سورہ محمد ترتیبی نمبر 47 نزولی نمبر95
مدنی سورت سورہ محمد مدنی ہے۔
آیات اس میں 38 آیات اور 6 رکوع ہیں۔
وجه تسمیه:
آیت نمبر 2 میں ہے: (وَامِنُوا بِمَا نُزِلَ عَلَى مُحَمَّدٍ)
“اور جو کتاب حضرت محمد ﷺ پر نازل ہوئی اسے مانتے رہیے۔”
۱۔ چونکہ اس آیت میں حضور اکرم کا اسم گرامی محمد ﷺ آیا ہے۔ اس لیے اس سورت کو” سورہ محمد ” کہا جاتا ہے۔
آقا کا اسم گرامی:
ہمارے آقا ﷺ کا اسم گرامی قرآن کریم کی طرف پانچ سورتوں میں مذکور ہے: (آل عمران (۱۴۴) (احزاب (۴۰) (محمد (۲) (فتح ۲۹) (صف (۲)
پہلی چار سورتوں میں اسم گرامی محمد (ﷺ) ہے جبکہ آخری سورت میں احمد ﷺ ہے۔
۲۔ اس سورت کو سورۂ قتال بھی کہا جاتا ہے۔ کیونکہ اس میں کفار کے ساتھ قتال کے احکام کا بیان ہے۔
سورت کا موضوع:
اس سورت کا موضوع حقیقت میں جہاد و قتال ہے۔
کفار اور مومنین میں فرق:
سورت کی ابتداء میں کفار اور مومنین کے درمیان فرق بیان کیا گیا ہے۔
کفار:
کفار باطل کی اتباع کرتے ہیں۔
مؤمنین:
اور اہل ایمان حق کی اتباع کرتے ہیں۔
دو گروہوں کا وجود:
جب انسانوں میں ان دو گروہوں کا وجود ہوگا تو ان کے درمیان کشمکش بھی ہوگی۔ ٹکراؤ بھی ہوگا۔ معرکہ کارزار بھی گرم ہوگا۔ اس لیے فرمایا گیا کہ:
جنگی قیدی:
جب تم کافروں سے ٹکراؤ تو ان کی گردنیں اڑادو یہاں تک کہ جب ان کو خوب قتل کر چکو تو (جو باقی بچیں انہیں ) مضبوطی سے قید کر لو۔
جنگی قیدیوں کے احکام:
۱۔ ان قیدیوں کو بطور احسان بھی آزاد کیا جاسکتا ہے۔
۱۔ اور فدیہ لے کر بھی چھوڑا جا سکتا ہے۔
۳۔ تیسری صورت یہ کہ اپنے قیدیوں کے ساتھ تبادلہ کر لیا جائے۔
۴۔ چوتھی امکانی صورت یہ بھی ہے کہ انہیں غلام اور لونڈی بنالیا جائے۔
لیکن لونڈی اور غلام بنانا فرض یا واجب کا درجہ نہیں رکھتا۔ بلکہ ایک انتظامی اور امکانی صورت ہے۔ جسے بوقت ضرورت اختیار کیا جا سکتا ہے۔
جنگی قیدیوں کو غلام بنانے کا رواج:
جس وقت جنگی قیدیوں کو لونڈی اور غلام بنانے کی اجازت دی گئی۔ اس وقت پوری دنیا میں نہ صرف یہ کہ جنگی قیدیوں کو غلام بنا لینے کا رواج تھا۔ بلکہ ظالم لوگ ایسے آزاد انسانوں کو بھی غلام بنا لیتے تھے۔ جن کا کوئی وارث یا طاقتور خاندان نہیں ہوتا تھا۔
غلاموں کے حقوق:
یہ مظلوم طبقہ کسی بھی قسم کے انسانی حقوق سے محروم تھا۔ اسلام نے ان کے حقوق متعین کیے۔ انہیں آزاد کرنے کے فضائل بتائے اور ان کے خون کو حرمت بخشی۔
یہ اسلام کے حقوق دینے ہی کا نتیجہ تھا کہ تاریخ اسلام میں ایسے بے شمار غلاموں کا تذکرہ ملتا ہے۔
۱۔ جن میں سے کوئی مفسر تھا۔
۲۔ اور کوئی محدث –
۳۔ کوئی فاتح۔
۴۔ اور کوئی وزیر اور فرماں روا۔
مسلمانوں نے کبھی بھی ان کی سابقہ غلامی کی وجہ سے انہیں حقارت کی نظر سے نہیں دیکھا۔
غلاموں کو خرید کر آزاد کرنا:
صدقہ خیرات کے دوسرے مصارف کی طرح مسلمانوں نے ایک اہم مصرف غلاموں کے ساتھ تعاون اور انہیں خرید کر آزاد کرنے کا بھی طے کر رکھا تھا۔
تیس ہزار غلام آزاد:
قرون اولی کے مسلمان گردنوں کو آزاد کرنے اور کرانے میں کتنی دلچسپی رکھتے تھے۔ اس کا اندازہ اس روایت سے ہوتا ہے جس کے مطابق حضور اکرم ﷺ کے صرف ایک صحابی حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے تیسں ہزار غلام خرید کر آزاد کیے۔
دین پر استقامت :
سورۂ قتال بتاتی ہے کہ اگر مسلمان اللہ کے دین پر استقامت دکھا ئیں گے اور اس کی نصرت کے لیے اٹھ کھڑے ہوں گے تو اللہ ان کی مدد کرے گا اور انہیں ثابت قدم رکھے گا۔
جنت کی ایک جھلک:
اللہ نے اس جنت کی ایک جھلک بھی اس سورت میں بیان کی ہے جس کا ایمان والوں سے وعدہ کیا گیا ہے۔
آیات قتال سن کر :
ایمان والوں کے مقابلے میں منافقوں کا حال بھی بتایا گیا ہے۔ آیات قتال سن کر ایمان والوں کی قوت ایمانی میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ جبکہ منافقوں پر موت کی سی بے ہوشی طاری ہو جاتی ہے۔
ترغیب وعید:
جہاد وقتال اور انفاق فی سبیل اللہ کی ترغیب دیتے ہوئے آخر میں گویا وعید کے انداز میں کہا گیا ہے:
“اور اگر تم منہ پھیرو گے تو وہ تمہاری جگہ اور لوگوں کو لے آئے گا اور وہ تمہاری طرح کے نہیں ہوں گے۔