سورة الجاثیه ترتیبی نمبر 45 اور نزولی نمبر 65۔
مکی سورت : سورہ جاثیہ مکی ہے۔
آیات : اس میں ۳۷ آیات اور ۴ رکوع ہیں۔
وجه تسمیه:
آیت نمبر ۲۸ میں ہے: (وَتَرَى كُلَّ أُمَّةٍ جَاثِيَةٌ )
ترجمہ: اور تم ہر ایک فرقے کو دیکھو گے کہ گھٹنوں کے بل بیٹھا ہو گا۔
جاثیہ کا معنی ہے ” گھٹنوں کے بل بیٹھنا” چونکہ قیامت کے دن لوگ خوف اور ہیبت کی وجہ سے دربار الہی میں گھٹنوں کے بل بیٹھے ہوں گے اور اس سورت میں اس خوفناک منظر کا بیان ہے۔ اس لیے اسے سورہ جاثیہ کہا جاتا ہے۔
آغاز حروف مقطعات سے:
یہ بات تو اب قارئین کرام جان ہی چکے ہوں گے کہ جن سورتوں کا آغاز حروف مقطعات سے ہوتا ہے۔ ان میں سے اکثر سورتوں کی ابتداء ہمارے آقا ﷺ کے سب سے بڑے معجزہ قرآن عظیم کے ذکر سے ہوتی ہے۔ سورہ جاثیہ میں بھی ایسے ہی ہوا ہے۔
قرآن کریم کی عظمت کا تذکرہ کرنے کے یہ سورت تکوینی نشانیوں کو بیان کرتی ہے۔ جن میں سے ہر ایک اللہ کی عظمت و جلال اور قدرت و وحدانیت کی زندہ گواہ ہے۔
مجرموں کے مکروہ چہرے:
پھر ان مجرموں کے مکروہ چہرے سامنے لاتی ہے۔ جو آیات الہیہ سننے کے باوجود انگار و استکبار کی راہ نہیں چھوڑتے اور یوں بن جاتے ہیں۔ گویا انہوں نے کچھ سنا ہی نہیں۔
نعمتوں کے بدلے بنی اسرائیل کی سرکشی:
۱۔ علاوہ ازیں یہ سورت ان نعمتوں کا بھی تذکرہ کرتی ہے۔ جو اللہ نے بنی اسرائیل کو
۱۔ کتاب ۲۔ حکمت ۳۔ نبوت ۴۔ پاکیزہ روزی ۵۔ اور اہل جہاں پر فضیات اور عزت کی صورت میں عطا کی تھیں۔
۲۔ چاہیے تو یہ تھا کہ ان نعمتوں سے سرفراز ہونے کے بعد وہ عجز واطاعت کا راستہ اختیار کرتے لیکن ہوا یہ کہ وہ بتدریج سرکشی اور معصیت کی راہ پر چل نکلے۔
دنیا ہی کی زندگی:
ماضی کے یہ واقعات کفار مکہ بلکہ ہر زمانے کے کفار کو سمجھانے کے لیے بیان کیے جاتے ہیں۔
کفار حضور اکرم ﷺ کے زمانے کے ہوں یا موجودہ زمانے کے۔ ان کے کفر و انکار کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ دنیا ہی کی زندگی کو سب کچھ سجھتے ہیں۔
جب که قرآن بار بار اس دن پر ایمان لانے کی تاکید کرتا ہے۔ جس دن نیک اور بد ہر کسی کو اس کے اعمال کا بدلہ مل کر رہے گا۔
قرآن کا انداز:
۱۔ کہیں حاکمانہ ہوتا ہے۔
۲۔ اور کہیں ناصحانہ ہوتا ہے۔
۳۔ کہیں خیبر کا اسلوب ہوتا ہے۔
۴۔ اور کہیں انشاء کا۔
۵۔ کہیں سوال و جواب ہوتا ہے۔
۶۔ اور کہیں یوں منظر کشی کی جاتی ہے۔
گویا قرآن پڑھنے والا اس دنیا میں قیامت کے واقعات کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے۔
سورت کے آخر میں قیامت کی منظر کشی:
اس سورت کے آخر میں بھی منظر کشی والا انداز اختیار کیا گیا ہے۔ یوں محسوتی ہوتا ہے:
۱۔ قیامت قائم ہو چکی ہے۔
۲۔ حشر کا میدان ہے۔
۳۔ لوگ خوف کے مارے گھٹنوں کے بل گرے ہوئے ہیں۔
۴۔ اللہ جل شانہ بندوں سے مخاطب ہے۔ کہا جارہا ہے۔
* کہ تم نے قیامت کو بھلا دیا تھا آج تمہیں بھلا دیا گیا ہے۔
* تم آیات الہیہ کا مذاق اڑایا کرتے تھے۔ آج تم خود مزاق بن کر رہ گئے ہو۔