سوره یٰسین ترتیبی نمبر 36 نزولی نمبر 41
مکی سورت : سورہ یٰسین مکی ہے۔
آیات: اس میں 83 آیات اور5 رکوع ہیں۔
وجہ تسمیہ:
اللہ جل شانہ نے حضور ﷺ کو یٰسین کہہ کر مخاطب فرمایاہے۔ جیسے طٰہٰ ہے ۔ یہ دونوں اسمائے گرامی ہیں ہمارے آقا ﷺ کے۔ اس مناسبت سے سورۂ یٰسین کہا جا تا ہے۔
جان کنی کی آسانی:
ہمارے مسلمان بھائی اس سورت کو جان کنی کی آسانی کے لیے تو پڑھتے ہیں۔ لیکن اس پر عمل کرنے والے کم ہیں۔
جبکہ اصل فضیلت و ثواب اور اللہ کا قرب اس کے مشمولات پر عمل کرنے ہی سے حاصل ہوسکتا ہے۔
رسالت کی سچائی پر قرآن کی قسم :
اس سورت کی ابتداء میں ہمارے آقا ﷺ کی رسالت کی سچائی پر قرآن کی قسم کھائی ہے۔
کفار قریش کا کفر وضلال:
پھر ان کفار قریش کا تذکرہ ہے۔ جو کفر و ضلال میں بہت آگے نکل گئے تھے۔ جس کی وجہ سے وہ اللہ کے عذاب کے مستحق ہوگئے۔
تین انبیاء:
اس کے بعد اس بستی والوں کا ذکر ہے۔ جنہوں نے یکے بعد دیگرے تین انبیاء علیہ السلام کو جھٹلایا ۔
ایک حق پرست ناصح :
اور جب انہی میں سے ایک حق پرست ناصح انہیں سمجھانے لگا تو انہوں نے اسے شہید کر دیا۔
ناصح کی گفتگو:
اس ناصح کی گفتگو کا کچھ حصہ پارہ 23 کی ابتداء میں ہے۔ جس کا خلاصہ انشاء اللہ وہیں پیش کیا جاۓ گا۔
پارہ نمبر 23
بائیسویں پارہ کے آخر میں ان انبیاء کا تذکرہ ہو چکا ہے۔ جنہیں اللہ نے ایک بستی والوں کی ہدایت کے لیے بھیجا تھا۔ مگر وہ ہدایت کی راہ پر چلنے پر آمادہ نہ ہوئے۔
حبیب النجار:
جب بستی والوں نے تینوں انبیاء کو جھٹلایا تو بستی والوں میں سے ایک شخص جس کا نام مفسرین نے ” حبیب النجار” لکھا ہے۔ وہ دوڑتا ہوا آیا تا کہ انبیاء کو ضرر پہنچانے کی صورت میں اپنی قوم کو اللہ کے عذاب سے ڈراۓ اور انہیں انبیاء کی اتباع کی تلقین کرے۔
جب اس نے انہیں سمجھایا اور سب کے سامنے اپنے ایمان کا اعلان کر دیا تو وہ سب اس پر پل پڑے اور انہوں نے اسے شہید کر دیا۔
کاش! میری قوم جان لیتی :
شہادت کے بعد اسے جنت میں داخل ہونے کا شرف ملا۔ جب اس نے اپنی آنکھوں سے اللہ کی ان نعمتوں کا مشاہدہ کرلیا جو اللہ نے اہل ایمان کے لیے تیار کی ہیں تو بے ساختہ اس کی زبان سے نکلا ۔
اے کاش! میری قوم جان لیتی۔ جو میرے رب نے میری مغفرت کر دی ہے اور مجھے اہل کرامت و سعادت میں سے ٹھہرایا ہے۔
اپنی قوم کا خیر خواہ :
حضرت ابن عباس کا فرماتے ہیں کہ:
وہ مومن شخص زندگی میں بھی اپنی قوم کا خیر خواہ رہا اور مرنے کے بعد بھی۔
اللہ کا بندوں پر افسوس
اس کے بعد اللہ تعالی بندوں پر افسوس کا اظہار فرماتے ہیں: کہ ان کے پاس جو بھی رسول آتا ہے اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔
مذکورہ بالا امور کے علاوہ سورہ یٰسین کے اہم مضامین درج ذیل ہیں:
1۔ تکوینی دلائل:
