طلاق کا لغوی معنیٰ ہے چھوڑنا۔
اور شریعت کی اصطلاح میں طلاق یا طلقن یا مطلقہ وغیرہ الفاظ کے ساتھ نکاح کے بندھن کے توڑنے کو طلاق دینا کہتے ہیں
**
طلاق بائن کسے کہتے ہیں
طلاق بائن وہ طلاق ہے جس میں نکاح بالکل ختم ہو جاتا ہے اور دوبارہ نکاح کیے بغیر شوہر کے ساتھ اس کی بیوی کا رہنا جائز نہیں ہے
اگر وہ دونوں اکٹھے رہنے پر راضی ہو جائیں تو ان کو دوبارہ نکاح کرنا پڑے گا ایسی طلاق کو طلاق بائن کہتے ہیں
طلاق کو کسی شرط کے ساتھ خاص کرنا:
یہ بھی ایک طلاق کی قسم ہے۔ اس کی آگے پھر مزید قسمیں ہیں۔
01
نکاح کرنے سے پہلے ایک شخص نے کسی عورت سے کہا کہ اگر میں تجھ سے نکاح کروں تو تجھے طلاق ہے تو اب وہ شخص جب بھی اس عورت سے نکاح کرے گا تو نکاح کرتے ہی اس کو طلاق بائن واقع ہو جائے گی
۔ طلاق بائن اس لیے واقع ہوگی کہ یہ طلاق رخصتی سے پہلے ہے
بغیر نکاح کیے اس کو نہیں رکھ سکتا۔
02
اسی طرح اگر کسی شخص نے کسی عورت کو یوں کہا کہ اگر تجھ سے نکاح کروں تو تجھے دو طلاق۔ تو نکاح کرتے ہیں دو طلاق بائن واقع ہو جائیں گے اور اگر یوں کہا کہ تجھ کو تین طلاق تو پھر تین طلاقِ بائن واقع ہو جائیں گے اور پھر اس عورت سے نکاح نہیں ہو سکتا۔
اب جب اس مرد نے عورت سے نکاح کر لیا تو عورت پر طلاق واقع ہو جائے گی اور شوہر نے اسی عورت سے پھر دوبارہ نکاح کر لیا تو اب دوسرا نکاح کرنے کے بعد طلاق واقع نہیں ہوگی لیکن اگر اس نے یوں کہا کہ جتنی دفعہ تجھ سے نکاح کروں ہر مرتبہ تجھ کو طلاق ہے تو جب بھی نکاح کرے گا ہر دفعہ طلاق ہو جائے گی۔ اب اس عورت کو رکھنے کی کوئی صورت نہیں ہے دوسرے خاوند سے نکاح کرنے کے بعد بھی اگر اس سے نکاح کرے گی تو پھر بھی طلاق واقع ہو جائے گی۔
03
اگر کسی شخص نے یوں کہا کہ میں جس عورت سے نکاح کرو اس کو طلاق تو جس عورت سے بھی نکاح کرے گا اس کو طلاق واقع ہوجائے گی البتہ طلاق واقع ہونے کے بعد اگر پھر اسی عورت سے نکاح کر لیا تو پھر طلاق واقع نہیں ہوگی۔
04
اگر کسی شخص نے یوں کہا کہ میں جب بھی کسی بھی عورت سے نکاح کروں تو اسکو تین طلاق تو جس عورت سے بھی وہ شخص نکاح کرے گا اس کو تین طلاق واقع ہو جائیں گی۔
توایسے شخص کے لئے کسی عورت کو اپنے نکاح میں لانے کی صورت یہ ہے کہ اس کی اجازت کے بغیر کوئی دوسرا شخص اس کا نکاح کردے اور پھر جب اس شخص کو اس نکاح کی خبر پہنچے تو زبان سے اجازت نہ دے بلکہ خبر سن کر بالکل خاموش رہے۔ البتہ تحریری اجازت دے دے یا مکمل مہر یا مہر کا کچھ حصہ بیوی کی طرف بھیج دے تحریری اجازت یا مہر بھیجنے سے قبل اگر کوئی شخص اس کو نکاح کی مبارک باد دیتا ہے تو اس کو یوں کہے کہ ابھی اس نکاح پر غور کر رہا ہوں اور اس پر خاموش بھی نہ رہے کیونکہ ایسے موقع پر خاموشی بھی اجازت کے حکم میں ہوتی ہے
