قطر کی حکومت نے فٹ بال ٹورنامنٹ کے حوالے سے ایک ایسا فیصلہ کیا ہے کہ جس کے متعلق میں کچھ عرصے سے کہتا رہا ۔
کھیلوں و ٹورنامینٹ کے گرد ایک بہت بڑی تعداد میں انسانوں کا جم غفیر ہوتا ہے ۔
لیکن اس ٹورنامنٹ کو مختلف لوگ دیکھتے ہیں بعض لوگ ٹیلیویژن پر دیکھتے ہیں ۔
اور کچھ لوگ اس میدان میں بیٹھ کر کھیل دیکھتے ہیں ایسے لوگ ہزاروں لاکھوں کی ٹکٹ خرید کر وہاں پر کھیل دیکھنے کے لیے حاتے ہیں
پھر ایسے لوگوں کو وہاں پر عیش و عشرت کا سامان مہیا کیا جاتا ہے مثلا شراب خانے ان کے لیے کھولے جاتے ہیں اور ان کے لیے وہاں پر عورتوں کے جسم فروشی کا کاروبار بھی کھولا جاتا ہے۔
سب سے پہلے خو خواہ 2006 کے ورلڈ کپ فیفا میں مچی تھی اور یہ ورلڈ کپ جرمنی میں ہوا تھا اور جرمنی کے اس ورلڈ کپ کے بارے میں یہ کہا گیا تھاکہ اس ورلڈ کپ میں 40 ہزار کمسن بچیاں مختلف ممالک سے برطانیہ ، روس ، وغیرہ سے وہاں پر لائی گئی تھیں اور جرمنی کے جو فحش اڈے تھے وہاں پر ان کو رہنے کے لئے کہا گیا ۔
جرمنی کا ایک مشہور کالون شہر ہے جس میں 12 منزلہ عمارت جس کا نام پہسچہ رکھا گیا ۔
اور اس 12 منزلہ عمارت میں 120 کے قریب کمسن بچیوں کو وہاں پر رکھا گیا اور 30 کے قریب کمرے بنائے گئے ان لوگوں کے لئے جو وہاں فٹبال میچ دیکھنے کے لیے گئے تھے۔
اور ہر روز ایک ہزارگاہکوں سے سے پیسے لے کر ان کو عورتوں کے جسم سے خواہشات پوری کرنے کی اجازت دی جاتی تھی ۔
یہ جب شور مچا کہ یہ کیا ہو رہا ہے تو اس وقت آوازوں کو دبایا گیا لیکن صحیح سنجیدہ آدمیوں نے اس پر کام کرنا شروع کیا ۔
اور اب اندازہ کریں کہ امریکہ میں ایک نمبر اسکا نام کی یونیورسٹی ہے اس کے اندر ایک باقاعدہ کانفرنس ہوئی اور اس کانفرنس میں مختلف آرٹیکلز پیش کئے گئے تھے کی اس وقت پوری دنیا کے اندر جہاں پر بھی بڑے بڑے میچز ہوتے ہیں، ٹورنامنٹ ہوتے ہیں ان کے اردگرد ایک بازار سجایا جاتا ہے۔اس کے متعلق کانفرنس میں بہت کچھ کہا گیا ۔
لیکن میرے سامنے اینی میری ڈیوالہ اس کی ایک بہت بڑی اسٹڈی موجود ہے ۔
اس نے کہا کہ لوگوں کو یہاں پر دین کے لئے نہیں بلایا گیا ، یورپ کے اندر ہر سال تین لاکھ مختلف ملکوں سے کمسن عورتیں منگوائی جاتی ہیں اور ان عورتوں کو یورپ کے بڑے بڑے شہروں میں جسم فروشی دھندے کیلئے بٹھایا جاتا ہے ۔
اور باقاعدہ ان کو کوہاٹ کیا جاتا ہے اور بڑی بڑی سیکورٹی دی جاتی ہے ۔
وہ کہتے ہیں کہ جرمنی ان پانچ بڑے ملکوں میں سے ایک ملک ہے کہ جس میں ایسی عورتوں کو مختلف جگہوں سے بلایا جاتا ہے صرف ان کی جسم فروشی کے معاملات سے 13 ارب ڈالر کی انڈسٹری سے ایک ملک بستہ ہے اور ایسی عورتوں کے بارے میں عام طور پر دنیا میں ان کو یہ کہا جاتا ہے کہ یہ ایپ سیکس ورکر ہیں اور پھر ایپ سیکس ورکر کے بارے میں دنیا بھر نے اپنے قانون بنا لیے ہیں ۔
