سورة ا لقلم : ترتیبی نمبر 68 نزولی نمبر 2
مکی سورت : سورہ قلم مکی ہے۔
آیات : اس میں ۵۲ آیات اور ۲ رکوع ہیں۔
وجه تسمیه :
چونکہ اس سورت کی ابتداء میں اللہ نے قلم کی قسم کھائی ہے۔ اس لیے اسے سورۃ قلم کہا جاتا ہے۔
قلم کی عظمت:
یہ قلم کی عظمت اور اس کے تعظیم نعمت ہونے کو ظاہر کرتی ہے۔
حدیث:
حدیث میں بھی قلم کی عظمت کو بیان کیا گیا ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
سب سے پہلی چیز جو اللہ نے پیدا فرمائی۔ وہ قلم تھا۔ اسے پیدا کرنے کے بعد فرمایا:
” لکھو! ” اس نے پوچھا۔ ” کیا لکھوں؟ فرمایا: ” تقدیر لکھو۔”
چنانچہ اس دن سے قیامت تک جو کچھ ہونے والا تھا۔ قلم نے لکھ دیا۔ پھر اللہ نے نون یعنی دوات کو پیدا فرمایا۔
قلم اور کتاب:
یہ قلم ہی ہے۔ جس نے اسلاف کے علوم ہماری طرف منتقل کیے ہیں اور پوری دنیا میں معلومات کی اشاعت کا ذریعہ بنتا ہے۔ قرآن نے قلم اور تعلیم و تعلم کی اہمیت اس ماحول میں بیان کی۔ جو ماحول قلم اور کتاب سے بیگانگی اور دوری کا ماحول تھا۔ لیکن چونکہ قرآن اللہ تعالی کی آخری آسمانی کتاب ہے اور اسے نازل کرنے والا جانتا تھا کہ آنے والا دور قلم، علم معلومات اور تحقیقات کا ہے۔ اس لیے اس نے مسلمانوں کو قلم کی اہمیت کی طرف متوجہ کیا۔
دیکھا جائے تو کمپیوٹر اور انٹرنیٹ وغیرہ بھی قلم ہی کی ترقی یافتہ صورتیں ہیں۔
((سورہ قلم میں تین مضامین کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ ))
1۔ حضور ﷺ کے اخلاق و مناقب کا بیان:
حضور اکرم ﷺکی قدر و منزلت اور آپ ﷺ کے اخلاق و مناقب کا بیان ہے۔
۱۔ آپ دیوانہ نہیں ہیں :
سب سے پہلے تو قسم کھا کر فرمایا کہ:
آپ ﷺ اپنے رب کے فضل سے دیوانہ نہیں ہیں جیسا کہ آپ کے مخالفین کہتے ہیں۔
اور آپ ﷺ کے لیے بے انتہا اجر ہے۔
اور آپ ﷺکے اخلاق عظیم ہیں۔
۲۔ آپ کا خلق قرآن ہے:
مسلم ابوداؤد اور نسائی میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے رسول کریم ﷺ کے اخلاق کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ آپ کا خلق قرآن ہے۔
۳۔ حیات طیبہ قرآن کی عملی تفسیر :
قرآن میں جو کچھ قال تھا۔ وہ:
۱۔ آپ ﷺکی زندگی میں حال تھا۔
۲۔ آپ ﷺ کی حیات طیبہ قرآن کریم کی عملی تفسیر تھی۔
۳۔ اور ایسا کیوں نہ ہوتا جبکہ آپ ﷺ کو مکارم اخلاق کی تکمیل ہی کے لیے بھیجا گیا تھا۔
آپ ﷺ کے اخلاق و مناقب بیان کرنے کے ساتھ ساتھ آپ ﷺ کے مخالفین کی اخلاقی پستی، کمینگی اور کج فکری بھی بیان کی گئی ہے۔ فرمایا گیا کہ آپ کسی ایسے شخص کا کہا نہ مانا جو زیادہ قسمیں کھانے والا بے وقار کمینہ عیب گو چغل خور بھلائی سے روکنے والا حد سے بڑھ جانے والا گناہ گار گردن کش پھر ساتھ ہی بے نسب بھی ہو اس کی سرکشی صرف اس لیے ہے کہ وہ مال والا اور بیٹوں والا ہے۔
ولید بن مغیرہ :
مفسرین فرماتے ہیں کہ یہ آیات سرداران قریش میں سے ولید بن مغیرہ کے بارے میں نازل ہوئیں۔
2۔ اصحاب الجنہ (باغ والوں کا قصہ ) :
دوسرا مضمون جسے اس سورت میں خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ وہ اصحاب الجنہ (باغ والوں) کا قصہ ہے:
۱۔ یہ قصہ عربوں میں مشہور تھا۔ یہ باغ یمن کے قریب ہی تھا۔ اس کا مالک اس کی پیداوار میں سے غرباء پر خرچ کیا کرتا تھا۔
۲۔ لیکن اس کے مرنے کے بعد جب اس کی اولاد اس باغ کی وارث بنی تو انہوں نے اپنے اخراجات اور مجبوریوں کا بہانہ بنا کر مساکین کو محروم رکھنے اور ساری پیداوار سمیٹ کر گھر لے جانے کی منصوبہ بندی کی۔ اللہ نے اس باغ ہی کو تباہ کر دیا۔
ثروت وغناء سے اکیلے ہی مستفید ہونا:
اس قصہ سے ان لوگوں کے لیے عبرت کا بڑا سامان ہے۔ جو اپنی ثروت اور غناء سے اکیلے ہی مستفید ہونا چاہتے ہیں اور ان کا بخل یہ برداشت نہیں کرتا کہ ان کے مال و متاع سے کسی اور کو بھی فائدہ پہنچے۔
متقین کا انجام :
کفار کے لیے عبرت آموز مثال بیان کرنے کے بعد یہ سورت متقین کا انجام بھی بتاتی ہے۔
سورت کا سوال:
اور سورت یہ سوال کرتی ہے:
کہ محسن اور مجرم فرماں بردار اور نا فرمان باغی اور وفادار دونوں برابر کیسے ہو سکتے ہیں۔
3۔ ہپنڈلی کھول دی جائے گی:
تیسرا اہم مضمون جو سورۃ قلم بیان کرتی ہے۔ وہ آخرت کے بارے میں ہے۔ فرمایا گیا کہ:
جس دن چند لی کھول دی جائے گی اور سجدے کے لیے بلائے جائیں گے تو سجدہ نہ کر سکیں گے۔
اختیار سلب :
دنیا میں انہیں سجدہ کرنے کا اختیار دیا گیا تھا۔ مگر یہ سجدہ نہیں کرتے تھے ۔ آخرت میں وہ سجدہ کرنا چاہیں گے ۔ مگر ان سے طاقت اور اختیار سلب کر لیا جائے گا۔
کشف ساق :
کشف شاق یعنی پنڈلی کھولے جانے سے علماء نے قیامت کے شدائد اور ہولنا کیاں مراد لی ہیں۔
متشابهات :
ویسے یہ ان متشابہات میں سے ہے۔ جن کی اصل حقیقت اور یقینی مراد اللہ تعالی کے سوا کسی کو بھی معلوم نہیں۔
صبر کی تلقین :
آخر میں حضور اکرم ﷺکو مشرکین کی ایذاؤں پر صبر کی تلقین کی گئی ہے۔