سورۃ الفتح ترتیبی نمبر48 نزول نمبر 111۔
مدنی سورت : سور فتح مدنی ہے۔
آیات : اس میں 29 آیات اور 4 رکوع ہیں۔
وجه تسمیه :
۱۔ آیت نمبرا میں ہے: انا فتحنا لک فتحا مبینا۔ (ہم نے تم کو فتح دی۔ فتح بھی صریح وصاف)
۲۔ آیت نمبر ۱۸ میں ہے: واثابهم فتحا قریبا ( اور انہیں جلد فتح عنایت کی)
۳۔ آیت نمبر ۲۷ میں ہے فجعل من دون ذلك فتحا قريبا ( سو اس نے اس سے پہلے ہی جلد فتح کرادی)
پہلی آیت میں” فتحا مبینا ” ہے جبکہ دوسری اور تیسری دونوں آیتوں میں فتحا قریبا ہے۔ ان تینوں سے مراد صلح حدیبیہ ہے اسی وجہ سے اس سورت کا نام سورہ فتح ہے۔ (مرتب)
شان نزول :
یہ سورت اس وقت نازل ہوئی۔ جب رسول اکرم ﷺ حدیبیہ سے واپس تشریف لا رہے تھے۔ بخاری اور ترندی میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:
” آج شام مجھ پر ایسی سورت نازل ہوئی ہے جو مجھے دنیا و مافیھا سے بھی زیادہ محبوب ہے۔”
پھر آپ ﷺ نے سورہ فتح کی ابتدائی آیات کا کچھ حصہ تلاوت فرمایا۔
رسول اکرم ﷺ کا مدینہ میں خواب :
اس سورت کے مضامین بسہولت سمجھنے کے لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ صلح حدیبیہ اور بیعت رضوان کا اختصار کے ساتھ تذکرہ کر دیا جائے۔
خواب :
ہوا یوں کہ رسول اکرم ﷺ نے مدینہ منورہ میں خواب دیکھا کہ ہم مکہ میں داخل ہوئے اور بیت اللہ کا طواف کیا۔
جب آپ نے صحابہ کرام کے سامنے یہ خواب بیان کیا تو انہیں بے حد خوشی ہوئی کیونکہ وہ جانتے تھے کہ نبی کا خواب برحق ہوتا ہے۔
عمرہ کی نیت سے مدینہ سے روانگی:
حضور اکرم ﷺ ذوالقعدہ ۶ ھ میں ۱۴۰۰ یا ۱۵۰۰ صحابہ کرام کے ساتھ عمرہ کی نیت سے مدینہ منورہ سے روانہ جب آپ مکہ اور مدینہ کے درمیان پہنچے تو آپ ﷺ کو بشر بن سفیان نے اطلاع دی کہ مکہ والے آپ کی روانگی کی اطلاع پاکر با قاعدہ جنگ کی تیاری کر رہے ہیں۔
حضرت عثمان بطور قاصد :
چنانچہ آپ ﷺ نے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو قاصد بنا کر بھیجا تا کہ وہ مکہ والوں کو سمجھائیں کہ ہم جنگ کی نیت سے نہیں آئے ہمارا مقصد مرد اور زیارت کے سوا کچھ نہیں۔
بیعت رضوان:
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ افواہ پھیل گئی کہ انہیں شہید کر دیا گیا ہے۔ آپ ﷺ نے درخت کے نیچے بیٹھ کر اپنے اصحاب سے عدم فرار پر بیعت لی۔ اس بیعت کو بیعت رضوان کہا جاتا ہے کیونکہ تمام شرکا، بیعت کے بارے میں اللہ نے فرمایا ہے کہ میں ان سے راضی ہو گیا ہوں۔
سورۃ المؤمن کا اردو میں مختصر ، مکمل خلاصہ Surat Al-Mu’min ka | KHolasa Quran
صلح حديبيه:
۱۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں افواہ بعد میں جھوٹی ثابت ہوئی۔
۲۔ پھر مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا۔ قریش کی طرف سے سہیل بن عمرو آئے۔
۳۔ بات چیت ہوتی رہی۔ بالآخر معاہدہ صلح ہو گیا۔ جس کے مطابق دونوں فریق دس سال تک آپس میں امن و امان سے رہنے اور جنگ نہ کرنے پر متفق ہو گئے۔
فتح مبین:
اس معاہدہ کی بعض شقوں سے بظاہر مسلمانوں کی کمزوری ثابت ہوتی تھی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اسے فتح مبین قرار دیا۔
اس صلح کا فتح مبین ہونا اس وقت بعض مسلمانوں کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ لیکن بعد کے حالات نے ثابت کردیا کہ واقعی یہ فتح مبین تھی اور ابتداء اسلام سے اب تک مسلمانوں کو اس سے بڑی فتح حاصل نہیں ہوئی تھی۔
جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے:
۱۔ کہ حدیبیہ میں مسلمانوں کی تعداد کم بیش ۴۰۰ تھی۔
۲۔ جبکہ صرف دو سال بعد جب ۸ھ میں مکہ فتح ہوا تو حضور اکرم ﷺ کے زیر قیادت لشکر مجاہدین کی تعداد دس ہزار تھی۔
یہ انقلاب معاہدہ امن کی وجہ سے ہوا:
یہ انقلاب معاہدہ امن کی وجہ سے برپا ہوا۔ جب مصالحت کے بعد مشرکین نے مسلمانوں کے ساتھ میل جول اور معاملات شروع کیسے تو مسلمانوں کے کردار کی پختگی زبان کی سچائی، دامن کی عفت و عصمت اور معاملات کی صفائی نے مشرکوں کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ آخر وہ کون سی مخفی قوت ہے۔ جس نے کل کے شرابیوں اور رہزنوں کو زاہد و پارسا بنا دیا ہے۔ ظاہر ہے یہ قوت صرف ایمان تھی۔ اس حقیقت کو سمجھ لینے کے بعد ان کی گردنیں خود بخود ایمان کے سامنے جھک گئیں۔
سورۃ فتح اسی صلح حدیبیہ کے پس منظر میں نازل ہوئی۔ اس لیے اس میں ان واقعات کی طرف اشارے ملتے ہیں۔ جن کا اس کے ساتھ تعلق اور مناسبت ہے۔
ابتدائی آیات:
۱۔ ابتدائی آیات میں نبی کریم ﷺ کو عظیم ترین فتح کی بشارت سنائی گئی ہے۔
۲۔ ایمان والوں کے ساتھ جنت کا وعدہ ہے۔
۳۔ کافروں اور منافقوں کے لیے وعید ہے۔
بیعت جہاد :
پھر یہ سورت دو متضاد گروہوں کا تذکرہ کرتی ہے۔
1۔ پہلا گروہ :
پہلا گروہ ان مخلص اہل ایمان کا ہے۔ جنہوں نے وطن سے دور اور غیر مسلح ہونے کے باوجود ہر چہ باداباد کہتے ہوئے اللہ کے محبوب ﷺ کے مبارک ہاتھ پر بیعت جہاد کی اور یہ عہد کیا کہ آپ کی قیادت میں فتح یا شہادت تک قتال کریں گے اور میدان جنگ سے راہ فرار اختیار نہیں کریں گے۔
رب کریم کو ان کا یہ جذبہ پسند آیا اور فرمایا:
” جو لوگ تم سے بیعت کرتے ہیں وہ اللہ سے بیعت کرتے ہیں اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہے۔”
اگلی آیات میں ہے:
” (اے پیغمبر!) جب مومن تم سے درخت کے نیچے بیعت کر رہے تھے تو اللہ ان سے خوش ہو گیا اور ان کے دلوں میں (جو ایمانی جذبہ) تھا۔ اس نے اسے جان لیا تو ان پر تسلی نازل فرمائی اور انہیں جلد فتح عنایت کی۔ “
دوسرا گروہ:
دوسرا گروہ ان منافقوں کا تھا۔ جو حدیبیہ میں آپ ﷺ کے ساتھ نہیں گئے تھے اور ان کا باطل گمان یہ تھا کہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے ساتھ جانے والے مسلمان مکہ سے زندہ سلامت واپس نہیں آسکیں گے۔ اللہ نے ان منافقین کے بارے میں نبی ﷺ کو پیشگی اطلاع دے دی کہ جب آپ ( ﷺ ) واپس جائیں گے تو یہ اپنے پیچھے رہ جانے کے بارے میں جھوٹے اعذار پیش کریں گے۔
سورۂ فتح وہ خواب بھی بیان کرتی ہے۔ جو حضور اکرم ﷺ نے مسجد حرام میں داخل ہونے کے بارے میں دیکھا تھا۔
سورت کا اختتام :
اس سورت کے اختتام پر تین امور بیان کیے گئے ہیں:
۱۔ پہلا یہ کہ اللہ نے حضرت محمد ﷺ کو ہدایت اور دین حق دے کر اس لیے بھیجا ہے تا کہ آپ (ﷺ) اسے سارے ادیان پر غالب کر دیں۔ (انشاء اللہ تعالیٰ قیامت سے پہلے ایسا ہو کر رہے گا جہاں تک علمی اور برہانی غلبہ کا تعلق ہے۔ وہ آج بھی دین اسلام کو ادیان عالم پر حاصل ہے۔)
۲۔ دوسرے نمبر پر آپ (ﷺ) کے صحابہ رضی اللہ عنہم کی تعریف کی گئی ہے کہ وہ کفار کے مقابلے میں بڑے سخت اور آپس میں بڑے مہربان ہیں اور وہ سب رضاء الہی کے طالب ہیں۔
۳۔ تیسرے نمبر پر اور آخر میں ان لوگوں کے ساتھ مغفرت اور اجر عظیم کا وعدہ ہے۔ جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے۔
اے اللہ ! تو ہمیں بھی ان میں سے بنادے۔