Surah Rahman with Urdu Translation – Read Quran Online -سورة الرحمن_Khulasa Of Surah Rahman

سورة الرحمن : ترتیبی نمبر 55 نزولی نمبر 97

مدنی سورت : سورہ رحمن مدنی ہے۔
آیات : اس میں ۷۸ آیات اور ۳ رکوع ہیں۔

وجه تسمیه:

آیت نمبر۱ میں ہے: الرحمن
۱۔ یہ سورت اللہ جل شانہ کی صفت سے شروع ہورہی ہے۔ اسی وجہ سے اس سورت کو سورہ رحمن کہتے ہیں۔
۲۔ اس کا دوسرا نام “عروس القرآن” بھی ہے۔
حضرت علی کرم رضی اللہ عنہ سے مرفوع روایت ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا:
ہر چیز کی عروس (دلہن’ زینت ) ہوتی ہے۔ قرآن کی عروس سورۂ رحمان ہے۔

Muslim woman in a veil holding prayer beads and the Quran on the mosque

 

نعمت کبری

اس سورت میں باری تعالٰی نے اپنی نعمتیں بیان فرمائی ہیں۔ جن میں سے سب سے پہلی نعمت قرآن اتارا جانا اور بندوں کو اس کی تعلیم دینا ہے۔ یقینا یہ نعمت کبریٰ ہے۔ کوئی مادی نعمت اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ ہر نعمت کا کوئی نہ کوئی بدل ہو سکتا ہے۔ لیکن قرآن کا بدل کوئی چیز بھی نہیں بن سکتی اس کی ایک ایک آیت اور ایک ایک حرف دنیا و مافیھا سے بہتر ہے۔ قرآن ساری آسمانی کتابوں کے مضامین کا محافظ جامع اور ناسخ ہے۔

سورت کا آغاز :

رب تعالٰی نے اس سورت کا آغاز اپنی صفت “الرحمن” سے فرمایا ہے گویا متنبہ کیا گیا ہے کہ اللہ کی ساری نعمتیں خصوصاً قرآن کی نعمت اس کے رحمن ہونے کے آثار اور فیوضات ہیں۔ وہ رحمن ہونے کی وجہ سے بندوں پر رحم کرتا ہے۔ انہیں ہر طرح کی نعمتیں عطا فرماتا ہے۔ ان کی تعلیم اور ہدایت کے لیے اس نے قرآن نازل کیا ہے۔ تعلیم قرآن کو تخلیق انسان سے بھی پہلے ذکر کیا گیا ہے۔

صحیفہ کا ئنات پر پھیلی نعمتیں :

اس کے بعد یہ سورت صحیفہ کائنات پر پھیلی ہوئی اللہ کی مختلف نعمتوں کا ذکر کرتی
۱۔ سورج اور چاند جو اللہ کے ٹھہرائے ہوئے حساب سے اپنی اپنی منزلوں پر رواں دواں ہیں۔
۲۔ ستارے اور درخت جو اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہیں۔
۳۔ زمین جسے مخلوق کے لیے کسی فرش کی طرح بچھا دیا گیا ہے۔
۴۔ مختلف میوئے اناج اور پھل پھول جن سے انسان فائدہ اٹھاتا ہے۔
۵۔ میٹھے اور کھاری پانی کے دریا جو اپنی اپنی جگہ جاری ہیں۔
۶۔ وہ موتی اور مونگے جو ان دریاؤں سے نکالے جاتے ہیں۔
۷۔ پہاڑوں جیسی بلندی اور پھیلاؤ رکھنے والے وہ جہاز جو سمندروں میں چلتے ہیں اور حمل و نقل کے ذرائع میں سے کل بھی سب سے بہتر ذریعہ تھے اور آج بھی بہترین ذریعہ ہیں۔

ان دنیاوی نعمتوں کے علاوہ اخروی نعمتوں اور عذابوں کا بھی سورۃ رحمن میں ذکر ہے

اخروی عذاب :

۱۔ آگ کے وہ شعلے اور دھواں جن میں سانس لینا دو بھر ہو جائے گا۔
۲۔ وہ جہنم جس کی ایک چنگاری بھی انسان کو جلانے کے لیے کافی ہوگی۔
۳۔ وہ کھولتا ہوا پانی جسے دوزخی مجبوراً پئیں گے اور وہ ان کی انتریوں کو کاٹ کر رکھ دے گا۔

اخروی نعمتیں:

۱۔ دوسری طرف اللہ سے ڈرنے والوں کے لیے گنجان ٹہنیوں اور شاخوں والے دو سرسبز باغات –
۲۔ ان میں بہتے ہوئے چشمے۔
۳۔ ہر قسم کے میوؤں کی دو دو قسمیں۔
۴۔ اور بچھے ہوئے قالین ہوں گے۔
۵۔ دبیز ریشم کے تکیوں کے ساتھ جنتی ٹیک لگائے بیٹھے ہوں گے۔
۶۔ مذکورہ دو باغات کے علاوہ دو باغ اور بھی ہوں گے جو پہلے دو باغوں سے کم تر ہوںگے۔۔
۷۔ ان میں دو چشمے اہل رہے ہوں گے۔
۸۔ شرم و حیا اور حسن و جمال کا پیکر حوریں ہوں گی۔
۹۔ متنوع میوہ جات ہوں گے۔

