Surat Al Sheba ka Khulasa | سورۃ سبأ کا اردو میں مختصر | Khulasa e Quran

سورہ سبا ترتیبی نمبر 34 نزولی نمبر 58

مکی سورت: سورہ سبا مکی ہے۔
آیات: اس میں 54 آیات اور6 رکوع ہیں ۔

Tafseer-e-Surah As-Sajdah | سورت السجدہ ترتیب نمبر32 نزول نمبر 75 | kholas e Quran

Quran Surah 42 ﴾الشورى﴿ Ash-Shura Urdu |Khulasa e Quran |سورة الشعراء ترتیبی نمبر 26 نزولی نمبر 4

وجہ تسمیہ:

اس سورت میں ایک اہم قصہ اہل سبا کا بیان ہوا ہے۔ اس وجہ سے اس سورت کا نام سورہ سبا رکھ دیا گیا۔

 Surat Al Sheba ka Khulasa | سورۃ سبأ کا اردو میں مختصر | Khulasa e Quran
Surat Al Sheba ka Khulasa | سورۃ سبأ کا اردو میں مختصر | Khulasa e Quran

خصوصیت:

سورہ سبا ان پانچ سورتوں میں سے ایک ہے۔ جو الحمد للہ سے شروع ہوتی ہیں۔

اللہ کی حمد وثنا :

اس سورت کی ابتداء اللہ عز وجل کی حمد و ثنا سے ہوتی ہے۔
۱۔ وہ اللہ جس نے ساری مخلوق کو پیدا کیا۔
۲۔ کائنات کے لیے مستحکم نظام قائم کیا۔
۳۔ نظام عالم کی تدبیر کی۔
۴۔ اسے ہر چیز کی خبر ہے۔
۵۔ اور اس کا کوئی عمل بھی حکمت سے خالی نہیں ۔

دوسری زندگی کا انکار:

اس کے بعد مشرکین کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ حساب و جزاء اور مرنے کے بعد کی زندگی کا انکار کرتے ہیں۔
اللہ نے اپنے نبی ﷺ کو حکم دیا ہے:
“کہ آپ اپنے رب کی قسم کھا کر کہیں کہ قیامت آ کر رہے گی ۔ نیکوکاروں کو جزا اور بدکاروں کو سزا ضرور ملے گی۔”

اس کے علاوہ جو اہم مضامین سورۃ سبا میں مذکور ہیں۔ وہ درج ذیل ہیں:

1۔ شاکر اور کافر کا تقابل:

حضرت داؤدو حضرت سلیمان علیہ السلام اور اہل سبا پر اللہ تعالی نے اپنی نعمتوں کا تذکرہ فرما کر گویا شاکر اور کافر کا تقابل اور موازنہ کیا ہے۔ اول الذکر دونوں اللہ کے نبی اور
شاکر بندے تھے۔

حضرت داؤد:

حضرت داؤد علیہ السلام کو اللہ تعالی نے:
۱۔ حد اعجاز تک پہنچا ہوا صوتی جمال عطا فرمایا تھا۔
۲۔ وہ جب اللہ کی تسبیح کرتے تھے تو پہاڑ اور پرندے بھی ان کے ہم نوا بن جاتے تھے۔
۳۔ وہ جب زبور پڑھتے تو جو جانور ان کی قرات سنتا تھا۔ اس پر گر یہ طاری ہو جا تا اللہ نے ان کے لیے لوہا نرم کر دیا تھا۔ ۴۔ وہ اسے جس طرف چاہتے موڑ لیتے اورجو کچھ چاہتے اس سے بنا لیتے۔
۴۔ انہوں نے کارخانہ بنا رکھا تھا۔ جس میں لوہے کی مضبوط زرہیں بنتی تھیں۔
اسے دنیا کی پہلی اسٹیل مل‘ بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔

حضرت سلیمان :

جیسے اللہ تعالی نے حضرت داؤد علیہ السلام پر خصوصی انعامات کیے تھے ۔ یونہی حضرت سلیمان علیہ السلام کو بھی خوب نوازا تھا۔
۱۔ انہیں اللہ نے پرندوں کی بولی سکھائی تھی۔
۲۔ ان کے لیے تانبا بہتے ہوئے چشمے کی شکل اختیار کر جاتا۔ اس سے جو چاہتے بسہولت بنا لیتے۔
۳۔ جنات ان کے تابع تھے۔ ان سے آپ تعمیرات اور حمل ونقل کے مشکل ترین کام لیتے تھے۔
۴۔ ان کے لیے ہوا کومسخر کر دیا گیا تھا۔
۵۔ آج کل جیسے ہوائی جہاز ہوتے ہیں۔ یونہی آپ کا ہوائی تخت تھا جو دو ماہ کی مسافت دن کے تھوڑے سے حصے میں طے کر لیتا تھا۔

محیر العقول نعمتیں:

اللہ تعالی کی ان محیر العقول نعتوں کے باوجود دونوں باپ بنا فخر و غرور کا شکار نہ ہوئے اور ذکر و شکر سے ایک لفظ کے لیے بھی غافل نہ ہوئے ۔
جب کہ عمومی صورت انسان کی ہی رہی ہے کہ اللہ تعالی کے بندوں میں سے اگر کرنے والے بہت تھوڑے ہوتے ہیں۔

اہل سبا کا قصہ:

دوسرا قصہ جو یہاں بیان ہوا ہے۔ وہ اہل سبا کا ہے۔ پہلا قصہ اگر اہل شکر و ایمان کے لیے روشن مینار تھا۔
تو دوسرا قصہ اہل کفر وطغیان کی تاریک جھلک ہے۔

