اب ہاتھ باندھ لیں پھر امام آہستہ آواز میں اعوذ بااللہ اور بسم اللہ پڑھے پھر فاتحہ اور کوئی سورت پڑھ لے۔ لیکن مستحب یہ ہے کہ “سبح اسم ربک الاعلی” پڑھے پھر رکوع، سجدہ عام نمازوں کی طرح کرکے امام اور مقتدی پہلی رکعت کو پورا کرلیں اور پھر دوسری رکعت شروع کریں اب امام پہلے قرآت یعنی فاتحہ اور کوئی سورت پڑھے لیکن مستحب ہے کہ “ھل اتاک حدیث الغاشیہ” پڑھے، قرآت مکمل کر لینے کے بعد امام زائد تکبیر کہے اور مقتدی بھی امام کے ساتھ تکبیر کہیں ہاتھ کانوں تک اٹھا ئیں اور پھر چھوڑ دیں پھر دوسری مرتبہ امام اور مقتدی تکبیر کہیں اور ہاتھ کانوں تک اٹھا ئیں اور پھر چھوڑ دیں پھر تیسری مرتبہ تکبیر کہیں اور ہاتھ کانوں تک اٹھائیں اور چھوڑ دیں پھر چوتھی مرتبہ تکبیر کہیں اور رکوع میں تشریف لے جائیں اور پھر بقیہ نماز عام نماز کی طرح پوری فرما لیں۔
نوٹ: یہ بات یاد رہے کہ پہلی رکعت میں دو مرتبہ ہاتھ چھوڑنے ہیں اور دوسری رکعت میں تینوں مرتبہ ہاتھ چھوڑنے ہیں۔
عیدین کی نماز اور خطبہ:
رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عید الفطر اور عید الاضحی کے دن عید گاہ میں تشریف لے جاتے تھے اور پھر سب سے پہلے نماز پڑھاتے، پھر لوگوں کی طرف رخ کرکے خطبہ کیلئے کھڑے ہوتے تھے اور لوگ صفوں میں بیٹھے رہتے تھے۔
عیدین کا خطبہ سننا سنت ہے لیکن واجب نہیں ہے۔ لیکن جب امام خطبہ شروع کردے تو پھر مقتدیوں پر خطبہ سننا واجب ہے۔ نماز کے بعد امام منبر پر کھڑے ہو کر دو خطبے پڑھے اور دونوں خطبوں کے درمیان اتنی دیر بیٹھے کہ جتنی دیر جمعہ کے دو خطبوں کے درمیان بیٹھتے ہیں۔
عیدین کی نماز کے بعد دعا مانگنا جائز ہے بلکہ مستحب ہے۔ لیکن یہ دعا نماز کے بعد ہونی چاہیئے خطبوں کے بعد دعا کرنا بےاصل ہے۔