سورة الحشر ترتیب نمبر59 نزولی نمبر 101
مدنی سورت : سورہ حشر مدنی ہے۔
آیات : اس میں ۲۴ آیات اور ۳ رکوع ہیں۔
وجه تسمیه :
آیت نمبر ۲ میں ہے: هُوَ الَّذِي أَخْرَجَ الَّذِيْنَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَبِ مِنْ دِيَارِهِمْ لِاَوَّلِ الْحَشْرِ)
” وہی تو ہے جس نے کفار اہل کتاب کو حشر اول کے وقت ان کے گھروں سے نکال دیا”
یہود مدینہ کو شام کی طرف جلا وطن کر دیا گیا۔ اس جلا وطنی کی بنا پر اس سورت کا نام” سورہ حشر” رکھ دیا گیا۔
اس سورت کے اہم مضامین درج ذیل ہیں:
1۔ ابتداء میں بتایا گیا ہے:
۱۔ کہ کائنات کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تقدیس اور حمد و ثناء بیان کرتی ہے۔
۲۔ اور اس کی وحدانیت اور قدرت و جلال کی گواہی دیتی ہے۔
Tafsir of Surah Al-Waqiah سورۃ الواقعہ -سُورہ واقعہ کے مضامین اور فضیلت-Khulasa Of Surah Waqiah
پھر یہ سورت قدرت الہیہ کے بعض آثار اور زندہ دلائل کا تذکرہ کرتی ہے جن میں سے ایک یہ بھی ہے:
یہود مدینہ :
یہود جو کہ عرصہ دراز سے یثرب میں قیام پذیر تھے۔ انہوں نے اپنی حفاظت کے لیے بڑے مضبوط قلعے تعمیر کر رکھے تھے۔ معاشی وسائل پوری طرح ان کے قبضے میں تھے۔ یثرب والوں کو انہوں نے سودی قرضوں کی سنہری زنجیروں میں جکڑ رکھا تھا اور ان کا خیال یہ تھا کہ کوئی بھی ہمیں یہاں سے نہیں نکال سکتا۔ لیکن ان کی اپنی ہی کرتوتوں کی وجہ سے ان پر اللہ کا عذاب آ کر رہا۔
حشر :
اور انہیں دو بار حشر ( جلا وطنی) کا سامنا کرنا پڑا۔ حشر جمع اور اخراج کے معنی میں ہے۔
۱۔ حشر اول:
حشر اول میں انہیں مدینہ منورہ سے شام کی طرف دھکیل دیا گیا۔
۲۔ حشر ثانی:
اور حشر ثانی میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں خیبر سے شام کی طرف پہلے جانے پر مجبور کر دیا۔
غیر متوقع واقعه
یہود کا مدینہ اور خیبر سے نکل جانا ایک ایسا واقعہ تھا۔
۱۔ کہ یہود تو کیا خود مسلمانوں کے لیے قطعی طور پر غیر متوقع تھا۔
۲۔ ان کی معاشی خوشحالی ۔
۳۔ دفاعی انتظامات۔
۴۔ اور مضبوط جماعتی نظم کی وجہ سے کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔
۵۔ کہ انہیں بصد ذلت و خواری مدینہ منورہ اور خیبر سے نکلنا پڑے گا۔
لیکن اللہ نے جب انہیں ان کی عہد شکنی تکذیب و انکار تکبر اور سرکشی کی وجہ سے نکالنے کا فیصلہ کر لیا تو ظاہری اسباب ان کے کسی کام نہ آئے اور اللہ کا فیصلہ وقوع پذیر ہو کر رہا۔
3۔ مال غنیمت
جب یہود کے قبیلہ بنو نضیر کو مدینہ منورہ سے نکال دیا گیا تو بہت سارا مال غنیمت مسلمانوں کے قبضہ میں آگیا۔
مال فئ :
جو مال غنیمت قتل و قتال کے بغیر ہاتھ آجائے۔ اسے اصطلاح میں “مال فئی” کہتے ہیں۔
مال فئی کا حکم:
