Qurbani ke Fazilat | قربانی کے فضائل | Qurbani ki fazilat ka Bayan | Qurbani – Masail Or Fazail

قربانی کے فضائل:

احادیث مبارکہ میں قربانی کے بہت سے فضائل بیان کیے گئے ہیں۔

1۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
“ذی الحجہ کی دسویں تاریخ یعنی عید الاضحی کے دن فرزندِ آدم کا کوئی عمل اللہ کو قربانی سے زیادہ محبوب نہیں اور قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں ، بالوں اور کُھروں کے ساتھ (زندہ ہو کر) آئے گا۔ اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کی رضا اور مقبولیت کے مقام پر پہنچ جاتا ہے ۔ ” اس لیے خوش دلی سے قربانی کرو(یعنی قربانی کو بوجھ مت سمجھو)۔ (ترمذی 1993، ابن ماجہ)

حضرت عائشہ کی اس روایت کردہ حدیث مباث میں قربانی کی تین فضیلتیں بیان کی گئی ہیں۔
ا۔ قربانی کے دنوں میں اللہ تعالی کے نزدیک سب سے محبوب عمل قربانی ہے۔
۲۔ قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں ، ہالوں اور کُھروں کے ساتھ آئے گا یعنی جیسا جانور کسی شخص نے قربان کیا تھا ویسا ہی ملے گا اور قیامت کے دن اس کا کوئی بھی عضو ضائع نہیں ہوگا۔ قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے یہاں وہ جانور قبول ہو جاتا ہے یعنی اللہ تعالٰی اس کا پورا ثواب عطا فرما دیتے ہیں۔

2۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (اپنی بیٹی سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کو قربانی کے وقت ) ارشاد فرمایا کہ اے فاطمہ اٹھو اور اپنی قربانی کے پاس حاضر ہو جاؤ کیونکہ اسکے خون کے پہلے قطرے کے گرنے کی وجہ سے تمہارے پچھلے (صغیرہ) گناہ معاف ہو جائیں گے۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے سوال کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا یہ فضیلت ہمارے یعنی اہل بیت کیلئے خاص ہے یا سب مسلمانوں کیلئے ہے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ یہ فضیلات تمام مسلمانوں کیلئے ہے۔ ( الترغیب والترہیب حدیث 1991)

بعض عبادتوں کا مخصوص دنوں میں خصوصی اجر وثواب ہے۔ جیسے خدائے رب العالمین کے نزد یک عید الاضحی کے دن سب سے زیادہ پسندیدہ عمل یہ ہے کہ اس کے نام پر زیادہ سے زیادہ جانور قربان ہوں اور خون بہے اور یہ در اصل انسان کے اپنے جذبات کی قربانی ہے اور یہ انسان کا امتحان ہے۔ چنانچہ اس کی ابتداء خدا کے بہت زیادہ برگزیدہ بندے اور پیارے نبی حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی ایک بے مثال قربانی سے ہوئی جنہوں نے اپنے اکلوتے بیٹے (حضرت اسماعیل علیہ السلام) کو خود اپنے ہاتھوں ذبح کر دینے سے بڑھ کر اور کیا قربانی ہوسکتی تھی؟ اور حضرت ابراہیم نے اپنی طرف سے یہ کر دکھایا تو پھر خدا تعالیٰ نے انکے لخت جگر کی جان بچائی۔ اس قربانی کی ہمت تو ہر شخص نہیں کر سکتا تھا۔ اسلئے خدائے رب العالمین نے اپنے رحم اور فضل و کرم سے بیٹے کی قربانی کا حکم تو نہیں دیا لیکث اس مبارک اور عظیم قربانی کی یادگار اس ملت حنیفیہ میں جاری رکھی اور ہر سال اس قربانی کا دہرانا ہر صاحب استطاعت شخص پر لازم کر دیا۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ:
“لَنْ يَنَالَ اللهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاءُهَا وَلَكِنْ يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنكُمْ-
آیت مبارکہ کا ترجمہ:
اللہ تعالیٰ کے پاس نہ تو ان جانوروں کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ان کا خون لیکن اس کے پاس تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔
اس لیے جب جانور پر چھری پھیر دی تو جذبہِ قربانی اور دل کے تقویٰ کا امتحان ہو گیا۔ خون کا قطرہ زمین پر بعد میں گرتا ہے لیکن نیک نیتی اور دل کا خلوص پہلے قبول ہوجاتا ہے۔ اور اس آیت نے یہ حقیقت بھی واضح کردی کہ صرف جانوروں کا خون بہانے یا گوشت کھانے یا کھلانے سے اللّٰہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل نہیں ہوسکتی بلکہ اس کے ہاں تو اصل قیمت تقویٰ، خلوص، خوش دلی، جوشِ محبت اور جذ بہ قربانی کی ہے۔ جس بندے میں یہ مذکور بالا تمام خوبیاں زیادہ ہوں گی اس کی قربانی بھی اتنی ہی زیادہ اللّٰہ کے ہاں مقبول ہوگی۔

حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض صحابہ نے عرض کیا، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان قربانیوں کی کیا حقیقت ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ یہ تمہارے جد امجد اور خدا تعالیٰ کے بہت برگزیدہ بندے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔ تو صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس قربانی کا ہمارے لئے کیا اجر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا قربانی کے جانور کے ہر بال کے عوض ایک نیکی ہے تو صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علہیم اجمعین نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اون کا بھی یہی حساب ہے۔۔؟
(اس سوال کا مطلب یہ ہے کہ بھیٹر ، دنبہ مینڈھا اور اونٹ جیسے جانور جن کی کھال پر بال نہیں ہوتے بلکہ اون ہوتی ہے اور یقینا ان میں سے ہر ایک جانور کی کھال پر لاکھوں یا کروڑوں بال ہوتے ہیں تو کیا ان اون والے جانوروں کی قربانی کا ثواب بھی ہر بال کے عوض ایک نیکی کے حساب سے ملے گا ؟ ) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جی ہاں! اون والے جانوروں کی قربانی کا ثواب بھی اس حساب سے ملے گا یعنی ہر بال کے بدلہ میں ایک نیکی ہے۔ (سنن ابن ماجہ 3127)

قربانی کی حقیقت:

اصل میں قربانی کی حقیقت تو یہ تھی کہ عاشق خود اپنی جان کو اللّٰہ تعالیٰ کے حضور پیش کرتا۔ مگر قربان جائیے اللہ تعالی کی رحمت پر کہ اللہ تعالیٰ کو یہ گوارا نہ ہوا۔ اس وجہ سے اللّٰہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ تم جانور ذبح کر دو میں یہی سمجھوں گا کہ تونے اپنے آپ کو قربان کر دیا ہے۔
چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالی کی طرف سے خواب کے ذریعہ حکم دیا گیا کہ آپ اپنے اکلوتے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی پیش کریں۔ اب دیکھئے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا امتحان کہ اول تو قربانی کا حکم اولاد کے بارے میں دیا گیا اور اولاد بھی کیسی کہ اکلوتا بیٹا اور بیٹا بھی کوئی عام نہیں بلکہ نبی معصوم ہے۔ تو ایسے بیٹے کی قربانی کرنا بہت بڑا مشکل کام ہے۔ حقیقت میں انسان کا اپنے آپ کی قربانی پیش کرنا اتنا مشکل نہیں ہے۔ مگر اپنے ہاتھ سے اپنی اولاد کی قربانی پیش کرنا اور اپنے ہاتھ سے ذبح کرنا بہت بڑا مشکل کام ہے مگر چونکہ حکم خداوندی تھا۔ اس لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے اکلوتے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی محبت پر اللّٰہ تعالیٰ کے حکم کو مقدم رکھتے ہوئے فرمان الہی کے سامنے سر تسلیم خم کردیا اور اپنے اکلوتے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے والی جگہ میں لے گئے اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کو مخاطب کرکے ارشاد فرمایا کہ بیٹا مجھے اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ میں تجھے ذبح کردوں۔ تو حضرت اسماعیل علیہ السلام (جو کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ہی بیٹے تھے) نے فورا یہ فرما کہ اِفْعَلْ مَاتُؤمَرْ (جو آپ کو حکم ہوا ہے ضرور پورا کیجئے).
چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پہلے رسیوں سے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ہاتھ پاؤں باند ھے، پھر چھری تیز کی۔ اب بیٹا بھی خوش ہے کہ میں خدا کی راہ میں قربان ہورہا ہوں اور دوسری طرف باپ بھی خوش ہے کہ میں اپنے ہاتھ سے اپنے بیٹے کی قربانی پیش کر رہا ہوں، چنانچہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کی میں اپنے بیٹے کی گردن پر چھری چلا دی، جب چھری کند ہوگئی تو اس وقت حکم الہی ہوا:

قد صدقت الرؤيا انا کذالک نجزى المحسنين – (اسلات پار۲۳۰)
بیشک آپ نے اپنا خواب سچ کر دکھایا، ہم نیکو کار لوگوں کو اسی طرح بدلہ دیا کرتے ہیں ۔
پھر اللّٰہ تعالیٰ نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے عوض جنت سے ایک مینڈھا بھیج دیا اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جان کے عوض ایک دوسری جان کی قربانی کردی۔ چنانچہ اسی دن سے بھیڑ، دنبہ مینڈھا ، اونٹ ،گائے، بیل اور بکری وغیر ہ قربانی کیلئے فدیہ ( بدلہ ) میں گویا کہ مقرر ہو گئے

 

dawat e islami qurbani 2023
fatwa about qurbani
khatam e nabuwat in urdu pdf
ijtemai qurbani
qurbani dawateislami
hazrat ibrahim ki qurbani ka waqia in urdu pdf
tarika jadida in urdu dawateislami
namaz ki sharait in urdu pdf

Leave a Comment