۔ (فرانس کا ایک قانون )
وہ قانون یہ ہے کہ آپ ایک عورت کی کمائی نہیں کھا سکتے کیونکہ وہ اپنا جسم بیچتی ہے، ہاں وہ خود اپنی کمائی کھا سکتی ۔
مذکورہ صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے 2022 میں قطر نے میزبانی کی ہے ۔
۔ ۔ (قطر کا تعارف)
قطر اتنا بڑا ملک نہیں ہے قطر کے پاس اتنی بڑی فوج نہیں ہے کہ وہ دشمن سے اپنا دفاع کر سکے،قطر کی معیشت بھی اتنی بڑی خاص نہیں ہے۔
لیکن اس کے باوجود بھی آپ اندازہ لگائیں کہ قطر نے سب سے پہلا سٹیپ 13 اپریل کو لیا اور 13 اپریل کو اس وقت فیفا نے ان کو کہا کہ ایک سٹینڈ جو ہے این جی بی ٹی کے لیے مختص کیاجائے جس کے اوپر ان کے عبداللہ انصاری نے کہا ہم تو کسی طور پر بھی الاؤ نہیں کریں گے پھر اس بات پر ایک مشہور ٹیم نے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا۔
انہوں نے کہا کہ اگر آپ سارے کے سارے بائیکاٹ بھی کریں گے ہم تب بھی جسم فروشی کے کام کو الاو نہیں کریں گے۔
اس کی ایک بنیادی وجہ انہوں نے بتائی جسم فروشی اس ملک میں ہونی چاہیے جہاں پر پسند کیا جاتا ہے قطر کے 100 لوگ فیصد لوگ اس کام سے نفرت کرتے ہیں اس لیے ہم اس کو یہاں پر نہیں الاو کر سکتے اور دوسری وجہ یہ بتلائی کہ اگر آپ یہ کام کریں گے تو اس سے پورے قطر کی عوام کی توہین کریں گے ۔
اور قطر نے واضح طور پر یہ اعلان کیا کہ کسی کو بھی شراب خانے بنانے کی اجازت نہیں اور نہ ہی کھل کر شراب پی سکتے ہیں چنانچہ کچھ لوگ شراب لے کر وہاں پر پہنچے تو سیکورٹی نے ان کو روک لیا اور کہا کہ یہاں پر اجازت نہیں ہے یہاں کے لوگ پسند نہیں کرتے ۔
قطرنے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ آپ جب کسی ملک میں جاتے ہیں میچ کھیلنے کے لئے تو وہاں کی جو ثقافت ہے جو کلچر ہے کیا آپ کو اجازت ہے کہ اس کلچر اور اس ثقافت کے خلاف بات کریں ۔
جن کو وہ ناپسند سمجھتے ہوں تو انہوں نے کہا کہ بالکل ہم ایسے نہیں کر سکتے۔
بلکہ ہمارے کوٹ کے اندر یہ بات ہے کہ آپ جس ملک میں بھی جائیں کسی کھلاڑی کو کسی ملک کی ثقافت کلچر کے خلاف بات کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔
تو لہذا انہوں نے کہا کہ ہمارے کلچر اور ثقافت کے مطابق شراب بھی ناپسندیدہ چیز ہے اور ہمارے لوگ اس کو ناپسند سمجھتے ہیں اور اسی طرح ہمارے کلچر کے مطابق جسم فروشی بھی ناپسند سمجھا جاتا ہے ۔
یہ ایک جھوٹے سے مسلمانوں کے ملک نے یہ بات ثابت کی کے ہم یہ کر سکتے ہیں پوری دنیا میں 57 مسلم ممالک ہیں شرم سے ڈوب مرنا چاہیے کہ وہ اس طرح کا ایک اسٹینڈ نہ لے سکے سوچیئے گا کہ ہم پر سوال کیوں ہے