اس مال فئ کے بارے میں علم دیا گیا کہ اس میں مجاہدین میں سے کسی کا حق نہیں۔ بلکہ اس کی تقسیم کا اختیار اللہ کے نبی ﷺ کو ہے۔ وہ اسے فقراء ضعفاء مساکین حاجت مندوں اور قرابت داروں میں تقسیم کریں گے۔
یہاں اگر چہ مسئلہ تو مال فئی کی تقسیم کا بیان ہو رہا ہے۔ لیکن اس کے ضمن میں اسلامی اقتصادیات کا ایک اہم فلسفہ بھی بیان کر دیا گیا ہے۔ وہ یہ کہ اسلام یہ نہیں چاہتا کہ:
“دولت چند اغنیاء کے ہاتھوں میں گردش کرتی رہے۔ بلکہ اسلام اس کا اس طریقے سے پھیلاؤ چاہتا ہے کہ سوسائٹی کا کوئی فرد اور کوئی طبقہ بھی محروم نہ رہے۔”
زکوۃ صدقات میراث اور شمس وغیرہ کی تقسیم میں یہی فکر کار فرما ہے۔
قانون سازی کا منبع اور مصدر :
اقتصادیات کے اس عظیم فلسفہ کے علاوہ قانون سازی کے منبع اور مصدر کی بھی وضاحت کر دی گئی ہے۔ وہ یہ کہ:
پیغمبرﷺ جو چیز تم کو دیں۔ وہ لے لو اور جس چیز سے منع کریں اس سے باز رہو۔
اتباع واجب ہے:
وہ تمام قوانین اور مسائل و احکام جو رسول اکرم ﷺ اللہ کی طرف سے لے کر آئے۔ ان کی اتباع واجب ہے۔ خواہ وہ قرآن کی صورت میں ہوں یا سنت صحیحہ کی صورت میں۔
کتاب وسنت کو نظر انداز کرتے ہوئے:
کتاب و سنت کو نظر انداز کرتے ہوئے کسی قسم کی قانون سازی جائز نہیں۔
مہاجرین اور انصار :
سورہ حشر جہاں ایک طرف اللہ کی رضا کو ہر چیز پر ترجیح دینے والے مہاجرین اور انصار اور ان کی اتباع کرنے والے قیامت تک کے مسلمانوں کی تعریف کرتی ہے۔
یہود اور منافقین:
وہیں ان منافقوں کی مذمت بھی کرتی ہے۔ جو یہود کو برے وقت میں اپنے تعاون کا یقین دلاتے رہتے تھے۔ ان دونوں گروہوں (یہود اور منافقین) کا انجام یہ ہوگا کہ دونوں دوزخ میں داخل ہوں گے۔ اس میں ہمیشہ رہیں گے اور ظالموں کی یہی سزا ہے۔
یہود و نصاریٰ کی طرح نہ ہو جانا:
سورہ حشر کے آخری رکوع میں ایمان والوں کو اللہ سے ڈرنے کا حکم ہے۔ انہیں سمجھایا گیا ہے کہ تم ان یہود و نصاری کی طرح نہ ہو جاتا۔ جنہوں نے حقوق اللہ کو بھلا دیا۔ جس کی پاداش میں اللہ نے انہیں خود ان کی ذات کے حقوق بھی بھلا دیے اور دہ آخرت کو بھول کر حیوانوں کی طرح نفسانی خواہشات کی تکمیل ہی میں لگے رہے۔
افسوس ہے انسان پر :
علاوہ ازیں اہل ایمان کو کتاب اللہ کی عظمت کی طرف متوجہ کرنے کے لیے فرمایا گیا:
کہ اگر اللہ پہاڑوں کو عقل و شعور عطا فرما دیتا اور پھر ان پر قرآن نازل کر دیتا تو اللہ کے خوف سے ریزہ ریزہ ہو جاتے۔
افسوس انسان کہ وہ اس بے مثال کلام کی عظمت ناواقف ہے اور اس کے حقوق ادا نہیں کرتا۔
سورت کے اختتام پر اسماء حسنیٰ کے ضمن میں اللہ کی عظمت اور کبریائی کا بیان ہے اور آخر میں وہی الفاظ ہیں۔ جن سے اس سورت کا آغاز ہوا تھا۔ یعنی یہ کہ:
“جتنی چیزیں آسمانوں اور زمین میں ہیں۔ سب اس کی تسبیح کرتی ہیں اور وہ غالب حکمت والا ہے۔”