05
ایک شخص نے اپنی بیوی سے کہا اگر تو فلاں کام کرے گی تو تجھ کو طلاق ہے یا اگر تم میرے پاس سے اٹھ کر کہیں چلی گئی تو تجھ کو طلاق ہے یا اگر تو فلاں شخص کے گھر میں چلی گئی تو تجھ کو طلاق ہے یا اسی طرح کسی اور کام کی شرط لگا دی تو عورت وہ کام جب بھی کرے گی تو اسی وقت طلاق واقع ہوجائے گی اور اگر عورت وہ کام نہیں کرے گی تو پھر طلاق واقع نہیں ہوگی اس صورت میں طلاق طلاقِ رجعی واقع ہوگی۔ طلاقِ رجعی میں شوہر کو بغیر نکاح کے بیوی کو روکنے کا اختیار ہوتا ہے البتہ اگر کوئی کنایہ لفظ کہا ہو جیسے یوں کہے کہ اگر تو فلانا کام کرے تو مجھ کو تجھ سے کوئی واسطہ نہیں تو عورت وہ کام جب بھی کرے گی تو طلاق بائن واقع ہو جائے گی لیکن اسکی شرط یہ ہے کہ مرد نے اس لفظ کے کہتے وقت طلاق کی نیت کی ہو۔
06
اگر کسی شخص نے یوں کہا کہ اگر تو فلاں کام کرے تو تجھ کو دو طلاق یا تین طلاق تو جتنی طلاقیں کہے گا تو عورت کے وہ کام کرنے پر طلاقیں واقع ہو جائیں گی۔
مثلا شوہر نے اپنی بیوی سے یوں کہا کہ اگر تو فلاں یعنی اپنے باپ سے ملی تو تجھے تین طلاقیں ہیں۔ شوہر کو بعد میں پھر پریشانی ہوئی کہ بیوی کیلئے باپ سے ملے بغیر بھی کوئی چارہ نہیں ہے تو اس سے خلاصی کی صورت یہ ہے کہ شوہر بیوی کو ایک طلاق بائنہ دے دے۔ مثلاً یوں کہے کہ میں نے تجھے ایک طلاق بائن دی اس کے بعد عورت طلاق کی عدت گزارے۔ جب عدت مکمل ہو جائے اس وقت اپنے باپ سے مل لے اس وقت قسم تو پوری ہوگی لیکن نکاح نہ ہونے کی وجہ سے قسم ضائع ہو جائے گی اس کے بعد دونوں باہمی رضامندی سے نکاح کرلیں نکاح کے بعد عورت اپنے باپ سے ملے گی تو پھر مزید طلاق واقع نہیں ہوگی۔
07
ایک شخص نے اپنی بیوی سے کہا کہ اگر تو اس فلاں گھر میں جائے گی تو تم کو طلاق ہے پھر عورت چلی گئی تو طلاق واقع ہو جائے گی پھر عدت کے اندر اندر شوہر نے عورت کو روک کر رکھا یا عدت گزر گئی تھی دوبارہ نکاح کر لیا پھر اس گھر میں جانے سے طلاق واقع نہیں ہوگی۔
البتہ شوہر نے یوں کہا کہ اگر جتنی مرتبہ بھی اس گھر میں جائے گی ہر مرتبہ تجھ کو طلاق ہے یا یوں کہا کہ جب کبھی بھی اس گھر میں جائے تو ہر مرتبہ تجھ کو طلاق ہے اس صورت میں عدت کے اندر روک لینے یا عدت کے بعد دوبارہ نکاح کرنے کے بعد بھی دوسری مرتبہ اس گھر میں جانے سے دوسری طلاق واقع ہو جائے گی۔ پھر عدت کے اندر یا تیسرے نکاح کے بعد اگر تیسری دفعہ اس گھر میں جائے گی تو تیسری طلاق واقع ہو جائے گی اب تین طلاق کے بعد اس سے نکاح درست نہیں البتہ اگر دوسرے خاوند سے نکاح کرکے پھر اس پہلے والے شخص سے نکاح کرے تو اب گھر میں جانے سے طلاق واقع نہیں ہوگی۔