اللہ تعالی کے وجود توحید اور قدرت کے عمومی دلائل جو قرآن میں بار بار مذکور ہوئے ہیں ۔ ان میں سے تین قسم کے دلائل یہاں ذکر کیے گئے ہیں۔ مردو زمین جسے بارش سے زندہ کر دیا جاتا ہے لیل و نہار اورشمس وقمر کشتیاں اور جہاز جو سمندر میں چلتے ہیں۔
ایک حقیقت کا اعلان :
ان دلائل کے ضمن میں سورہ یسین ایک ایسی حقیقت کا اعلان کرتی ہے۔ جس سے نزول قرآن کے زمانے کے بڑے بڑے اہل علم بھی نا واقف تھے۔
آیت ۳۶ میں ارشاد ہوتا ہے:
وہ اللہ پاک ہے۔ جس نے زمین کی نباتات کے اور خود ان کے اور جن چیزوں کی ان کو خبر نہیں۔ سب کے جوڑے بناۓ۔
زوجیت کے متعلق قدیم زمانے کے انسانوں کا خیال:
قدیم زمانے کے انسانوں کا خیال اور تحقیق یہ تھی کہ جوڑا جوڑ ا صرف انسان اورحیوان ہی ہوتے ہیں۔
زوجیت کے متعلق موجودہ دور کے سائنس دانوں کی تحقیق :
جب کہ موجودہ دور کے سائنس دانوں نے طویل تحقیق اور مغز ماری کے بعد ثابت کیا ہے کہ زوجیت ( جوڑا جوڑا) نہ صرف انسانوں بلکہ نباتات جمادات اور تمام کا ئنات میں پائی جاتی ہے۔
یہاں تک کہ ایٹم جو کہ مادہ کے اجزاء میں سے سب سے چھوٹا جڑ ہے۔ وہ بھی دو مختلف اجزاء یعنی الیکٹران اور پروٹان سے مرکب ہوتا ہے اور یہ دونوں جزء نر اور مادہ
کے مشابہ ہیں۔
صدیوں پہلے علمی اور سائنسی تحقیق
سورۃ یٰسین کے علاوہ سورہ ذاریات میں بھی اس علمی اور سائنسی تحقیق کی صدیوں پہلے نشاندہی کر دی گئی تھی۔ وہاں فرمایا گیا:
اور ہر چیز کو ہم نے جوڑا جوڑا بنایا ہے تا کہ تم نصیحت حاصل کرو۔
اس کے بعد سورۂ یٰسین قیامت کی ہولنا کیوں اور صور پھونکے جانے کا تذکرہ کرتی ہے۔
۱۔ جس وقت پہلی بار صور پھونکا جائے گا۔ لوگ اپنے معمولات کی ادائیگی اور خرید وفروخت میں مشغول ہوں گے۔ صور اسرافیل کی آواز سن کر ان پر خوف اور گھبراہٹ کی کیفیت طاری ہو جائے گی۔
اسے نفخہ فزع بھی کہا جاتا ہے۔
۲۔ دوسری بار کے صور سے حی و قیوم کے سوا سب کو موت آ جائے گی اور کوئی ذی روح زندہ نہیں رہے گا۔
۳۔ تیسری بار جب صور پھونکا جائے گا تو سب قبروں سے جی اٹھیں گے اور حاکم حقیقی کے سامنے پیش ہو جا ئیں گے۔
مؤمنین متقین:
وہاں کسی پر ظلم نہیں ہوگا۔ مؤمنین شقین کو جنت اور جنت کی نعمتوں سے نوازا جاۓ گا۔
مجرم:
جبکہ محرم جو کہ دنیا میں صلحاء کے ساتھ ملے جلے رہے تھے۔ انہیں الگ کر دیا جاۓ گا۔
اعضاء ان کے خلاف:
پھر ان کے مونہوں پر مہر لگا دی جاۓ گی اور ان کے اعضاء ان کے خلاف گواہی دیں گے۔
کن فیکون :
چونکہ اس سورت میں زیادہ تر بحث بعث بعد الموت کے حوالے سے ہے۔ اس لیے اس کا اختتام بھی اس پر ہورہا ہے ۔ فرمایا گیا:
کیا وہ ذات جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا۔ وہ اس پر قادر نہیں کہ ان جیسے پیدا کر دے؟ کیوں نہیں۔ وہی ہے جو خوب پیدا کرنے اور علم رکھنے والا ہے۔ اس کی شان یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اس سے فرما دیتا ہے کہ ہوجا! تو وہ ہو جاتی ہے۔