پاره نمبر 26
سورۃ الاحقاف : ترتیبی نمبر 46 اور نزولی نمبر 66۔
مکی سورت : سورہ احقاف مکی ہے۔
آیات : اس میں ۳۵ آیات اور ۴ رکوع ہیں۔
وجہ تسمیہ:
آیت نمبر ۲۱ میں ہے: (وَاذْكُرْ أَخَا عَادٍ إِذْ أَنذَرَ قَوْمَهُ بِالْاحْفَافِ)
“اور قوم عاد کے بھائی حضرت ہود علیہ السلام کو یاد کرو کہ جب انہوں نے اپنی قوم کو سرزمین احقاف میں ہدایت کی”
اسی احقاف کی نسبت سے اس سورۃ کو سورہ احقاف کہا جاتا ہے۔
سورت کا موضوع:
اس سورت کا موضوع بھی دوسری کی سورتوں کی طرح تینوں بنیادی اسلامی عقائد کا اثبات ہے۔
سورت کی ابتداء:
سورت کی ابتداء ہوتی ہے قرآن کریم کی حقانیت توحید اور حشر کے دلائل اور ان بتوں کی مذمت سے جنہیں مشرکوں نے معبود بنا رکھا تھا۔ حالانکہ وہ نہ تو سنتے تھے نہ دیکھتے تھے نہ نفع اور نقصان ان کے اختیار میں تھا اور نہ ہی وہ پرستش کرنے والوں کی دعائیں قبول کر سکتے تھے۔
(مذکورہ بالا کے علاوہ سورہ احقاف کے اہم مضامین درج ذیل ہیں: )
1۔ مشرکین کے شبہات و اعتراضات:
مشرکین کے سامنے جب قرآن پڑھا جاتا تھا تو وہ اس پر مختلف شبہات اور اعتراضات وارد کرتے تھے۔ وہ کبھی تو اسے کر کہتے تھے اور کبھی آپ (ﷺ) کا خود تراشید و کلام قرار دیتے تھے اور کبھی ایمان والوں کے بارے میں کہتے تھے کہ اگر ایمان کوئی اچھی چیز ہوتا تو یہ فقیر غریب اور مزدور لوگ ایمان قبول کرنے میں ہم سے سبقت نہ لے جاتے۔
اعتراضات کے جوابات:
مشرکین کے اعتراضات ذکر کرنے کے بعد ان کے مسکت جوابات دیے گئے ہیں۔
2۔ دو متضاد نمونے :
سورہ احقاف ہمارے سامنے دو متضاد نمونے پیش کرتی ہے۔
پہلا نمونہ:
پہلا نمونہ نیک بیٹے کا ہے۔ جس کا دل نور ایمان سے منور ہے اور اس کے قدم جاده شریعت پر مضبوطی سے جمے ہوئے ہیں۔
نیک بیٹے کی تین دعائیں:
جب اس کے والدین اسے پال پوس کر جوان کر دیتے ہیں۔ وہ جسمانی اور عقلی اعتبار سے حد کمال کو پہنچ جاتا ہے تو وہ اللہ سے تین دعائیں کرتا ہے۔
۱۔ پہلی یہ کہ اے اللہ ! تو مجھے نعمتوں کا شکر ادا کرنے کی توفیق عطا فرما۔
۲۔ دوسری یہ کہ ایسے اعمال کا کرنا میرے لیے آسان کر دے جن سے تو راضی ہو جائے۔
۳۔ تیسری یہ کہ میری اولا د کو نیک بنا دے۔
ایسی اولاد کے لیے اللہ کی طرف سے جنت کا وعدہ ہے۔
دوسرا نمونه:
دوسرا نمونہ شقی اور نافرمان بیٹے کا ہے۔ جس کے والدین اسے ایمان قبول کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔
شقی بیٹے کا تکبر :
تو وہ جواب میں بڑے تکبر سے کہتا ہے۔
” اف اف ا تم مجھے یہ بتاتے ہو کہ مجھے (زمین سے زندہ کر کے ) نکالا جائے گا۔ حالا نکہ بہت سے لوگ مجھ سے پہلے گزر چکے ہیں۔”
(ان میں سے تو کسی کو میرے سامنے زندہ نہیں کیا گیا۔ )
۱۔ پہلا نمونہ ایمان اور ہدایت والوں کا ہے۔
۲۔ دوسرا نمونہ اہل کفر و طغیان کا ہے۔
دونوں کو اپنے اپنے اعمال کا بدلا مل کر رہے گا۔
یہ دو متضاد نمونے بیان کرنے کے بعد سورہ احقاف قوم عاد کا قصہ بیان کرتی ہے۔ جنہوں نے حضرت ہود علیہم السلام کو جھٹلایا جس کے نتیجے میں انہیں تباہ و برباد کر دیا گیا۔
۱۔ عذاب دینے کے لیے بادل:
انہیں عذاب دینے کے لیے بادل بھیجا گیا۔ چونکہ کئی دنوں سے شدید گرمی پڑرہی تھی۔ اس لیے وہ بادل دیکھ کر خوش ہو گئے اور انہیں یقین آگیا کہ آج تو موسلا دھار بارش ہوگی وہ خوشی کے مارے گھروں سے باہر نکل آئے۔
۲۔ بادل کے ساتھ تیز طوفانی ہوا:
اس بادل کے نمودار ہوتے ہی تیز اور طوفانی ہوا چلنے لگی۔ قوم عاد کے لوگ بڑے قد آور اور جسیم تھے۔
۱۔ ہوائے انہیں اپنے دوش پر اٹھایا اور فضا میں لے گئی یوں محسوس ہوتا تھا کہ کیڑے مکوڑے اڑہ رہے ہیں۔
۲۔ پھر انہیں زمین پر پٹخ دیا وہ زمین پر مردار پڑے یوں محسوس ہوتے تھے گویا کھجور کے کھوکھلے تنے پڑے ہوئے ہیں۔
اہل مکہ:
قوم عاد کا واقعہ سنا کر اہل مکہ کو ڈرایا گیا کہ تم ان سے زیادہ طاقتور نہیں ہو۔ اگر سرکشی اختیار کرو گے تو تم بھی عذاب الہی کی لپیٹ میں آکر رہو گے۔
سورت کے اختتام پر بتایا گیا ہے؟
۱۔ کہ جو اللہ ارض و سماء کو پیدا کرنے پر قادر ہے۔ وہ مردوں کو بھی دوبارہ زندہ کر سکتا ہے۔
۲۔ اور آخری آیت میں حضور اکرم ﷺ کو حکم دیا گیا ہے کہ آپ اولو العزم انبیاء علیہم السلام کی طرح صبر کریں ۔ صبر کا انجام ہمیشہ اچھا ہی ہوتا ہے۔