08
اگر کسی شخص نے اپنی بیوی سے کہا کہ اگر تو فلاں کام کرے تو تجھ کو طلاق اب اس عورت نے وہ کام نہیں کیا تھا کہ شوہر نے اپنی طرف سے ایک اور طلاق دے دی اور اس عورت کو چھوڑ دیا اور عدت کے بعد پھر اسی عورت سے نکاح کر لیا اور اس نکاح کے بعد اب اس عورت نے وہی کام کیا تو طلاق واقع ہو جائے گی۔ البتہ اگر طلاق پانے اور عدت گزر جانے کے بعد دوسرے نکاح سے پہلے اس عورت نے وہی کام کرلیا تھا تو چونکہ اس وقت وہ عورت اس شخص کی منکوحہ نہیں تھی تو قسم ضائع ہو جائے گی۔ اب اس نکاح کے بعد اس کام کے کرنے سے طلاق واقع نہیں ہوگی اور اگر طلاق کے بعد عدت کے اندر اس عورت نے وہ کام کیا تو پھر بھی دوسری طلاق واقع ہو جائے گی۔
09
اگر کسی شخص نے اپنی بیوی سے یوں کہا کہ اگر تو نے روزہ رکھا تو تجھ کو طلاق ہے تو اس عورت کے روزہ رکھتے ہیں فورا طلاق واقع ہو جائے گی۔ لیکن البتہ اگر یوں کہا کہ اگر تو نے ایک روزہ رکھا یا دن بھر کا روزہ رکھا تو تجھ کو طلاق ہے تو روزے کے ختم ہونے پر طلاق واقع ہوگی اور اگر وہ عورت روزہ توڑ ڈالے تو پھر طلاق واقع نہیں ہوگی۔
10
اگر کسی شخص نے یوں کہا کہ میں جس دن تجھ سے نکاح کروں تو تم کو طلاق ہے پھر اس نے رات کے وقت نکاح کیا تو پھر بھی طلاق واقع ہو جائے گی کیونکہ عام بول چال میں اس لفظ کا مطلب یہ ہے کہ جس وقت بھی تجھ سے نکاح کروں تو تجھے طلاق ہے۔
11
اگر کسی شخص نے اپنی بیوی سے یوں کہا کہ اگر تجھ کو حیض آئے تو تجھ کو طلاق ہے اس کے بعد عورت نے خون دیکھا تو ابھی سے طلاق کا حکم نہیں لگائیں گے بلکہ پورے تین دن تین رات خون آتا رہے تو تین دن تین رات کے بعد یہ حکم لگائیں گے کہ جس وقت سے خون آنا شروع ہوا تھا اس وقت سے طلاق واقع ہوگئی تھی۔ البتہ اگر یوں کہا ہو کہ جب تجھ کو ایک حیض آئے تو تجھ کو طلاق ہے تو حیض کے ختم ہونے پر طلاق واقع ہو گی۔
12
ایک عورت نے اپنے گھر سے باہر جانے کا ارادہ کیا تو شوہر نے کہا ابھی مت جاؤ تو عورت نہیں مانی۔ اس پر مرد نے کہا کہ اگر تو باہر جائے تو تجھ کو طلاق ہے۔ اب اس کا حکم یہ ہے کہ اگر عورت ابھی باہر جائے گی تو طلاق واقع ہو جائے گی اور اگر ابھی باہر نہیں گئی بلکہ کسی اور دن گئی تو پھر طلاق واقع نہیں ہوگی کیونکہ شوہر کا مطلب یہ تھا کہ ابھی باہر نہ جاؤ پھر چلی جانا اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ عمر بھر باہر نہ جانا