سورة الدخان : ترتیبی نمبر 44 اور نزولی نمبر 64۔
مکی سورت : سورہ دخان مکی ہے۔
آیات : اس میں ۵۹ آیات اور تین رکوع ہیں۔
وجہ تسمیہ:
آیت ۱۰ میں ہے: (فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاء بِدُعَانٍ مُّبِينِ )
ترجمہ: ( تو اس دن کا انتظار کرو کہ آسمان سے صریح دھواں نکلے گا) اسی دخان (دھواں ) کی نسبت سے اس سورت کو سورہ دخان کہا جاتا ہے۔
کتاب مبین اور لیلۃ القدر :
اس سورت کی ابتداء میں بھی اللہ تعالی نے ” کتاب مبین ” یعنی واضح کتاب کی قسم کھائی ہے۔
یہ کتاب اعجاز کے اعتبار سے بھی واضح ہے اور احکام و مضامین کے بیان کے اعتبار سے بھی واضح ہے۔ اللہ نے قسم اس اعتبار سے کھائی ہے۔
کہ ہم نے اس کتاب کو مبارک رات میں نازل کیا اس سے مراد ” لیلۃ القدر” ہے جو کہ ساری راتوں سے افضل ہے۔
ربوبیت کا تقاضا:
یہ کتاب اللہ نے بندوں پر رحمت کے طور پر نازل کی ہے۔ ورنہ وہ بندوں کی عبادت کا محتاج نہیں ہے۔ اللہ کی ربوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ بندوں کو ہدایت سے محروم نہ رکھے۔
شک کرتے ہیں:
لیکن مشرکین اور کفار قرآن اور بعث بعد الموت کے بارے میں شک کرتے ہیں۔
حضور علم کے زمانے کے فرعون:
حضور اکرم ﷺ کے زمانے کے فرعونوں کو حضرت موسی علیہ السلام کی مخالفت کرنےوالے فرعون کے انجام سے ڈرایا گیا ہے:
حضرت موسیٰ علیہ السلام کا فرعون :
۱۔ اس کی ملکیت میں سونے کے انبار تھے۔
۲۔ باغات کی بہتات تھی۔
۳۔ بیسوں محلات تھے۔
۴۔ سونا اگلتی زمینیں تھیں ۔
۵۔ ہزاروں خدام اور لونڈیاں تھیں۔
۶۔ لاکھوں پر مشتمل فوج تھی۔
۷۔ مختصر یہ کہ جو کچھ مصر میں تھا۔ وہ سب اس کا تھا۔
۸۔ وہ ہر جاندار اور بے جان چیز کا اپنے آپ کو مالک سمجھتا تھا۔
آمنت آمنت کہتا رہ گیا:
لیکن یہ سب کچھ اس کے کسی کام نہ آیا اور وہ اپنے مظلوموں اور محکوموں کی نظروں کے سامنے دریا کی بے رحم موجوں میں غرق ہو گیا۔ وہ ” آمنت آمنت ” ( میں ایمان لے آیا میں ایمان لے آیا ) کہتا ہی رہ گیا۔ لیکن یہ چیخ و پکار اس کے کسی کام نہ آئی۔
کل کے محکوم آج کے حاکم :
اس نے جو کچھ اپنے پیچھے چھوڑا۔ اس سب کا وارث اور مالک بنی اسرائیل کو بنا دیا گیا۔ کل کے محکوم آج کے حاکم اور کل کے مملوک آج کے مالک بن گئے۔
سورت کا اختتام:
سورت کے اختتام پر:
۱۔ ان ہولناک عذابوں کا ذکر ہے۔ جن کا سامنا اللہ کے نافرمانوں کو کرنا پڑے گا۔
۲۔ اور چھوٹی سی عقل میں نہ کا سکنے والی ان نعمتوں کا ذکر ہے۔ جن سے اللہ کے نیک بندوں کو نوازا جائے گا۔