اہل سبا پر نعمتوں کی فراوانی :

۱۔ اہل سبا کو رزق کی فراوانی ۔
۲۔ صحت افزا آب و ہوا۔
۳۔ زرخیز زمین۔
۴۔ اور پھل دار باغات جیسی نعمتیں عطا کی گئی تھیں۔
۵۔ طویل مسافت تک دور و یہ باغات چلے جاتے تھے ۔
۶۔ نہ گرمی اور دھوپ ستاتی۔
۷۔ اور نہ ہی بھوک پریشان کرتی۔
۸۔ پانی ذخیرہ کرنے کے لیے ایک ڈیم بھی تھا۔ جسے “سد مآرب” کے نام سے یاد کیا جا تا ہے۔

نعمتوں کی ناشکری:

لیکن انہوں نے ان نعمتوں کا شکر ادا نہ کیا۔ بلکہ ناشکری پر اتر آئے۔ پھر وہی ہوا جو نا شکری قوم کے ساتھ ہوتا ہے۔

اللہ کا عذاب:

بند ٹوٹ کر عذاب کی صورت اختیار کر گیا اور اس کے پانی نے تباہی مچادی۔ باغات اور بستیاں خس و خاشاک بن کر بہ گئیں۔
جہاں پھل اور پھول تھے۔ وہاں جھاڑ جھنکار کے سوا کچھ بھی نہ بچا اور اہل سبا کا ذکر صرف داستانوں میں رہ گیا۔

2۔ عقلی اور نقلی دلائل سے تردید اور توہین :

اس سورت میں مسلسل مشرکین کے عقائد ونظریات کی عقلی اور نقلی دلائل سے تردید اور توہین ہے۔
۱۔ کبھی ان سے کہا گیا کہ بلاؤ ان کو جنہیں تم اللہ کے سوا حاجت روا اور مشکل کشا سمجھتے ہو۔ دیکھتے ہیں کہ وہ تمہیں کیا فائدہ پہنچاتے ہیں۔
۲۔ کبھی تلقین کے اسلوب میں ان سے سوال کرنے کا حکم دیا گیا۔
۱۔ کہ بتاؤ تمہیں آ سانوں اور زمین سے کون رزق دیتا ہے؟
کبھی یہ سوال کیا گیا کہ جنہیں تم اللہ کے ساتھ عبادت میں شریک سمجھتے ہو۔ ذرا انہیں سامنے تو لاؤ تا کہ میں دیکھوں کہ ان کے اندر کون سی ایسی صفت پائی جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے وہ عبادت کے مستحق بن گئے ہیں۔

کفر کی بنیادی وجہ :

آگے چل کر سورہ سبا میں کفار اور مشرکین کی سرکشی اور کمر کی بنیادی وجہ ثروت و غنا کو بتایا ہے۔ انہیں اس پر اتنا ناز تھا کہ ان کا خیال تھا کہ ہمارے جیسے اصحاب مال و
اولا د کو نہ دنیا میں عذاب ہوسکتا ہے نہ آخرت میں عذاب ہوگا۔

قرآن کے الفاظ میں:

وہ کہتے تھے ہم اموال اور اولاد کے اعتبار سے تم سے زیادہ ہیں اور ہمیں عذاب نہیں دیا جاۓ گا۔

آخرت کو دنیا پر قیاس:

وہ آخرت کے معاملے کو بھی دنیا پر قیاس کرتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ جیسے اللہ تعالی نے انہیں دنیا کی وسعت اور خوشحالی عطا فرمائی ہے۔ یہی معاملہ ان کے ساتھ آخرت میں بھی کیا جاۓ گا۔

قرآن کا جواب:

انہیں جواب دیا گیا:
فرمادیجیے! کہ میرا رب جس کے لیے چا ہے۔ روزی کشادہ کر دیتا اور تنگ بھی کر دیتا ہے۔ اکثر لوگ نہیں جانتے۔

ثروت وغنا پر فخر وغرور:

ثروت وغنا پر فخر وغرور ہی انہیں رسول اکرم ﷺ کے استہزاء اور تحقیر پر آمادہ کرتا تھا۔ اور وہ آپ (ﷺ) کو مجنون اور دیوانہ کہنے سے باز نہیں آتے تھے۔ اس لیے اللہ نے فرمایا:
آپ (ﷺ) ان سے فرما دیجیے! میں تمہیں ایک بات کی نصیحت کرتا ہوں تم اللہ کے لیے دو دو اور اکیلے اکیلے مستعد ہو جاؤ۔ پھر غوروفکر کرو۔ ( تم یقینا اس نتیجے پر پہنچو گے کہ) تمہارے ساتھی (یعنی حضور اکرم ﷺ )کو کوئی جنون نہیں۔ وہ تم کو سخت عذاب کے آنے سے پہلے صرف ڈرانے والے ہیں۔

چاہت کے درمیان پرده:

آخری آیت میں بتایا گیا کہ وہ آخرت میں ایمان قبول کرنا چاہیں گے لیکن ان کی چاہت اور ان کے درمیان پردہ حائل کر دیا جاۓ گا۔ چنانچہ وہ ایمان سے محروم ہی رہیں گے۔

Related searches
سورہ سبا کی تفسیر1>
سورہ سبا اردو ترجمہ2>
سورہ سبا کی فضیلت3>
سبا کا معنی4>
سورۃ سبا5>
سورہ فاطر اردو ترجمہ6>
پارہ نمبر 30 ترجمہ7>
سورہ احزاب اردو ترجمہ8>

Leave a Comment