سورہ فاطرترتیبی نمبر35 نزولی نمبر 43
مکی سورت: سورۂ فاطر مکی ہے۔
آیات: اس میں 45 آیات اور5 رکوع ہیں۔
جہ تسمیہ
لفظ فاطر پہلی آیت میں ہے جس کا معنی ہے پیدا کرنے والا۔ فاطر السموت والارض آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا۔ پس اللہ پاک کی اسی صفت کی وجہ سے سورۃ کا نام بھی فاطر ہے۔
خصوصیت:
الحمد للہ سے شروع ہونے والی یہ پانچو میں سورت ہے۔
اس سورت میں:
۱۔ توحید باری تعالی کی دعوت
۲۔ اس کے وجود پر دلائل
۳۔ شرک کی بنیادوں کا انہدام
۴۔ اور دین حق پر قائم رہنے کی تاکید ہے۔
سورت کی ابتداء میں:
اس سورت کی ابتداء میں اس خالق اور مبدء ہستی کا ذکر خیر ہے۔
۱۔ جس نے عالم کون و مکان کو
۲۔ انسانوں
۳۔ فرشتوں
۴۔ اور جنات کو پیدا کیا۔
انسانی نظروں کو ان تکوینی آیات کی طرف متوجہ کیا گیا ہے۔ جو اس کتاب جہان کے ہر ورق پر پھیلی ہوئی ہیں۔
مرنے کے بعد کی زندگی پرحسی دلائل:
مرنے کے بعد کی زندگی پر ایسے حسی اور بدیہی دلائل ذکر کیے ہیں جو ہر شہری اور دیہاتی کی سمجھ میں آ سکتے ہیں۔ بتایا گیا کہ:
۱۔ وہ اللہ بارش سے مردہ زمین کو زندہ کرتا ہے۔
۲۔ شب و روز کو یکے بعد دیگرے لاتا ہے۔
۳۔ جوانسان کو تخلیق کے مختلف مراحل سے گزارتا ہے۔
۴۔ وہ مردہ انسانوں کو بھی دوبارہ زندہ کرسکتا ہے۔
یہ سورت ایمان اور ہدایت کفر اور ضلالت کے درمیان بھی حسی مثالوں کے
ایمان اور کفر کے درمیان حسی مثالوں سے فرق:
یہ سورت ایمان اور ہدایت کفر اور ضلالت کے درمیان بھی حسی مثالوں کے ذریعے فرق کرتی ہے ۔ یہ سورت بتاتی ہے:
۱۔ کہ جیسے بینا اور نا بینا
۲۔ زندہ اور مردہ
۳۔ ظلمت اور نور
۴۔ دھوپ اور چھاؤں مساوی نہیں ہو سکتے۔
یونہی مومن اور کافر بھی برابر نہیں ہو سکتے۔
قدرت کی بے شمار نشانیاں :
اس کے بعد دوبارہ وحدانیت اور قدرت کے دلائل سے یہ سورت بحث کرتی ہے۔
۱۔ رنگا رنگ اور متنوع پھولوں
۲۔ سفید سرخ اور سیاہ پہاڑوں
۳۔ مختلف رنگوں زبانوں اور مزاجوں والے انسانوں
۴۔ اور ہزاروں قسم کے پرندوں مچھلیوں حشرات اور چو پاؤں میں اس کی قدرت کی بے شمار نشانیاں ہیں۔
خشیت اور خوف رکھنے والا :
لیکن ان نشانیوں کو دیکھ کر صرف انہی کے دل میں خشیت پیدا ہوتی ہے۔
۱۔ جو علم رکھتے ہیں۔
۲۔ جو گہرائی میں جا کر سوچ سکتے ہیں۔
۳۔ اور جو حقائق پر پڑے ہوئے پردے اٹھا سکتے ہیں۔
کیونکہ جس کے دل میں جتنی معرفت ہوگی۔ اتنی ہی خشیت اور عظمت ہوگی۔ اس لیے ہمارے آقا ﷺ کے دل میں سارے انسانوں سے زیادہ خشیت تھی۔
آقا کا فرمان :
جیسا کہ آپ ﷺ نے خودفرمایا:
اللہ کی قسم! میں تم سب سے زیادہ دل میں اللہ کی خشیت اور خوف رکھنے والا ہوں۔
دین اور کائناتی علم رکھنے والے علماء:
اہل علم کہتے ہیں:
کہ اس آیت کریمہ میں علماء سے مراد صرف دین اور شریعت کے علماء نہیں ہیں ۔ بلکہ کائناتی علم رکھنے والے علماء بھی شامل ہیں۔
یعنی طب فلکیات نباتات فضا اور ارضیات کا علم رکھنے والے بھی اس میں آ جاتے ہیں۔ کیونکہ وہ بھی جب صحیح نہج پر کائنات کے اسرار پر نظر ڈالتے ہیں تو یہ نظر انہیں اللہ تعالی کی وحدانیت اور قدرت کے اعتراف پر مجبور کر دیتی ہے اور یہی اعتراف آخر میں اللہ تعالی کی خشیت اور عظمت پیدا کر نے کا سبب بنتا ہے۔
کتاب منظور سے کتاب مسطور:
پھر سورت کا رخ:
۱۔ کتاب منظور ( دکھائی دینے والی کتاب کائنات ) سے
۲۔ کتاب مسطور ( لکھی ہوئی کتاب یعنی قرآن ) کی طرف منتقل ہو جاتا ہے۔ ان لوگوں کی تعریف کی گئی ہے۔ جو کتاب اللہ کی تلاوت کرتے ہیں۔
امت محمدیہ کی فضیلت:
ان کی تعریف کے بعد عمومی طور پر امت محمدیہ کی فضیلت بیان فرمائی ہے۔ جس پر اللہ نے یہ کتاب مجید نازل فرمائی۔
لیکن نزول قرآن کے بعد یہ امت تین گروہوں میں تقسیم ہوگئی:
۱۔ ظالم :
یہ وہ گناہ گار مسلمان ہیں۔ جن کے گناہ ان کی نیکیوں سے زیادہ ہیں۔
۲۔ مقتصد:
یعنی میانہ رو جن کی حسنات اور سیئات مساوی ہیں۔
۳۔ سابق:
یعنی وہ سچے مومن جو طاعت و عبادت میں دوسروں سے سبقت لے گئے۔
تینوں کا آخری اور دائی ٹھکانہ :
لیکن ان تینوں کا آخری اور دائی ٹھکانہ بہر حال جنت ہی ہے۔
کوئی براہ راست جنت میں جاۓ گا اور کوئی اپنے گناہوں کا خمیازہ بھگتنے کے بعد جاۓ گا۔
اللہ کاحلم :
سورت کے اختتام پر اللہ کے علم اور بردباری کا ذکر ہے کہ وہ گناہوں پر نقد اور فوری سزا نہیں دیتا۔
اگر ایسا ہوتا تو زمین پر انسان تو انسان کوئی حیوان اور چرند پرند بھی زندہ نہ رہ سکتا۔ اس نے جزا سزا کے لیے ایک وقت معین کر رکھا ہے۔ وہ وقت جب آ جاۓ گا تو پھر کامل نظام عدل حرکت میں آ جاۓ گا۔