(31) بار سوال :

دنیا اور آخرت کی یہ ساری نعمتیں ذکر کرنے کے بعد اللہ تعالی نے اس سورت میں ۳۱ بار سوال کیا ہے.
( فبای آلاء ربكما تكذبن)
” پھر تم اپنے رب کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے؟”
اگر دو چار یا دس بیس نعمتیں ہوں تو ان کو جھٹلا سکتے ہو مگر جہاں یہ حال ہو کہ نعمتیں حد و حساب سے بھی باہر ہوں تو انہیں جھٹلانا نا ممکنات میں سے ہے۔

سورت کا تجزیہ:

اگر اس سورت کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے:
۱۔ رب تعالیٰ نے ابتداء میں اپنی تخلیق کے عجائب اور مظاہر ذکر کیے ہیں اور ان کے ضمن میں یہ آیت “فبای آلاء ربکما تکذین” آٹھ بار آئی ہے۔
۲۔ اس کے بعد جہنم اور اس کے عذابوں کا ذکر کرتے ہوئے
7 بار یہ آیت ذکر کی ہے۔ قرآن پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ جہنم کے دروازے بھی 7 ہیں۔ (7+8=15)
۳۔ پھر جنت کے باغات اور اہل جنت کا تذکرہ کرتے ہوئے ۸ بار یہ آیت آئی ہے اتفاق سے جنت کے دروازے بھی ۸ ہیں۔ (15+8=23)
۴۔ آخر میں ایسے باغات کا ذکر ہے جو درجہ کے اعتبار سے پہلے باغات سے کم ہیں۔ ان باغات کے ضمن میں بھی یہ آیت ۸ بار آئی ہے۔ (23+8=31)

اہل علم کا اخذ شدہ نتیجه :

جو شخص پہلی ۸ پر اعتقاد پر رکھے گا اور ان کے تقاضوں پر عمل رکھے گا۔
۱۔ اسے باری تعالیٰ جہنم کے سارے دروازوں سے بچالے گا۔
۲۔ اور دونوں قسم کی جنتوں کا حق دار بنا دے گا۔

کج فہموں کا اعتراض:

کج فہموں نے اعتراض اٹھایا ہے کہ جہنم اور جہنم کے عذاب کون سی نعمت ہیں کہ ان کا ذکر کرتے ہوئے بھی بار بارسوال کیا گیا ہے۔ بتاؤ اپنے پروردگار کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے؟“

اعتراض کا جواب:

اس کا جواب دو طرح سے دیا گیا ہے:

۱۔ پہلا یہ کہ ظالموں ‘ سرکشوں اور نافرمانوں کو عذاب دینا اللہ کے عدل کا تقاضا اور مظلوموں کے حق میں رحمت اور نعمت ہے۔
۲۔ دوسرا یہ کہ کفر و شرک اور فسق و فجور کا انجام ظہور سے پہلے ہی بندوں کو بتا دینا کریم و رحیم ذات کا بہت بڑا احسان ہے۔

خطرہ اور مصیبت کی پیشگی اطلاع:

۱۔ کیا یہ امر باعث تعجب نہیں کہ دنیا کے کسی خطرہ اور مصیبت کی پیشگی اطلاع دینے والے کو تو ہم اپنا محسن سمجھیں۔
۲۔ لیکن اس مالک کو محسن نہ سمجھیں۔ جس نے ہمیں آخرت کے خطرات کے بارے میں دنیا ہی میں مطلع فرما دیا۔
۳۔ جبکہ دنیا کی زندگی آخرت کی زندگی کے مقابلے میں۔
۴۔ اور دنیا کے خطرات آخرت کے خطرات کے مقابلے میں کچھ حیثیت بھی نہیں رکھتے۔

سورت کا اختتام :

سورت کے اختتام پر فرمایا:
” تیرے پروردگار کا نام با برکت ہے جو عزت و جلال والا ہے۔”

اہل علم کا کہنا :

اہل علم کہتے ہیں کہ اس ” نام ” سے مراد وہی نام ہے۔ جس سے سورت کا آغاز ہوا تھا۔
گویا آخر میں دوبارہ اس طرف اشارہ کر دیا گیا۔ که ارض و سما کی تخلیق ہو یا جنت دوزخ کا وجود اس سورت میں جو کچھ بھی بیان ہوا ہے یہ سب اس ” رحمن” کی رحمت کا نتیجہ ہے۔

People also ask

Leave a Comment